کیا لوگ تھے جو راہ وفا سے گزر گئے... (حضرت مولانا عمر فاروق رحمۃ اللہ علیہ)

ولی کامل عارف باللہ داعی کبیر میرے عزیز استاذ و مشفق مربی مدرسہ ابن عباس کے استاذ الحدیث حضرت مولانا عمر فاروق صاحب طویل علالت کو انتہائی صبر، خندہ پیشانی، حوصلے اور امید کے ساتھ سہتے سہتے بالآخر اپنے رب کے حضور پیش ہو گئے.

استاذ جی کی وفات تمام متعلقین اور خاص طور پر مدرسہ ابن عباس و مدرسہ عائشہ کے لیے بہت بڑا سانحہ ہے، اللہ تعالی ہی اپنے فضل و کرم سے ہمیں صبر و حوصلہ عطا فرمائے اور ہمارے غم کا مداوا فرمائے. آمین

استاذ جی کی شخصیت پر کچھ لکھنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے،  اور نہ ہی چند الفاظ ان کی شخصیت کا احاطہ کر سکتے ہیں. ان کی شخصیت حقیقتا اس کی مستحق ہے کہ ان کی باقاعدہ سوانح حیات لکھی جائے، اس لیے کہ وہ ہماری طرح رسم و رواج کی اَن دیکھی زنجیروں میں بندھے ہوئے اور تکلفات نبھانے کے بوجھ تلے دبے ہوئے ایک کمزور سے انسان نہ تھے بلکہ ایک ایسی غیر معمولی شخصیت کے مالک تھے جن کی زندگی کو دیکھ کر فرد کو سنوارا جائے اور معاشرے کے اصول طے کیے جائیں. 

البتہ چند سطور لکھنے کی جرات صرف اس لیے کر رہا ہوں کہ اللہ کرے یہ چند باتیں کسی اہل قلم اور اہل نظر کو متوجہ کریں جو حضرت کی بھرپور سوانح لکھ سکے، اور اس نیت سے بھی کہ شاید ان کی مبارک صفات کا کچھ حصہ مجھ ناکارہ کو بھی عطا ہو جائے. 

استاذ جی کو دیکھ کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی صفات : كانوا أفضل هذه الأمة، أبرها قلوبا، وأعمقها علما، وأقلها تكلفا یاد آ جاتی تھیں، واقعی استاذ جی بڑے صاف دل، گہرے علم والے، سادہ مزاج اور بے تکلف انسان تھے.

استاذ جی نمونہ اسلاف تھے ان کو دیکھ کر اکابر کی یادیں تازہ ہو جاتی تھیں، ان کے اندر بیک وقت حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ کی سادگی، مٹا ہوا نفس اور علوم و معارف کا فیضان، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ کی فقاہت اور سنت سے عشق، اور حضرت حافظ ضامن شہید رحمہ اللہ کی مزاح سے بھرپور شخصیت جس کے پردے میں انہوں نے مقام فنا فی اللہ  کو چھپایا ہوا تھا نظر آتی تھی.

استاذ جی کی زندگی کے کئی پہلو ہیں اور ہر پہلو اتنا نمایاں ہے کہ یوں لگتا ہے کہ شاید وہ اسی راہ کے آدمی تھے، وہ بیک وقت میدان تصوف کے شہسوار، تبلیغ کے میدان کے عظیم داعی اور تعلیمی میدان میں دقیق النظر فقیہ، قرآن کے معانی کے ماہر اور عظیم شیخ الحدیث تھے. مگر یوں لگتا ہے کہ شاید ان تمام مہارتوں کے پیچھے ان کی صفت تعلق مع اللہ تھی، جس نے انہیں ایک طرف دنیا میں استغنائی شان عطا کر رکھی تھی، دوسری طرف علوم الہیہ کے جذب کا مرکز بنا رکھا تھا. 

اس بات کا اندازہ اس سے بھی ہو سکتا ہے کہ بعض امور کے اندر وہ حیرت سے سامنے والے کی بات کو سن کر معصومیت سے اچھاااا کہتے، جبکہ دوسری طرف یہ وہی شخصیت تھے جو حلقہ درس میں علوم و معارف کے دریا بہا دیا کرتے تھے. گویا حدیث مبارکہ المؤمن غر كريم(مومن سادہ دل بھولا بھالا اور شریف ہوتا ہے) کا سراپا مصداق بن جاتے.

