ماہِ رمضان کے ایام کیسے گزاریں ؟

 
ماہِ رمضان کے ایام کیسے گزاریں...؟!
ثناآفرین عَمری بنت عبد المجید گلبرگہ
 
ماہِ رمضان عنقریب جلوہ گر ہونے والاہے، ہمیں اللہ سے دعا کرتے رہنا چاہیے کہ صحت و عافیت کے ساتھ اتنی زندگی عطا فرمائے کہ ہم رمضان المبارک کی رحمتوں اور برکتوں سے بہرہ ور ہوسکیں۔
الغرض کچھ ہی دن بعد رمضان المبارک کا مہینہ اپنی برکتوں اور رحمتوں کے ساتھ ہم پر سایہ فگن ہونے والا ہے، رحمتوں اور برکتوں کی بارش ہوگی، گناہ گاروں کے لیے اس ماہ میں سامانِ مغفرت ہے، اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے’’نارِ جہنم‘‘ کے مستحق ہونے والوں کےلیے آزادی کا پروانہ ہے، گناہوں کی سیاہی سے زنگ آلود دلوں کی صفائی کی جاتی ہے،جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں، جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، "یا باغی الخیر اقبل ویا باغی الشر اقصر" کہ اے خیر کے طلب گار، آگے بڑھ اور اے شر کے چاہنے والے پیچھے ہٹ جا کی صدائیں بلند ہوتی ہیں، سرکش شیاطین قید کردیے جاتے ہیں۔ 
اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ اس دنیا کے خزانوں اوردفینوں سے فائدہ اٹھاؤ، اپنی خواہشات کو پورا کرو، مگر ایک دائرے میں رہ کر اور ایک حد میں رہ کر، اپنے اخلاق وروحانیت کے جذبے کو کبھی افسردہ اور مُردہ نہ ہونے دو ،تمام انبیاء علیھم السلام نے ہر دور میں اسی کےلیے کوشش کی، جب بھی انسانیت انتہا پسندانہ مادیت اور حیوانیت کی زد میں آکر ہلاک ہونے کے قریب ہوئی انہوں نے اخلاق وروحانیت پیدا کرنے کے اسباب مہیا کیے، روزہ بھی سال میں ایک مرتبہ اسی لیے فرض کیا گیا کہ معدے اور مادے کی شقاوت اور سختی دور ہو، کچھ دن مادیت پرستی میں تخفیف ہو، تاکہ اس میں روحانیت اور ایمان کی اتنی مقدار داخل ہوجائے جس سے اس کی زندگی اعتدال پر آجائے، ارشادِ باری ہے: ﴿یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ﴾ اے ایمان والو!! تم پر روزے فرض کیے گئے، جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے، تاکہ تم متقی اور پرہیز گار بن جاؤ۔ 
اس آیت میں روزہ کا حکم اس ماہ  میں دیا گیا تاکہ نفسِ امارہ کو اس کی خواہشات اور مرغوبات سے دور رکھ کر زیور تقویٰ سے آراستہ کیا جائے اور رات کو قرآن سن کر دلوں کو جلابخشی جائے۔
 ہم گیارہ مہینے دنیاکے جھمیلوں میں، اس کی تجارتء وزراعت میں، مزدوری ودیگر کاروبار میں مشغول رہتے ہیں، کیوں کہ ہماری اپنی ضروریات بھی ہیں، بیوی بچے بھی ہیں اور دوسرے بہت سے افراد سے وابستہ حقوق بھی ہیں، ان سب کے لیے کمانا بھی ہے، دنیوی اُمور میں مصروف ہونا بھی ہے تو گیارہ مہینے ہم دنیا کے کاموں میں جو مصروف رہتےہیں اور اس کی وجہ سے دل پر جو غفلت کے پردے پڑجاتے ہیں اورخالق سے ہمارا رشتہ کمزو رپڑ جاتا ہے، تو اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا کہ اس ایک ماہ کے لیے تم اپنے آپ کو اس دنیا کے جھنجھٹ سے نکالو اور اپنے مقصدِتخلیق کی طرف لوٹ آؤ اور عبادتِ الٰہی سے اپنے دل پر پڑے غفلت کے پردے کو اتار ڈالو اور گناہوں کی وجہ سے زنگ آلود دلوں کو اللہ کے ذکر سے جلا بخشو اور اس کے زنگ کودور کرو، اپنے خالق ومالک کے صحیح بندے بن کر اس سے اپنا ٹوٹا ہوا رشتہ دوبارہ جوڑلو، کیوں کہ یہ مہینہ خالص اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے، یہ اللہ کو راضی کرنے کا مہینہ ہے، یہ رحمتوں اور مغفرتوں کو حاصل کرنے کا مہینہ ہے۔
 
