مذہبی لوگ بد اخلاق کیوں ہوتے ہیں؟

ایک محترم دوست نے اپنی ایک گفتگو میں فرمایا کہ مذہبی لوگ سب کے سب ہی انتہائی بدتمیز، بدتہذیب، بد اخلاق اور بدمزاج ہوتے ہیں اور اپنے کسی بھی مخالف پر کوئی بھی بہتان یا جھوٹ باندھنے یا اس کی تحقیر و تمسخر سے دریغ نہیں کرتے۔

ان کے اس دعوے میں کس قدر سچائی ہے، اس پر ہم سردست بحث نہیں کررہے، اس وقت ہمیں صرف یہ سوچنا ہے کہ اس دعویٰ میں چاہے ایک فیصد ہی صداقت ہو، اس کی وجوہات کیا ہیں۔

سب سے اہم اور بڑی وجہ یعنی خوف خدا کی کمی جو معاشرے کے مجموعی دھارے کی طرح ظاہر ہے مذہبی لوگوں میں بھی رفتہ رفتہ بڑھ رہی ہے اور اسی کمی کو دور کرکے خوف خدا اور تقوی کو پیدا کرنا ہر طبقے کی طرح علماء اور مذہبی حلقے میں بھی ضروری ہے کہ یہی چیز پورے دین کی روح ہے۔

تاہم اس بنیادی وجہ کے علاوہ جو مذہبی و غیر مذہبی ہر طرح کے لوگوں میں پائی جاتی ہے، مذہبی لوگوں کے ایکسٹرا شدت پسندانہ رویے کی جو مبنی بر حقیقت وجوہات ہیں انہیں اگر اختصار کے ساتھ بیان کیا جائے تو وہ مندرجہ ذیل ہیں۔

1 - طاقت کا توازن

 یہ بات مسلّم و معقول ہے کہ جس شخص کے پاس طاقت اور غلبہ ہو اور اس کے ارادوں اور عزائم میں کوئی چیز رکاوٹ نہ ہو اسے چیخنے چلانے کی ضرورت نہیں پڑتی، چیختا چلاتا وہی ہے جو مجبور اور بے بس ہوتا ہے، اور جس کے پاس چیخنے چلانے کے سوا کوئی آپشن باقی نہیں رہتا۔

کسی کی جائداد پر قبضہ کرنے والے یا کسی کے گھر میں چوری کرنے والے کو آپ یقینا پرسکون اور مطمئن پائیں گے جبکہ لٹ جانے والا گندی گالیوں سے اپنی بھڑاس نکالنے پر مجبور ہوگا۔ اس تفاوت کی وجہ چور یا قابض کی اخلاقی برتری نہیں بلکہ یہ ہے وہ اپنے عزائم پورے کرچکا ہے، اسے رونے پیٹنے اور گالیاں دینے کی حاجت نہیں رہی، جبکہ لٹ جانے والا اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے اور کچھ کر بھی نہیں سکتا اس لئے اس کی زبان وہ کچھ اگل رہی ہے جسے آپ بداخلاقی کہتے ہیں (اور کہنا بھی چاہیے)

سو جن لوگوں کے پاس فوج، عدلیہ، میڈیا، معیشت اور ریاست کی طاقت ہے وہ اس طاقت کے ذریعے اپنے عزائم کو نافذ کررہے ہیں اور جن کے پاس اقدام تو کیا اپنے دفاع کے لئے بھی مسجد کے مصلے اور دعاؤں کے سوا کچھ نہیں بچا وہ لے دے کے اپنے دل کی بھڑاس نکال رہے ہیں۔ آپ انہیں بدتہذیب کہتے ہیں، کہہ لیجئے، آپ بھی شاید ٹھیک ہی کہتے ہیں۔

کالونیل ازم کے زمانے سے شروع ہونے والا سرمایہ دارانہ نظام کا پوری دنیا پر غلبہ پوسٹ کالونیل ازم کے زمانے میں داخل ہوچکا ہے اور دنیا کا سیاسی، فوجی، معاشی، تعلیمی، عدالتی اور معاشرتی نظام پوری طرح اس کے قابو میں ہے، سو اس نظام یا اس کے کارندوں اور ماننے والوں کو کیا ضرورت ہے چیخنے چلانے یا گالیاں دینے کی؟ اس نے پہلے پوری دنیا کو براہ راست لوٹا اور اب معاشی سیاسی اور فوجی ڈوروں کے ذریعے پوری دنیا کو اپنے پھندے میں جکڑ کر اپنے نظام کے تحت چلنے پر مجبور کئے ہوئے ہے۔
بدتہذیبی تو اسی سے صادر ہوگی جس کی متاع حیات لٹ چکی ہوگی اور اس کے چار آنسو بہانے کو بھی عالمی امن کے لئے خطرہ قرار دے دیا جائے گا۔

