موجودہ حالات کے پس منظر میں حیات ابراہیمی کا پیغام
قرآن مجید خدا کی کتاب ہے اور یہ کتاب قیامت تک کے لئے ہے، اس لئے قرآن مجید میں جو مضامین آئے ہیں ان کا تعلق ایمانیات سے ہو، انبیاء کے قصص و واقعات سے ہو، عملی زندگی کے احکام سے ہو یا کائنات کے حقائق سے، وہ سب قیامت تک کے لئے نشانِ راہ ہیں، روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مختلف عہد میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث کئے جانے والے پیغمبروں کی تعداد ایک لاکھ سے اوپر رہی ہے، ان میں سے صرف چند پیغمبروں کا قرآن مجید میں ذکر آیا ہے اور ان میں بھی بعض ہی پیغمبر ہیں جن کے حالات زیادہ تفصیل کے ساتھ مذکور ہیں، ان انبیاء کرامؑ کا خصوصی طور پر ذکر اس بات کی علامت ہے کہ ان سے متعلق واقعات میں امت محمدیہ کے لئے خاص طور پر عبرت و موعظت کے پہلو موجود ہیں، جن انبیاء کے واقعات کو قرآن مجید میں زیادہ تفصیل سے بیان کیا گیا ہے، ان میں ایک سیدنا حضرت ابراہیمؑ کا واقعہ بھی ہے، حضرت ابراہیمؑ کا ذکر قرآن مجید میں ۶۹ بار آیا ہے اور رسول اللہ ﷺ کے علاوہ انبیاء میں صرف حضرت ابراہیمؑ ہی کی ذات ہے جن کے بارے میں قرآن مجید نے صراحت کی ہے کہ یہ امت کے لئے اسوہ ہیں: قَدْ کَانَتْ لَکُمْ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ فِیْ إِبْرَاہِیْمَ وَالَّذِیْنَ مَعَہ (الممتحنہ: ۴)
گویا یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ مسلمان مستقبل میں جن حالات سے دوچار ہوں گے، ان میں حضرت ابراہیمؑ کی زندگی ایک نقش راہ کا درجہ رکھے گی اور اس سے رہنمائی حاصل کرنے میں اس امت کی فلاح و کامیابی مضمر ہوگی۔
اگر غور کیا جائے تو آج مسلمان جن حالات سے دوچار ہیں وہ حیات ابراہیمی سے بڑی مماثلت رکھتے ہیں، آج پوری دنیا میں مسلمانوں سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ وہ اللہ اور رسول ﷺ کے احکام کے بجائے قومی روایات پر عمل کریں اور اپنے آپ کو اس تہذیب کے سانچہ میں ڈھال لیںجو آج پوری دنیا پر اپنا غاصبانہ قبضہ جمانا چاہ رہی ہے اور اس میں مسلمانوں کے سوا اور کسی کی مزاحمت درپیش نہیں ہے، عالمی سطح پر ان سے مطالبہ ہے کہ وہ مغربی تہذیب کو قبول کرلیں، شرافت و اخلاق اور حیاء پر مبنی طریقہ زندگی کو بنیاد پرستی اور قدامت پسندی کا نام دیا جارہا ہے، ہندوستان میں ہندوتوا کی بات کی جارہی ہے، سیدنا حضرت ابراہیمؑ کی آزمائش کی ابتداء یہیں سے ہوئی، عراق کا معاشرہ چاہتا تھا کہ وہ اس مشرکانہ طریقہ زندگی پر قانع ہوجائیں، جس میں سورج، چاند اور ستاروں کی پرستش سے لے کر بے شمار چیزوں کی پرستش کی جاتی تھی اور اس روایتی فکر کے خلاف بغاوت نہیں کریں، لیکن حضرت ابراہیمؑ کے ضمیر نے اس کو قبول نہیں کیا کہ وہ توحید کے بجائے شرک پر قانع ہوجائیں، انہوں نے ستارہ پرستی، چاند پرستی، سورج پرستی اور بت پرستی کے خلاف پوری قوت اور دلیل کے ساتھ آواز اٹھائی، اس کا رد عمل یہ ہوا کہ پہلے آپ کو زندہ جلانے کی کوشش کی گئی، مگر جب اللہ کی طرف سے آپ کی حفاظت کے غیبی انتظام نے انہیں ناکام کردیا، تو آپ کو وطن چھوڑنے پر مجبور کیا گیا، یہاں تک کہ آپ کے بت گر والد نے بھی آپ کو سنگسار کردینے کی دھمکی دی: لَئِن لَّمْ تَنتَہِ لَأَرْجُمَنَّکَ وَاہْجُرْنِیْ مَلِیّاً (مریم: ۴۶)
