اسلامی مدارس کانصاب و نظام ۔۔ تجزیہ ، تبصرہ ، مشورہ۔ قسط 10

علم پر عمل

دوسری اہم چیز علم پر عمل کے لیے تیار کرنا ہے ؛کیوں کہ علم کی غرض و غایت ہی عمل ہے؛اسی لیے بعض صحابہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہ انھوں نے قرآن ِپاک کی ایک سورت{سورۃ البقرۃ} بارہ سال میں یا چودہ سال میں مکمل کی۔ جیسے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہے ،کہ بارہ سال میں{سورۃ البقرۃ} ختم کی اور ختم پر ایک اونٹ ذبح کیا۔      (تفسیر القرطبي:۱؍۴۰)

اور حضرت عثمان ،حضرت ابن مسعود اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہم سے مروی ہے، کہ ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دس دس آیات پڑھاتے تھے اور دیگر آیات اس وقت تک نہیں پڑھاتے تھے،جب تک کہ ان دس آیات میں جو عمل ہے، اس کو نہ سیکھ لیتے۔ یہ حضرات فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم کو قرآن اور اس پر عمل دونوں کی تعلیم دیتے تھے        ۔(تفسیر القرطبي:۱؍۳۹)

بعض حکما نے فرما یا :

’’ لَو لاَ العَقْلُ لَم یَکُنْ عِلْمٌ ، ولَوْلَا العِلْمُ لَمْ یَکُنْ عَمَلٌ ، وَلأنْ أدَعَ الحَقَّ جَہْلاً بِہِ خَیرٌ مِنْ أنْ أدَعَہُ زُہْداً فیہ۔‘‘        (جامع بیان العلم :۲؍۶)

(اگر عقل نہ ہوتی؛تو علم نہ ہوتا اور اگر علم نہ ہوتا؛تو عمل نہ ہوتا اور میں حق کو لاعلمی کی وجہ سے چھوڑدوں؛یہ بہتر ہے اس سے کہ میں حق کو اس سے لا پروائی کی وجہ سے ترک کردوں۔)

حضرت حسن بصری رحمہ اللہ ’’عالم‘‘ کی تعریف ہی یہ کرتے ہیں، کہ وہ اپنے علم پر عمل کرنے والا ہو ۔ وہ فر ما تے ہیں :’’ العَالِمُ الَّذِيْ وَافَقَ عِلْمُہُ عَمَلَہُ ، وَمَنْ خَالَفَ عِلْمُہُ عَمَلَہُ ، فَذٰلِکَ رِوَایَۃُ حَدِیثٍ سَمِعَ شَیْئاً فَقَالَہُ۔‘‘(جامع بیان العلم :۲؍۹)

(عالم وہ ہے،جس کا عمل اس کے علم کے موافق ہو اور جس کا عمل اس کے علم کے خلاف ہو؛ تو وہ بس حدیث کی روایت ہے، کہ جو سنا اس کو نقل کردیا۔)

حضرت عبد الملک بن ادریس رحمہ اللہ کے اس سلسلے میں یہ اشعار بڑے عمدہ ہیں:

والعلمُ لیس بِنَا فِعٍ أرْبابَہٗ

مَا لَم یُفِدْ عَمَلاً وحُسْنَ تبـصُّرٖ

(علم، اہل ِعلم کو اس وقت تک نفع نہیں دیتا ،جب تک کہ وہ عمل اور عمدہ بصیرت کا فائدہ نہ دے۔ )

سِیّانِ عِنْدِيْ عِلْمُ مَنْ لَمْ یَسْتَفِد

عَمَلاً بِہِ وصَلاۃُ مَنْ لَمْ یَطّہِـرٖ

(میرے نزدیک اس کا علم ،جس نے علم سے عمل کا فائدہ حاصل نہیں کیا اور بے وضو آدمی کی نماز دونوں برابر ہیں۔)

امام ابن القاسم رحمہ اللہ نے فرمایا کہ میں نے امام مالک رحمہ اللہ سے سنا ہے :

’’ لیس العِلمُ بکثرۃِ الرِّوَایۃ ، إنَّمَا العِلمُ نُوْرٌ یَضَعُہُ اللّٰہُ فِي القُلُوبِ۔‘‘

(علم کثرت روایت کا نام نہیں ہے ؛ علم تو ایک نور ہے، جو اللہ تعالے دلوں میں رکھتے ہیں۔)

نیز امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا :’’ الحِکْمۃُ والعِلْمُ نُورٌ یِھْدِي بِہِ اللّٰہُ مَنْ یَشَائُ ولَیْسَ بِکَثرَۃِ المَسَائِل۔‘‘

