سلطنت عثمانیہ کا آغاز
*ایک عظیم اسلامی سلطنت کی بنیاد*
بسم اللہ الرحمن الرحیم
یہ تاریخ ہے اس عظیم اسلامی سلطنت کی جس نے ساڑھے چھ سو سال تک اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ دنیا کے تین براعظموں پر حکومت کی، اسی سلطنت کے ایک دلیر سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ جیسی عظیم رومی سلطنت کو فتح کیا، جس سلطنت کے سلاطین نے دنیا کے بڑے بڑے سپرپاور حکمرانوں کو تاخت و تاراج کردیا، جس سلطنت کی بشارت اللہ نے بانیِ سلطنت کو خواب میں دی، وہ عظیم سلطنت، سلطنت عثمانیہ ہے، جس کا بانی ایک جانباز ترک سردار عثمان بن ارطغرل غازی ہے، انھیں کے نام سے یہ سلطنت پوری دنیا میں مشہور ہوئی، آخر عثمانیہ سلطنت کیسے وجود میں آئی، اور اس کی بنیاد کیسے پڑی، آئیے! تاریخ کی روشنی میں جانتے ہیں،
جب عالم اسلام اپنی بے بسی و بے کسی کا آخری سانس لے رہی تھی، ادھر خلافت عباسیہ اپنا دم توڑ چکی تھی، اور ایشیاۓ کوچک میں دولت سلجوقیہ اپنا دمِ آخر بھر رہی تھیں، تو اسی اثنا میں ایک ترک قبیلہ جو ترکانِ اوغوز کا ایک جزو تھا، جس کے سردار ارطغرل غازی تھے، جو چنگیز خان کے حملے سے اپنا وطن خراسان کو چھوڑ کر مارے مارے پھر رہے تھے، یہ ترک قبیلہ خانہ بدوشوں کی شکل میں ایشیاۓ کوچک میں داخل ہوا، جہاں سلطنت سلجوقیہ کی حکمرانی تھی، ارطغرل غازی اپنے قبیلہ کو لیکر سلطان علاءالدین کے زیر سایہ پناہ لینے کیلئے پایۂ تخت قونیہ گیا، سلطان علاءالدین نے ارطغرل غازی کی بہادری و شجاعت کو دیکھ کر اسے سغوت کا ذرخیز علاقہ جو دریائے سقاریہ کے بائیں جانب بازنطینی سرحد کے قریب واقع تھا جاگیر میں عطا کیا، اور ارطغرل غازی کو اس جاگیر کا سپہ دار بھی بنادیا، ارطغرل غازی نے تھوڑی ہی مدت میں وہاں پر اپنی شجاعت کا ایسا سکہ جمادیا کہ دیکھتے ہی دیکھتے اس کی فتوحات کا یہ اثر ہوا کہ جو ترک قبائل پہلے ہی سے ایشیاۓ کوچک میں آباد تھے، جوق در جوق اس کے ساتھ شامل ہونے لگے،
اس طرح ارطغرل غازی کی قوت روز بروز بڑھتی چلی گئی، اور اس کا اقتدار گردوپیش کے علاقوں میں قائم ہونے لگا، ارطغرل غازی نے سلطان علاءالدین کے ساتھ کئی بڑی جنگیں لڑیں اور بہت سے علاقوں کو فتح کرکے سلطنت سلجوقیہ کی سرحد میں شامل کیے، لیکن اس وقت سلطنت سلجوقیہ اپنے اندرونی خلفشار اور منگول تاتاریوں کے حملوں سے اپنا آخری سانس لے رہی تھی، ایسی حالت میں ارطغرل غازی جیسے دلیر سردار سلطان علاءالدین سلجوقی کے نائب کی حیثیت سے منگول تاتاریوں اور بازنطینیوں کو شکست فاش سے دوچار کرتا رہا، ارطغرل غازی نے اپنے زور قوت اور دولت سلجوقیہ کے تفریق و انتشار کے باوجود کبھی خود مختاری کا دعویٰ نہیں کیا جبکہ دوسرے بہت سے ترک امراء نے اپنی خود مختاری کا اعلان کردیا تھا اور ارطغرل اپنے آخری دم تک سلطان سلجوق کا وفادار اور جاگیر دار ہی رہا، ٦٨٧ھ بمطابق ۱۲۸۸ء میں ارطغرل غازی نے نوے سال کی عمر میں وفات پائی،
ارطغرل غازی کی وفات کے بعد ان کا لڑکا عثمان غازی ان کا جانشین ہوا، یہ وہی عثمان ہے جس نے دولت عثمانیہ کی بنیاد رکھی اور دولت عثمانیہ کا پہلا تاجدار ہوا،
