والدین کے ساتھ حسن سلوک.. احادیث شریفہ کی روشنی میں
اسلام میں والدین کے ساتھ حسن سلوک بہت زیادہ تاکید آئی ہے،اور اللہ تعالیٰ نے اپنے حقوق کے ساتھ والدین کے حقوق کا تذکرہ فرمایاہے
اَحادیثِ شریفہ میں ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے پر دنیا وآخرت میں سرخ روئی، عمر اور رزق میں برکت اور اُن کی خدمت واِطاعت کرکے اُن کو راضی کرنے پر جنت میں داخلے کا وعدہ کیا گیا ہے۔
والدین کے ساتھ حسن سلوک کا معنی والدین کی اطاعت،ان کے ساتھ صلہ رحمی،ان کی عدم نافرمانی،ان کے ساتھ احسان،اور ساتھ ہی ان کی خواہش کی تکمیل کر کے انہیں خوش کرنا ہے بشرطیکہ گناہ نہ ہو۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے(اور تیرے پروردگار نے حکم دے رکھا ہے کہ بجز اسی ایک رب کے کسی کی پرستش نہ کرنااور ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنا۔سورۃ اسراء)
- حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کی حدیث ہے کہ میں نے سرکار دو عالمﷺ سے پوچھا:کون سا عمل اللہ کو زیادہ محبوب ہے؟فرمایا:وقت پر نماز پڑھنا،میں نے پوچھا پھرکون سا عمل؟فرمایا: والدین کے ساتھ حسن سلوک(بخاری)
- حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺسے دریافت کیا کہ مجھ پر لوگوں میں سے خدمت اور حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق کس کا ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا: تمہاری ماں کا، انہوں نے دریافت کیا کہ پھر کس کا حق ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا: تمہاری ماں کا، انہوں نے دریافت کیا کہ پھر کس کا حق ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا: تمہاری ماں کا، انہوں نے دریافت کیا کہ پھر کس کا حق ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا: تمہار ے باپ کا۔(مسلم)
- ایک حدیث میں ہے کہ تین چیزیں ایسی ہیں،جس میں یہ پائی جائیں، حق تعالی شانہ مرنے کے وقت کو اس پر آسان کر دیتے ہیں اور جنت میں اس کو داخل کر دیتے ہیں: ضعیف پر مہربانی،والدین پر شفقت اور ماتحتوں پر احسان (مشکوۃ)
- حضرت عبد اللہ بن عمرورضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا:رب کی رضا والد کی رضا میں ہے اور رب کی ناراضی والد کی ناراضی میں ہے۔
- حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو اپنے مالک ومولا کو راضی رکھناچاہے وہ اپنے والد کو راضی اور خوش رکھے۔ اللہ کی رضا حاصل ہونے کیلئے والد کی رضا جوئی شرط ہے او ر والد کی ناراضی کا لازمی نتیجہ اللہ کی ناراضی ہے۔ لہٰذا جو کوئی والد کو ناراض کرے گا وہ رضائے الٰہی کی دولت سے محروم رہے گا۔اس حدیث میں والد کا لفظ آیا ہے جو عربی زبان میں باپ ہی کیلئے استعمال ہوتا ہے (ماں کیلئے والدہ کا لفظ بولا جاتا ہے۔ اس بناء پر اس حدیث میں ماں کا ذکر صراحۃً نہیں آیاہے۔لیکن چونکہ دوسری احادیث میں ماں کا درجہ باپ سے بھی بلند اور بالا تر بتایا گیاہے، اس لیے ماں کی خوشی اور ناخوشی کی بھی وہی اہمیت ہو گی اور اس کا بھی وہی درجہ ہوگا جو اس حدیث میں باپ کی رضامندی اور ناراضی کا بتایا گیا ہے۔
- حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں جہاد میں جانا چاہتا ہوں۔ آپ ﷺنے پوچھا: کیا تمہارے ماں باپ زندہ ہیں؟اس نے کہا: جی ہاں! آپ ﷺنے فرمایا:تو پھر ان کی خدمت اور راحت رسانی میں جدوجہد کرو۔ یہی تمہارا جہاد ہے۔ (سنن ابی داؤد)
- ایک اور حدیث میں ہے کہ:تمام گناہوں میں سے اللہ جس گناہ کی سزاکوچاہے گا قیامت تک موخرکردے گا،سوائے والدین کی نافرمانی کے،کہ ایسے شخص کواللہ اس کی موت سے قبل دنیامیں بھی سزادے گا(بخاری،أدب المفرد)
- سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ جو نیک اولاد اپنے ماں باپ کو رحمت کی نظر سے دیکھے تو اللہ تعالیٰ ہر نظرِ رحمت پر اس کے لیے ایک مقبول حج کا ثواب لکھ دیتا ہے۔ یہاں صالح کی قید لگادی کہ نیک ہو، کم از کم فرض، واجب اور سنتِ مؤکدہ ادا کر تا ہو، نافرمانی سے بچتا ہو تو ایسے صالحین اگر اپنے ماں باپ کو نظرِ رحمت سے دیکھ لیں تو ہر نظرِ رحمت پر ایک مقبول حج کا ثواب ملے گا،صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے پوچھا کہ اگر ایک شخص دن میں سو مرتبہ نظر رحمت سے دیکھے، تو کیا تب بھی اتنا ہی ثواب ملے گا؟ یعنی کیا سو حج کا ثواب ملے گا؟ اس پر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے دو لفظ فرمائے کہ(اَللہُ اَکْبَرُ وَ اَطْیَبُ)اللہ تعالیٰ تمہاری نظرِ رحمت سے دیکھنے سے زیادہ شانِ رحمت رکھتے ہیں۔ اَکْبَرُ تو رحمت کے لیے ہوگیا کہ دن میں سو مرتبہ دیکھنے والوں کو سو مرتبہ نفلی حج مقبول کا ثواب دیتے ہیں اور وَاَطْیَبُ فرماکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کردی کہ اللہ تعالیٰ طیب ہے، ہر عیب سے پاک ہے۔ اگر کوئی یہ سوچے کہ اللہ تعالیٰ شاید اتنا ثواب دینے سے تھک جائیں گے یا ان کے خزانے میں کمی آجائے گی تو اللہ تعالیٰ ہر نقص سے پاک ہے، وہ تھکتا نہیں ہے، نہ اس کے خزانے میں کمی آتی ہے، وہ ثواب دینے سے قاصر نہیں ہوتا۔
- حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سرورِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ایک حدیث روایت کی ہے کہ سرورِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ وہ شخص برباد ہو جائے، وہ شخص برباد ہو جائے،وہ شخص برباد ہو جائے۔ تین دفعہ فرمایا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ اے اللہ کے نبی(صلی اللہ علیہ وسلم)!یہ کون شخص ہے؟ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو اپنے ماں باپ دونوں کو یا ایک کو بڑھاپے کی حالت میں پائے، پھر وہ ان کی خدمت کر کے، ان کو خوش کر کے اپنے آپ کو جنت میں داخل نہ کرلے، ایسا شخص ہلاک ہو جائے۔اور اس حدیث کے راوی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عمل دیکھیے کہ جب حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ آٹھ سو شاگردوں کو پڑھانے جاتے تھے تو راستے میں ان کی والدہ کامکان پڑتا تھا۔ یہ اپنی اماں کو سلام کر کے اور ان کی دعا لے کر جایا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اپنی ماں کی خدمت کرے تو جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے والدین کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین