شاتم ِرسول صلی الله علیہ وسلم کی سزا اور اخلاق نبوی صلی الله علیہ وسلم
اَخلا ق حسنہ سے آراستہ ہونے کا حکم
اللہ تبارک وتعالی نے حضرت ِانسان کو جہاں اپنی ذات عالی پر ایمان لانے ،اپنے نبیوں و رسولوں خاص کر، امام الانبیاوالمرسلین اور خاتم النبیین حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کی تصدیق واطاعت کا حکم دیا ہے، وہاں پر ابنِ آدم کو اس بات کا بھی مکلَّف بنایا ہے کہ وہ خود کو اَخلاق ِحسنہ سے آراستہ کرے اوراَخلاق ِذمیمہ وسئیہ سے اپنے نفس کو پاک رکھے۔
اَخلاق ِحسنہ حضور صلی الله علیہ وسلم کی صفات میں سے ہے
اچھے اَخلاق سید المرسلین حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی صفات ِمبارکہ میں سے ہیں، چناں چہ امام غزالی رحمہ اللہ اسی حوالے سے اپنی شہرہ آفاق کتاب(احیاء علوم الدین)میں فرماتے ہیں:
”فالخلق الحسن صفة سیدالمرسلین وأفضل أعمال الصدیقین وہو علی التحقیق شطر الدین وثمرة مجاہدة المتقین وریاضة المتعبدین“․
ترجمہ:”اچھے اخلاق سید المرسلین صلی الله علیہ وسلم کی صفت اور صدیقین کے اعمال میں سے افضل عمل ہے اور وہ (اَخلاقِ حسنہ) نصفِ دین ہے اور نیک لوگوں اور عبادت گذاروں کے مجاہدے کا ثمرہ ہے“۔
اَخلاق ِحسنہ کے نصف ِدین ہونے کا مطلب
اَخلاق ِحسنہ کے نصف ِدین ہونے کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ زَبیدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اچھے اخلاق کا نصفِ دین ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اچھے اخلاق سے دل کو طہارت و پاکیزگی حاصل ہوتی ہے،جب دل طاہر و پاکیزہ ہو جاتا ہے تو نورانیت میں بڑھو تری ہوجاتی ہے، جس کے نتیجے میں شرح صدر ہوجاتا ہے،یہی انشراح قلب دینی احکام کے اسرار کو سمجھنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے،تو اخلاق حسنہ اس اعتبار سے نصفِ دین ہیں۔(اتحاف السادة المتقین)
اخلاق نبوی صلی الله علیہ وسلم
حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے اخلاق کریمانہ کو بیان کرتے ہوئے اللہ رب العزت قرآن مجید میں فرماتے ہیں: ﴿و انک لعلی خلق عظیم﴾
(ترجمہ):”اور بے شک آپ اخلاق(حسنہ)کے اعلی پیمانے پر ہیں“۔
حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ”معارف القرآن“ میں اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا خلق خود قرآن ہے، یعنی قرآن کریم جن اعلی اعمال و اخلاق کی تعلیم دیتا ہے آپ ان سب کا عملی نمونہ ہیں۔
مکارم اخلاق کی تکمیل بعثت نبوی صلی الله علیہ وسلم کا مقصد
رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی بعثت کے مقاصد میں سے ایک مقصد مکارم اخلاق کی تکمیل بھی ہے ،چناں چہ حضرت ابوہریرةرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”بعثت لاتمم مکارم الاخلاق“․
یعنی مجھے اس کام کے لیے بھیجا گیا ہے کہ میں اعلی اخلاق کی تکمیل کروں۔
حضورصلی الله علیہ وسلم کے اخلاق احادیث کی روشنی میں
کتب حدیث میں سینکڑوں احادیث حضور صلی الله علیہ وسلم کے اخلاق سے متعلق مروی ہیں،یہاں ہم نمونہ کے طور پر چند کا تذکرہ کرتے ہیں:
بخاری شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو نہ فحش گوئی کی عادت تھی اور نہ ہی آپ قصدا فحش گوئی کرتے تھے ۔ترمذی شریف کی روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نہ فحش گو تھے ،نہ فحش کے پاس جاتے تھے ،نہ بازاروں میں شور و شغب کرتے تھے ،برائی کا بدلہ کبھی برائی سے نہیں دیتے تھے ،بلکہ معافی اور در گزر کا معاملہ فرماتے تھے ۔
