قرآن مجید کی فصاحت وبلاغت قسط نمبر 2

پھر یہ فصاحت اور بلاغت اہل عرب کے بچوں میں بھی بدرجہ اتم موجود تھی ۔

مشہور ادیب اصمعی کا واقعہ ہے کہ اس نے ایک بچی کو دیکھا جو کھیلتے ہوئے بڑی فصاحت سے اشعار پڑھ رہی تھی ۔اصمعی رح نے اس کی فصاحت پر تعجب کیا تو کہنے لگی کہ اصمعی کیا قرآن کے بعد بھی کچھ فصاحت بچی ہے؟  کہ قرآن کی ایک ہی آیت میں دو امر دو نہی دو خبریں اور دو بشارتیں ہیں (یہ واقعہ آگے مفصل ذکر ہوگا ) اصمعی اس پر دنگ رہ گئے کہ نہ صرف خود فصیح کلام پر قادر ہے بلکہ قرآن کی فصاحت کو بھی پہچانتی ہے  ۔

انہی اصمعی رح کے بارے میں ابن جوزی رحمہ اللہ نے اخبار الظراف والمتماجنین میں اور ابن عبدربہ اندلسی نے العقد الفرید میں لکھا ہے کہ ایک دن انہوں نے ایک بچے کو دیکھا جو ایک مشکیزے میں پانی بھر رہا تھا ۔مشکیزہ بڑا تھا اور بچے کے لئے وزن زیادہ ہونے کی وجہ سے اسے سنبھالنا دشوار ہورہا تھا تو اس نے اپنے باپ کو آواز دے کر کہا یا ابتِ ادرک فاھا غلبنی فوھا لاطاقۃ لی بفیھا یعنی ابا جان اس مشکیزے کا منہ پکڑلیں مجھ پر تو یہ غالب آگیا ہے اور اسے سنبھالنے کی مجھ میں طاقت نہیں رہی ۔

اصمعی کہتے ہیں کہ میں اس فصاحت پر دنگ رہ گیا ۔اور اسے کہا اللہ کی قسم تم نے تو ساری عربیت کو ایک جملے میں جمع کردیا ہے ۔

اصل میں فو یعنی منہ کے لفظ کو اس نے اس جملے میں تین طرح سے استعمال کیا ہے اور عربی زبان میں اعراب کی تین ہی حالتیں ہوتی ہیں ۔

علامہ ذھبی رح نے سیر اعلام النبلاء میں ھشام بن عمرو الفوطی کے بچپن کا قصہ ذکر کیا ہے کہ کسی آدمی نے اس سے پوچھا ۔ کم تعّد من السنین؟  تم سالوں میں سے کتنے شمار کرتے ہو؟ عرب یہ سؤال عمر پوچھنے کے لئے کیا کرتے تھے ۔لیکن اس کا ایک مطلب یہ بھی بن سکتا ہے کہ تم کتنی گنتی کرسکتے ہو تو انہوں نے جواب دیا من واحد الی اکثر من الف کہ میں ایک سے لے کر ھزار سے اوپر تک گن سکتا ہوں ۔اب اس نے انداز سؤال بدلا اور کہا لم ارد ھذا کم لک من السن؟ کہ میرا ارادہ یہ نہیں تھا بلکہ آپ کا سِن کتنا ہے ۔اب اس سؤال میں خرابی یہ تھی کہ سِن عربی زبان میں دانت کو بھی کہتے ہیں تو انہوں نے یہ معنی مراد لیتے ہوئے کہا اثنان وثلاثون سنا بتیس دانت ہیں ۔سائل: کم لک من السنین تمہارے کتنے سال ہیں؟ 

ہشام : ماھی لی کلھا للہ سب سال اللہ ہی کے ہیں ۔

سائل:  فماسّنک  اس کا بھی ایک مطلب یہ بنتا ہے کہ عمر کے اعتبار سے تمہارا سن کونسا ہے؟ اور دوسرا تمہارا دانت کیا چیز ہے؟  ھشام دوسرا معنی مراد لیتے ہوئے عظم ھڈی ہے ۔