(الجامع لبیان العلم : ۲؍ ۳۱، الإلماع:۱؍۲۱۷)

(علم وحکمت ایک نور ہے، جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ جسے چاہتے ہیں،ہدایت دیتے ہیں اور وہ بہت سارے مسائل کا نام نہیں ہے۔)

حضرت عبد اللہ بن عون رحمہ اللہ کہتے ہیں:

’’ کانَ الفُقَھَائُ یَتَوَاصَوْنَ بِثَلاثٍ و یَکْتُبُ بَعضُھُمْ إلٰی بَعْض: أنَّہُ مَن أصْلَحَ سَرِیْرَتَہُ أصْلَحَ اللّٰہُ عَلاَنِیتَہ ومَن أصْلَحَ مَا بَیْنَہُ و بَیْنَ اللّٰہِ ، أصْلَحَ اللّٰہُ مَا بَیْنَہُ وَ بَیْنَ النَّاس ، وَمَنْ عَمِلَ لِلآخِرَۃِ کَفَاہُ اللّٰہُ الدُّنْیَا۔‘‘

(الإلماع: ۱؍۲۲۲)

(فقہائے کرام تین وصیتیں فرماتے تھے اوران میں سے بعض بعض کو لکھتے تھے : ایک یہ کہ جس نے اپنی خلوت کا معاملہ درست کر لیا؛ اللہ تعالیٰ اس کی جلوت کا معاملہ درست فرما دیتے ہیں۔ دوسری یہ کہ جس نے اپنے اور اللہ کے درمیان معاملے کو درست کر لیا؛اللہ تعالیٰ اس کے اور لوگوں کے درمیان معاملے کو درست فرمادیتے ہیں اور تیسری یہ کہ جس نے آخرت کے لیے عمل کیا؛ اللہ اس کی دنیا کے لیے کافی ہو جاتے ہیں۔)

الغرض طلبا کو علم کے ساتھ عمل کی طرف توجہ دلانا اور اس کی نگرانی کرتے رہنا ضروری ہے؛ تاکہ وہ اسلاف کے نقش قدم پرچلتے ہوئے عملی زندگی میں علم کو بہ روئے کار لانے والے بن سکیں ۔

نیز طلبائے کرام کو بتایا جائے، کہ بد عمل اور بے عمل عالم کے لیے کس قدر وعید شدید وارد ہوئی ہے۔ مثلاً :یہ حدیث کس قدر ہم کو چونکا رہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’ مَنْ تَعَلَّمَ عِلْماً مِمَّا یُبْتَغیٰ بِہِ وَجْہُ اللّٰہِ لَا یَتَعَلَّمُہُ إِلَّا لِیُصِیْبَ بِہِ عَرَضًا مِنَ الدُّنْـیَا لَمْ یَجِدْ عَرْفَ الْجَنَّۃِ یَوْمَ الْـقِیَامَۃِ۔‘‘

(جو شخص اس علم میں سے جو صرف اللہ کی رضا کے لیے حاصل کیا جا تا ہے ،اس کو اس لیے حاصل کرتا ہے ،کہ اس سے دنیا کا سامان کمائے؛ تو وہ قیامت کے دن جنت کی خوشبو نہیں پائے گا۔)

(أبوداود:۳۶۶۴، ابن ماجۃ:۲۵۲، أحمد:۸۴۳۸، صحیح ابن حبان: ۱؍۲۷۹، المستدرک للحاکم:۱؍۱۶۰)

اور یہ حدیث کس قدر لائق توجہ ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا :

’’ تَعَوَّذُوْا بِاللّٰہِ مِنَ جُبِّ الْحُزْنِ۔‘‘

(تم لوگ جب الحزن یعنی غم کے کنویں سے اللہ کی پناہ مانگو۔)

صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا :’’ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! وَمَـا جُبُّ الْحُزْنِ؟

(یا رسول اللہ ! یہ غم کا کنواں کیا ہے۔)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ وَادٍ فِيْ جَھَنَّمَ تَتَعَوَّذُ جَھَنَّمُ فِيْ کُلِّ یَوْمٍ مِائَۃَ مَرَّۃٍ ‘‘

(یہ جہنم میں ایک وادی ہے، جس سے خود جہنم بھی روازانہ سو دفعہپناہ مانگتی ہے۔)

صحابہ نے پوچھا کہ ’’یا رسول اللہ !اس میں کون لوگ داخل ہوں گے؟ ‘‘

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’ القُرَّاء الْمُرَائُوْنَ بِأَعْمَالِھِمْ۔‘‘ (الترمذي:۲۳۸۳)

(وہ قرا، جو اپنے اعمال سے دکھاوا کریں گے۔) 