بخاری شریف ہی میں حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم گالی گلوچ کرنے والے ،بد گوئی کرنے والے اور لعنت کرنے والے نہیں تھے ،ہم میں سے کسی سے ناراض ہوتے (تو اس کے اظہار کے لیے ) فرماتے :اس کو کیا ہوا ! اس کی پیشانی خاک آلود ہوجائے ۔
رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی تربیت کا انداز
حضرت رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے کس اعلی پیمانے پر اخلاق کی تعلیم دی اس کا اندازہ بخاری شریف کی اس روایت سے لگایا جا سکتا ہے، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دیہاتی نے مسجد میں پیشاب شروع کردیا ،لوگ اس کی طرف روکنے کے لیے بڑھے،تو حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :اس کو پیشاب کرنے سے نہ روکو ،پھر ایک ڈول پانی منگوایا اور اس پر بہایا ۔
اخلاق نبوی صلی الله علیہ وسلم سے متاثر ہوکر غیر مسلموں کا اسلام قبول کرنا
آ پ صلی الله علیہ وسلم کے اوصا ف حمیدہ اور حسن سلوک سے متاثر ہو کرغیر مسلم اسلام قبول کیا کرتے تھے ،چناں چہ مشکوة شریف میں علامہ بیہقی کی دلائل النبوة کے حوالہ سے ایک روایت میں ایک یہودی کے ساتھ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے حسن اخلاق کا واقعہ نقل کیا گیا ہے ،حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک یہودی تھا، جس کو” فلاں عالم “کہا جاتا تھا (یعنی وہ یہود کے بڑے علماء میں سے تھا)اس کے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم پر چند دینار قرض تھے ،اس نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے مطالبہ کیا ،آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس سے فرمایا:اے یہودی ! میرے پاس کچھ نہیں کہ تجھے دوں۔اس نے کہا :محمد!میں اس وقت تک آپ سے جدا نہ ہوں گا جب تک آپ میرا قرض ادا نہ کریں۔رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :اچھا! میں تیرے پاس بیٹھ جاتا ہوں،چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم اس کے سامنے بیٹھ گئے،(اور اسی مقام پر)ظہر ،عصر، مغرب،عشا اور پھر صبح کی نماز پڑھی۔رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے صحابی اس یہودی کو دھمکاتے تھے اور نکال دینے کا خوف دلاتے تھے،رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے جب اس کو محسوس کیا تو آپ نے صحابہ کو اس سے منع فرمایا ،صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا :یا رسول اللہ! کیا ایک یہودی آپ کو روک سکتا ہے؟آپ نے فرمایا :میرے رب نے مجھے منع کیا ہے کہ میں اس شخص پر ظلم کروں جو ہماری پناہ میں ہے،یا جو ہماری پناہ میں نہیں۔
پھر جب دن چڑھا،یہودی نے کہا :میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں ،میرے مال کا آدھا حصہ اللہ کی راہ میں صدقہ ہے،خدا کی قسم ! میں نے آپ کے ساتھ جو معاملہ کیا وہ محض اس لیے کیا، تاکہ میں دیکھو ں کہ آپ کی جو صفات تورات میں مذکور ہیں وہ آپ میں پائی جاتی ہیں یا نہیں۔تورات میں لکھا ہے :محمد بن عبد اللہ مکہ میں پیدا ہوگا، طیبہ کی طرف ہجرت کرے گا اور اس کی حکومت شام میں ہوگی ،وہ بد زبان و سنگ دل نہ ہوگا اور نہ بازاروں میں شور مچانے والااور نہ فحش گوئی اس میں ہو گی اور نہ وہ بیہودہ بات کہنے والا ہوگا،میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں،یہ میرا مال موجود ہے، خدا کے حکم سے جہاں اس کو چاہیں خرچ فرمائیے۔
