انسان کے اچھے برے اعمال پر کون کون گواہ ہے؟
انسانی اعمال کے بارے میں مختلف گواہیاں
مقدمہ: اللہ تعالی انسان کو عبث اور فضول پیدا نہیں کیا، بلکہ اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے،اور اس انسان کے اچھے برے اعمال کی نگرانی کی جاتی ہے تاکہ یہ انسان محتاط ہو کر اپنی زندگی گزارے، اس لئے یہاں ترتیب کے ساتھ انسانوں کے اعمال پر شہادتوں کو ذکر کیا جائے گا، تاکہ ہمیں معلوم ہو کہ ہمارا عمال ریکارڈ ہو رہا ہے اور کل قیامت کو ہم نے اس کا جواب دینا ہے۔
پہلا گواہ: ربـ العالمین
سب سے پہلا گواہ تو خود رب العالمین ہیں،جو انسانوں کو ہر وقت دیکھ رہے ہیں، قرآن مقد س میں ہے، {إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدًا (33) } [النساء: 33]
یقینا اللہ تعالی ہر چیز پر گواہ ہیں۔
{وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنْتُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (4)} [الحديد: 4]
يعنی وہ تمہارے ساتھ ہیں تم جہاں بھی ہو،اور اللہ تعالی تمہارے کو اعمال کو دیکھ رہے ہیں۔
{وَلَا تَعْمَلُونَ مِنْ عَمَلٍ إِلَّا كُنَّا عَلَيْكُمْ شُهُودًا إِذْ تُفِيضُونَ فِيهِ وَمَا يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقَالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ وَلَا أَصْغَرَ مِنْ ذَلِكَ وَلَا أَكْبَرَ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُبِينٍ (61) } [يونس: 61]
( اے لوگو) تم جو کام بھی کرتے ہو، تو جس وقت تم اس کام میں مشغول ہوتے ہو ہم تمہیں دیکھتے رہتے ہیں اور تمہارے رب سے کوئی ذرہ برابر چیز بھی پوشیدہ نہیں ہے، نہ زمین میں نہ آسمان میں، نہ اس سے چھوٹی، نہ بڑی، مگر وہ ایک واضح کتاب میں درج ہے۔
اسی وجہ سے فرمایا کہ کہ: ، {وَلَا يُسْأَلُ عَنْ ذُنُوبِهِمُ الْمُجْرِمُونَ (78)} [القصص: 78]
يعنی مجرموں سے ان گناہوں کے متعلق نہیں پوچھا جائے گا ۔
کیونکہ رب تعالی کو خود ہی ساری چیزوں کا علم ہے۔
دوسرا گواہ:انسان کے اعضاء کی گواہی
انسان یہ یاد رکھ لے کہ جن اعضاء کی لذت کے لئے انسان گناہ کر کے اپنے رب کو ناراض کر رہا ہے کل روز محشر یہی اعضاء اس انسان کے خلاف گواہی دیں ہے۔
انسان کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اس کے ہاتھ اور پاؤں گواہی دیں گے۔
{ الْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلَى أَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَا أَيْدِيهِمْ وَتَشْهَدُ أَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ (65)} [يس: 65]
آج کے دن ہم ان کے منہ پر مہر لگادیں گے، اور ان کے ہاتھ ہم سے بات کریں گے، اور ان کے پاؤں گواہی دیں گے کہ وہ کیا کمائی کیا کرتے تھے۔
{يَوْمَ تَشْهَدُ عَلَيْهِمْ أَلْسِنَتُهُمْ وَأَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (24)} [النور: 24]
جس دن ان پر ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ پاؤں گواہی دیں گے جو کچھ وہ کیا کرتے تھے۔
