مایوسی مستوجبِ “کفر” کیوں ہے؟
مایوسی (despair) اس ذہنی یا نفسیاتی کیفیت کا نام ہے جس کے تحت ایک انسان یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ جس تکلیف دہ صورتِ حال یا پریشان کن مسئلہ سے دو چار ہے اس سے نکلنے کا نہ کوئی امکان ہے نہ اس کے حل ہونے کی کوئی امید۔ معروف انگریزی لغات میں اس کی تعریف یوں کی گئی ہے:
“Despair_the complete loss or absence of hope; the feeling that there is no hope and that you can do nothing to improve a difficult or worrying situation” (LEXICO.com_powered by OXFORD)
بعض افراد پر نا امیدی کے اس احساس کِا غلبہ اتنا شدید ہوتا ہے کہ وہ خود کشی جیسا آخری سنگین اقدام کر بیٹھتے ہیں۔
عام طور پر “مایوسی” کی اس کیفیت کو انسان کی “بے بسی، عاجزی اور بے چارگی” کی علامت یا اس کا نتیجہ سمجھا جاتا ہے اور اس لئے اس میں مبتلا شخص پر لوگ بظاہر ترس کھاتے ہیں۔ مگر زیادہ گہرائی سے تجزیہ کر کے دیکھا جائے تو منکشف ہو گا کہ مایوسی، اور بالخصوص اس کی بنیاد پر خود کشی کا اقدام، انسان کا ایک خود مختارانہ فیصلہ ہے جو اس کی عاجزی اور بے چارگی کا نہیں بلکہ اس کی خود پسندی، عاجلہ پرستی اور خدا فراموشی کا ثبوت ہے، اس لئے اسے قرآن کے مطابق (سورة يوسف، آيت:87؛ سورة الحجر، آيت: 56) ان لوگوں کا شیوہ قرار دیا گیا ہے جو یا تو خدا کو مانتے ہی نہیں یا پھر اس کے سیدھے راستے سے بھٹک گئے ہیں۔
ظاہری بے چارگی اور عاجزی کے پیکر میں، “مایوسی” اور اس کی بنا پر “خود کشی” کا رجحان یا اقدام؛ ایک ایسا ذہنی وعملی رویہ ہے جو در اصل ایک نہایت لطیف قسم کے انسانی گھمنڈ اور تکبر اور انانیت سے پیدا ہوتاہے۔ یہاں ذہنی گھمنڈ کا پہلو یہ ہے کہ ایسا “مایوس اور مائل بہ خود کشی” شخص گویا اس حقیقتِ واقعہ کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں کہ اس کائنات اور اس میں برپا ہونے والے تمام حالات اور تغیرات کا “کنٹرول” اس کے یا کسی دوسرے انسان کے ہاتھ میں نہیں، بلکہ براہِ راست “خالقِ کائنات” کے ہاتھ میں ہے اور وہ انہیں، بلا شرکتِ غیر، اپنی مشیئت و حکمت سے چلاتا ہے نہ کہ کسی اور کے مشورے یا وقتی خواہشات و جذبات کی رعایت سے۔
دوسری طرف یہاں “عملی تکبر” کا پہلو یہ ہے کہ ایسا شخص جب اپنے بظاہر “مایوس کن حالات” کو بدل نہیں سکتا تو ان کو قبول کرنے اور ان کے ساتھ ممکنہ ہم آہنگی اختیار کرنے سے بھی انکار کرتا ہے، دوسرے لفظوں میں گویا وہ چاہتا ہے کہ خدا کو، اگر بالفرض وہ ہے؛ اس کائنات اور اس کے احوال و ظروف کا سارا انتظام اس کی مرضی کے مطابق کرنا چاہئے۔ ایسی حالت میں جو شخص خود کشی کا اقدام کر بیٹھتا ہے وہ فی الواقع خود اپنے خلاف یہ ثبوت فراہم کرتا ہے کہ وہ مطلق طور پر “بے بس، عاجز اور بے چارہ” نہیں تھا۔کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو وہ خود کشی جیسا فعل بھی نہ کر سکتا۔جب وہ “مایوس کُُن حالات” کے دباؤ کے تحت اپنی جان لینے پر قادر تھا، تو ئقیناً ان حالات کے دباؤ کو برداشت کرنا بھی اس کے لئے نہ صرف ممکن بلکہ مر جانے کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ آسان تھا مگر اس نے اپنی انانیت اور عاجلہ پسندی کی وجہ سے، نہ کہ حالات سے مجبور اور بے بس ہو کر، ایک سنگین گناہ کے ارتکاب کا فیصلہ کیا، جس کے لئے بلاشبہ وہ زندگی اور کائنات کے خالق و مالک کے سامنے جوابدہ ہو گا۔
اس تجزیے کی روشنی میں غور کیجئے تو معلوم ہو گا کہ آلام و مصائب یا سخت حالات اور پریشان کُن مسائل کی شکایت کرنا یا ان سے گھبراکر خود کشی کا فیصلہ کرنا، خدا کی خدائی میں بے جا مداخلت کے ہم معنی ہے، وہ انسان کی “مجبوری” نہیں بلکہ اس کی “خود مختارانہ سرکشی” کا مظہر ہے۔ اردو کے ایک معروف شاعر کا مندرجۂ ذیل شعر اسی ظاہر میں “عاجزانہ” مگر حقیقت میں “متکبرانہ” انسانی رجحان کی ترجمانی کرتا ہے:
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہے ہیں سو آپ کرے ہیں، ہم کو عبث بد نام کیا
اگر آپ کے حالات خراب ہیں تو ایمان اور عقل دونوں کا واحد تقاضہ یہ ہے کہ آپ انہیں بدلنے کی ممکنہ کوشش کیجئے اور ہرگز مایوس نہ ہوں۔ اگر اس کے باوجود آپ انھیں بدل نہیں سکتے تو اس یقین اور توکل کے ساتھ ان پر صبر کیجئے کہ اس کائنات کا خالق و مالک، جو روزانہ کانٹوں بھری ٹہنیوں پر نرم و نازک، خوش رنگ، حسین اور خوشبو دار پھول کِھلاتا ہے، جو رات کی تاریکیوں کے ہجوم سے روشن دن نکالتا ہے؛ جو گائے، بکری اور دیگر جانوروں کے پیٹ میں غلاظتوں کے درمیان سے صاف و شفاف، ذائقہ دار اور غذائیت بخش دودھ کشید کرتا ہے، وہ انھیں “خراب حالات” کو آپ کے لئے، جلد یا بدیر، ایک بہتر زندگی اور کامیاب مستقبل کا ذریعہ بنا دے گا۔