2- اخلاقی اقدار کا فرق

بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو سرمایہ دارانہ اخلاقیات میں بداخلاقی سمجھی جاتی ہیں جبکہ مذہبی اخلاقیات میں انہیں سرے سے بداخلاقی سمجھا ہی نہیں جاتا، مثلا کسی کو شراب پیتے ہوئے دیکھ کر اسے ٹوک دینا یا روکنے کی کوشش کرنا سرمایہ دارانہ اخلاقیات میں بداخلاقی ہے جبکہ مذہبی اخلاقیات میں اسے نہی عن المنکر کہتے ہیں، اسی طرح باپ کا اپنے دس سال سے زائد عمر کی اولاد کو نماز کے لئے مجبور کرنا سرمایہ دارانہ اخلاقیات کے اعتبار سے اخلاقی جرم ہے جبکہ مذہبی اخلاقیات کے اعتبار سے یہ جائز بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی اتباع ہے، اس کے برعکس بچے کو سکول جانے کے لئے مجبور کرنا شرعی و مذہبی اعتبار سے ہرگز فرض و واجب نہیں تاہم سرمایہ دارانہ اخلاقیات کے اعتبار سے یہ فرض ہے، اسی طرح بے پردگی، یا نیم برہنگی سرمایہ دارانہ اخلاقیات کے اعتبار سے بداخلاقی نہیں تاہم مذہبی اخلاقیات کے اعتبار سے یہ یقینا بد اخلاقی ہے۔ قناعت، رضا بالقضا، توکل جیسی صفات مذہبی اخلاقیات کی رو سے اخلاق عالیہ کا حصہ ہیں جبکہ سرمایہ دارانہ اخلاقیات کی رو سے حماقت و دنائت..... جبکہ مفاد پرستی، لالچ، حرص و ہوس اور حب مال و جاہ مذہبی اخلاقیات کی رو سے بری صفات ہیں جبکہ سرمایہ دارانہ اخلاقیات کا یہ چیزیں لازمہ قرار پاتی ہیں اور سرمایہ دارانہ نظام ان کے بغیر ایک قدم نہیں چل سکتا۔
اخلاقی قدروں کے اس اختلاف کی بے شمار مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں اور لبرل عقائد کے پیروکاروں کی طرف سے مذہبی لوگوں کی شمار کی جانے والی بہت سی بداخلاقیاں مذہبی اخلاقیات کی رو سے بد اخلاقیاں شمار ہی نہیں ہوتیں۔

3 - اہمیت کا فرق

ایک مذہبی معاشرے میں جو اہمیت دین، ایمان اور عقیدے کی ہوتی ہے، سرمایہ دارانہ معاشرے میں وہی اہمیت سرمایہ کو حاصل ہوتی ہے۔
لبرل حضرات اپنے افکار، خیالات اور عقائد کے حوالے سے بہت جذباتی یا جنونی نہیں ہوتے تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ بہت خوش اخلاق اور مہذب ہیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ عقیدہ، دین اور ایمان کی ان کی زندگی میں سرے سے اتنی اہمیت ہی نہیں ہوتی کہ وہ اس کے لئے جذباتی ہوں یا لڑیں جھگڑیں۔ ان کے ہاں عقائد اور ایمانیات سے زیادہ اہم چیز سرمایہ ہے، سو جب کسی لبرل شخص کے سرمائے، عہدے یا مادی مفادات پر کوئی کاری ضرب پڑتی ہے تو وہ اس وقت کسی بھی مذہبی شخص سے کئی گنا زیادہ بداخلاق، مشتعل، جنونی، وحشی اور بدتمیز نظر آتا ہے۔
ہم روز مرہ زندگی میں بھی اور سوشل میڈیا پر بھی ہر وقت اس کے مظاہر دیکھتے رہتے ہیں۔

شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2024

تبصرے

يجب أن تكون عضوا لدينا لتتمكن من التعليق

إنشاء حساب

يستغرق التسجيل بضع ثوان فقط

سجل حسابا جديدا

تسجيل الدخول

تملك حسابا مسجّلا بالفعل؟

سجل دخولك الآن
ویب سائٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اس سائٹ کے مضامین تجارتی مقاصد کے لئے نقل کرنا یا چھاپنا ممنوع ہے، البتہ غیر تجارتی مقاصد کے لیئے ویب سائٹ کا حوالہ دے کر نشر کرنے کی اجازت ہے.
ویب سائٹ میں شامل مواد کے حقوق Creative Commons license CC-BY-NC کے تحت محفوظ ہیں
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2024