اسلامی مدارس کانصاب و نظام ۔۔ تجزیہ ، تبصرہ ، مشورہ۔ قسط 6

مدرسے کی حقیقت

یہاں حضرت اقدس عالم ِربانی مو لا نا ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ کا ایک بیان نقل کردینا مناسب معلوم ہو تا ہے، جو مدرسوں کی حقیقت و اصلیت اور اسی کے ساتھ ان کے کام و طریق ِکار پر پوری طرح روشنی ڈالتا ہے ، وہ فرماتے ہیں :

’’میں مدرسے کو پڑھنے پڑھا نے اور پڑھا لکھا انسان بنانے کا کا ر خانہ نہیں سمجھتا ،میں مدرسے کی اس حیثیت کو تسلیم کرنے تیار نہیں ہوں، میں اس سطح پر آنے کو تیار نہیں ہوں، کہ مدرسہ اسی طریقے سے پڑھنا لکھنا سکھانے یا یوں کہنا چا ہیے کہ پڑھنے لکھنے کا ہنر سکھا نے کا ایک مر کز ہے۔ جیسے کہ دوسرے اسکو ل اور کا لج ہیں۔ میں اس کو مدرسے کے لیے ازالہ ٔ حیثیت عرفی کے مرادف سمجھتا ہوں، یعنی اگر میں مدرسے کا وکیل ہوں یا میں خود مدرسہ بن جاؤں، تو میں اس پر ازالہ ٔ حیثیت عرفی کا مقدمہ قائم کر سکتا ہوں، اگر کو ئی مدرسے کو صرف اتنا حق دینے اور مدرسے کو صرف اتنا ماننے کے لیے تیار ہے کہ ’’صاحب !جیسے پڑھنے لکھنے کا ،ہنر سکھانے کے لیے بہت سے کا رخا نے ہیں ،بہت سے مر کز ہیں ، کوئی ’’اسکول‘‘ کہلا تے ہیں ،کو ئی’’ کالج‘‘ کہلاتے ہیں،ان کے مختلف معیار اور مختلف سطحیں ہیں ،اسی طریقے سے ’’مدرسے‘‘ بھی عربی زبا ن یا عربی فنون ، فقہ اور دینیات ،تفسیر یاحدیث سکھا نے کا ایک مرکز یا کا ر خانہ ہے ۔

میں مدرسہ کو نا ئبین ِرسول و خلافت ِالٰہی کا فرض انجام دینے والے اور انسانیت کو ہدایت کا پیغام دینے والے اور انسانیت کو اپنے تحفظ وبقا کا راستہ دکھا نے والے افراد پیدا کرنے والوں کا ایک مر کز سمجھتا ہوں ،میں مدرسے کو آدم گری اور مردم سازی کا ایک کا رخانہ سمجھتا ہوں ۔ ‘‘ (بہ حوالہ میر کارواں :۱۷۲)

الغرض دینی مدارس؛ عام اسکولوں ،کالجوں اور یونیور سٹیوں کی طرح نہیں ہیں،کہ محض کچھ لکھنے پڑھنے کی قابلیت پیدا کر دی جائے؛ بل کہ ان کا مقصد اس سے بہت اونچا ہے، جیسا کہ ملاحظہ کیا گیا؛ورنہ تربیت کے بغیر محض تعلیم ، تو نقصان دہ ہے ۔

اس سلسلے میں حضرت حکیم الامت تھانوی رحمہ اللہ کے چند ارشادات بھی سننے کے قابل ہیں، وہ فرماتے ہیں :

’’ اگر کتابی علم کامل ہو اور تربیت نہ ہو؛ تو چالاکی اور دھوکہ دہی کا مادہ پیدا ہو جاتا ہے ،علم بدون تربیت مورث عیاری ہے ،نرے پڑھنے پڑھانے سے کیا ہوتا ہے ،نرا علم شیطان اور ’’بلعام باعور‘‘ کا سا ہے، درخت خود رو کہیں ٹھیک نہیں ہوتا، ناہموار اور بعض اوقات بد مزہ رہتا ہے،جب تک باغباں درست نہ کرے ،کاٹ چھانٹ نہ کرے ،قلم نہ لگاوے۔ ایسے ہی وہ شخص جو محض کتابوں کے پڑھ لینے کو کافی سمجھ بیٹھے ،اس کی مثال بعینہٖ درخت خود رو کی سی ہے، جب تک اسے کوئی مربی درست نہ کرے، تب تک ٹھیک نہیں ہوتا؛بل کہ بد دین اور بد عقائد یا بد اخلاق ہو جاتا ہے ۔

(طریق النجاۃ و مقالات ِحکمت:۴۰۷)

بہ ہر حال یہ معلوم ہوا کہ مدارس میں تعلیم کے ساتھ تربیت کا خصوصی اہتمام

ضروری ہے ،اس سلسلے میں جن باتوں کی جانب توجہ دیے جانے کی ضرورت ہے، ان میں سے بعض اہم امور کی نشاندہی پر اکتفاء کرتا ہوں :

اخلاص کی ضرورت

طلبہ کی تربیت کے سلسلے میں سب سے اہم با ت یہ ہے، کہ انھیں اخلا ص ِنیت کی تعلیم دی جا ئے۔ حدیث: ’’إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ ‘‘سب ہی کے پیش ِ نظر ہے، امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح کی ابتدا اسی حدیث سے فرماتے ہوئے اس طرف رہنمائی کی ہے، کہ ہر طالب کو سب سے پہلے اپنی نیت کو درست کر لینا چاہیے ۔

