تبلیغی ٹیکنالوجی
گائے اور بھینس کے بچے آپس میں کھیل رہے تھے۔بچھڑے نے کٹّے سے کہا"آؤ! باہر جاکر کودتے ہیں"۔کٹّے نے کہا" ارے چھوڑو! یہیں بیٹھے بیٹھے ہی جھومتے ہیں"-
ہمارے تبلیغی یاروں کی زندگی کے قطب شمالی وجنوبی کیا ہیں؟
دستر خوان تا بستر خوان۔
جماعت کاروزانہ ٹائم ٹیبل ملاحظہ فرمائیں۔صبح ناشتہ کے بعد دو گھنٹے" استراحت"، دوپہر کھانے سے پہلے ایک گھنٹہ "کمر سیدھی کرنا"،ظہر کے بعد دو گھنٹے" قیلولہ"،اوررات کو تہجد کی "نیت" سے جلدی سونا ۔۔(لیکن خیال رہے کہ کسی کو تہجد کے وقت ڈسٹرب بھی نہیں کرنا بلکہ یہ سوچنا کہ یہ پہلے ہی پڑھ کر سوئے ہیں-ہیں جی)۔
اس سست الوجود جماعت کی پھرتیوں پر آدمی حیران ہوتا ہے۔
ہرسال،لاکھوں آدمیوں کا شہر بسانا اور دنیا میں شاید پہلا ڈسپوزیبل شہر ہے کہ ادھر اجتماع کی دعا ختم ہوئی ،ادھر بسا بسایا شہر غائب۔
کچھوا اور خرگوش کی مثال یاد آتی ہے۔میڈیا کا سہارا لینے والی انقلابی جماعتیں،اتنے آدمی مینار پاکستان پر جمع نہیں کر سکتیں جتنے روزانہ رائے ونڈ مرکز میں ہوتے ہیں۔اور ان سب کیلئے بر وقت کھانے کا انتظام کرنا(یہاں تبلیغی حضرات کے کھانے کی بات ہورہی ہے جسکے لئے پنجابی محاورہ یہ ہے کہ "بکُّھی مج" اور "رجّا تبلیغی"ایک برابر کھاتے ہیں)۔
آج سے پندرہ بیس سال پہلے کا ڈیٹا دے رہا ہوں۔
روزانہ تقریباً 60من دودھ رائیونڈ مرکز آتا تھا۔دودھ کی کوالٹی چیک کرنے کیلئے ہائڈرو میٹر سے sp.gravityدیکھی جاتی تھی۔مگر پاکستانی گوالے بھی آدھے سائنسدان ہوتے ہیں ۔انہوں نے دودھ میں ،بجائے صاف پانی کے ،گدلا ملانا شروع کر دیا۔بیچارے ہائڈرو میٹر کا اپنا میٹر گھوم گیا۔
تاہم تبلیغی بھائ،انکے بھی باپ نکلے۔وہ اس دودھ میں سے 5کلو الگ کر کے ،اسی وقت چولہے پر رکھ،کھویا بناتے۔اس دودھ سے جتنا کھویا نکلتا،اسی ratioسے،دودھ کے خالص پن کا تعیّن ہوتا اور پھر قیمت طے کی جاتی۔
تبلیغی مرکز میں، اپنی زندگی وقف کئے ہوئے سینکڑوں ریٹائرڈ پروفیشنل موجود ہیں جو اپنے ذاتی خرچ پر وہاں رہ کر، وہاں کےمختلف شعبہ جات چلا تے ہیں۔رائے ونڈ کے سالانہ اجتماع کی خدمت کیلئے تبلیغ والے رضاکار خود کو پیش کرتے ہیں جنکو انکے ہنر اور تعلیم کے مطابق خدمت میں ایڈجسٹ کیا جاتا ہے۔
1995کے اجتماع میں،شوریٰ کیلئے 60 بائ 15فٹ کا یک کمرہ،مولانا سعیدؔ خان صاحب مرحوم کےلئے ایک حجرہ اور مرکزی منبر(سٹیج) کی چھت مرمت کرنے کا کام تھا۔
چونکہ میں نوجوان سول انجنئیر تھا لہذا مجھے گویا سپر وائزری کی خدمت ملی۔میں نے ،بنیاد کا نشان دینے کیلئے،60 فٹ چونے سے لائنیں لگائیں اور پھر 15فٹ والی دیوار کی لائن کی طرف مڑا۔یقین کیجئے،ابھی میں دوسری سائڈ کی پیمائش ہی کر رہا تھا،کہ 60 فٹ والی سائڈ پر،تین فٹ گہری کھد ائی ہو بھی گئی۔
آپکا خیال ہے جنّات نے کی ؟ نہیں بھائی!دو سو آدمی؟ کسّی اور بیلچہ سمیت سر پر موجود تھا۔