سائل : ابن کم انت یہ جملہ بھی عرب عمر معلوم کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں مطلب یہ ہے کہ تم کتنے سال کے ہو؟  لیکن ابن کا مطلب بیٹا زیادہ معروف ہے اور اس صورت میں ترجمہ ہوگا تم کتنے لوگوں کے بیٹے ہو ۔ھشام اسی دوسرے معنی کو لیتے ہوئے ابن ام واب میں ایک ماں اور ایک باپ کا بیٹا ہوں ۔

سائل : فکم اتی علیک تم پر کتنے گذرچکے ہیں ۔سال مراد ہیں ۔لیکن یہاں دشمن بھی مراد لیا جاسکتا ہے ۔تو ھشام اسی دوسرے معنی کو لیتے ہوئے لو اتی علی شئی لقتلنی اگر مجھ پر کچھ دشمن گذرے ہوتے تو مجھے قتل کرچکے ہوتے ۔

اس آدمی نے انتہائی زچ ہوکر کہا ویحک فکیف اقول کہ تم پر افسوس (تم ہی بتاؤ) میں کیسے کہوں؟

اس پر ھشام نے کہا یوں کہنا چاہیئے کم مضی من عمرک آپ کی عمر کتنی گذرچکی ہے ؟

 

اب عربی زبان کی چند خصوصیات پر نظر ڈالتے ہیں جو اس فصاحت وبلاغت کا سبب ہیں ۔

      عربی زبان کی خصوصیات

 

1 ذخیرہ الفاظ کی وسعت اور ترادف

عربی زبان کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں الفاظ کا بہت بڑا ذخیرہ ہے جو کسی معنی ومفھوم کو مختلف اسالیب میں بیان کرنے کی قدرت دیتا ہے ۔اسے ترادف سے تعبیر کرتے ہیں اس سے مافی الضمیر کو مختلف اندازوں سے اور باریک باریک اوصاف کا لحاظ رکھتے ہوئے بیان کرنے کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے ۔

عام زبانوں میں کسی مفھوم کو اداء کرنے کے لئے عموما دو چار لفظ ہی پائے جاتے ہیں ۔مثلا شھد کے لئے اردو زبان میں شھد کے علاوہ اور کوئی لفظ استعمال نہیں ہوتا لیکن عربی زبان میں اس کے لئے اسّی (80 )لفظ پائے جاتے ہیں ۔علامہ مجدالدین شیرازی رح کی اس پر باقاعدہ تصنیف ہے ۔اسی طرح سانپ کے لئے دوسو اور شیر کے لئے پانچ سو لفظ پائے جاتے ہیں ۔اونٹ اور تلوار کے لئے ایک ھزار اور مصیبت کے لئے تقریبا چار ھزار الفاظ پائے جاتے ہیں ۔

اور الفاظ کی یہ کثرت بلاوجہ نہیں ہے بلکہ ان میں باریک باریک معانی کا لحاظ رکھا جاتا ہے مثلا اردو میں پانی نکالنے والے ڈول کو ڈول ہی کہا جاتا ہے چاہے وہ خالی ہو یا پانی سے بھرا ہوا ہو مگر عرب خالی ڈول کو دَلْو اور بھرے ہوئے ڈول کو ذَنُوب کہتے ہیں اسی طرح دسترخوان پر اگر کھانا لگا ہو تو اسے مائدہ اور اگر خالی ہو تو خوان یا سمّاط کہتے ہیں ۔

ہمارے نزدیک بال کا لفظ ہی استعمال ہوتا ہے چاہے وہ انسان کے بال ہوں یا کسی جانور کے ۔پھر انسان کے بال ہوں تو سر، داڑھی ،مونچھ یا جسم کے کسی بھی حصے کے بال ہوں ان کے لئے بال کا لفظ ہی مستعمل ہے ۔