اور سورہ فصلت میں ہے کہ انسان کی پوری جلد گواہی دے گی:
{ شَهِدَ عَلَيْهِمْ سَمْعُهُمْ وَأَبْصَارُهُمْ وَجُلُودُهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (20) } {وَقَالُوا لِجُلُودِهِمْ لِمَ شَهِدْتُمْ عَلَيْنَا قَالُوا أَنْطَقَنَا اللَّهُ الَّذِي أَنْطَقَ كُلَّ شَيْءٍ وَهُوَ خَلَقَكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (21) وَمَا كُنْتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَنْ يَشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلَا أَبْصَارُكُمْ وَلَا جُلُودُكُمْ وَلَكِنْ ظَنَنْتُمْ أَنَّ اللَّهَ لَا يَعْلَمُ كَثِيرًا مِمَّا تَعْمَلُونَ (22)} [فصلت: 20،21،22]
یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس آپہنچیں گے تو ان پر ان کے کان اور ان کی آنکھیں اور ان کی کھالیں گواہی دیں گی جو کچھ وہ کیا کرتے تھے، وہ اپنی کھالوں سے کہیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف کیوں گواہی دی وہ کہیں گے کہ ہمیں اللہ نے گویائی دی جس نے ہر چیز کو گویائی بخشی ہے اور اسی نے پہلی مرتبہ تمہیں پیدا کیا اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے، اور تم اپنے کانوں اور آنکھوں اور چمڑوں کی اپنے اوپر گواہی دینے سے پردہ نہ کرتے تھے لیکن تم نے یہ گمان کیا تھا جو کچھ تم کرتے ہو اس میں سے بہت سی چیزوں کو اللہ نہیں جانتا۔
اور احادیث میں بھی اس کی وضاحت اور تفصیل موجود ہے۔
اور حضرت انس کہتے ہیں کہ ( ایک دن) ہم رسول کریم ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ ﷺ یکایک ہنسنے لگے اور پھر فرمایا کیا تم جانتے ہو میں کیوں، ہنس رہا ہوں؟ حضرت انس کہتے ہیں کہ ہم نے کہا اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا میں ( قیامت کے دن) بندہ اور اللہ کے درمیان منہ در منہ گفتگو ہونے کا خیال کرکے) ہنس رہا ہوں! ( اس دن) بندہ کہے گا کہ اے پروردگار کیا تو نے مجھ کو ظلم سے پناہ نہیں دی ہے؟ ( یعنی کیا تو نے نہیں فرمایا کہ میں اپنے بندوں پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا) آنحضرت ﷺ نے فرمایا ( یہ سن کر) اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ ہاں تجھ کو ( میں نے پناہ دی ہے اور میں یقینا بندوں پر ظلم نہیں کرتا) تب بندہ کہے گا کہ اگر تو نے مجھ کو ظلم سے پناہ دی ہے تو) میں اپنے متعلق اس کے علاوہ اور کچھ نہیں چاہتا کہ میرے بارے میں گواہی دینے والا مجھ ہی میں سے ہو آنحضرت ﷺ نے فرمایا ( بندے کی یہ بات سن کر) اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ ( مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے) آج کے دن تیرے بارے میں خود تیری ذات کی گواہی دیں گے آنحضرت ﷺ نے فرمایا پھر بندے کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی ( یعنی اس کی قوت گویائی کو معطل کردیا جائے گا) اور اس کے بعد اس کے تمام اعضاء وجسم کو حکم دیا جائے گا کہ بولو، چناچہ اس کے جسم کے اعضاء اس کے (ان) اعمال کو بیان کریں گے جو اس نے ان اعظاء کے ذریعہ کئے تھے پھر اس بندے اور اس کی گویائی کے درمیان سے ( پردہ) اٹھا دیا جائے گا ( یعنی اس کے منہ کو جو مہر لگائی گئی تھی اس کو توڑ دیا جائے گا اور اس کی قوت گویائی بحال ہوجائے گی جس سے وہ پہلے کی طرح باتیں کرنے لگے گا) آنحضرت ﷺ نے فرمایا بندہ ( یہ صورت حال دیکھ کر اپنے اعضاء جسم سے) کہے گا کہ دور ہو بدبختو اور ہلاک ہو، میں تو تمہاری ہی طرف سے اور تمہاری ہی نجات کے لئے لڑ جھگڑ رہا تھا۔ ( مسلم )
تشریح:
میرے بارے میں گواہی دینے والا مجھ ہی میں سے ہو یعنی مجھے یہ گوارہ نہیں ہے کہ میرے اعمال و کردار اور میری دنیاوی زندگی کے بارے میں گواہی دینے والا کوئی دوسرا ہو، میں تو صرف اس گواہ کو تسلیم کروں گا جو میری ذات کے اندر سے پیدا ہوگو یا بندہ تو یہ خیال کرے گا کہ میری ذات کے اندر سے گواہی دینے والا کون ہوسکتا ہے کیونکہ کوئی ذات خود اپنے کو ضرر و نقصان پہنچانے کے لئے گواہی نہیں دیا کرتی، لیکن اس کو یہ خیال نہیں آئے گا کہ اللہ تعالیٰ اس پر بھی پوری طرح سے قادر ہے کہ وہ اس بندے کی ذات میں سے ایسا گواہ پیدا کردے جو اس کے خلاف گواہی دے اور اس کو اللہ کے حکم کے خلاف انکار کی مجال اور دم مارنے کی گنجائش نہ ہو! پس آنحضرت ﷺ کے ہنسنے کا سبب یہی تھا کہ حق تعالیٰ کے سامنے بندہ کا اس طرح کلام کرنا کہ خود اپنے جال میں پھنس جائے اس کی کس درجہ کی مضحکہ خیز حرکت ہوگی۔ یا یہ کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندہ کے منہ کو مہر لگانا ان اعضاء جسم کا اعمال کے بارے میں گواہی دینا جن کے ذریعہ بندے نے وہ عمل کئے ہوں گے اور پھر اس بندے کا اپنی نادانی پر جھنجھلاہٹ کی وجہ سے اپنے ان اعضاء جسم کو برا بھلا کہنا اور ان کو بددعا دینا جیسے عجیب و غریب امور کا خیال کرکے آپ ﷺ ہنسے۔ خود بندے کی درخواست اور خواہش کے مطابق خود اسی کے اعضاء جسم کو اس کے بارے میں گواہ بنانے کے بعد پھر نامہ اعمال لکھنے والے فرشتوں کو بھی گواہ بنانا مقصود سے زائد بات اور اس کا سبب یہ ہوگا کہ اعضاء جسم جو گواہی دیں گے اس کی تصدیق و توثیق ہوجائے اور بندے کو یہ کہنے کی گنجائش نہ رہے کہ یہ اعضاء جسم درست گواہی نہیں دے رہے ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ صرف فرشتوں کو گواہ بنائے گا تو یہ بات اس قرارداد کے خلاف ہوگی جو اس کے اور بندے کے درمیان طے پائی گی حاصل یہ کہ اصل گواہ تو بندے کے اعضاء جسم ہی ہوں گے جن کو خود بندے کی غرض و خواہش کے مطابق گواہ بنایا جائے گا اور ان اعضاء جسم کی گواہی ثابت کرنے کے لئے نامہ اعمال لکھنے والے فرشتوں کو بطور زائد گواہ پیش کیا جائے گا، لہذا یہ اعتراض پیدا نہیں ہونا چاہیے کہ جب اللہ تعالیٰ بندے کی غرض و خواہش کو مان کر اس کی ذات کے اندر سے، یعنی اسی کے اعضاء جسم کو گواہ بنائے گا تو فرشتوں کو گواہ بنانے کی کیا ضررت ہوگی۔ دور ہٹو بدبختو اور ہلاک ہو الخ یعنی جب وہ بندہ دیکھے گا کہ یہ میرے اعضاء جسم تو میرے ہی خلاف گواہی دے رہے ہیں، ادھر ان اعضاء جسم کا اس کے خلاف گواہ بننا خود اس کی درخواست و خواہش کے مطابق ہوگا، تو وہ اس صورت حال سے جھنجلا جائے گا اور اپنے اعضاء جسم کو برا بھلا کہنے لگے گا کہ کمبختو، میں تمہاری ہی طرف سے لڑجھگڑ رہا تھا تاکہ تمہیں اعمال بد کی سزا نہ بھگتنی پڑے، لیکن اپنے خلاف خود تم ہی گواہی دے رہے ہو اور اپنے آپ کو عذاب و ہلاکت میں ڈال رہے ہو یا یہ کہ میں دنیا میں تمہاری ہی وجہ سے بندوں سے لڑتا جھگڑتا تھا، تمہیں نقصان وضرر سے بچانے کے لئے دوسروں کو نقصان پہنچایا کرتا تھا، تمہاری راحت اور تمہارے کام کی وجہ سے فلاں فلاں پر عمل کیا کرتا تھا، ہر وقت تمہاری ہی حفاظت اور تمہاری ہی مدد میں لگا رہتا تھا اور تمہیں ہی اپنا دوست وغم خوار مانتا تھا مگر آخر کو تم ہی میرے دشمن اور میرے بدخواہ نکلے اور مجھے عذاب خداوندی کے حوالہ کئے جانے کا سبب بنے! حدیث میں ان اعضاء جسم کا وہ جواب ذکر نہیں کیا گیا ہے جو وہ آخر میں بندے کی یہ بات سن کردیں گے، لیکن قرآن کی ایک آیت میں ان کے اس جواب کی طرف یوں اشارہ کیا گیا ہے۔ (وَقَالُوْا لِجُلُوْدِهِمْ لِمَ شَهِدْتُّمْ عَلَيْنَا قَالُوْ ا اَنْطَقَنَا اللّٰهُ الَّذِيْ اَنْ طَقَ كُلَّ شَيْءٍ وَّهُوَ خَلَقَكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّاِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ ) (41۔ فصلت 21) اور وہ اپنی جلدوں سے ( یعنی اپنے اعضاء جسم سے) کہیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف کیوں گواہی دی؟ تو وہ جلدیں کہیں گی کہ ہمیں اس اللہ نے بلایا ہے جس نے ہر ایک کو بلایا ہے اور اس نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا اور اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔
انسان کی ران گوشت اور ہڈیاں گواہی دیں گی:
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ صحابہ کرام نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! کیا ہم قیامت کے دن اپنے رب کو دیکھیں گے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :‘ کیا دوپہر کے وقت جب بادل نہ ہوں تو کیا سورج کو دیکھنے سے تمہیں کوئی تکلیف ہوتی ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا نہیں ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے ! تم کو اپنے رب کو دیکھنے سے صرف اتنی تکلیف ہوگی جتنی تم کو سورج یا چاند کے دیکھنے سے تکلیف ہوتی ہے ‘ پھر اللہ تعالیٰ بندہ سے ملاقات کرے گا اور اس سے فرمائے گا : اے فلاں ! کیا میں نے تجھ کو عزت اور سرداری نہیں دی تھی ! کیا میں نے تجھ کو زوجہ نہیں دی تھی ! اور کیا میں نے تیرے لئے گھوڑے اور اونٹ مسخر نہیں کئے تھے ! اور کیا میں نے تجھ کو ریاست اور خوشحال زندگی میں نہیں چھوڑا ہوا تھا ‘ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ‘ کیا تو یہ گمان کرتا تھا کہ تو مجھ سے ملنے والا ہے ؟ وہ کہے گا نہیں ! اللہ تعالیٰ فرمائے گا : میں نے بھی تجھ کو اسی طرح بھلا دیا ہے جس طرح تو نے مجھ کو بھلا دیا تھا ! پھر اللہ تعالیٰ دوسرے بندہ سے ملاقات کرے گا اور فرمائے گا : کیا میں نے تجھ کو عزت اور سیادت نہیں دی تھی ! کیا میں نے تجھ کو زوجہ نہیں دی تھی ! کیا میں نے تیرے لئے گھوڑے اور اونٹ مسخر نہیں کئے تھے ! اور کیا میں نے تجھ کو ریاست اور خوشحال زندگی میں نہیں چھوڑا تھا۔ وہ شخص کہے گا کیوں نہیں ! اے میرے رب ! اللہ تعالیٰ فرمائے گا ‘ کیا تیرا یہ گمان تھا کہ تو مجھ سے ملنے والا ہے ؟ وہ کہے گا : نہیں ! اللہ تعالیٰ فرمائے گا ‘ وہ بندہ کہے گا : اے میرے رب ! میں تجھ پر ‘ تیری کتاب پر اور تیرے رسولوں پر ایمان لایا۔ میں نے نماز پڑھی۔ روزہ رکھا اور صدقہ دیا اور اپنی استطاعت کے مطابق اپنی نیکیاں بیان کرے گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : ابھی پتا چل جائے گا ‘ پھر اس سے کہا جائے گا ہم ابھی تیرے خلاف اپنے گواہ بھیجتے ہیں ! وہ بندہ اپنے دل میں سوچے گا کہ میرے خلاف کون گواہی دے گا ! پھر اس کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور اس کی ران ‘ اس کے گوشت اور اس کی ہڈیوں سے کہا جائے گا تم بتائو ! پھر اس کی ران ‘ اس کا گوشت اور اس کی ہڈیاں اس کے اعمال کو بیان کریں گے اور یہ معاملہ اس وجہ سے کیا جائے گا کہ خود اس کی ذات سے اس کے خلاف حجت قائم ہو اور جس شخص کا ذکر کیا گیا ہے یہ وہ منافق ہوگا جس سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوگا۔
(صحیح مسلم رقم الحدیث : ٨٦٩٢‘ سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٠٣٧٥‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٨٢٤٢ )
جو عضو سب سے پہلے کلام کرے گا وہ اس کی بائیں ران اور اس کی ہتھیلی ہوگی:
حکیم بن معاویہ اپنے والد (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم قیامت کے دن اس حال میں آئو گے کہ تمہارے مونہوں پر پٹی باندھی ہوئی ہوگی اور کسی آدمی کا جو عضو سب سے پہلے کلام کرے گا وہ اس کی بائیں ران اور اس کی ہتھیلی ہوگی۔ (مسند احمد ج ٤ ص ٣ قدیم ‘ مسند احمد رقم الحدیث : ٩٠٩٩١‘ دارالحدیث قاہرہ)
انسان جب شہوانی گناہ سے لذت حاصل کرتا ہے تو جو عضو سب سے پہلے اور سب سے زیادہ لذت حاصل کرتا ہے وہ اس کی ران ہوتی ہے اور بائیں عضو کی اس لئے تخصیص کی گئی ہے کیونکہ بائیں ران کی شہوت دائیں ران کی بہ نسبت زیادہ قوی ہوتی ہے۔ (النکت والعیون ج ٥ ص ٨٢۔ ٧٢‘ دارالکتب العلمیہ بیروت)
نیک اعمال کی بذریعہ اعضاء گواہی :
حضرت یسیرہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ ہم سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم تسبیح اور تہلیل اور تقدیس پڑھنے کو لازم کرلو اور پوروں (انگلیوں کے سروں) سے ان کا شمار کیا کرو ‘ کیونکہ ان سے سوال کیا جائے گا اور ان سے کلام طلب کیا جائے گا اور تم (ان کو پڑھنے سے) غافل نہ ہو اور اللہ کی رحمت کو بھول نہ جانا۔
(سنن الترمذی رقم الحدیث ٣٨٥٣)