یہ وہی رویہ ہے جو ہر عہد میں باطل کی طاقتوں نے حق اور سچائی کے خلاف استعمال کیا ہے، آج بھی مسلمانوں کو مختلف ملکوں میں در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کیا جارہا ہے، فلسطین میں فلسطینی پناہ گزینوں کو خود ان کے وطن میں واپس آنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے اور ہندوستان میں فرقہ پرست طاقتیں ’’کہاں جائے گا مسلمان‘ قبرستان یا پاکستان‘‘ کا نعرہ لگا رہی ہیں، یہ قوم ابراہیمی کے اسی رویہ کا اعادہ ہے۔
حضرت ابراہیمؑ نے جب عراق سے ہجرت کی تو راستہ میں مصر سے بھی گزرے، جہاں آپ کی زوجہ حضرت سارہ علیہا السلام کے ساتھ زیادتی کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن اللہ تعالیٰ کی مدد سے یہ فتنہ ٹل گیا، پھر جب حضرت ابراہیمؑ شام پہنچے اور بوڑھاپے میں حضرت اسماعیلؑ پیدا ہوئے تو حکم ہوا کہ شیر خوار بیٹے اور نئی نویلی دلہن شہزادی مصر حضرت ہاجرہ علیہا السلام کو شام و فلسطین کے مرغزاروں کو چھوڑ کر مکہ کے بے آب و گیاہ صحرا میں پہنچا دیا جائے، حضرت ابراہیمؑ اس امتحان میں بھی پورے اترے اور ان دونوں کو مکہ مکرمہ میں چھوڑ آئے، جہاں اس وقت پانی کا ایک قطرہ بھی میسر نہیں تھا، مکہ میں حضرت اسماعیلؑ کی پرورش ہوئی اور جب انہوں نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک اور امتحان ہوا جو آخری امتحان تھا کہ اللہ کی رضا کے لئے حضرت اسماعیلؑ کو بھینٹ چڑھا دیا جائے، رضائے خداوندی کے طالب باپ اوروفا شعار بیٹے نے اس جاں گسل امتحان پر بھی لبیک کہا اور وہ قربانی پیش کی جس کی محبت و جاں نثاری کی انسانی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی:
اے دل! تمام نفع ہے سودائے عشق میں
اک جان کا ضیاع ہے سو ایسا ضیاع نہیں
یہ بات ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے، اگر اللہ چاہتے تو حضرت اسماعیلؑ کو ان آزمائشوں سے گزارے بغیر بھی وہ مقاصد حاصل ہوجاتے جو مقصود تھے، لیکن ایسا نہیں ہوا، آپ کو ابتلائوں اور آزمائشوں کا سفر طے کرنا پڑا، یہی بات رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں بھی ملتی ہے اور یہ وہ حقیقت ہے جس کی طرف قرآن مجید نے واضح طور پر اشارہ کیا ہے، اہل ایمان کو یہ خیال ہوسکتا تھا کہ وہ جب ایمان وہدایت سے بہرہ ور ہوچکے ہیں اور حق و راستی پر قائم ہیں تو وہ اس دنیا میں مشقتوں اور آزمائشوں میں کیوں مبتلا کئے جائیں گے؟ جیسے خدا نے ان کے لئے آخرت میں جنت بنائی ہے، اسی طرح وہ دنیا میں بھی راحت و آسائش کے مستحق ہیں، اللہ تعالیٰ نے اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لئے نہایت تاکید کے ساتھ فرمایا ہے:
’’اور ہم تمہیں ضرور ہی آزمائیں گے، کچھ بھوک اور خوف سے، نیز مال، جان اور پھلوں کی کمی سے بھی، اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دیجئے، وہ لوگ کہ جب انہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں کہ بیشک ہم سب اللہ کے لئے ہیں اور ہم سب کو اللہ ہی طرف لوٹنا ہے‘‘ (البقرہ: ۱۵۵)
