جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتحِ زمانہ
جس صفحۂ ہستی پر ہم اپنی زندگی کی صبح و شام کرتے ہیں ، جس انسانی برادری کے مابین ہم رہتے ہیں اس کے سماجی و معاشرتی تعلقات کی بنیاد معاملات پر قائم ہوتی ہے، محبت و بھائی چارگی کی بناء اچھے اخلاق سے پڑتی ہے الفت و مودت کی کھیتی اعلٰی قدروں سے تیار ہوتی ہے ، بڑوں کے احترام اور چھوٹوں پر شفقت سے حاصل ہوتی ہے ، پڑوسیوں کے ساتھ حُسنِ سلوک سے ، عورتوں کی عزت و ناموس کی حفاظت سے ، استہزاء و تمسخر سے احتراز و اجتناب کرنے سے ، دشمن جاں کو بھی عفو و درگزر کا پروانہ دینے سے ، انسانوں کے مابین مساوات و برابری کو فروغ دینے سے ، دلوں کی دنیا پر جیت کے خیموں کو نصب کیا جاتا ہے۔
قہر و تشدد اور جبر و استبداد کے ذریعے دنیا کو فتح کرنے والے بہت آئے ، لیکن ان کی یہ فتح دیرپا ثابت نہیں ہوئی فتح کا جشن بہت جلد ختم ہوگیا اور دنیا نے ایسے ظالموں و جابر حکمرانوں کو نظروں سے اور دلوں سے اتار دیا ، لیکن دوسری جانب اخلاق و مروت ، ہمدردی و غم خواری اور ایثار و قربانی کے ذریعے جب دلوں کو فتح کیا جاتا ہے تو وہ فتح تاریخی اور حقیقی فتح ہوتی ہے بلکہ یوں کہیے کہ "صحیح معنوں میں یہی لوگ فاتح زمانہ کہلانے کے مستحق ہیں"۔ جب ظلم کا جواب عفو درگزر ، حیوانیت کا جواب انسانیت ، بد دعاؤں اور گالیوں کا جواب ، دعاؤں اور محبتوں سے دیا جائے تو دلوں کو فتح کرنے میں دیر نہیں لگتی۔
اسی لئے ملک کے اور دنیا کے موجودہ حالات میں یہ بات ضروری ہے کہ مسلمان برادرانِ وطن کے سامنے اپنی اخلاقی برتری ثابت کریں اور دلوں کو فتح کرنے کی کوشش کریں۔ ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زر و زمین کو فتح کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ دلوں کو جیتا اور دماغوں کو فتح کیا ، ہمارے لیے بھی مشکلات سے نکلنے کا یہی راستہ ہے۔ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے "لا يجزي السيئة بالسيئة" یعنی برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیا اسلیے کہ اگر سورج کی چلچلاتی ہوئی دھوپ انسان کو بے چین کر رہی ہو تو اس وقت کوئی بھی عقل مند انسان ہیٹر نہیں چلا سکتا ، وہ اے - سی اور ایئر کولر ہی میں اپنے لیے سکون تلاش کرے گا ، اگر کہیں آگ لگ گئی ہو تو اس کو بجھانے کے لیے مزید آگ کے انگارے نہیں پھینکے جاتے بلکہ اس آگ پر پانی ڈالا جاتا ہے ، اسی طرح اگر ماحول میں ہر طرف نفرت کی آگ سلگا دی گئی ہو تو اسے محبت کے شبنم ہی سے بجھانا پڑے گا ، اگر نفرت کا جواب نفرت سے دیا جائے تو نفرت بڑھتی جائے گی۔ موجودہ حالات میں امت کے لئے اس نکتہ کو سمجھنے کی ضرورت ہے اسی کی طرف اللہ تعالی نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا "إدفع بالتي هي أحسن فإذا الذي بينك وبينه عداوة كأنه ولي حميم" کہ اگر برے سلوک کا جواب اچھے سلوک سے دو گے تو دشمنی گہری دوستی میں تبدیل ہو جائے گی۔
آج اگر ہم برادران وطن کے ساتھ اپنے معاملات کو درست کر لیں اور اپنے اخلاقی رویہ کو اسوۂ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ڈھانچے میں ڈھال لیں تو یقیناً نا امیدی و نامرادی کی اس رات کی صبح ضرور ہوگی۔