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انگلیوں کے سروں سے تسبیحات کو شمار کرنے کا حکم دیا تاکہ انہوں نے ان سے جو گناہ کئے ہیں وہ ساقط ہوجائیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ خواتین گنتی اور شمار کو جانتی تھیں۔ تسبیح کا معنی ہے سبحان اللہ پڑھنا اور تہلیل کا معنی ہے لا الہ الا اللہ پڑھنا ‘ اور تقدیس کا معنی ہے سبحان الملک القدوس یا سبح قدوس رب الملاء کۃ و الروح پڑھنا۔ آپ نے فرمایا : ان سے سوال کیا جائے گا ‘ یعنی قیامت کے دن ان سے سوال کیا جائے گا کہ تم نے ان انگلیوں سے کیا کام لیا تھا اور آپ نے فرمایا ان سے کلام طلب کیا جائے گا ‘ یعنی یہ انگلیاں قیامت کے دن اپنے صاحب کے موافق یا مخالف گواہی دیں گی۔
تیسرا گواہ: انسان کا نامہ اعمال اور کراما کاتبین(اعمال لکھنے والے فرشتے)
{إِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيَانِ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيدٌ (17) مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ (18) } [ق: 17 - 19]
اس وقت بھی جب (اعمال کو) لکھنے والے دو فرشتے لکھ رہے ہوتے ہیں۔ ایک دائیں جانب اور دوسرا بائیں جانب بیٹھا ہوتا ہے۔
یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کے تمام اچھے برے کاموں کو ریکارڈ کرنے کے لئے دو فرشتے مقرر فرمارکھے ہیں جوہر وقت اسکے دائیں اور بائیں موجود ہوتے ہیں، لیکن یہ انتظام صرف اس لئے کیا گیا ہے تاکہ انسان کے اعمال نامے کو قیامت کے دن خود اس کے سامنے حجت کے طور پر پیش کیا جاسکے، ورنہ اللہ تعالیٰ کو انسان کے اعمال جاننے کے لئے کسی اور کی مدد کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ وہ ہر انسان کے دل میں پیدا ہونے والے خیالات تک سے خوب واقف ہے، اور انسان کی شہہ رگ سے بھی زیادہ اس سے قریب ہیں۔ الترجمۃ مبنیۃ علی ان ” اذ “ ظرف لہ ” اقرب “ کما فی روح المعانی(ترجمہ قرآن مفتی تقی عثمانی)
{وَإِنَّ عَلَيْكُمْ لَحَافِظِينَ (10) كِرَامًا كَاتِبِينَ (11) يَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ (12)} [الانفطار: 10 - 12]
حالانکہ تم پر کچھ نگراں (فرشتے) مقرر ہیں۔ وہ معزز لکھنے والے۔ جو تمہارے سارے کاموں کو جانتے ہیں۔
یعنی اس سے مراد فرشتے ہیں جو انسان کے سارے اعمال کو لکھتے رہتے ہیں، اور اسی سے اس کا اعمال نامہ تیار ہوتا ہے۔
{وَلَدَيْنَا كِتَابٌ يَنْطِقُ بِالْحَقِّ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ (62)} [المؤمنون: 62]
اور ہمارے پاس ایک کتاب ہے جو (سب کا حال) ٹھیک ٹھیک بول دے گی، اور ان پر کوئی ظلم نہیں ہوگا۔
{وَكُلَّ إِنْسَانٍ أَلْزَمْنَاهُ طَائِرَهُ فِي عُنُقِهِ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كِتَابًا يَلْقَاهُ مَنْشُورًا (13) اقْرَأْ كِتَابَكَ كَفَى بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيبًا (14)} [الإسراء: 13، 14]
اور ہر شخص (کے عمل) کا انجام ہم نے اس کے اپنے گلے سے چمٹا دیا ہے۔ اور قیامت کے دن ہم (اس کا) اعمال نامہ ایک تحریر کی شکل میں نکال کر اس کے سامنے کردیں گے جسے وہ کھلا ہوا دیکھے گا۔ (کہا جائے گا کہ) لو پڑھ لو اپنا اعمال نامہ ! آج تم خود اپنا حساب لینے کے لیے کافی ہو۔