استاذ جی شہرت سے کوسوں دور رہتے تھے، اللہ تعالی نے انہیں شہرت کے اتنے مواقع عطا فرمائے تھے کہ اگر وہ چاہتے تو شہرت کے آسمان پر ماہتاب بن کر چمکتے، مگر شاید اللہ کے قرب کی لذت نے انہیں اس طرح کی چیزوں سے بالکل ہی بے نیاز کر دیا تھا. ان کی یہ صفت اس سے واضح ہوتی ہے کہ ایک دفعہ بندے کو ایک تقریب میں شرکت کی دعوت ملی جس میں کراچی کے بڑے علماء کرام کی آمد متوقع تھی، اور بندے کو اسٹیج سیکرٹری کے فرائض انجام دینا تھے، استاذ جی سے مشورہ کیا تو جواب ملا کہ: "نہ جانا بہتر ہے، کیوں کہ ایسی تقریبات کا عموماً کوئی فائدہ نہیں دیکھا".

 وہ ولی کامل عارف باللہ تھے مگر ان الفاظ کے سابقے و لاحقے لگانے کی فکر سے بے نیاز تھے، وہ ایک عظیم مفتی تھے، مگر اپنے لیے وہ صرف عمر فاروق تھے، اور لوگوں میں جو نام چل پڑا مولانا عمر فاروق صاحب وہی آخر تک چلتا رہا. 

استاذ جی نے تمام تر مواقع میسر ہونے کے باوجود انتہائی سادہ طرز زندگی اپنائے رکھا، سادہ گھر، سادہ لباس، سادہ طرز زندگی کے ساتھ وہ إن البذاذة من الإيمان (سادگی ایمان کا حصہ ہے) کی عملی تفسیر بن کے دکھا گئے.

طبیعت میں زیادہ گھلنا ملنا نہیں تھا لیکن اگر کوئی ملاقات کے لیے آ جاتا تو بہت بشاشت سے ملتے اور بھرپور مزاح سے محفل کو کشت زعفران بنا دیتے.  

زیادہ تر اعتکاف غفوریہ مسجد میں فرماتے، اور وجہ یہ بتاتے کہ وہاں بڑے بزرگ مولانا شمس الرحمن صاحب دامت برکاتہم ہوتے ہیں، ان کو میں نے چالیس پچاس سال سے جن اعمال میں دیکھا ہے وہ آج بھی استقامت کے ساتھ انہیں اعمال میں لگے ہوئے ہیں، دوسری وجہ یہ ہے کہ میں اگر اپنی مسجد میں بیٹھتا ہوں تو میرے گرد مجمع لگ جاتا ہے، اور یہاں پر لوگ مولانا شمس الرحمن صاحب کے گرد رہتے ہیں تو یکسوئی سے اعمال و عبادات کرنے میں آسانی ہو جاتی ہے.

گفتگو بہت نپی تلی اور بڑے سلیقے سے ہوتی تھی اور بسا اوقات لمبی لمبی گفتگو کے دوران کوئی لفظ ضرورت سے زائد نہیں ملتا تھا. 

یوں کہنا چاہیے کہ حضرت کو اللہ تعالی نے حیرت انگیز طور پر بہت سی ایسی اعلی متضاد خوبیوں کا جامع بنایا تھا جن میں سے اگر ایک ہو تو عموما دوسری صفت نہیں ہوتی. وہ جہاں ضرورت سے زائد ایک لفظ بھی منہ سے نکالنے کو تیار نہیں تھے وہیں ان کے علوم و معارف سے بھرے ہوئے بیان گھنٹوں یوں زبان پر چلا کرتے گویا کوئی کتاب دیکھ کر پڑھ رہے ہوں، کبھی قرآن کریم کی آیات میں چھپے اہم نکات نکال لاتے، اور کبھی احادیث نبویہ کے بحر بے کنار میں غوطہ زن ہو کر نبوی موتی بکھیر دیا کرتے، کبھی صحابہ کرام اور اسلاف کی طرز زندگی کے درخشاں پہلو کھول کر رکھ دیتے، اور جملہ جملہ ایسا قیمتی ہوتا کہ زندگی کا سنہری اصول بن سکے، اور مخاطب چاہے عوام الناس ہوں یا اہل علم دم بخود بیٹھ کر یوں سنا کرتے کہ وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوتا.

 اور جہاں ان کے لمبے لمبے بیانات دلوں میں ایمان کی حرارت پیدا کر دیتے، وہیں اللہ تعالیٰ نے انہیں جوامع الکلم کی نبوی صفت عطا فرمائی تھی، وہ بسا اوقات گھنٹوں کی بات کو منٹوں میں سمیٹ کر دریا بکوزہ کا ایسا مظاہرہ کر دیتے کہ کسی کو تشنگی باقی نہ رہتی. 


 تبتل کے ساتھ اجتماعیت کو اور زہد و تقوی کے ساتھ ظرافت طبع کو بڑے سلیقے سے جمع فرمایا تھا. اپنی ذات میں انتہائی سنجیدہ رہتے، مگر جب لوگوں کے درمیان آتے تو محفل باغ و بہار ہو جاتی. استاذ جی کے مزاج میں ظرافت اتنی زیادہ تھی کہ بسا اوقات تکلیف کے لمحات میں بھی ظاہر ہو جاتی. ایک دفعہ گھٹنوں میں شدید تکلیف کی وجہ سے کچھ دنوں تک نماز کے لیے مسجد تشریف نہ لا سکے. جس دن مسجد آئے تو تکلیف کے مارے سیدھا چلنا مشکل ہو رہا تھا، ایک صاحب پوچھ بیٹھے: کیا ٹانگوں میں تکلیف ہو رہی ہے؟  تو برجستہ فرمایا: "تو آپ کے خیال میں میں خوشی خوشی لنگڑا کر چل رہا ہوں؟" 

جب مسلم شریف کا سبق پڑھانے کے لیے تشریف لاتے تو بسا اوقات چہرے پر ذکر الٰہی کا ایسا جاہ و جلال ہوتا کہ نظر نہ ٹکتی اور تھوڑی ہی دیر میں گفتگو کرتے ہوئے وہ کیفیت زائل ہو جاتی اور ہم استاد جی سے بے تکلف ہو جاتے.

استاذ جی کے درس حدیث کی حقیقی علمی کیفیت کی منظر کشی کرنا تو بس سے باہر ہے،  اس کی حقیقت وہی سمجھ سکتا ہے جس نے ان کے درس میں شرکت کی ہو، اور استاذ جی کا طریقہ کار واقعتاً ایسا تھا جس پر مستقل تبصرہ ہونا چاہیے، یہ چند سطور بھلا کہاں تک انصاف کریں گی، ہم زیادہ سے زیادہ یہی کہہ سکتے ہیں کہ مسلم شریف کے متن اور اس کی مختلف شروحات کی عبارتوں کو اپنے تین چار لفظوں کے ذریعے جوڑ کر ایک لڑی میں انتہائی خوبصورتی سے پرو دیتے، اور ان عبارات کے اندر رہتے ہوئے ہی ایسے انداز سے تشریح فرماتے کہ عجیب سماں بندھ جاتا، یوں لگتا کہ ایک ایسا منظر قائم ہو چکا ہے جہاں امام نووی، مولانا عبید اللہ سندھی، مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہم اللہ و دیگر بڑے بڑے ائمہ حدیث تشریف فرما ہیں اور براہ راست ایک دوسرے کی رائے پر تاییدی یا تردیدی گفتگو فرماتے جا رہے ہیں، ہم طلباء دانتوں میں انگلیاں دبا لیتے، اور زبان پر سبحان اللہ آ ہی رہا ہوتا کہ اگلے جملوں کی علمی گہرائی زبان روک دیتی، اور یوں یہ بہتا ہوا علم کا دریا بہتا ہی رہتا اور دیکھنے والے دم بخود بیٹھے اسے گھنٹے کے آخر تک دیکھتے ہی رہ جاتے. گھنٹے کے آخر میں کتاب بند کرنا اور بلا توقف چل پڑنا... کیا ہی عجیب منظر ہوتا، جس خاموشی سے تشریف لائے تھے اسی خاموشی سے مکمل شان استغنائی کے ساتھ کسی ہٹو بچو کے شور کے بغیر چل پڑتے...اللہ اللہ، وہ منظر صرف محسوس ہی کیا جا سکتا ہے بیان نہیں، بھلا دنیا بھر کے فلسفی کسی پھول کی خوشبو  الفاظ میں سمجھا سکتے ہیں؟

