نئے اسلامی ہجری سال کا پیغام

نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم اما بعد!
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
اِنَّ عِدَّةَ الشُّہُورِ عِندَاللّٰہِ اثنَاعَشَرَ شَہراً فِی کِتَابِ اللّٰہِ یَومَ خَلَقَ السَّمٰوَاتِ وَالاَرضَ مِنھَا اَر بَعَةحُرُم (الٓایة)

اسلامی ہجری سال 1439 ہجری رخصت ہوکر 1440 ہجری جلوہ آرا ہوچکاہ ے....

کُلَّ عَامٍ وَاَنتُم بِخَیر!....
اَللّٰہُمَّ اِنَّا نَسئَلُکَ خَیرَ ھٰذہِ السَّنَةِ الجَدِیدَةِ،نُورَھَا وَبَرَکَتَھَا،وَاَعُوذُبِکَ مِن شُرُورِھَا وَعُسرِھَاوَخَوفِھَاوَھُلکَتِھَا۔

سن ہجری کا آغازایمان باللہ، اِیمان بالرسالت،اور ایمان بالآخرة رکھنے والوں کے لیے جداگانہ شناخت اور اسلامی عصبیت کا مظہرہے۔ ایک بندہ خدا اورمنکر خدا میں فرق یہ ہے کہ منکر ِخدا اس طرح کے مواقع کو عیش وعشرت اور بے معنی خوشی کے غُل میں گزارتا ہے؛ جب کہ بندہ خدا اِن مواقع کو اپنے معبود حق کے ساتھ رشتہ عبدیت مضبوط بنانے اور اس کی رضا جوئی میں صرف کرتا ہے۔اسلامی سال کا ہجرت جیسے عظیم الشان واقعے سے آغاز اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس اُمت کے افراد میلوں ٹھیلوں ،لہوولعب اورجاہلی تہذیبوں کے دِل دَادہ نہیں ہو سکتے۔انہیں ہمیشہ ہجرت جیسا عظیم الشان واقعہ پیش نظر رکھنا چاہیے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے جاں نثار صحابہ نے محض دین حق کے تحفظ اور اس کی دعوت کی خاطرمشقتیں، صعوبتیں اور کلفتیں ا ٹھاتے ہوئے اپنے محبوب شہرمکة المکرمہ کو چھوڑااور مدینہ منورہ کو اپنا مسکن بنایا۔اہل ایمان کفروجہالت کے لق ودق صحرامیں ایک ایسی ریاست ومعاشرت کی بنیاد رکھنے جارہے تھے جہاں اَحکام الٰہی پر بغیرکسی کھٹکے ،ڈر اور خوف کے عمل ہوسکے۔ ہجرت غیر معمولی عمل تھا،حتیٰ کہ یہ عظیم الشان عمل حق اور با طل کے درمیان ’فرقان‘اور خود اہل ایمان کے درمیان حفظ مراتب کا سنگ میل بن گیا۔قرآن مجید میں اس فرق کو ....اَلسَّابِقُونَ الاَوَّلُونَ مِنَ المُہَاجِرِینَ وَالاَنصَار... کہہ کرواضح فرمایا گیا ؛اور مہاجرین کی تعریف و توصیف بیان کی گئی۔ان مہاجرین نے مکہ کو صرف اس لیے چھوڑا تھا کہ انہیں اُمید تھی کہ اس ہجرت کے بعد بندگی رب میں حائل تمام رکاوٹیں ختم ہوجائیں گی؛اور وہ ایک نئی بستی میں جاکر عبادات اطمینان کے ساتھ بجا لائیں گے ۔
ایک صاحب ایمان کے لیے سب سے قیمتی متاع وہ عقائدوایمانیات ہوتے ہیں جن کی بنیاد پردائرہ اسلام میں داخل ہوا جاتا ہے....اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور حاکمیت پرکامل ایمان....حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا جزبہ بے پناہ....آخرت میں مالک الملک کے حضور حاضری کے احساس کے ساتھ اس کی رضامندی پالینے کاذوق وشوق....یہی مومن کی متاع ِ بے بہا ہے۔
بلا شبہ سالوں، مہینوں اور دنوں کا یہ ہیر پھیر، موسموں کی آمد و رفت اَللہ تعالیٰ کے مقررہ نظام کے مطابق اَزل سے چل رہا ہے اور جب تک اَللہ تعالیٰ کی مشیت ہوگی اسی انداز و اطوار سے چلتا رہے گا۔ اَللہ تعالیٰ نے یہ کارخانہ قدرت بیکار و عبث پیدا نہیں فرمایا، اس میں اہل عقل و دانش کے لیے واضح نشانیاں ہیں:
اِنَّ فِی خَلقِ السَّمٰوَاتِ وَالاَرضِ وَاختِلاَفِ اللَّیلِ وَالنَّھَارِ لَاٰیَاتٍ لِّاُولِی الاَلبَاب۔(آل عمران)
”بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور دن رات کے الٹ پھیر میں بڑی نشانیاں ہیں عقل مندوں کے لیے۔“