ماہِ رمضان کے بابرکت ایام کو صحیح طرح سے گزارنے اور ان سے پورا فائدہ اٹھانے کے سلسلے میں قرآن و حدیث میں متعدد ہدایات ہیں جن پر عمل کرکے اپنے ہم رمضان کی رحمتوں اور برکتوں کو سمیٹ سکتے ہیں:
 
روزہ:  اس ماہ کی خاص عبادت روزہ ہے اور اس روزے سے مقصد تقویٰ ہے۔ نبی کریمﷺ ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرماتے ہیں کہ: ’’ہر نیکی کا بدلہ دس گناسے لے کر سات سو گنا تک دیا جاتا ہے سوائے روزے کے  کہا "الصوم لی وانا اجزی بہ" کہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔‘‘ (بخاری ، مسلم
تمام عبادتیں اللہ کے لیے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہی ان کا بدلہ عطا فرمائیں گے تو روزہ ایک ایسی خاص بات ہے جس کے لیے کہا یہ جارہا ہے کہ ’’ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا‘‘۔
نبی کریمﷺ نے فرمایا: ’’ جس نے ایمان کے جذبے اور طلب ثواب کی نیت سے رمضان المبارک کا روزہ رکھا، اس کے گزشتہ گناہوں کی بخشش ہوگئی۔‘‘ (بخاری ،مسلم) 
 
تلاوتِ قرآن: ماہ رمضان کے خصوصی اعمال (روزہ، تراویح، تلاوت قرآن کریم، ذکرِ الٰہی، دعا واستغفار) کا خصوصی اہتمام کیا جائے، اس سراپا نور مہینے میں جس قدر نورانی اعمال کیے جائیں گے، اسی قدر روح میں لطافت، بالیدگی اور قلب میں نورانیت پیدا ہوگی، خصوصاً قرآن کریم کی تلاوت کا اہتمام؛کیونکہ اس ماہ کو قرآن کریم سے خاص نسبت ہے، اسی ماہ میں قرآن کریم نازل ہوا۔
ماہ رمضان میں جبرئیل علیہ السلام پورا قرآن مجید رسول ﷺ کو سنایا کرتے تھے اور ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کرتے تھے۔ اس لیے رمضان کو قرآن سے بڑی مناسبت ہے، ماہ رمضان میں تلاوت کے لیے کوئی خاص وقت بھی متعین نہ کرتے ہوئے ہر نماز کے بعد حسبِ سہولت تلاوت کر لینا چاہیے، اس طرح قرآن مجید سے شغف اور تعلق میں اضافہ ہوگا اور اس کے ذریعے اجر کا جو ذخیرہ جمع ہوگا اس کا اندازہ لگانے کی ضرورت ہی نہیں ہے، اس کو پورے طور پر اللہ رب العالمین کے لیے چھوڑ دیں۔
تلاوت کے وقت ایک بات ہمیشہ ملحوظ رہے کہ قرآن کا مقصد صرف الفاظ کی تلاوت نہیں ہے بلکہ قرآن مجید کا مفہوم سمجھنا اور اس کی ہدایات کو اپنی زندگی میں شامل کرنا بھی ضروری ہے، قرآن اصلاً تو عمل کے لیے نازل ہوا تھا، اس لیے جب تک قرآن کو سمجھا نہ جائے، اس وقت تک گویا نزول قرآن کا مقصد پورا نہیں ہوگا، قرآن مجید کی تلاوت کے ساتھ ساتھ اس کے معنی و مطالب پر غور کرنا اسے سمجھنا اور اسے یاد کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔
 
توبہ و استغفار: آج جو حالات چل رہے ہیں، ان حالات میں اور زیادہ ضروری ہے کہ ہم اللہ کی طرف رجوع کریں اور اپنے گناہوں کی معافی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رحمت کو متوجہ ہوں، ہمیں سچے دل سے توبہ کرنی چاہئے، اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَّصُوحًا عَسَىٰ رَبُّكُمْ أَن يُكَفِّرَ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيُدْخِلَكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ اے ایمان والو! اللہ کے حضور سچی توبہ کرو، کچھ بعید نہیں کہ تمہارا پروردگار تمہاری برائیاں تم سے جھاڑ دے، اورتمہیں ایسے باغات میں داخل کردے، جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔ (التحریم) 
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں سے کہا کہ وہ سچی توبہ کریں، سچی توبہ کے لیے ضروری ہے کہ پہلے گناہ سے باہر آئیں، اس گناہ پر شرمندہ بھی ہوں اور آئندہ نہ کرنے کا پختہ ارادہ بھی ہو، لیکن اگر توبہ کے بعد پھر گناہ دوبارہ ہوجائے، تب بھی ہمیں چاہئے کہ ہم دوبارہ سچی توبہ کریں، بس اس رمضان کو ہم استغفار کرنے کے لیے خاص کر لیں۔ تلاوت قرآن ، نماز، صدقہ وخیرات اور ہر نیکی کے بعد اللہ رب العزت کے سامنے آنسو بہا بہا کر مغفرت طلب کریں۔اپنے گناہوں پر معافی مانگیں 
اور معافی  مانگنا اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔ 
 