ایک دفعہ یمن کے عرب علماء مدرسے میں تشریف لائے اور ان کا کافی اصرار تھا کہ درس حدیث میں شرکت کریں، بندے کی بھی یہ چاہت تھی کہ جو بھی طلب لے کر آئے وہ استاذ جی کے حلقہ درس میں ضرور بیٹھے، استاذ جی ان دنوں ضعف کی وجہ سے مسجد کے صحن میں ہی حلقہ لگا لیتے تھے، چنانچہ استاذ جی کا حلقہ درس لگا ہوا تھا، مہمانوں کا اصرار تھا، میں دو تین دفعہ شرکت کی اجازت لینے کے لیے گیا مگر درس کی ہیبت کی وجہ سے آگے نہ بڑھ سکا، درس کے اختتام پر موقع ملتے ہی استاذ جی سے عرض کیا کہ یمن کے کچھ علماء اجازت حدیث کے لیے تشریف لائے ہیں، استاذ جی نے بخوشی ان کو اجازت حدیث عطا فرما دی. میں نے موقع غنیمت جانتے ہوئے جرات کر کے استاد جی سے پوچھ لیا کہ جو بھی مہمان طلب ظاہر کریں انہیں آپ کے درس میں شرکت کے لیے لے آیا کروں؟ تو منہ قریب کر کے آہستہ آواز سے فرمایا: "نہ لایا کریں ، دیکھیں نا، آپ کو تو پتہ ہے میرا درس کسی قابل نہیں، وہ لوگ پتہ نہیں کیا کیا امیدیں لے کر آتے ہوں گے". اللہ اکبر...! کہاں استاذ جی کا علمی مقام اور کہاں یہ عاجزی. 

مسلک احناف کا اتنے سلیقے سے دفاع فرماتے کہ ہلکا سا بھی زور زبردستی کا دفاع یا تکلف محسوس نہ ہوتا اور مسلک احناف کی گہرائی و گیرائی کھل کر سامنے آتی، مذاہب اربعہ کا تقابل اور ترجیحِ مذہبِ احناف کی اللہ تعالی نے غیر معمولی صلاحیت عطا فرمائی تھی. تقابل اور ترجیح کا یہ غیر معمولی ملکہ ہوتے ہوئے بھی تبلیغ کے حالیہ تنازع میں کبھی زبان کھولنا پسند نہیں فرماتے تھے، جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ معاملات استاذ جی کے کتنے قریب سے گزر رہے تھے ، مگر  وہ ان تمام امور سے سلامتی کے ساتھ ایسے نکل گئے جیسے مکھن میں سے بال نکل جاتا ہے.

ہمیشہ مثبت پہلوؤں پر زور دیا کرتے اور ایسی منفی باتیں جن کا کوئی فائدہ نہ ہو ان سے ہمیشہ گریز فرماتے تھے.

قرآن کریم سے بہت شغف تھا، کثرت سے تلاوت فرماتے، اور مزے لے کر پڑھتے، مضامین قرآن پر بڑی گہری نظر تھی اور موقع پر بڑے دقیق نکات نکال لایا کرتے تھے. عملی مواقع پر آیات کا استحضار بھی خوب تھا. ایک دفعہ بندے نے عرض کیا کہ کاروبار کرتا ہوں تو اکثر یہ سوچ رہتی ہے کہ فلاں آدمی بھی میرا گاہک بن جائے،کہیں یہ استغنا کے خلاف اور ازهد فيما عند الناس کے خلاف تو نہ ہوگا؟ تو جواب میں فرمایا: "بظاہر ازھد فیما عند الناس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے مال پر اور ان کی چیزوں پر نظر نہ ہو، یہ مطلب نہیں ہے کہ بیع کے لیے بھی ان کی چیزوں پر نظر نہ ہو، بیع میں تو لین دین ہوتا ہے، ازھد فیما عند الناس کا مطلب تو یہ ہے کہ دل میں اشراف ہو کہ وہ ہدیہ دیں یہ چیز مراد ہے جو منع ہے. یہ چیز (یعنی بیع میں لوگوں کی توجہ حاصل کرنا) زہد کے منافی نہیں ہے، بلکہ یہ تو وابتغوا من فضل الله کے تحت ایک درجہ میں مأمور به اور مندوب ہے." اس جواب سے حضرت کی فہم قرآن کریم پر دسترس واضح ہے.