اس آیت میں صحابہ کرامؓ سے خطاب ہے، جن کا ایمان بعد میں آنے والی امت سے یقینا بڑھا ہوا تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ تمہارے لئے پھولوں کی سیج بچھے گی، بلکہ پوری قوت کے ساتھ فرمایا گیا کہ ہم تمہیں ضرور ہی ابتلائوں اور آزمائشوں کی بھٹی میں تپائیں گے، یہ آزمائش بھوک اور فاقہ مستی کی بھی ہوگی، یعنی معاشی ناکہ بندی ہوگی، ملازمت کے دروازے بند کئے جائیں گے، تعلیمی پسماندگی سے بھی دوچار کیاجائے گا، کیونکہ یہ پسماندگی انسان کو معاشی زوال و انحطاط تک لے جاتی ہے، خوف و دہشت سے بھی آزمایا جائے گا، حکومتوں کا خوف، انٹلی جنس اور پولیس کا خوف، ظالمانہ قوانین کا خوف، انسانی حقوق سے محروم کئے جانے کا خوف، غرض طرح طرح کے خوف و دہشت سے مسلمانوں کو گزرنا پڑے گا، مال کا نقصان بھی برداشت کرنا ہوگا، تجارتوں اور کاروباروں پر حملے بھی ہوں گے، جان کا نقصان بھی اٹھانا ہوگا، اور مسلمانوں کے خون کی ارزانی ہوگی، پھل کا نقصان ہوگا، زمین کے پھل میں جیسے سیب اور آم اور چاول اور گیہوں داخل ہیں، اسی طرح پٹرول اور دوسرے معدنی ذخائر بھی شامل ہیں، آج حقیقی معنوں میں پٹرول کے ذخیرہ پر مغربی طاقتوں کا قبضہ ہے، مسلم ممالک کو زراعتی ٹکنالوجی سے محروم رکھنا، بلکہ مختلف کیمیکل کے استعمال کے ذریعہ عالم اسلام کی زمینوں کو ناکارہ بنانا، یہ سب زمین سے حاصل ہونے والی آمدنی کو نقصان پہنچانا اور قرآن مجید کی زبان میں (وَنَقْصٍ مِّنَ الثَّمَرَاتِ) ہے، غرض کہ آج پوری دنیا میں مسلمان جن مصیبتوں سے گزر رہے ہیں وہ باعث حیرت نہیں ہے اور قرآن مجید نے شروع ہی سے اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔
ایسے واقعات پر مسلمانوں کا کیا طرز عمل ہونا چاہیے؟ اللہ تعالیٰ نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسے موقع پر امت کو صبر کا راستہ اختیار کرنا چاہیے، صبر سے مراد ثابت قدمی ہے، یعنی حالات کتنے بھی ناموافق ہوں اور کتنی بھی دشواریاں راہ حق میں آئیں انسان باطل کی قوت کو دیکھ کر متزلزل نہ ہو ، وہ حوصلہ نہ ہارے اور اللہ کے دین پر اس کے یقین میں کسی قسم کی کوئی کمی نہ ہونے پائے، بلکہ وہ پوری طرح ثابت قدم رہے، قرآن مجید نے ایک اور موقع پر صحابہؓ کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا حال یہ ہے کہ جب انہیں دشمن کی کثرت کا حوالہ دے کر خوفزدہ کرنے اور دہشت میں مبتلا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو گھبرانے اور خوف کھانے کے بجائے ان کے ایمان میں اضافہ ہوجاتا ہے:
وَمَا زَادَہُمْ إِلَّا إِیْمَاناً وَتَسْلِیْماً (الاحزاب: ۲۲) پھر صبر کے اس مرحلہ میں مردِ مومن اپنے درجہ و مقام کا اعلان کرتا ہے ، وہ کہتا ہے کہ ہم اللہ ہی کے لئے ہیں اور ہمیں اللہ ہی کی طرف واپس جانا ہے، جس تمدن کی بنیاد عیش پرستی اور عشرت کوشی پر ہو، اور جس کا مقصد زیادہ سے زیادہ نفسانی خواہشات کو پورا کرنا ہو وہ بنیادی طور پر ’’بے خدا تمدن ہوتا ہے، ایک ایسا تمدن جس میں خدا کے لئے کوئی جگہ نہیں ہوتی، جس میں انسان اپنے آپ کو خدا سے بھی آگے سمجھنے لگتا ہے، جس میں خدا کو چرچوں اور عبادت گاہوں تک محدود کردیا جاتا ہے اور پوری دنیا کو انسان اپنے ہاتھوں میں لے لیتا ہے، لیکن اسلام جس تمدن کی دعوت دیتا ہے، وہ ’’باخدا تمدن‘‘ ہے، جس میں انسان اپنی پوری زندگی کو اللہ کے حوالہ کردیتا ہے، اسی لئے قرآن دین حق پر ثابت قدم رہنے والوں کے طرز فکر کو بیان کرتا ہے کہ وہ کہتے ہیں:
إِنَّا لِلّہِ وَإِنَّـا إِلَیْْہِ رَاجِعونَ(البقرہ: ۱۵۶) یعنی: ’’ہم سب اللہ کے لئے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہماری واپسی ہے‘‘۔ یہ اس بات کا اعلان ہے کہ حالات جیسے بھی ہوں، ہم خدا کی فرمانبرداری سے آزاد نہیں ہوسکتے، اور ہم ایسے تمدن کو قبول نہیں کرسکتے جس میں خدا کو عبادت گاہ سے باہر قدم رکھنے کی اجازت نہیں۔
اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
إِنَّ صَلاَتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ (الانعام: ۱۶۲)
’’میری نماز، میری عبادتیں، میرا جینا اور مرنا سب اللہ کے لئے ہے، جو تمام عالم کا پالنے والا ہے‘‘۔
ایک اور موقع پر حضرت ابراہیمؑ نے فرمایا:
إِنِّیْ وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ حَنِیْفاً وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ (الانعام: ۷۹)
’’میں نے اپنا رخ اس ذات کی طرف رکھا ہے،جس نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا ہے اور میں اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک ٹھہرانے والا نہیں‘‘۔
حضرت ابراہیمؑ کی سب سے بڑی خصوصیت اللہ سے تعلق اور خودسپردگی تھی اور نمرودی معاشرہ میں یہی بات سب سے زیادہ ناقابل برداشت اور ناقابل عفو تھی، وہ حضرت ابراہیمؑ کو اس فکر اور نظام حیات کے سانچہ میں ڈھالنا چاہتے تھے، جس میں حقیقی خدا کا کوئی تصور نہ ہو، جس میں انسان مذہب و اخلاق کی طرح کی قید و بند سے آزاد ہو، جس میں مذہب ایک رسمی چیز ہو اور جس کا زندگی میں کوئی عمل دخل نہ ہو، جس میں انسان کی پیشانی اس کی مصنوعی دیویوں، دیوتائوں، نیز لذتوں اور شہوتوں کے سامنے جھکا کرتی ہو، جس میں ایسی بے جان چیزوں کی پرستش کی جاتی ہو جس سے نہ انسان کو ڈرنے کی ضرورت ہو اور نہ اس کے اعمال و افکار پرکوئی پابندی عائد ہو، آج بھی مسلمانوں سے نفرت و عناد اور انہیں بدنام و رسوا کرنے کی کوششوں کا اصل سبب یہی ہے کہ جس گھر میں سب لوگ بے لباس ہیں، یہ مذہب اور خداپرستی کا لباس کیوں پہنے ہوئے ہیں؟ یہ ہمارے بے خدا تمدن کے سامنے سر جھکانے کے بجائے خداپرستی اور خدا ترسی کی بات کیوں کرتے ہیں؟ یہ آخرت کا نام لے کر ہماری خوش عیشیوں میں کیوں بھنگ ڈالتے ہیں؟ یہ مسجد اور نماز تک اپنے آپ کو محدود کرکے زندگی کے دوسرے مسائل میں مذہب سے کیوں آزادی حاصل نہیں کرتے اور انسان کی آزادی میں کیوں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں؟
یہ بنیادی فکری اختلاف ہے، جس نے خدا بیزار قوموں اور تہذیبوں کو اسلام کے خلاف آمادئہ پیکار کردیا ہے اور وہ اس کے بغیر راضی نہیں ہوسکتے کہ مسلمان اپنے تہذیبی اور مذہبی تشخص سے باز آکر اقوام مغرب کو اپنا قبلہ بنا لیں:
وَلَن تَرْضَی عَنکَ الْیَہُودُ وَلاَ النَّصَارَی حَتَّی تَتَّبِعَ مِلَّتَہُمْ (البقرۃ: ۱۲۰)
اس لئے آج کے ماحول میں مسلمانوں کے لئے وہی اسوہ ہے جو حضرت ابراہیمؑ نے اختیار کیا تھا، یعنی مشکلات پر صبر و استقامت اور ہر طرح کی مشکلات کو سمجھنے کے باوجود خدا کے تعلق پر کوئی آنچ نہیں آنے دینا، اگر مسلمان اسوئہ ابراہیمی پر قائم رہیں تو انشاء اللہ وہ امتوں کی امانت سے سرفراز کئے جائیں گے اور مسلمانوں کو کتنا ہی بدنام اور رسوا کرنے کی کوشش کی جائے، خدا کی طرف سے ان کو عزت و سربلندی حاصل ہوگی، جیسا کہ خدا کا یہ وعدہ حضرت ابراہیمؑ کے حق میں پورا ہوا۔ (قَالَ إِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ إِمَاماً) (البقرہ: ۱۲۴)