لوگوں کی بد اخلاقی پر حضورصلی الله علیہ وسلم کا صبر وتحمل
لوگوں کی بد اخلاقی اور برے سلوک کے جواب میں آپ صلی الله علیہ وسلم کا صبر وتحمل اور خوش اخلاقی ،لاجواب و بے مثال تھی۔مسلم شریف میں حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے جا رہا تھا ،آپ نجرانی چادر اوڑھے ہوئے تھے ،جس کے کنارے موٹے تھے،راستے میں آپ کو ایک دیہاتی ملا ، جس نے آپ کی چادر کو پکڑ کر اس قدر سختی سے اپنی طرف کھینچا کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم اس کے سینہ کے قریب ہوگئے،میں نے دیکھاتو آپ کی چادر کے کنارے نے آپ کی گردن پر نشان ڈال دیا تھا۔پھر اس دیہاتی نے کہا :اے محمد! تمھارے پاس خدا کا مال ہے ،اس میں سے مجھ کو کچھ دلوائیے،آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے اس کی طرف دیکھا ، مسکرائے اور پھر آپ نے اس کو کچھ دینے کا حکم دیا ۔
اہل ایمان اور اتباع سیرت نبوی صلی الله علیہ وسلم کا تقاضا
ایک مسلمان کے لیے حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کی ذات ، آپ کی سنت و سیرت ،آپ کے اخلاق حسنہ ،اوصاف حمیدہ اور زندگی گزارنے کی ایک ایک ادا اس طرح قابل تقلید اور محبوب ہے کہ اس کے سوا کسی اور کی طرف نگاہ اٹھانے کی اس کا ایمان ہرگز اجازت نہیں دیتا ۔زندگی کے تمام شعبوں اور پہلوں میں حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کی سیرت ایک مکمل اسوہ حسنہ ہے۔
شاتم رسول اور ہمارے حکمرانوں اور میڈیا کا رویہ
بعض لوگ جن کا تعلق قلم وقرطاس سے ہے،جو پیٹ اور چند سکوں کی خاطر ضمیر وقلم فروشی سے بھی دریغ نہیں کرتے ،ملک عزیز کے حکمران، جن کو اپنی کرسی تمام چیزوں سے زیادہ عزیز ہے اور چند دانشوران ملت (جن کا کام ہی مسلمانوں میں اسلامی تعلیمات کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا کرنا ہے)حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ کے بعض واقعات کا سہارا لے کر یہ پروپگنڈہ کر رہے ہیں کہ اگر کوئی حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی شان مبارک میں گستاخی کرے، توموٴاخذہ میں قتل نہیں کیا جائے گا،کیوں کہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے اپنی ذات کے لیے انتقام نہیں لیا۔
توہین ِرسالت پرسزائے موت سے انکار، سیرت نبوی سے ناواقفیت
ان نام نہاد مفکرین اور فکری یتیم دانش وروں کی اس بات کو اگر تسلیم کر لیا جائے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے اپنی ذات کے لیے کسی سے انتقام نہیں لیا تو اسے اس بات کی دلیل میں پیش کرنا کہ توہین رسالت کے مرتکب کو قابل گردن زدنی نہیں سمجھا جائے گا، قطعا درست نہیں،یہ احکام خداوندی، سیرت نبوی صلی الله علیہ وسلم ،حضرات صحابہ و تابعین (رضوان اللہ علیہم اجمعین)کے طرز عمل اور جمہور اہلسنت والجماعت کے اتفاقی موٴقف سے نہ صرف ناواقفیت ،بلکہ نری جہالت کی علامت ہے،کیوں کہ محارم اللہ کے ارتکاب پر موٴاخذہ اور منصب رسالت کی توہین پرگستاخ کی گردن مارنا نہ صرف شریعت کا حکم ہے ،بلکہ یہ بھی حضور صلی الله علیہ وسلم کی سیرت کا ایک پہلو ہے۔
مسئلہ اخلاق سے متعلق ایک سنگین غلطی
مسئلہ اخلاق کے حوالہ سے ایک سنگین غلطی اور بڑی غلط فہمی جس میں یہ لوگ مبتلا ہیں،وہ یہ کہ صرف رحم و رافت اور تواضع و انکساری کو پیغمبرانہ اخلاق کا مظہر سمجھ لیا گیا ہے، حالانکہ اخلاق کا تعلق زندگی کے تمام پہلوں اور گوشوں سے ہے۔دوست دشمن ، عزیز و بیگانہ، چھوٹے بڑے،مفلسی وتونگری، صلح و جنگ ،گرفت و موٴاخذہ،عفو و درگزر اور خلوت و جلوت ،غرض ہر جگہ اور ہر ایک تک دائرہ اخلاق کی وسعت ہے۔
اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کرنے والوں سے حضور صلی الله علیہ وسلم کا انتقام
احادیث مبارکہ میں صراحتا ًیہ بات موجود ہے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے اگرچہ اپنی ذات کے لیے کسی سے انتقام نہیں لیا(اس انتقام نہ لینے کاصحیح مطلب آگے آرہا ہے)لیکن اگر کسی نے اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کیا اور حدود اسلام سے تجاوز کیا تو ضرور اس سے انتقام لیتے تھے،چناں چہ صحیحین میں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو جب دو کاموں میں سے ایک اختیار کرلینے کی ہدایت کی جاتی تو آپ ان میں سے آسان کو اختیار فرمالیتے،اگر وہ گناہ نہ ہوتا۔اگر گناہ کا سبب ہوتا تو اس سے دور ہوجاتے اور حضور صلی الله علیہ وسلم نے اپنی ذات کے لیے کبھی کسی بات میں کسی سے انتقام نہیں لیا،البتہ جس چیز کو خدا تعالی نے حرام کیا ہے، اگر اس کو حلال کیا گیا تو آپ ضرور انتقام لیتے تھے۔
یہی مضمون مسلم شریف میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہی منقول ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے کبھی کسی چیز کو اپنے ہاتھ سے نہیں مارا، یعنی نہ عورت کو اور نہ خادم کو، مگر جب آپ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے(تو اپنے ہاتھ سے دشمنوں کو مارتے تھے)اور جب آپ کو کوئی چیز پہنچتی تو آپ اس کا انتقام نہ لیتے تھے، مگر جب کوئی شخص خدا تعالی کی حرام کردہ چیز کا ارتکاب کرتا تو آپ اس کی سزا ضرور دیتے تھے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں ”باب ما یجوز من الغضب والشدة لامر اللہ“کے عنوان سے ایک باب قائم کیا ہے، اس ترجمة الباب کا مقصد بیان کرتے ہوئے استاد المحدثین، حضرت شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان صاحب أطال اللہ بقاءہ علینا کشف الباری میں تحریر فرماتے ہیں کہ حضور صلی الله علیہ وسلم کا لوگوں کی اذیت پرصبر کرنا اور اپنی ذات کے لیے ان سے انتقا م نہ لینااور ان سے شفقت اور نرمی والا برتاوٴ کرنااگرچہ آپ کے اخلاق کریمانہ میں شامل تھا، تاہم دین اور شریعت اور اللہ کے احکام کے معاملے میں آپ رعایت نہیں فرماتے تھے، بلکہ اللہ جل شانہ نے قرآن کریم میں اللہ کے دشمنوں کفار کے ساتھ سخت برتاوٴکا حکم دیا ہے۔
مسئلہ اَخلاق اور شاتم ِرسول کے متعلق ایک شبہ اور اس کا جواب
کچھ لوگ حضور صلی الله علیہ وسلم کے اخلاق اور عفو ودرگزر کے بعض واقعات کا سہارا لے کر یہ کہتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم غیر مسلموں اور مخالفین کی طرف سے پہنچائی گئی ایذا و تکلیف کو نہ صرف برداشت کرتے، بلکہ عفو ودر گزر بھی فرماتے تھے۔ قاضی عیاض صاحب رحمہ اللہ نے ”الشفاء “میں اس شبہ پر تفصیلی رد کیا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ابتدائے اسلام میں لوگوں کو اسلام کی طرف مائل کرنے،ایمان کو ان کے دلوں میں راسخ کرنے اور ان کو ایک کلمہ پر جمع کرنے کے لیے اللہ تعالی نے حضور صلی الله علیہ وسلم کو صبر وتحمل اور عفو ودرگزر کا معاملہ فرمانے کا حکم دیا تھا، لیکن جب اسلام مستحکم ہوا اور اللہ نے مسلمانوں کو قوت و غلبہ عطا فرمایا، تو پھر یہ حکم تبدیل ہوگیا،اس کے بعد جس بدبخت وگستاخ پر قدرت ہوئی اور جس کی شرارت و فتنہ انگیزی مشہور ہو گئی تھی اسے نہ صرف قتل کر دیا گیا، بلکہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے اس کا خون بھی ہدر (رائیگاں)قرار دیا۔