دعا:  اس ماہِ مبارک میں اللہ سے جو کچھ اور جتنا کچھ مانگنا ہے مانگنا چاہیے، اپنے لیے بھی اپنے اہل وعیال اور دوست واحباب کے لیے بھی، امت  مسلمہ کےلیے الغرض سب کےلیے اللہ سے خیر و برکت، حصول تقوی اور استقامت کےلیے دعا مانگنا چاہیے، صبح وشام کے دعاؤں کی پابندی اور دیگر مسنون اور قرآنی دعاؤں کا اہتمام کرنا چاہیے۔ 
 
نوافل کا اہتمام: رمضان المبارک میں کثرت سے نوافل کا اہتمام کرنا چاہیے، تراویح تو عام طور پر لوگ پڑھتے ہیں، ان کے علاوہ تہجد کے وقت دو یا چار نفل ضرور پڑھ لینا چاہیے اور وقتا فوقتا نوافل کا اہتمام کرنے کی کوشش کرنا چاہیے، ساتھ ہی اشراق کی نماز کو کم از کم رمضان المبارک میں اپنا معمول بناکر حسب موقع اور سہولت نوافل کا اہتمام کرنا چاہیے۔
 
صدقات:  اسی طرح ایک ضروری کام یہ ہے کہ اس ماہ مبارک میں جتنا ہو سکے دوسروں کی مدد کریں، ویسے تو سب کی مدد کریں لیکن خاص طور پر ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کریں، رمضان المبارک کا ایک نام شہر المواساۃ یعنی ہمدردی اور غم خواری کا مہینہ بھی ہے، اس ماہ میں دوسروں کی خبر گیری کرنا اس ماہ کے مقاصد میں سے ہے، غریبوں کی خصوصی مدد کے لیے اس مہینہ میں صدقہ الفطر واجب کیا گیا ہے، اس کے علاوہ بھی جتنا ہو سکے اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہیے، اپنا وقت، مال، صلاحیتیں، جسم و جان کی قوتیں اللہ کی خاطر خرچ کرنا، خاص طور میں اس ماہ میں دل کھول کے صدقہ و خیرات کرنا، دین کی تبلیغ اور اشاعت، رشتہ داروں ، یتیموں اور مسکینوں وغیرہ پر روپیہ پیسہ خرچ کرنا۔ 
 
شکرانِ نعمت: رمضان میں دنیائے انسانیت کی سب سے بڑی نعمت انسانوں کو ملی یعنی قرآن مجید کا نزول ہوا، اللہ کی اس عظیم نعمت اللہ رب العزت کا شکریہ ادا کرنا بہت ضروری ہے، اگر یہ نعمت نہ ہوتی تو نہ جانے ہم کن اندھیریوں میں  ہوتے، اس لیے یہ اللہ تعالی کی سب سے بڑی نعمت ہے،  اس پر اس کا زیادہ سے زیادہ شکریہ ادا کریں، اس کے علاوہ بھی اس کی بے شمار نعمتیں ہیں جو ہم پر ہمہ وقت سایہ فگن ہیں، خود اللہ کا فرمان ہے کہ إِن تَعُدُّواْ نِعْمَةَ ٱللَّهِ لَا تُحْصُوهَآ اس کی نعمتوں کو گننا چاہیں تو نہیں گن سکتے، اس لیے اس کی تمام نعمتوں پر شکر ادا کرنا چاہیے، شکر عبادت بھی ہے اور شکر کی وجہ سے نعمتوں میں اضافہ بھی ہوتا ہے لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ   شکر کا ایک مطلب یہ ہے کہ زبان سے شکر ادا کریں، ایک مطلب یہ ہے کہ اللہ نے جس کام کا حکم دیا ہے اس کو بجا لائیں، تیسرا مطلب یہ ہے کہ اپنے اعضا و جوارح سے کوئی ایسا کام نہ کریں جو اس کی نافرمانی کا موجب ہو۔
 