عثمان بھی اپنے والد ارطغرل غازی کی طرح سلطنت سلجوقیہ کا وفادار اور جانباز سپہ دار تھا، وہ اپنی فتوحات کے ذریعہ سلطان سلجوق کی شان و شوکت کو ایک حد تک برقرار رکھا، یہ وہ زمانہ تھا جب دولت سلجوقیہ اپنی آخری سانس لے رہی تھی، عثمان غازی نے موقع کو غنیمت جان کر بازنطینی علاقوں کو فتح کرنا شروع کر دیا، اور اپنی پوری توجہ بازنطینی علاقوں کی طرف مبذول رکھی، جن میں سے پہلا معرکہ قراجہ حصار کا پیش آیا، عثمان غازی نے اس قلعہ کو فتح کرکے اپنی جاگیر میں شامل کرلیا، اس فتح کے بعد سلطان علاءالدین سلجوقی نے عثمان غازی کو وہاں پر اپنے نام کا سکہ جاری کرنے اور جمعہ کے خطبہ میں اپنا نام شامل کرنے کا حکم دے دیا، اس طرح عثمان غازی کو بادشاہی کے تمام امتیازات حاصل ہوگئے،
ابھی چند سال بھی گزرے نہ تھے کہ، ٦٩٩ھ بمطابق ۱۳۰۰ء میں منگول تاتاریوں نے ایشیاۓ کوچک پر ایک زبردست حملہ کردیا، جس میں سلطان علاءالدین سلجوقی مارا گیا اور منگول تاتاریوں نے دولت سلجوقیہ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا، اب عثمان غازی بالکل آزاد ہوگیا اور اپنی خود مختاری کا اعلان کر دیا، اس طرح ۱۳۰۰ء میں عثمانیہ سلطنت کی بنیاد پڑی، جب عثمان غازی نے اپنی خود مختاری کا اعلان کیا تو بہت سے سلجوقی امراء عثمان کے دشمن بن گئے، عثمان غازی نے سب کو منہ توڑ جواب دیا،
عثمان غازی کا مقصد زندگی صرف فتوحات حاصل کرنا یا گرد و نواح کے علاقوں کو اپنا مطیع کرنا نہ تھا، بلکہ عثمان غازی نے ابتدا میں اپنی پوری توجہ تمامتر حکومت کے انتظام و استحکام کی طرف مبذول رکھی، اور حکومت کے مختلف شعبہ قائم کیے، اور وزراء و حکام کا تقرر کیا، اور رعایا کے فلاح و بہبود کے انتظامات میں مصروف رہا،
اس کے بعد عثمان غازی یکے بعد دیگرے بازنطینی قلعوں کو فتح کرتا گیا، بالآخر عثمان غازی نے ینی شہر کو فتح کرکے اسے اپنی مملکت کا پایۂ تخت بنا لیا، ۷۰۱ھ بمطابق ۱۳۰۱ء میں عثمان غازی کا نائیکومیڈیا سے متصل قیون حصار کے مقام پر پہلی بار شہنشاہ قسطنطنیہ کی ایک زبردست افواج سے معرکہ پیش آیا، جس میں عثمان غازی کو ایک شاندار فتح حاصل ہوئی اور شہنشاہ قسطنطنیہ کو ایک زبردست ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، اس طرح چھ سال کے اندر عثمان غازی کی فتوحات کا دائرہ بحر اسود کے ساحل تک پہنچ گیا، اس طرح بازنطینی علاقے پے درپے مسخر ہوتے گئے،
اس کے بعد عثمان غازی نے ۷۱۷ھ بمطابق ۱۳۱۷ء میں بازنطینی سلطنت کا ایک نہایت اہم شہر بروصہ جو ایشیاۓ کوچک میں آباد تھا محاصرہ کرلیا، یہ محاصرہ تقریباً دس سال تک جاری رہا، بالآخر ۷۲٦ھ بمطابق ١٣٢٦ء میں محصورین نے اپنے ہتھیار ڈال دیے، عثمان غازی کا بیٹا اورخان غازی اپنی قیادت میں فوج کے ساتھ فاتحانہ طور پر شہر بروصہ میں داخل ہوا، عثمان اس وقت سغوت میں بستر مرگ پر تھا، اورخان غازی یہ خوش خبری لیکر اپنے والد عثمان غازی کے پاس پہونچا، عثمان غازی نے اورخان کی ہمت و شجاعت کی داد دی اور اپنے بعد ان کواپنا جانشین مقرر کیا،پھر اورخان غازی کو وصیت کی کہ اپنے رعایا کے ساتھ یکساں عدل و انصاف قائم رکھے اور بروصہ کو عثمانی مملکت کا پایۂ تخت بنایا جائے چنانچہ عثمان غازی کو بروصہ میں دفن کیا گیا اور اس کو مملکت عثمانی کا پایۂ تخت بنایا گیا، عثمان غازی نے اپنے والد ارطغرل غازی کی جاگیر کو اپنے اڑتیس سالہ دور حکومت میں خوب وسیع کیا، اس کا دائرہ جنوب میں کوتاہیہ اور شمال میں بحر مارمورا اور بحر اسود تک وسیع کردیا،
عثمان غازی کے بعد ان کا بیٹا اورخان غازی تخت نشیں ہوا جس نے سلطنت عثمانیہ کو خوب وسعت دی اور بلندی کے اعلی مقام تک پہونچا دیا۔