حضورصلی الله علیہ وسلم کا اپنے نفس کے لیے انتقام نہ لینے کا صحیح مطلب
بعض روایات میں جو آیا ہے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے اپنے نفس کے لیے کسی سے انتقام نہیں لیا،جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہوا، تو اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ اگر کسی نے آپ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ قول وفعل کے ذریعے بے ادبی کا معاملہ کیا، یاکوئی گستاخی، یا بدمعاملگی کی، خواہ جان کے حوالے سے ہو یامال کے سلسلے میں اور ایسا کرنے میں اس کا مقصود درحقیقت آپ صلی الله علیہ وسلم کو ایذا و تکلیف پہنچانا نہ تھا، بلکہ اس نے اس طرح کے اقدامات اپنی جبلی، یا فطری افتاد کی بنا پر کیے ، جیسے ماقبل میں بدو کی بد سلوکی کا واقعہ گذرا، جس نے آپ علیہ السلام کی چادر مبارک کو اس طرح کھینچا کہ گردن مبارک پر نشان پڑگیا ،تو یہ کوئی ایذا و تکلیف پہنچانے کی غرض سے نہیں تھا ،بلکہ یہ اس دیہاتی کی جہالت یا فطری اجڈپن کی وجہ سے تھا،چوں کہ یہ ایسا عمل ہے جو بشری فطرت کے تحت ہوا ہے تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کا انتقام نہیں لیا ،عفو و درگزر سے کام لیا۔
ہاں !البتہ اگر کسی نے قصدا آپ صلی الله علیہ وسلم کو گالی دی ،یا کوئی ایذا پہنچائی ،یا آپ صلی الله علیہ وسلم کو جھٹلایا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس سے انتقام لیا ہے ،کیوں کہ اس طرح کے لوگوں کا سلوک تو درحقیقت اللہ عزو جل کی حرمت کی ہتک تھی ،اس لیے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کونبوت سے سرفراز کرنا اور مقام و مرتبہ عطا کرنا وغیرہ سب اللہ تعالی ہی کی طرف سے تھا۔
حضوراقدس صلی الله علیہ وسلم کا ازروئے اخلاق بعض بد اخلاقوں کو معاف کرنا
پھر آپ صلی الله علیہ وسلم کا مخالفین کی ایذا پر صبر کرنا اور ان کو معاف کرنا یہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے زمانہ اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھا ،یہ آپ علیہ السلام کا حق تھا، اس لیے آپ صلی الله علیہ وسلم نے بعض کو معاف بھی کیا، لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم کے اس دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد امت میں سے کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ ان زیادتیوں کو برداشت کرے، کیوں کہ یہ اب کسی قوم یا قبیلہ کا حق نہیں، بلکہ تمام امت مسلمہ کا حق ہے اور امت کے کسی فرد کو یہ جرم معاف کرنے کا حق ہرگز نہیں ۔لہذا نہ تو پاکستان کے صدر اور وزیر اعظم کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ توہین رسالت کے مرتکب کو معاف کرے اور نہ ہی کسی فرد یا قومی ادارے کو یہ اختیار کہ وہ اس سلسلہ کے قوانین میں ترمیم کرے ۔
کیا کوئی شاتم رسول صلی الله علیہ وسلم کی سزا معاف کر سکتا ہے؟
علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ”الصارم المسلول “میں اس بات کی وضاحت کی ہے کہ ایک مسلمان کے لیے توہین رسالت کو معاف کرنے کا کوئی جواز نہیں ،یہ اس کی ذات کا معاملہ ہے ہی نہیں کہ وہ مجرم کو معاف کرکے سیرت نبوی صلی الله علیہ وسلم کی پیروی کرے، یہ تو اس کے اللہ ،اس کے رسول اور دین اسلام حق ہے، لہٰذا اسے چاہیے کہ وہ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچائے، چناں چہ وہ فرماتے ہیں ”إن النبي صلی الله علیہ وسلم کان لہ أن یعفو عمن شتمہ و سبہ في حیاتہ و لیس لأمتہ أن یعفو من ذلک“․یعنی نبی صلی الله علیہ وسلم کو تو یہ اختیار حاصل تھا کہ اپنی زندگی میں سب وشتم کرنے والوں سے درگزر کریں، لیکن آپ کی امت کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اس جرم کو معاف کرے۔