بہرحال،ایک گھنٹے بعد،DPCلیول تک دیواریں پہنچ گئیں۔انکی لیول رکھنی تھی۔کم از کم 5 انچ DPC کیلئے،کنکریٹ تیار کرنا تھی۔ہمارے امیر(گویاپراجیکٹ ڈائریکٹر)،کوہاٹ کے ایک مقیم بزرگ ،شاہؔ صاحب تھے۔وہ تشریف لائے۔میں نے لیول مشین مانگی۔فرمایا کہ پانی والی ٹیوب میں پانی بھر کر دونوں دیواروں سے لگاؤ۔پانی چونکہ اپنی لیول برقرار رکھتا ہے تو اس سے دیواروں کی لیول برابر ہو جائے گی۔ DPC ڈالنی ہے، تو اسکے لئے فرمایا،جاؤ سٹور سے لے آؤ۔
(ہیں؟ یہ کونسی DPC ہے جو سٹور سے ریڈی میڈ ملتی ہے؟ )خیر ! سٹور کے پہرے پر ایک ڈبل بیرل،ٹینک نما تبلیغی اونگھ رہا تھا۔میں نے شاہ صاحب کا حوالہ دیا کہ وہ DPCمانگ رہے ہیں۔خرخرائے"کتنے گز چاہئے؟" اور میرے چودہ طبق روشن ہو گئے۔انجنیرنگ کی کسی کتاب میں گزوں کے حساب سے DPC کا ذکر نہیں پڑھا تھا۔
خیر میں نے احاطہ بتایا اور انہوں نے DPC کا رول نکال کر تھما دیا۔آپ نے حلیب دودھ والا ڈبہ دیکھا ہے جسکے اندر کی طرف المونیم فائلنگ ہوتی ہے؟ سمجھئے اسکا ایک تھان تھا۔
شاہ صاحب نے کہا گارا لگا کر ،اسکو بچھا دو ،پھر اسکے اوپر دوبارہ گارا مار کر اینٹوں کا ردّہ لگا دو۔
میرا منہ کھلاکو دیکھ کر شفقت سے فرمایا" آپ تو انجنیئر ہو۔DPC کا معنیٰ ہے Damp proof Course تو بیٹا زمین کی نمی کو اوپر جانے سے روکنے کیلئے یہ بہترین چیز ہے کیونکہ کنکریٹ جتنا بھی ثقیل بناؤ،پانی اس سے رِس ہی جاتا ہے۔بس ایک خیال کرنا کہ اسکو گارے سے لگانا کیونکہ سیمنٹ مصالحہ اسکو کھا جاتا ہے۔"
ڈھاکہ،ٹونگی اجتماع میں ایک فلسطینی آرکیٹکٹ ملا،کہنے لگا " بھائی، لوگوں کو تقریروں سے ہدایت ملتی ہے مگر مجھے تو لیٹرین کی وجہ سے ہدایت ملی۔
کہنے لگا،دبئی میں ٹاؤن پلانر ہوں،ایک تبلیغی دوست نے اجتماع میں جانے کا کہا،ڈھاکہ ایرپورٹ پر لینڈ ہونے لگے تو نیچے لاکھوں لوگوں کے سر نظر آئے۔
پہلی چیز میرے ذہن میں یہ آئی کہ اتنے لوگوں کے ٹوائلٹ کا کیا انتظام ہوگا؟
اجتماع گاہ پہنچتے ہی دیکھا کہ کپڑے کی لیٹرین،جسمیں اینٹوں کے سہارے،قلعی کے کموڈ بنے ہیں ،جو پرلی طرف ایک کچی خندق میں کھلتے ہیں-
یہ دیکھا تو دل نے کہا یار، یہ کوئی جینئیس لوگ ہی ہیں۔۔پس تبلیغ میں چلّہ لگا لیا۔
یاد آتا ہے،ہمارے ایک مشہور بیوروکریٹ،رائے ونڈ کے مولانا جمشید سے کہنے لگے"حضرت! آپ لوگوں کا ورکنگ سٹائل اتنا سست ہے کہ آپ دنیا سے بہت پیچھے رہ جائیں گے"-
مولانا ،بڑے زندہ دل تھے۔کہنے لگے"بھائی! ہمارا تو خیال ہے ہم دنیا سے بہت آگے نکل گئے ہیں۔آپ ہمارا نظام دیکھ چکے ہیں۔کارکن کتنی دیانتداری ، جانفشانی اور پروفیشنل ازم سے کام کرتے ہیں اور وہ بھی بغیر تنخواہ کے۔اب آپ لوگوں کو اپنے ملازمین سے پہلے تو رشوت و نا اہلی ختم کرنا ہوگی جسکے لئے آپکو وقت چاہیے۔اسکے بعد،ہماری سطح تک انکو لانے کیلئے کہ وہ بغیر تنخواہ کے عوام کا کریں ، پتہ نہیں کتنا عرصہ آپکو درکار ہوگا۔ اوراس وقت تک ہم کہاں پہنچ چکے ہونگے؟خود سوچو!"
میرا خیال ہے اب انکی ایسی ٹکنالوجی بھی آپکو بتا ہی دوں جس میں میرے جیسے دوستوں کیلئے خوشخبری ہے-
آفرین حاجی صاحب نے اٹلی میں ایک پادری کو بتایا تھا کہ ہمارے پاکستان میں ایک ایسی فیکٹری ہے جس میں ایک طرف اگر گدھا ڈالو تو دوسری طرف انسان بن کر نکلتا ہے-کیا سمجھے؟