ایک دفعہ فرمایا کہ اللہ تعالی کے ہاں کامیاب ہونے کے لیے ضابطہ یہ ہے کہ بندے کی نیکیاں زیادہ ہوں، فمن ثقلت موازینه فأولئك هم المفلحون، یہ نہیں کہ گناہ بالکل ہوں ہی نہیں، مگر ہماری نظر میں اگر کسی آدمی کی صرف ایک کمی سامنے آ جائے تو وہ ہماری نظروں سے گر جاتا ہے. اللہ تعالی نے تو بہت آسان ضابطہ بنایا تھا اور ہم نے اسے سخت بنا دیا، اللہ تعالی تو اپنے بندوں کو معاف کرنے کے لیے تیار ہیں، مگر بندے ایک دوسرے کو معاف کرنے کے لیے تیار نہیں.

تعلق مع اللہ میں عجیب فنائیت کی شان تھی، اس لیے عام سے جملے میں عجیب کیفیت پیدا ہو جاتی تھی، ایک دفعہ کچھ پوچھنے پر فرمایا کہ: "لگے رہیں، اُن کو جو دینا ہو گا دے دیں گے." اب بھلا اس ایک جملے میں ایسا کیا ہے کہ دل پر کیفیت طاری کر دے، مگر کر دی...

استاذ جی کثرت سے ذکر کیا کرتے، اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کیا کرتے اور فرماتے کہ دن بھر کی مصروفیات میں کچھ نہ کچھ وقت ایسا ضرور ہونا چاہیے جس میں اللہ تعالی اور بندے کے درمیان کوئی اور نہ ہو.

اللہ والوں کو عموماً تعلق مع اللہ کی برکت سے ایسی ذہنی آسودگی ملتی ہے کہ ذہن میں الجھاؤ یا اضطراب کی کسی کیفیت کا گزر نہیں ہوتا، استاذ جی کو بھی اللہ تعالیٰ نے سکینہ کی خاص دولت سے نوازا تھا. مزاج میں بہت سکون اور اطمینان تھا، اور اسی چیز کا اثر دوسروں پر بھی پڑتا... کوئی کیسا ہی غموں کا مارا اپنا دکھڑا لے کر استاذ جی کے پاس آ جاتا، چند لمحوں میں سکون کا اثر محسوس کرتا اور محبت بھرے دو جملے سن کر خوشی خوشی دوائے دل لیے لوٹ جاتا.

بڑے بڑے مسائل چٹکیوں میں نمٹا دیا کرتے، چاہے وہ علمی اشکالات ہوں یا معاشرتی مسائل، یوں محسوس ہوتا تھا کہ ہر معاملے پر اللہ تعالیٰ نے تعمق دے رکھا تھا.

انتظامی معاملات کے اندر بھی جہاں الجھاؤ پیدا ہو رہا ہو یا راہ عمل واضح نہ ہو رہی ہو، استاذ جی کے سامنے رکھے جاتے تو بلا توقف حل فرما دیتے، اور ذہن کبھی الجھاؤ کی طرف نا جاتا. اور یہ یقینا گناہوں سے دور پاکیزہ زندگی اور ذہنی یکسوئی کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے بھرپور تعلق کی علامت تھی.

ایسا بھی ہوتا تھا کہ کسی بات کا جواب ذہن میں نہ ہو تو فورا واللہ اعلم فرما دیتے، یا یہ فرماتے کہ یہ بات فلاں سے پوچھ لیں. اور کبھی یوں بھی ہوتا کہ خود ہی کسی سے پوچھ کر ان کا جواب ان ہی کے نام سے نقل فرما دیتے.