نام نہاد دانش وروں اور حکم رانوں کا اپنی توہین پر رویہ
افسوس ناک بات یہ ہے کہ ”دانش ور “،”مفکرین“ اور ”علامہ“ کہلانے والے یہ جاہل اور ہمارے سیاسی زعماء و پیٹ کے پجاری چند حکمران جو اپنی ذات کے حوالے سے ایک لفظ بھی توہین کا برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں،اسی پر بس نہیں، بلکہ بعض دفعہ اپنی انا کی تسکین اور اپنی توہین کا انتقام لینے کے لیے سینکڑوں نہیں، ہزاروں انسانوں کی زندگیوں کو آگ میں جھونک دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے ،وہ اہل اسلام کو توہین رسالت کے موقع پر چشم پوشی ،بزدلی اور انسانی حقوق کے نام پر گستاخوں کو معاف کرنے اور توہین رسالت سے متعلقہ قوانین میں ترمیم کروانے کے لیے سیرت کا حوالہ دیتے ہیں۔
حضور صلی الله علیہ وسلم سے عقیدت و محبت ایمان کا حصہ ہے
شاید ان ”ابن الوقتوں“کو معلوم نہیں کہ جناب نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ کسی بھی مسلمان کی عقیدت و محبت محض جذبات یا کسی بے حقیقت جذباتی نظریہ کی بنیاد پر نہیں،بلکہ یہ ان کے دین و ایمان کا لاینفک جزو ہے ،قرآن وحدیث میں اس بات کی خوب وضاحت کی گئی ہے ۔ذیل میں ہم صرف ایک آیت قرآنی اور حدیث مبارکہ کا ترجمہ پیش کرتے ہیں ،جن سے با آسانی اس ابدی حقیقت کا ادراک کیا جاسکتا ہے۔چناں چہ ارشاد باری تعالی ہے:”آپ کہہ دیجییکہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارا کنبہ اور وہ مال جو تم نے کمائے اور تجارت جس کے بیٹھ جانے کا تم کو اندیشہ ہے اور وہ گھر جن کو تم پسند کرتے ہو، اگر تم کو اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ پیارے ہیں تو تم منتظر رہو ،یہاں تک کہ اللہ تعالی (سزا دینے کے لیے )اپنا حکم بھیج دے اور اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔“
صحیحین میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :”تم میں سے کوئی کامل مومن نہیں بن سکتا جب تک اس کو مجھ سے اپنے ماں ،باپ ،اولاد اور باقی سب لوگوں سے بڑھ کر محبت نہ ہو“۔
سیرتِ نبوی صلی الله علیہ وسلم صرف تواضع و انکساری کا نام نہیں
محترم قارئین! گزشتہ سطور میں ہم یہ عرض کرچکے ہیں کہ اخلاق حسنہ اور سیرت نبوی صلی الله علیہ وسلم صرف رحم و رافت اور تواضع وانکساری ہی کا نام نہیں، بلکہ یہ بھی سیرت نبوی صلی الله علیہ وسلم کا ایک پہلو ہے کہ جب اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کر لیا جائے،حدود اللہ سے تجاوز ہونے لگے اور کوئی بدبخت دل وزبان سے شان رسالت مآب صلی الله علیہ وسلم میں گستاخی کرے تو اس کی گرفت کی جائے اور اس کا موٴاخذہ کیا جائے،لیکن یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ گرفت وموٴاخذہ ہماری سوچ اور رائے کے مطابق نہیں، بلکہ ہمیں اس سلسلے میں بھی شریعت مطہرہ کے بیان کردہ احکامات اور سیرت نبوی صلی الله علیہ وسلم کے مطابق فیصلہ کرنا ہوگا۔
شاتم ِرسول صلی الله علیہ وسلم کی سزا، قرآن کی روشنی میں