اسی طرح انسان جو اس کائنات اَرضی کی سب سے بڑی حقیقت ہے اس کی پیدائش بھی یوں ہی نہیں ہوئی،نہ اسے بیکاروعبث پیدا کیا گیا ہے....
اَفَحَسِبتُم اَنَّمَا خَلَقنَا کُم عَبَثاً وَّاَنَّکُم اِلَینَا لَاتُرجَعُون۔ (المومنون)
”کیا تم نے سمجھ رکھا ہے کہ ہم نے تم کو بے کار پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم لوٹ کر ہمارے پاس نہ آﺅ گے؟!“
اس مقصد پیدائش کو بھی قرآن مجیدمیں بیان فرمادیاگیا ہے، ارشاد ہے:
وَمَا خَلَقتُ الجِنَّ وَالاِنسَ اِلَّا لِیَعبُدُون
”میں نے جن واِنس کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں۔“
یہ آسمان و زمین، یہ مخلوقات، یہ حیاتِ دُنیوی، انسانی زندگی.... ہمیشہ کے لیے نہیں،ان سب کو فنا کا سامنا کرنا ہے اوراپنے پروردگار کے پاس حاضر ہوکر اس کار گاہِ حیات میں انجام دیے گئے ہر ہر عمل کا جواب بھی دینا ہے۔قرآن مجید میں ارشاد ہے:
اِلَیہِ مَرجِعُکُم جَمِیعاً، وَعدَاللّٰہِ حَقًّا (یونس)
”اسی کی طرف تمہاری واپسی ہے، یہ اللہ کا ٹھیک ٹھیک وعدہ ہے۔“

اب جب کہ ہم نے گزشتہ ہجری سال کو الوداع کہہ دیا ہے اور نئے سال کو خوش آمدید کہہ رہے ہیں تو لازم ہے کہ کچھ دیر ٹھہر کر اپنی ذات اور اپنی زندگی کے گزشتہ ایام کا محاسبہ کریں۔
تیزی سے گزرتے لیل و نہار اور شمس و قمر کے طلوع و غروب میں غور و فکر کریں۔جانیں کہ زندگی کے ایام تیزی کے ساتھ گزرتے چلے جارہے ہیں، کل ایک آدمی بچہ تھا، پھر جوان ہوا اور اب اسے بڑھاپے نے آلیا ہے، ہر نئے دن کتنے ہی لوگ پشتِ زمین سے تہِ زمین چلے جاتے ہیں.... اس میں کسی امیر و غریب اور چھوٹے بڑے کا کوئی فرق واِمتیازنہیں.... بلاشبہ یہ تمام نشانیاں اس بات کا پتا دیتی ہیں کہ یہ دنیا فانی اور یہ زندگی نہایت مختصر ہے....
عمر رَواں کی تیزی کا بیاں کیا؟!
اِک برق کوند کر اِدھر آئی اُدھر گئی

ہمارا دین حیاة دنیوی کی اسی بے ثباتی کو انسان کے سامنے رکھتا ہے،وہ قدم قدم پر نشان دَہی کرتا اور اِسے بتاتا ہے کہ یہ ہمیشہ کی زندگی نہیں، یہاں قیام ہمیشہ کے لیے نہیں، یہ راہ گذر ہے، اصل مقام و قیام آخرت میں ہے:
وَمَا ھٰذِہِ الحَیٰوةُ الدُّنیَا اِلَّالَھو وَّلَعِب.... وَاِنَّ الدَّارَ الآخِرَةَ لَھِیَ الحَیَوَان لَوکَانُوا یَعلَمُون۔ (عنکبوت)
”یہ دنیا کی زندگی محض کھیل تماشا ہے اور آخرت کی زندگی ہی جاودانی زندگی ہے اگر وہ جانیں۔“
دنیا کی اسی بے ثباتی اور آخرت کے دوام کو واضح کرتے ہوئے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
مَالِی وَلِلدُّنیَا ؟....مَااَنَا فِی الدُّنیَااِلَّا کَرَاکِب اِستَظَلَّ شَجَرَةً،ثُمَّ رَاحَ وَتَرَکَھَا
”مجھے دنیا سے کیا تعلق اور کیا لینا دینا ؟!میرا تعلق دنیا سے بس اتنا ہے کہ کوئی مسافر کچھ دیر سایہ لینے کے لیے کسی درخت کے نیچے ٹھہرا اور پھر اس جگہ کو چھوڑ کر چل دیا“(رواہ ترمذی)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ،وہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے دونوں کندھے پکڑ کر مجھ سے ارشاد فرمایا:
کُن فیِ الدُّنیَاکَاَنَّکَ غَرِیب اَو عَابِرُسَبِیل
”دنیا میں یوں رہو جیسے تم اجنبی ہو یا راہ چلتے مسافر!“ (رواہ البخاری)

