اسلامی تعلیمات کو مسخ کرکے اسلام کو بدنام کرنے کی سازش(۱)
داعش نے اسلام کو بدنام کرنے اور اسلامی تعلیمات کو مسخ کرنے کا جو بیڑہ اُٹھایا ہے ، اس کے ایک حصہ کے طورپر وہ عورتوں کو باندی بنانے اور ان کی خرید و فروخت کے بازار لگانے کی اوچھی حرکت بھی کر رہے ہیں ، سنا گیا ہے کہ جن لوگوں پر وہ تسلط حاصل کرلیتے ہیں ، ان کی عورتوں کو باندی ڈکلیئر کردیتے ہیں ، کھلے عام ان کی خرید و فروخت کی جاتی ہے ، یہاں تک کہ ان کو نیلام کیا جاتا ہے ، برسر عام ان کی ڈاک لگائی جاتی ہے اور یہ ساری غیر اسلامی حرکتیں اسلام کے نام پر کی جاتی ہیں ، پھر یہی شرمناک تصویریں انٹرنیشنل اور نیشنل میڈیا سے لے کر سوشل میڈیا تک ہر جگہ پھیلائی جاتی ہے اور جس مذہب نے سب سے زیادہ عفت و پاکدامنی ، شرم و حیا اور عورت کے ناموس کے احترام کی تلقین کی ہے ، ایسے رُسوا کن واقعات کو اسی دین و شریعت کی طرف منسوب کیا جاتا ہے ۔
اس پس منظر میں مسئلہ کی حقیقت کو سمجھنا ضروری ہے اور اس سلسلہ میں چند سوالات پر غور کرنا چاہئے :
(۱) غلام اور باندی سے متعلق قانون کیا شریعت محمدی کا وضع کیا ہوا ہے ، یا دیگر مذاہب اور قوانین میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے ؟
(۲) اسلام نے غلام اور باندی کے رواج کو بیک جنبش قلم کیوں ختم نہیں کیا اور اس نے کس طرح بتدریج اس رواج کو ختم کرنے میں کامیابی حاصل کی ؟
(۳) اسلام میں غلام اور باندی کے کیا احکام اور حقوق ہیں ؟
(۴) کیا اسلامی تعلیمات کی رُو سے اب بھی غلام اور باندی بنائے جاسکتے ہیں ؟
جہاں تک اسلام سے پہلے غلام اور باندی کا تصور ہے تو یہ تاریخ کے ہر دور میں موجود رہا ہے ، مغربی تہذیب کا سلسلۂ نسب روم اور یونان سے ملتا ہے ، ان کے یہاں غلاموں اور باندیوں پر جو مظالم ہوا کرتے تھے ، تاریخ میں ان کا ذکر موجود ہے ، یہاں تک کہ غلاموں کو جانوروں سے لڑایا جاتا تھا اور غلام بنائی ہوئی عورتوں سے ہر طرح کی خدمت لی جاتی تھی ، ہندو مذہب برادرانِ وطن کے دعوے کے مطابق ان کا مذہب قدیم ترین مذہب ہے ، ان کے یہاں یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ کرشن جی کے اصل بیوی تو رادھا تھیں ؛ لیکن سینکڑوں گوپیاں ان کے تصرف میں تھیں ، ظاہر ہے کہ وہ سب ان کی باندیاں ہی تھیں ، کرشن جی ان سے جنسی اعتبار سے بھی لطف اندوز ہوا کرتے تھے ، ہندو مذہب میں جنگ کا یہی قانون تھا کہ جنگ میں جو قوم مغلوب ہوجائے ، عورتوں کے بشمول تمام چیزیں جیتنے والے کی ملکیت ہوجاتی ؛ چنانچہ منوجی کی دھرم شاستر کی یہ عبارت ملاحظہ کی جاسکتی ہے :
گاڑی ، گھوڑا ، ہاتھی ، چھتری ، لباس (سوائے ان جواہر کے جو اس میں ٹکے ہوئے ہوں) غلہ ، مواشی ، عورتیں اور ہر قسم کی رقیق اور جامد چیزیں ( سوائے چاندی سونے کے) اس شخص کی جائز ملک ہیں جو لڑائی میں ان کو جیتے ۔ (۷: ۹۶)
اس سے معلوم ہوا کہ ہندو مذہب میں مفتوح قوموں کے مردوں اور عورتوں کو غلام اور باندی بنالینے کا باضابطہ قانون موجود تھا ، یہ تو انفرادی غلامی کا مسئلہ ہے ؛ لیکن ہندو مذہب کی اصل تعلیمات میں تو پوری قوم کی غلامی کا تصور ہے ، جس کی ایک ایک مرد و عورت پر اس سے اعلیٰ تر گروہ کی ملکیت قائم ہوتی تھی ؛ چنانچہ منوجی کی تعلیمات میں ہے :
