ٹیکنالوجی اور روحانی سکون کا توازن
عصر حاضر میں پوری دنیا مادی ترقی اور جدیدیت کو اصل کامیابی،آرام و سکون سمجھنے لگی ہیں ،جس ملک و ملت نے دور جدید کی سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں اپنا لوہا منوایا ہو وہ ملک دنیا کی ترقی یافتہ ممالک میں سے،اور اس کے باشندیں ترقی پذیر اقوام میں سے شمار کئے جاتے ہیں،اور ان تمام کوششوں،مادی ترقی اور تگ و دو کا ایک ہی مقصد اور مطمحِ نظر ہے ،اور وہ ہے تھکی ہوئی بے بس انسانیت کو سہارا دینا۔
جہاں لمبی لمبی مسافتیں گھوڑوں،اونٹوں اور دیگر سواریوں کی پشت کی محتاج تھی،جہاں رات کی تاریکی کا موازنہ ٹمٹماتے دیے ،دیپ کی زرد روشنی اور قمقماتے ہوئے چراغ سے کیا جاتا تھا ،جہاں پردیس میں مقیم لوگ ایک دوسرے کی حال احوال جاننے کے لئے ہفتوں اور مہینوں کا انتظار کرتے،جہاں سفر کے تھکے اور راستوں کے مشقتوں کے مارے ہوئے ساربان سکھ کا سانس لینے کی تلاش میں ہوتے،جہاں کسان درانتی لیتا،ہاتھ چلاکر خون پسینہ بہاتا،دن رات ایک کرتا،تب جاکر وہ زمین سے اپنا خراج وصول کرتا۔
زمانہ اور وقت گزرتا گیا،انسان کا سفر جاری رہا،آگے جاکر ایک دن زمین نے انسانوں کے لئے اپنے سر بستہ راز کھول دیئے،اور دکھی تھکی انسانیت کو سہارا مل گیا؛لیکن یہ حقیقت بھی ہمیں معلوم ہونی چاہئے ،کہ یہ سب چیزیں انسان نے اپنی زندگی کی خوشحالی اور آرام وسکون کے لئے ایجاد کی ہیں ،لیکن اب تک انسان کو وہ راحت نہیں ملی جس کی وہ تلاش میں ہے۔
آۓ روز سوشل میڈیا،اخبارات اور دیگر ذرائع ابلاغ کے ذریعہ خودکشیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا نظر آرہا ہے،ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں دو ہزار سترہ کو 1.29،اٹھارہ کو 1.34،انیس کو 1.39،بیس کو1 لاکھ 53ہزار افراد نے خود کشی کی تھی، جبکہ دو ہزار اکیس میں اپنی جان لینے والوں کی تعداد آٹھ لاکھ تک پہنچ گئی تھی؛جن میں سے بیس فیصد کا تعلق صرف انڈیا سے تھا؛خود کشی کا رجحان عورتوں کی بنسبت مردوں میں اور سیاہ فام کے بنسبت سفید فام میں زیادہ پایا جاتا ہے،اس کی ایک وجہ تو یہی ہے کہ ہر انسان آرام،راحت وسکون کا متلاشی ہے،اور موجودہ دور کی سائنسی و مادی ترقی انسان کی صرف جسم کو تو راحت و سکون پہنچا سکتی ہے،لیکن جسم کےاندر موجود روح کو نہیں، وجہ اس کی یہ ہے کہ انسان دو چیزوں کا مرکب ہے :(1)جسم (2)روح، اور دور جدید کی سہولیات اور ترقی سے ظاہری جسم کو تو آرام مل سکتا ہے لیکن روح کو نہیں ،روح کی غذا ہی الگ ہے !
جسم کے اندر روح بے چین ہو تو انسان کبھی سکھ کی زندگی نہیں گزار سکتا،اورمذہب ،عبادت،تقویٰ اور ذکر الٰہی ایسی چیزیں ہیں جو روح کو سکون اور غذا فراہم کرتی ہے،مادی ترقی اور جدیدیت سو گنا مزید کیوں نہ بڑھ جاۓ وہ روح کو کبھی آرام وسکون نہیں دے سکتی؛
قرآن مجید میں الله تبارک وتعالی نے قلبی سکون کا نسخہ ذکر الٰہی کو بتلایا ہے (اَ لَا بِذِکْرِاللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ)(سورۃ الرعد 28)
بلاشبہ ذکر ہی سے دلوں کو اطمینان اور سکون ملتا ہے،اور ذکر سے مراد صرف ذکر لسانی نہیں کہ بندہ صرف زبان سےالله الله کرتا رہے بلکہ تمام معاملات زندگی میں اللہ تعالیٰ کی فرماں برداری کرنا بھی ذکر میں شامل ہے۔
روایات اور احادیثِ مبارکہ میں بھی ذکر کی بہت اہمیت اور فضائل وارد ہوئے ہیں ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار ارشادات سے ذکر کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے،ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ذکر کرنے والے اور ذکر نہ کرنے والے کی مثال زندہ اور مردہ کی سی ہے۔
ایک دوسری روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ: رسول اللہﷺ ہر وقت اللہ تعالیٰ کا ذکر فرماتے تھے۔
اگر ہم ان دونوں (مادی ترقی اور ذکرِ الٰہی )کو ساتھ ساتھ لے کر چلیں تو تب بات بنے گی،حضرت داؤد علیہ السلام کے لئے اللہ تعالی نے لوہے کو موم بنایا تھا؛سائنس اور جدید ٹیکنالوجی کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن اس کے ساتھ ساتھ انسان کو اپنی روح پر بھی محنت کرنی چاہئے کہ کہیں وہ زنگ آلود نہ ہو جائیں۔ اور صرف مادی ترقی کی تلاش میں انسان ایک مادی مخلوق بن کر اپنی اصل شناخت نہ کھودے۔