اجنبی اور مسافر راستے کی رنگینیوں میں کھونہیں جایا کرتے، بس اتنا ہی نفع اٹھاتے ہیں جو منزل تک پہنچنے میں مدد دے، کوشش یہی ہو کہ گاڑی چھوٹنے سے قبل وہ ضروری اُمور انجام دے لیے جائیں جو منزل پر پہنچ کر کام دیں، مومن تو اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ اس دنیوی زندگی میں قیام کااور یہاں کے گزرے لمحات کا مواخذہ ہونا ہے۔ اسے دِل کی گہرائیوں سے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان حق ہے:
فَمَن یَّعمَل مِثقَالَ ذَرَّةٍ خَیراً یَّرَہ، وَمَن یَّعمَل مِثقَالَ ذَرَّةٍ شَرّاً یَّرَہ۔ (زلزال)
”جو شخص ذرّہ برابر بھی نیکی کرے گا وہ اس کو دیکھے گا اور جو ذرہ برابر برائی کرے گا اس کو دیکھے گا۔“ ....یعنی بدلہ پالے گا۔
چنانچہ عقل مند شخص وہی ہے جو اس دنیا میں رہتے ہوئے آخرت کے لیے اچھا ذخیرہ کرلے ۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اَلکَیِّسُ مَن دَانَ نَفسَہ وَ عَمِلَ لِمَا بَعدَ المَو ت۔
”عقل مند وہ شخص ہے جس نے اپنے نفس کو قابو میں رکھا اور موت کے بعد کے لیے عمل کیا۔“

ہجری سال کے اختتام و آغاز کا پیغام یہی ہے کہ انسان گزشتہ کا محاسبہ کرے اوراپنے مستقبل کی منصوبہ بندی کرے۔ یہ محاسبہ عامی پر بھی لازم ہے اور مقتداءو پیشوا پر بھی!.... فرد خواہ وہ استاذہے یا شاگرد، شیخ ہے یا مرید.... دین کا داعی و مبلغ ہے یا کسی دینی جماعت کا زعیم و راہبر....! ہر شخص کی اپنے اپنے مقام پر مسئولیت ہے... خصوصاً وہ لوگ جن کے ساتھ امت کا اجتماعی مفاد وابستہ ہے ان کی مسئولیت کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ جو افراد منصب قیادت پر فائز ہیں ان کے لیے محاسبے کا مقام ہے کہ انہوں نے امت کے ایک بڑے طبقے کی قیادت و رہنمائی کا منصب اپنے ذمے لیا.... پھر وہ کس حد تک اس منصب سے عہدہ برآہوسکے؟!....اور وہ لوگ بھی جن کے ہاتھوں میں وقف اَموال ہیں، جو صدقات و عطیات پر نگران و امین بنائے گئے ہیں؛کیا انہوں نے اِن اموال کو ٹھیک ٹھیک ان کے مواضع میں خرچ کیا؟....اور عامی لوگ.... ان میں خواہ کوئی آجر ہے یا اجیر، تاجر ہے یا صنعت کا رو کاشت کار.... ان کے لیے بھی محاسبے کا وقت ہے کہ انہوں نے اپنے اپنے مقام پر دین و شریعت کو کس قدر ملحوظ رکھا؟

بندوں کے لیے اُن کے اعمال کے مطابق حق تعالیٰ شانہ کے وعدے تو حق اور سچ ہیں،کبھی جھوٹے نہیں ہوسکتے، بندوں نے اپنے پروردگار کے ساتھ جو عہد و پیمان کیے تھے وہ کس حد تک وفا ہوئے؟یہ سوال باقی ہے!
وَاَوفُوا بَالعَہد، اِنَّ العَہدَ کَانَ مَسئُولاً (اسراء)
”اور عہد کو پورا کرو.... کیوں کہ عہد کی پرسش ہونی ہے۔“

شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2024

تبصرے

يجب أن تكون عضوا لدينا لتتمكن من التعليق

إنشاء حساب

يستغرق التسجيل بضع ثوان فقط

سجل حسابا جديدا

تسجيل الدخول

تملك حسابا مسجّلا بالفعل؟

سجل دخولك الآن
ویب سائٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اس سائٹ کے مضامین تجارتی مقاصد کے لئے نقل کرنا یا چھاپنا ممنوع ہے، البتہ غیر تجارتی مقاصد کے لیئے ویب سائٹ کا حوالہ دے کر نشر کرنے کی اجازت ہے.
ویب سائٹ میں شامل مواد کے حقوق Creative Commons license CC-BY-NC کے تحت محفوظ ہیں
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2024