شودر ذات کا ہر آدمی خواہ خریدہ ہو یا ناخریدہ ، اسے برہمن اپنی خدمت پر مجبور کرسکتا ہے ؛ کیوںکہ اس کو واجب الوجود نے برہمن کی غلامی ہی کے لئے پیدا کیا ہے ۔ (۸ : ۴۱۳)
تورات میں بھی باندی کا تصور موجود ہے ، حضرت ابراہیم علیہ السلام جن کی طرف یہودی ، عیسائی اور مسلمان تینوں اپنی نسبت کرتے ہیں ، تورات میں ہے کہ : ’’ مصری شہزادی حضرت ہاجرہ ان کی پہلی بیوی حضرت سارہ کی باندی تھیں ، جو انھوںنے حضرت ابراہیم السلام کو دے دی تھی اور اسی سے حضرت اسماعیل علیہ السلام پیدا ہوئے ‘‘(پیدائش : ۱۶ : ۱-۴) اگرچہ بائبل کا یہ بیان درست نہیں ہے ، حقیقت یہ ہے کہ حضرت ہاجرہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بیوی ہی تھیں ؛ لیکن بائبل کے اس بیان سے یہ بات بہر حال واضح ہوگئی کہ باندی کا تصور یہودی و عیسائی مذہب میں بھی موجود ہے ، بائبل کے بیان کے مطابق حضرت سلیمان علیہ السلام کی ڈھیر ساری باندیاں تھیں ؛ چنانچہ تورات میں ہے :’’ اس کے پاس سات سو شہزادیاں اس کی بیویاں اور تین سو حرمیں تھیں ‘‘ ۔( سلاطین : ۱۱)
تورات میں جنگ کا جو قانون بیان کیا گیا ہے ، اس میں مفتوح قوم کی عورتوں کو باندی بنالینے کا واضح حکم دیا گیا ہے ؛ چنانچہ تورات کے صحیفہ گنتی میں ہے :
سو تم ان بچوں کو جتنے لڑکے ہیں سب کو قتل کردو اور ہر ایک عورت کو جو مرد کی صحبت سے واقف تھی جان سے ماردو ؛ لیکن وہ لڑکیا جو مرد کی صحبت سے واقف نہیں ہوئیں ان کو اپنے لئے زندہ رکھو ۔ (۳۱ : ۱۷ -۱۸)
اس لئے یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے کہ باندیوں کے رسم کی ایجاد اسلام نے کی ہے ، یہ رسم دنیا کے دوسرے مذاہب اور نظام ہائے قانون میں پہلے سے موجود رہی ہے ۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ اسلام نے اس رسم کو ختم کیوں نہیں کیا ؟ اولاً تو بعینہٖ یہ سوال ہندو مذہب کے ماننے والوں اور تورات کی اتباع کرنے والوں سے بھی ہوتا ہے ؛ لیکن اس کی حکمت پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اسلام باوجودیکہ عدل و انصاف کا داعی اور مساوات کا علمبردار ہے ، نیز اس کی بنیادی دعوت ہی انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر اللہ تعالیٰ کی غلامی میں داخل کرنا ہے ، تو پھر اس نے کیوں غلامی کے اس نظام کو سود اور شراب وغیرہ کی طرح یکبارگی ختم نہیں کیا ؟ — دراصل اس کا تعلق قانون جنگ سے ہے ، جنگ میں جو لوگ مارے جائیں ، ان کا تو کام تمام ہوچکا ؛ لیکن مفتوح قوم کے جو مرد و عورت بچ جائیں ، ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے ، گذشتہ اقوام میں ان کے لئے دو ہی راستے تھے ، یا تو ان کو بھی قتل کردیا جاتا ، یا انھیں غلام و باندی بنالیا جائے ، مثلاً تورات میں ہے :
لیکن ان قوموں کے شہروں میں جنھیں خداوند تیرا خدا تیری کردیتا ہے ، کسی چیز کو جو سانس لیتی ہے جیتا نہ چھوڑیو ؛ بلکہ تو ان کو حرم کیجیو ۔ (استثناء : ۲۰ : ۱۶-۱۷)
تورات کے اسی باب میں ایک اور موقع پر کہا گیا ہے :