نفس کی تربیت: رمضان المبارک میں سب سے ضروری کام نفس کی تربیت ہے، اور یہ روزہ کے مقاصد میں شامل ہے، حدیث میں ہے کہ الصَّوْمُ جُنَّۃٌ روزہ ڈھال ہے، اگر کوئی روزے سے ہو تو اس کو فحش گوئی، شور و غوغا نہیں کرنا چاہیے، اگر کوئی شخص اس کو گالی دے یا لڑنا چاہے تو وہ کہے کہ إِنِّیْ صَائِمٌ  میں روزے سے ہوں، یعنی میں جھگڑا نہیں کروں گا (بخاری)۔ 
ایک اور حدیث میں ہے کہ "من لم یدع قول الزور والعمل بہ فلیس للہ حاجۃ بأن یدع طعامہ وشرابہ" کہ جو روزہ رکھ کر جھوٹ اور لغو باتوں کو نہ چھوڑا تو اس کے روزے کی اللہ کو کوئی حاجت نہیں ہے، اس لیے اس پر خصوصی توجہ رہنی چاہیے کہ روزے کے ذریعے ہمارے نفس کی اصلاح ہو، باطن کا تزکیہ ہو، ہمارے اندر تقویٰ پیدا ہو، کسر نفسی پیدا ہو، صبر و برداشت کا مادہ پیدا ہو، ہم معاف کرنا سیکھ جائیں، ہمارے اندر جتنے یہ خصائص پیدا ہوں گے تقویٰ کا معیار اسی اعتبار سے بلند ہوتا جائے گا، اور روزے کے مقاصد بھی پورے ہوں گے۔
 
ذکر الٰہی: اس ماہ میں ذکر و تسبیحات کا خوب اہتمام کرنا چاہیے، سبحان اللہ ، الحمدللہ ، اللہ اکبر، لا الہ الا اللہ، اللہ و بحمدہ سبحان اللہ العظیم، لا حول الا قوۃ الا باللہ یہ کلمات  یا ان جیسے دیگر کلمات ہماری زبانوں پر چڑھ جانا چاہیے جو بظاہر معمولی سے ہیں لیکن اجر میں بہت بھاری ہیں۔ 
 
اعتکاف: اگر استطاعت ہو تو آخری عشرے میں اعتکاف کرنا چاہیے، پورے عشرے میں ممکن نہ ہو تو کچھ مدت یا لمحات کے لئے دنیا کے سب کام، مشاغل اور دلچسپیاں چھوڑ کر اپنے آپ کو صرف اللہ کے لئے وقف کرنا چاہیے۔ 
 
 شب قدر: رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتیں نفل نمازوں ، تلاوت، ذکر، تسبیح و تہلیل اور استغفار میں گزارنا، رات کا بیشتر حصہ عبادت میں گزارنا چاہیے، کیونکہ اس عشرہ میں ایک رات ایسی ہے جس میں عبادت کا ثواب ایک ہزار راتوں کی عبادت سے بہتر ہے۔ 
 
ہمدردی اور صلہ رحمی: رشتہ داروں، یتیموں، بیواؤں اور غریبوں کی ضروریات پوری کرنے کی کوشش کرنا چاہیے، ان کے ساتھ ہمدردی کرنا چاہیے۔ 
 
مہمان نوازی: رشتہ داروں اور دوستوں کے ساتھ ساتھ غریبوں ، بیواؤں، یتیموں اور پڑوسیوں کے لئے بھی افطاری یا سحری کا اہتمام کرنا چاہیے۔ 
 
درس و تدریس: گھر کے اور محلے کے بچوں، بچیوں اور خواتین کو اس مہینے کی فضیلت و اہمیت اور احکامات سے آگاہ کرانا اور تلاوت قرآن مع ترجمہ وتفسیر کا اہتمام کرنا چاہیے۔ 
 
رمضان المبارک کے ماہ مبارک کو گزارنے سے متعلق یہ چند مشورے ہیں۔ ان کی ضرورت سب سے زیادہ لکھنے والے کو ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس ماہ مبارک سے پوری طرح مستفید ہونے کی توفیق نصیب فرمائے اور اس ماہ کو ہمارے لیے مغفرت کا اور اپنی رضا مندی حاصل کرنے کا ذریعہ بنائے، آمین
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2025

تبصرے

يجب أن تكون عضوا لدينا لتتمكن من التعليق

إنشاء حساب

يستغرق التسجيل بضع ثوان فقط

سجل حسابا جديدا

تسجيل الدخول

تملك حسابا مسجّلا بالفعل؟

سجل دخولك الآن
ویب سائٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اس سائٹ کے مضامین تجارتی مقاصد کے لئے نقل کرنا یا چھاپنا ممنوع ہے، البتہ غیر تجارتی مقاصد کے لیئے ویب سائٹ کا حوالہ دے کر نشر کرنے کی اجازت ہے.
ویب سائٹ میں شامل مواد کے حقوق Creative Commons license CC-BY-NC کے تحت محفوظ ہیں
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2025