پر عرب انسان کے بالوں کے لئے الشَعر اونٹ کے بالوں کے لئے الوَبر گدھے کے بالوں کے لئے اَلعَفا بکری کے بالوں کے لئے المِرعزا پرندے کے بالوں کے لئے الریش چوزے کے بالوں کے لئے الزغب شتر مرغ کے بالوں کو الزِف اور خنزیر کے بالوں کے لئے الھُلب کا لفظ استعمال کرتے ہیں ۔

پھر انسان کے بال بھی سر پر ہوں تو اور نام چہرے ،داڑھی ،سینے مختلف جگہ کے بالوں کے لئے مختلف نام ہیں ۔

پھر سر کے بال اگر درمیانی حصے کے ہیں تو اور نام پیشانی پر لٹک رہے ہیں تو اور نام کندھوں پر بکھرے ہیں تو اور نام استعمال ہوتا ہے ۔

پھر بالوں کے رنگوں کے اعتبار سے مختلف نام ہیں اسی طرح ان کے اوصاف کے اعتبار سے کہ سیدھے ہیں گھنگھریالے ہیں ۔گھنے ہیں یا چھدرے مختلف نام ہیں ۔

پھر گھنے ہیں تو کتنے گھنے؟  گھنگریالے ہیں تو کس قدر؟  لمبے ہیں تو کتنے لمبے؟ کانوں تک یا گردن یا پشت تک؟ ان کے درجات ہیں اور ہر درجے کے علیحدہ نام ہیں ۔

گویا اردو زبان میں کوئی شخص بال کا لفظ استعمال کرے تو سیاق وسباق کے بغیر جاننا دشوار ہے کہ انسان کے بال مراد ہیں یا کسی جانور کے اور اگر انسان کے بال مراد ہیں تو سر کے بالوں پر گفتگو ہورہی ہے یا جسم کے کسی اور حصہ کے بال زیر بحث ہیں ۔پھر وہ بال خوبصورت ہیں یا بدصورت ؟لمبے ہیں یا چھوٹے ؟ سیدھے ہیں یا گھونگریالے؟  نرم وملائم ہیں یا سخت وکھردرے؟ ایک لفظ سے بات واضح نہ ہوگی ۔لیکن عرب ایک لفظ استعمال کرے گا اور ان تمام باتوں کی وضاحت ہوجائے گی ۔

 

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔


قرآن مجید کی فصاحت وبلاغت

قرآن مجید کے اس چیلنج کا تذکرہ جو اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو دیا تھا جن کو اپنی زبان دانی اور قوت کلام پر ناز تھا جن کے ہاں شعروادب ہی بزرگی وفضیلت کا معیار تھا ۔
عربی زبان کی فصاحت وبلاغت اہل عرب کی زباندانی ،عرب معاشرے پر شعراء کے اثرات ،اور اس کے تناظر میں قرآن مجید کے اس چیلنج کا دلچسپ قسط وار تذکرہ۔

کل مضامین : 16
اس سلسلے کے تمام مضامین

مفتی عبد اللہ اسلم صاحب

مدیر مدرسہ مصباح العلوم لاہور ۔
کل مواد : 20
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2024

تبصرے

يجب أن تكون عضوا لدينا لتتمكن من التعليق

إنشاء حساب

يستغرق التسجيل بضع ثوان فقط

سجل حسابا جديدا

تسجيل الدخول

تملك حسابا مسجّلا بالفعل؟

سجل دخولك الآن
ویب سائٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اس سائٹ کے مضامین تجارتی مقاصد کے لئے نقل کرنا یا چھاپنا ممنوع ہے، البتہ غیر تجارتی مقاصد کے لیئے ویب سائٹ کا حوالہ دے کر نشر کرنے کی اجازت ہے.
ویب سائٹ میں شامل مواد کے حقوق Creative Commons license CC-BY-NC کے تحت محفوظ ہیں
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2024