اور اگر وہ تجھ سے صلح نہ کرے ؛ بلکہ جنگ کرے تو تو اس کا محاصرہ کر اور جب خداوند تیرا خدا اسے تیرے قبضہ میں دیدے تو وہاں کے ہر ایک مرد کو تلوار کی دھار سے قتل کر ، مگر عورتوں اور لڑکوں اورمواشی کو اور جو کچھ اس شہر میں ہو ، اس کی ساری لوٹ اپنے لئے لے اور تو اپنے دشمن کی اس لوٹ کو جو خداوند تیرے خدا نے تجھے دی ہے ، کھائیو ۔ ( استثناء : ۲۰ : ۱۰ – ۱۴۱۱)
غرض کہ جنگی قیدیوں کے سلسلہ میں یہی دو طریقہ تھا ، ان کا قتل عام یا انھیں غلام اور باندی بنالینا ، اسلام چوںکہ اپنے اصل مزاج کے اعتبار سے غلامی کے اس نظام کو پسند نہیں کرتا ہے اور نہ بلا وجہ قتل و خونریزی کو گوارا کرتا ہے ؛ اس لئے اس نے اول یہ ہدایت دی کہ میدان جنگ میں تو تمہارا دشمنوں کو قتل کرنا درست ہے ؛ لیکن جب وہ قابو میں آجائیں تو سوائے بعض استثنائی اور غیر معمولی صورتوں کے انھیں قتل نہ کیا جائے ؛ بلکہ قیدی بنالیا جائے : ’’حَتّٰی اِذَا اَثْخَنْتُمُوْھُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ‘‘ (محمد : ۴) اب ان قیدیوں کو زندہ رکھتے ہوئے اسلام سے پہلے ایک ہی راستہ تھا کہ انھیں غلام اور باندی بنالیا جائے ؛ لیکن اسلام نے ان کے لئے کئی راستے رکھے ہیں — ایک صورت یہ ہے کہ ان کو گرفتار ہی نہ کیا جائے ، رسول اللہ ا نے فتح مکہ کے موقع پر مشرکین کے ساتھ اور بنو قینقاع ، بنو نضیر اور خیبر کے موقع پر یہی صورت اختیار فرمائی ۔
دوسری صورت یہ ہے کہ گرفتار کرنے کے باوجود انھیں بلا معاوضہ رہا کردیا جائے ، جس کو قرآن مجید نے ’’ مَن ‘‘ یعنی احسان سے تعبیر کیا ہے ، ( محمد : ۴) — آپ انے جنگ جنین کے موقع پر قبیلۂ بنو ہوازن کے چھ ہزار قیدیوں کو بغیر کسی معاوضہ کے رہا فرمادیا ، صلح حدیبیہ کے موقع سے اسّی مشرکین کے گروہ نے صبح کے اندھیرے میں حملہ کیا اور گرفتار ہوئے ، ان کو بھی آپ نے یوں ہی رہا فرمادیا ، بعد کو جب روم و ایران کے علاقے فتح ہوئے تو اس وقت بھی عمومی طورپر مفتوحین کو رہا کردیا گیا اور انھیں غلام و باندی نہیں بنایا گیا ۔
تیسری صورت یہ ہے کہ ان سے فدیہ لے کر ان کو رہا کیا جائے اور فدیہ میں بھی یہ گنجائش ہے کہ چاہے ان سے مال کی شکل میں فدیہ لیا جائے یا ان کی مہارت سے فائدہ اُٹھایا جائے اور اسی کو ان کا فدیہ بنادیا جائے ، جیسا جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے ، غزوۂ بدر میں آپ انے دس مسلمان بچوں کی تعلیم کو ان کے حق میں فدیہ قرار دیا تھا — قرآن میں ان ہی دو صورتوں کا ذکر کیا گیا ہے : بلامعاوضہ رہا کردینا ، یا معاوضہ لے کر رہا کردینا ، اس سے معلوم ہوا کہ اسلام میں قید کئے جانے والوں کے ساتھ اصل حکم یہی دو ہیں ۔
چوتھی صورت یہ ہے کہ جنگی قیدیوں کا آپس میں تبادلہ کرلیا جائے ، اُس زمانہ میں قیدیوں کے تبادلہ کا کوئی بین قومی معاہدہ نہیں تھا ؛ لیکن جہاں ایسی صورت ممکن ہوئی ، وہاں آپ انے قیدیوں کا تبادلہ بھی فرمایا اور اسی لئے فقہاء اس بات پر متفق ہے کہ اگر دشمن جنگی قیدیوں کے باہمی تبادلہ پر آمادہ ہوجائیں تو قیدیوں کا تبادلہ کرلیا جائے گا ۔ ( فتح القدیر : ۴؍۳۰۶)
پانچویں صورت یہ ہے کہ کہ دشمن کے قیدیوں کو غلام اور باندی بنالیا جائے ؛ لیکن یہ صرف ایک جائز عمل تھا ، اس کی ترغیب نہیں دی گئی ، اور اس کی گنجائش بھی اسی وقت ہے ، جب کہ قیدیوں کے تبادلہ کی کوئی صورت پیدا نہ ہوسکے ۔ ( جاری)