یعنی انجام کو گلے سے چمٹانے کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص کے تمام اعمال ہر لمحے لکھے جارہے ہیں جو اسکے اچھے یا برے انجام کی نشان دہی کرتے ہیں، اور جب قیامت آئے گی تو یہ سارا اعمال نامہ اسکے سامنے کھول کر رکھ دیا جائے گا جسے وہ خود پڑھ سکے گا، حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ جو شخص دنیا میں ان پڑھ تھا قیامت کے دن اسے بھی اپنا اعمال نامہ پڑھنے کی صلاحیت دے دی جائے گی۔
{وَوُضِعَ الْكِتَابُ فَتَرَى الْمُجْرِمِينَ مُشْفِقِينَ مِمَّا فِيهِ وَيَقُولُونَ يَاوَيْلَتَنَا مَالِ هَذَا الْكِتَابِ لَا يُغَادِرُ صَغِيرَةً وَلَا كَبِيرَةً إِلَّا أَحْصَاهَا وَوَجَدُوا مَا عَمِلُوا حَاضِرًا وَلَا يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَدًا (49) } [الكهف: 49، 50]
اور (اعمال کی) کتاب سامنے رکھ دی جائے گی۔ چناچہ تم مجرموں کو دیکھو گے کہ وہ اس کے مندرجات سے خوف زدہ ہیں، اور کہہ رہے ہیں کہ : ہائے ہماری بربادی ! یہ کیسی کتاب ہے جس نے ہمارا کوئی چھوٹا بڑا عمل ایسا نہیں چھوڑا جس کا پورا احاطہ نہ کرلیا ہو۔ اور وہ اپنا سارا کیا دھرا اپنے سامنے موجود پائیں گے۔ اور تمہارا پروردگار کسی پر کوئی ظلم نہیں کرے گا۔
تفسیر:
یعنی جب دربار خداوندی میں حاضری ہوجائے گی اور وہاں حساب ہوگا اور پیشی ہوگی تو اگرچہ اللہ تعالیٰ کو حجت قائم کیے بغیر بھی سزا دینے کا اختیار ہے لیکن وہ حجت قائم کرکے سزا دے گا یہ حجت اعمال ناموں کے ذریعہ بھی اور انسانوں کے اعضاء کی گواہی سے بھی قائم ہوگی اور بعض دوسری چیزیں بھی گواہی دیں گی، اعمال نامے پیش ہوں گے، ہر شخص کا اعمال نامہ کھلا ہوگا جو اس کے ہاتھ میں دے دیا جائے گا۔ اچھے لوگوں کا اعمالنامہ داہنے ہاتھ میں اور برے لوگوں کے اعمال نامے پشت کے پیچھے سے بائیں ہاتھ میں دئیے جائیں گے۔
اپنے اپنے اعمال نامے دیکھیں گے ان میں ہر چھوٹا بڑا عمل لکھا ہوگا نافرمان اسے دیکھ کر ڈریں گے اور یوں کہیں گے کہ کاش یہ اعمال نامہ ہمارے سامنے نہ آتا جیسا کہ سورة الحاقہ میں فرمایا (وَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ کِتَابه بِشِمَالِه فَیَقُوْلُ یَالَیْتَنِیْ لَمْ اُوْتَ کِتَابِیَه وَلَمْ اَدْرِ مَا حِسَابِیَه ) (اور جس کے بائیں ہاتھ میں اعمال نامہ دیا گیا وہ کہے گا کہ ہائے کاش میرا اعمال نامہ مجھے نہ دیا جاتا اور مجھے پتہ نہ چلتا کہ میرا کیا حساب ہے۔ )(انوار البیان)
چوتھا گواہ:زمین کاحصہ جہاں اچھا یا برا عمل کیا :
وہ زمین کا ٹکڑا یہ گواہی دے گا اے اللہ پاک یہ بندہ مجھ پر اکڑ کر چلتا تھا غرور اور تکبر کیساتھ اپنی گردن اونچی کر کے مہرے اوپر چلتا تھا حالانکہ تکبر تو اللہ پاک کی چادر ہے باقی مخلوق میں اگر ذرا برابر بھی تکبر ا گیا تو ارشاد ہے کہ اسکو جنت کی خوشبو تک نصیب نہیں ہوگی۔ اس کے علاوہ انسان زمین کے جس جس حصے پر گناہ کرتا ہے وہی حصہ قیامت والے دن بولے گا کہ الہیٰ اس نے میرے اوپر گناہ کیے ۔ ہر زمین کا حصہ بولے گا گواہی دے گا چاہے آپ نے نیکی کی ہو اس خطے کے اوپر یا برائی۔
{يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَهَا (4)} [الزلزلة: 4]
اس دن زمین اپنی ساری خبریں بتا دے گی۔
یعنی زمین پر کسی نے جو اچھے یا برے عمل کئے ہوں گے زمین ان کی گواہی دے گی۔
عَنْ عَطَاءِ بْنٍ أَبِي مُسْلِمٍ الْخُرَاسَانِيِّ، قَالَ: «مَا مِنْ عَبْدٍ يَسْجُدُ لِلَّهِ سَجْدَةً، فِي بُقْعَةٍ مِنْ بِقَاعِ الْأَرْضِ، إِلَّا شَهِدَتْ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَبَكَتْ عَلَيْهِ يَوْمَ يَمُوتُ» السنن الكبرى للنسائي (10/ 407 برقم 11861)
کوئی شخص اپنی پیشا نی کو زمین کے کسی حصہ پر نہیں رکھتا ہے، مگر یہ کہ وہ حصہ قیامت کے دن اس کی گواہی دے گا اور اور اس پر روئے گی جس دن وہ مرے گا۔
بعض بزرگ یہ کو شش کرتے تھے کہ مسجد کی مختلف جگہوں پر نماز پڑھیں اور ہمیشہ ایک ہی جگہ پر نماز نہیں پڑھتے تھے، یا اگر کسی گھر یا کسی دوسری جگہ داخل ہوتے تھے، پہلے دو رکعت نماز پڑہتے تھے تاکہ قیامت کے دن اپنے لئے زیادہ سے زیادہ گواہ بنائیں۔ یہ بذات خود ایک ہوشیاری ہے جو مؤمن کے لئے مفید و مطلوب ہے۔
زمین کھلے طور پر صاف صاف گواہی دے گی کہ فلاں فلاں شخص نے فلاں فلاں زیادتی اس شخص پر کی ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا جانتے بھی ہو کہ زمین کی بیان کردہ خبریں کیا ہوں گی لوگوں نے کہا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ہی کو علم ہے تو آپ نے فرمایا جو جو اعمال بنی آدم نے زمین پر کیے ہیں وہ تمام وہ ظاہر کر دے گی کہ فلاں فلاں شخص نے فلاں نیکی یا بدی فلاں جگہ فلاں وقت کی ہے۔ امام ترمذی اس حدیث کو حسن صحیح غریب بتلاتے ہیں معجم طبرانی میں ہے کہ آپ نے فرمایا زمین سے بچو یہ تمہاری ماں ہے جو شخص جو نیکی بدی اس پر کرتا ہے یہ سب کھول کھول کر بیان کر دے گی۔(ابن کثیر)
حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت پڑھی اور فرمایا : کیا تم کو معلوم ہے کہ زمین کی خبریں کیا ہوں گی ؟ صحابہ (رض) نے عرض کیا : اللہ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی بخوبی واقف ہیں۔ فرمایا : زمین کی خبریں یہ ہوں گی کہ جس بندے اور بندی نے زمین کے اوپر جو کچھ کیا ہوگا زمین اس پر شہادت دے گی اور کہے گی : فلاں شخص نے ایسا ایسا کیا تھا اور یہی زمین کی اطلاع ہوگی۔ (رواہ احمد والنسائی و ابن حبان و البیہقی) ترمذی نے نقل کرنے کے بعد اس کو صحیح کہا ہے۔(مظہری)
حضرت علی کے بارے میں ابن مردویہ کا بیان ہے کہ جب آپ بیت المال کا سب روپیہ اہلِ حقوق میں تقسیم کر کے اسے خالی کر دیتے تو بیت المال کی زمین پر کھڑے ہو کر دو رکعت نماز پڑھتے اور پھر فرماتے۔ تجھے گواہی دینی ہوگی کہ میں نے تجھ کو حق کے ساتھ بھرا اور حق کے ساتھ خالی کیا۔
خلاصہ: یہ ہے کہ ہمیں ہر ہر عمل کو سوچ سمجھ کر کرنا ہوگا کہ میرے عمل کے نگران یہ تمام گواہ ہیں۔