اور اسی حدیث کی بعض روایات میں ہے،کہ اس وادی سے جہنم چار سو مرتبہ روازانہ پناہ مانگتی ہے ۔ (سنن ابن ماجۃ:۲۵۶،المعجم الأوسط للطبراني:۳؍۲۶۱)

علمی وقار وشان

ایک بات یہ ہے کہ طلبا کے اندر علمی وقار و شان پیدا کی جائے ،اس سے مراد بڑائی و تکبر نہیں؛بل کہ چھچورے پن سے حفاظت اور ان خصوصیات کو پیدا کرنے کی کوشش ہے، جو علمی وقار کو بلند کرتی ہیں۔ وہ کیا چیزیں ہیں ؟ ان کو حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس طرح بیان فرمایا :

’’ یَنْبَغِي لِقَارِي القُرْآنِ أنْ یُعْرَفَ بِلَیْلِہِ إِذَا النَّاسُ نَائِمُونَ، وَ بِنَھَارِہِ إذَا النَّاسُ مُسْتَیْقِظُون، و بِبُکَائِہِ إذَا النَّاسُ یَضْحَکُون، و بِصَمْتِہ إذَا النَّاسُ یَخُوْضُوْن، و بِخُضُوْعِہ إذَا النَّاسُ یَخْتَالُوْن، و بِحُزْنِہ إذَا النَّاسُ یَفْرَحُوْنَ۔‘‘   (تفسیر القرطبي:۱؍۲۱)

(قاری یعنی عالم ِقرآن کے لیے شایان ِشان بات یہ ہے، کہ وہ اس کی رات (کی عبادت و ریاضت سے )سے پہچانا جائے، جب کہ لوگ سوئے ہوئے ہوں اور اس کے دن (کی دین کے لیے قربانیوںاور دعوت الی اللہ و تبلیغ شریعت )سے بھی وہ جانا جائے، جب کہ لوگ بیدار ہوں اور اس کے (خوف وخشیت سے)رونے کی وجہ سے پہچانا جائے، جب کہ لوگ ہنس رہے ہوں اور (غور و فکر کی وجہ سے)اپنی خاموشی سے پہچانا جائے، جب کہ لوگ گپیاں مار رہے ہوں اور اپنی تواضع و خاکساری سے پہچاناجائے، جب کہ لوگ ڈینگیں مار رہے ہوں اور اپنے (امت کے اور آخرت کے )غم سے جانا جائے، جب کہ لوگ خوشیاں منارہے ہوں۔)

اگر علما و طلبہ اس کے بہ جائے عوام الناس ہی کی طرح گپیاں ماریں ،ٹھٹا مار کر ہنستے بیٹھیں ،خو ف وخشیت کا کوئی اثر ان کے اخلاق و اعمال و احوال و آثار سے ظاہر نہ ہو؛ تو یہ کیا علم ہے اور کیا علمی وقار ؟ جیسا کہ آج بہت سے علما نے اس وقار کو چھوڑ کر اور عوامی؛ بل کہ جاہلی طریقے کو اختیار کر کے اللہ کی نظر میں بھی اور عوام الناس میں بھی اپنا وقار ختم کر لیا ہے ؛ لہٰذا ان سب امور پر طلبائے کرام کی فہمائش و تنبیہ ہو تی رہنی چاہیے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


دینی مدارس کا نصاب ونظام

از افادات
شیخ طریقت حضرت اقدس مفتی شعیب اللہ خان صاحب مفتاحی مدظلہم العالی
(بانی ومہتمم الجامعۃ الاسلامیۃ مسیح العلوم،بنگلور)

نشر واہتمام
مفتی ابو الحسن المنجہ خیلوی عفی عنہ

کل مضامین : 14
اس سلسلے کے تمام مضامین

مفتی محمد شعیب اللہ خان صاحب

بانی ومہتمم الجامعۃ الاسلامیۃ مسیح العلوم،بنگلور
کل مواد : 14
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2024

تبصرے

يجب أن تكون عضوا لدينا لتتمكن من التعليق

إنشاء حساب

يستغرق التسجيل بضع ثوان فقط

سجل حسابا جديدا

تسجيل الدخول

تملك حسابا مسجّلا بالفعل؟

سجل دخولك الآن
ویب سائٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اس سائٹ کے مضامین تجارتی مقاصد کے لئے نقل کرنا یا چھاپنا ممنوع ہے، البتہ غیر تجارتی مقاصد کے لیئے ویب سائٹ کا حوالہ دے کر نشر کرنے کی اجازت ہے.
ویب سائٹ میں شامل مواد کے حقوق Creative Commons license CC-BY-NC کے تحت محفوظ ہیں
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2024