قرآن کر یم کی متعدد آیات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ شاتم رسول کی سزا موت ہے، ہم یہاں صرف ایک آیت کے بیان پر اکتفا کرتے ہیں، اللہ تعالی سورہ احزاب میں ارشاد فرماتے ہیں:” بے شک وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول کو ایذا دیتے ہیں، اللہ ان پر دنیا وآخرت میں لعنت کرتا ہے اور ان کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔“ اسی سورت میں تین آیات کے بعد اللہ تعالی کا ارشاد ہے”لعنت کیے گئے ہیں جہاں پائے جائیں پکڑ ے جائیں اور بری طرح قتل کیے جائیں۔“
ان دونوں آیتوں میں اللہ اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی شان میں گستاخی اور بے ادبی کرنے والوں کے بارے میں دنیاوی سزا تو یہ بیان کی گئی ہے کہ ان پر اللہ کی لعنت ہے اور آخرت میں ان کے لیے درد ناک عذاب تیار کیا گیا ہے، دنیا وی لعنت کی وضاحت کرتے ہوئے قاضی عیاض رحمہ اللہ ”الشفاء “ میں فرماتے ہیں:گستاخ رسول پر دنیاوی لعنت یہی ہے کہ اس کو قتل کر دیا جائے،اس لیے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: وہ پھٹکارے ہوئے ہیں جہاں پائے جائیں پکڑے جائیں اور قتل کر دیے جائیں۔
شاتم ِرسول صلی الله علیہ وسلم کی سزا، سیرت نبوی صلی الله علیہ وسلم کی روشنی میں
حضور صلی الله علیہ وسلم کی شان مبارک میں شقی اور بدبخت قسم کے لوگوں کی طرف سے گستاخی کا سلسلہ صرف آج کا نہیں، بلکہ زمانہ نبوت میں بھی اس طرح کے واقعات پیش آئے ، ان میں سے بعض بد بختوں کو خود آپ صلی الله علیہ وسلم کے اشارے اور حکم سے قتل کر دیا گیا اور بعض کو آپ کی ناموس پر کٹ مرنے والے صحابہ رضی اللہ عنھم نے جہنم واصل کیا۔
شاتم ِرسول صلی الله علیہ وسلم کعب بن اشرف کے قتل کا حکم
کعب بن اشرف مشہور یہودی رئیس تھا، وہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کرتااور ہجویہ اشعار کہتا تھا،بخاری شریف میں ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے کعب بن اشرف کے قتل کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:کون کعب بن اشرف کو ٹھکانے لگائے گا؟کیوں کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کو ایذا دیتا ہے، چناں چہ حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی خواہش پر جا کر اس کا کام تمام کردیا۔
شاتم رسول صلی الله علیہ وسلم ابن خطل اور اس کی لونڈیوں کو سزائے موت
شاتم رسول صلی الله علیہ وسلم ابن خطل اور اس کی دو لونڈیاں حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی شان مبارک میں گستاخی کیاکرتے تھے، بخاری شریف میں ہے کہ فتح مکہ کے دن جب عام معافی کااعلان کر دیا گیا تھا، لیکن شاتم رسول صلی الله علیہ وسلم ابن خطل کو معافی نہیں دی گئی،حضور صلی الله علیہ وسلم نے اس کے قتل کاحکم دیا، لہذا اس کو اس حال میں قتل کر دیا گیاکہ اس نے خانہ کعبہ کا پردہ پکڑا ہوا تھا۔حضور صلی الله علیہ وسلم نے اس کی دونوں لونڈیوں کے قتل پر ان کا خون رائیگاں قرار دیا۔
شاتم ِرسول صلی الله علیہ وسلم ابن ابی معیط کے قتل کا واقعہ
”الشفاء“ میں بزار کے حوالے سے منقول ہے کہ جب عقبہ بن ابی معیط قتل ہونے لگا تو اس نے پکار کر کہا: قبیلہ قریش کے لوگو! دیکھو ! آج میں تمہارے سامنے قتل کیا جارہا ہوں(اور تم خاموش ہو)،تو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اس موقعہ پر فرمایا:تو اپنے کفر اور رسول اللہ پر افترا پردازی کے باعث قتل ہو رہا ہے۔سنن ابی داوٴد اور نسائی میں ہے کہ ایک نابینا صحابی نے اپنی لونڈی کو حضور صلی الله علیہ وسلم کی شان میں گستاخی پر قتل کر ڈالا تو حضور صلی الله علیہ وسلم نے اس کا خون مباح اور ہدر فرمایا۔ قاضی عیاض رحمة اللہ علیہ نے ”الشفاء“ میں ان واقعات کو جمع کیا ہے جن میں حضور صلی الله علیہ وسلم نے ان لوگوں کے قتل کا حکم فرمایا، جنہوں نے شان رسالت میں کوئی گستاخی کی اور اللہ اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کو ایذا دی تھی۔