مزاج میں حوصلہ اور شکر بہت تھا، جب بیماری جھیلتے جھیلتے استاذ جی کا فربہ جسم انتہائی کمزور و لاغر ہو چکا تھا تب بھی استاذ جی سے طبیعت پوچھتے تو یہی جواب ملتا: الحمدللہ پہلے سے بہتر ہے.

ان کے بیٹے مولانا عبدالرب نے بتایا کہ جب بخار چڑھتا اور طبیعت زیادہ خراب ہوتی تو ہم سے کہتے کہ تم لوگ کمرے باہر چلے جاؤ، میں اپنے اللہ سے باتیں کرنا چاہتا ہوں، اس کے بعد چادر اوپر اوڑھ کر دیر تک روتے روتے اللہ تعالی سے راز و نیاز کرتے رہتے. 

اکابر کی سوانح سے بہت شغف تھا، آخر حیات میں جب تدریسی مصروفیات ختم ہو گئی تھیں تب بھی اکابر کی زندگی کو بہت پڑھا کرتے. اس کے مقابلے میں فرق باطلہ کی کتابوں سے نفور تھا، کبھی انہیں معلومات کی غرض سے بھی نہ پڑھتے.

استاذ جی بہت دلی کیفیت سے فرمایا کرتے تھے کہ جس کی نیت شہادت کی ہوگی اللہ تعالی اس کو شہادت کی موت سے نواز دیں گے پھر یہ حدیث پڑھا کرتے: من طلب الشهادة بصدق بلغه الله منازل الشهداء، وإن مات على فراشه . 
امید ہے ان شاء اللہ یہ مقام اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے انہیں عطا فرما چکے ہوں گے.

 حضرت مولانا بدر عالم میرٹھی رحمہ اللہ سے بہت متاثر تھے متعدد بار ان کا تذکرہ فرمایا کہ اللہ تعالی نے انہیں حجاز مقدس کی موت نصیب فرمائی، اور ایک دفعہ ان کی قبر کشائی کی ضرورت پیش آئی تو دیکھا گیا کہ بالکل صحیح سالم قبر میں موجود تھے، استاذ جی جب یہ تذکرہ فرماتے تو اتنے جذبے سے فرماتے یوں لگتا تھا کہ اپنے لیے بھی اسی چیز کے طلب گار ہیں، چنانچہ ساری زندگی پاکستان میں گزارنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے حرمین کے سفر سے واپسی پر راستے کی موت عطا فرمائی. ان سے ایک دفعہ کسی نے کہا کہ آپ کے گھر کی گلی تو اتنی تنگ ہے کہ آپ کا جنازہ بھی نہیں نکل سکے گا، تو فرمایا کہ میری موت گھر میں کہاں، میری موت تو اللہ کے راستے میں آئے گی.

اور ایسا ہی ہوا... ایک لمبی بیماری سہنے کے بعد آخر میں حرمین شریفین کی حاضری سے   فیض یاب ہو کر واپسی میں 6 اپریل بروز اتوار 2025 کو سعودی شہر ریاض میں جان جان آفرین کے سپرد کر دی... 

جان ہی دے دی جگر نے آج پائے یار پر 
عمر بھر کی بے قراری کو قرار آ ہی گیا... 

فسلام عليه يوم ولد ويوم يموت ويوم يبعث حيا.

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ استاذ جی کی تمام دینی، تعلیمی، اور اصلاحی خدمات کو قبول فرمائے، انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

رحمه الله رحمة واسعة، وتغمده بغفرانه، وأحل عليه رضوانه، وأسكنه فسيح جنانه.

شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2025

تبصرے

يجب أن تكون عضوا لدينا لتتمكن من التعليق

إنشاء حساب

يستغرق التسجيل بضع ثوان فقط

سجل حسابا جديدا

تسجيل الدخول

تملك حسابا مسجّلا بالفعل؟

سجل دخولك الآن
ویب سائٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اس سائٹ کے مضامین تجارتی مقاصد کے لئے نقل کرنا یا چھاپنا ممنوع ہے، البتہ غیر تجارتی مقاصد کے لیئے ویب سائٹ کا حوالہ دے کر نشر کرنے کی اجازت ہے.
ویب سائٹ میں شامل مواد کے حقوق Creative Commons license CC-BY-NC کے تحت محفوظ ہیں
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2025