قاضی ابن جما عہ رحمہ اللہ نے طالب علموں کے لیے اخلا ص وللہیت کی ضرورت بیان کرتے ہو ئے لکھا ہے :

’’طالب ِعلم کے لیے علم کی طلب میں دوسری شرط: خلوصِ نیت ہے،یعنی علم کے حاصل کرنے کا مقصد خدا وند ِتعالیٰ کی خوشنودی کی جستجو،اس کے حکموں پر عمل اور شریعت کو زندہ ،دل کو روشن اور با طن کو اُجا گر کر نا ہے ۔ (تذکرۃ السامع:۳۴)

صاحب ِہدایہ کے شا گرد علا مہ زرنو جی رحمہ اللہ اپنی مشہور عالم کتاب ’’تعلیم المتعلم‘‘ میں لکھتے ہیں :

’’طالب ِعلم کے لیے ضروری ہے کہ وہ تحصیل ِعلم سے رضائے الٰہی اور طلب ِآخرت،از ا لہ ٔ جہل اوراحیا ئے دین کی نیت کرے۔‘‘ (تعلیم المتعلم :۱۴)

قاضی ابن جماعہ رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں قا ضی ابو یو سف رحمہ اللہ کا یہ ارشاد نقل کیا ہے، جو آب ِزر سے لکھنے کے قابل ہے، وہ فرماتے ہیں:

’’لوگو !اپنے علم سے صرف رضائے الٰہی حاصل کرنے کی نیت رکھو ، میں جب کبھی کسی مجلس میں اس نیت سے بیٹھا، کہ خاکسار اور متو اضع رہوں گا، تو ہمیشہ اس مجلس سے سر بلند ہو کر اٹھا اور جب کبھی میری نیت میں فتور آیا اور ہم چشموں میں سر بلند ہونے کا تصور دل میں آیا، تو مجھے اس مجلس سے رسوا ہو کر اٹھنا پڑا۔ (تذکرۃ السامع:۳۴)

امام سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

’’إنما یُطْلَبُ الْحَدِیْثُ لیُتّقٰی بہ اللّٰہَ، فلِذٰلِک فُضِّلَ عَلَی غَیرِہِ مِنَ العُلُوْمِ ، وَلَوْ لاَ ذَلِکَ کَانَ کَسَائِرِ الأشْیَائِ۔‘‘ (جامع بیان العلم :۱؍۲۳۴)

(حدیث اس لیے حاصل کی جاتی ہے؛ تاکہ اس کے ذریعے اللہ سے ڈرا جائے اور اسی وجہ سے اس کو دیگر علوم پر فضیلت عطا کی گئی ہے، اگر یہ بات نہ ہو؛تو وہ اور چیزوں کی طرح ایک چیز ہے ۔)

اورحضرت حماد بن سلمہ رحمہ اللہ فرما تے ہیں :

’’مَنْ طَلََبَ الْحَدِیْثَ لِغَیْرِ اللّٰہِ مَکَرَ بِہٖ۔‘‘

(جامع بیان العلم :۱؍۲۳۴)

(جو غیر اللہ کے لیے حدیث کا علم حاصل کرے؛ اللہ اس کے ساتھ مکرکرتے ہیں ،یعنی اللہ کی جانب سے اس کو ڈھیل دی جاتی ہے۔)

اور حضرت ابراہیم تیمی رحمہ اللہ فر ماتے ہیں :

’’مَنْ طَلَبَ العِلْمَ لِلّٰہِ ل أعْطَاہُ اللّٰہُ مِنْہُ مَا یَکْفِیْہِ۔‘‘

(جامع بیان العلم :۱؍۲۳۴)

(جو اللہ کے لیے علم حاصل کرتا ہے؛ اللہ تعالیٰ اس کو اس سے وہ چیز عطا کرتے ہیں ،جو اس کے لیے کافی ہو۔ )

الغرض طلبا کی اصلاح و تربیت کا آغاز ہی اس بات سے ہو نا چاہیے، کہ وہ سب سے پہلے اپنی نیتوں کو خالص کریں اور صرف اللہ کی خوشنودی کے لیے علم کی طلب وتحصیل میں لگیں ۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


دینی مدارس کا نصاب ونظام

از افادات
شیخ طریقت حضرت اقدس مفتی شعیب اللہ خان صاحب مفتاحی مدظلہم العالی
(بانی ومہتمم الجامعۃ الاسلامیۃ مسیح العلوم،بنگلور)

نشر واہتمام
مفتی ابو الحسن المنجہ خیلوی عفی عنہ

کل مضامین : 14
اس سلسلے کے تمام مضامین

مفتی محمد شعیب اللہ خان صاحب

بانی ومہتمم الجامعۃ الاسلامیۃ مسیح العلوم،بنگلور
کل مواد : 14
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2024

تبصرے

يجب أن تكون عضوا لدينا لتتمكن من التعليق

إنشاء حساب

يستغرق التسجيل بضع ثوان فقط

سجل حسابا جديدا

تسجيل الدخول

تملك حسابا مسجّلا بالفعل؟

سجل دخولك الآن
ویب سائٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اس سائٹ کے مضامین تجارتی مقاصد کے لئے نقل کرنا یا چھاپنا ممنوع ہے، البتہ غیر تجارتی مقاصد کے لیئے ویب سائٹ کا حوالہ دے کر نشر کرنے کی اجازت ہے.
ویب سائٹ میں شامل مواد کے حقوق Creative Commons license CC-BY-NC کے تحت محفوظ ہیں
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2024