شاتم ِرسول صلی الله علیہ وسلم کی سزائے موت پر تمام امت کا اتفاق
دور نبوت کے ان مذکورہ بالا واقعات سے یہ بات بالکل بے غبار ہو کر سامنے آتی ہے کہ توہین رسالت کوئی معمولی جرم نہیں کہ جس سے چشم پوشی اختیار کی جائے، اس کی کم از کم سزا موت ہے، چناں چہ عہد نبوت سے لے کر آج تک پوری امت مسلمہ کا اس پر اتفاق ہے کہ شاتم رسول صلی الله علیہ وسلم واجب القتل ہے، علامہ شامی رحمہ اللہ نے ائمہ اربعہ کا یہی مذہب نقل کیاہے۔
نام نہاد دانشوروں کے بیمار قلوب کا علاج
چوں کہ توہین رسالت ایک انتہائی حساس اور اہم موضوع ہے، تمام امت مسلمہ کاایمان اور جذبات اس سے وابستہ ہیں،اس لیے امت کے جلیل القدر علمائے کرام نے اس موضوع پر مستقل کتابیں تصنیف فرمائی ہیں، ہمارے نام نہاد دانش ور حضرات کو اگر ان کا مطالعہ نصیب ہو جائے تو یقینا ان کے بیمار قلوب شفا پا جائیں گے۔
اربابِ اقتدار سے گذارش
اس نازک موڑ پہ ملک عزیز کے ارباب اقتدار سے گذارش ہے کہ خدا را!چند دنوں کے اقتدار کی خاطر اپنی عاقبت برباد نہ کریں،قانون توہین رسالت میں کسی طرح کی ترمیم سے باز رہیں، بلکہ ایسے مواقع پر ہونا یہ چاہیے کہ ایک مسلمان ملک کے حکمران ہونے کی حیثیت سے وہ اپنی ذمہ داریوں کو نبھائیں اور شاتمین رسول صلی الله علیہ وسلم کو کیفر کردار تک پہنچائیں، مبادا اللہ کی گرفت وپکڑ کے شکار نہ ہوجائیں۔
میڈیا سے وابستہ افراد سے درخواست
اس کے ساتھ ساتھ میڈیا سے وابستہ افراد سے درخواست ہے کہ خدارا!ضمیر وقلم فروش مت بنیں،دنیا کے یہ چند سکے و ٹکے کب تک کام آئیں گے؟آخر ایک دن آپ نے بھی مرنا ہے اور اللہ کے حضور پیش ہونا ہے اور قیامت کے روز رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے ملاقات کرنی ہے، سوچیے!آج توہین رسالت پر حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے دفاع کی بجائے ہم گستاخوں کی صف میں کھڑے ہوں اور کل قیامت کے روز اپنے آقا و محبوب صلی الله علیہ وسلم کا کس منہ سے سامنا کریں گے؟کیا ان حرکتوں کی ہمارا ایمان اور غیرت اجازت دیتے ہیں؟؟؟!کیا روز محشر حضور صلی الله علیہ وسلم ایسے لوگوں کے حق میں شفاعت فرمائیں گے؟ نہیں! اور یقینا نہیں، تو پھر ہمیں اپنی روش تبدیل کرنی ہوگی اور اللہ سے معافی طلب کر کے گزشتہ کی تلافی کی فکر میں لگنا ہو گا۔
اہل ایمان کی ذمہ داری
اپنے مسلمان بھائیوں سے میری گذارش ہے کہ وہ میڈیا کے اس ایمان کش سیلاب سے اپنے آپ کو بچائیں،جب بھی کوئی ایسا موقعہ آئے تو ان نام نہاد دانش وروں کی باتوں پر کا ن نہ دھریں، بلکہ مستند اور محقق علمائے کرام کی طرف رجوع کریں، تاکہ ہمارا ایمان شکوک و شبہات سے محفوظ رہے۔ اس کے علاوہ دشمن کے ان ہتھکنڈوں کے جواب میں ان کی تہذیب و تمدن سے عملی طور سے نفرت کا اظہار کریں ،ان کا معاشی بائیکاٹ کریں اور زندگی کے ہر شعبہ میں سیرت نبوی صلی الله علیہ وسلم کا مکمل اتباع کریں، اپنے آقا و محبوب صلی الله علیہ وسلم پر کثرت سے درود و سلام بھیجیں، تا کہ دشمن اپنے مذموم مقاصد میں ناکام و نامراد ہوجائے۔
وصلی اللہ تعالی علی خیر خلقہ محمد وعلی آلہ وأصحابہ أجمعین۔