اسلامی مدارس کانصاب و نظام ۔۔ تجزیہ ، تبصرہ ، مشورہ۔ قسط 1

 بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

دینی مدارس میں تعلیم ، تربیت اور انتظامیہ میں اصلاح کی ضرورت

 

الحمد للّٰہ ربً العْالمین ، والصلاۃ والسلام علی سیدنا محمّدٍ رسولِ اللّٰہ ﷺ، وعلی آلہ وصحبہ أجمعین۔ أما بعد:

حضرات ِعلمائے و فضلائے کرام اور صوبے کے مختلف دینی و علمی اداروں سے تشریف لائے ہوئے ذمہ داران !

آج کے اس اہم اجلاس میں مجھے جو موضوع دیا گیا ہے، وہ ہے ’’مدارس میں تعلیم وتربیت اور انتظامیہ میں اصلاح کی ضرورت‘‘ ۔جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے کہ یہ ایک نہیں؛ بل کہ در اصل تین عنوانات ہیں :ایک: نصاب ِ تعلیم میں اصلاح سے متعلق، دوسرے:نظامِ تربیت میں اصلاح سے متعلق اور تیسرے: انتظامیہ میں اصلاح سے متعلق اور یہ بھی واضح ہے کہ ان میں سے ہر عنوان طویل الذیل اور ایک لمبے وقت کا متقاضی ہے ؛ مگر وقت کی نزاکت کا لحاظ رکھتے ہوئے میں کوشش کروں گا، کہ ان عناوین سے متعلق اہم گوشوں کو آپ کے سامنے پیش کروں ۔

حضرات ! یہ بات واضح و مسلم ہے کہ مدارس اسلامیہ کا نصب العین’’ تعلیم ِدین وتربیت ِاخلاق‘ ‘ ہے ؛لہٰذا اہل ِمدارس کی ذمے داری ہے کہ وہ اس نصب العین کے پیش ِ نظر اُس راہ و سبیل کو اختیار کریں ،جو اس نصب العین میں مفید و معین ہو اور ہر اس طریق سے احتراز کریں، جو نقصان دہ یا غیر مفید ہو ۔اس سلسلے میں چند اہم امور کی جانب توجہ مبذول کرانا چاہوں گا۔

تعلیمی نصاب

سب سے پہلے تعلیم کو لیجیے! اس میں دو باتوں پر مجھے عرض کرنا ہے: ایک نصاب ِ ِتعلیم پر اور دوسرے: نظام ِتعلیم پر۔ عام طور پر جب بھی نصاب ِتعلیم کا مسئلہ سامنے آتا ہے، تو ذہنوں میں لازماً یہ بات آتی ہے، کہ نصاب میں تبدیلی و ترمیم کا مسئلہ زیر ِ بحث آئے گا؛مگر میں اس کے متعلق اس وقت کچھ کہنا نہیں چاہتا ؛کیوں کہ اس مسئلے پر اب تک ہزاروں صفحات لکھے جا چکے ہیں ،بعض لوگ مروجہ نصاب ِتعلیم میں تبدیلی لانے کے نظریے کی تائید کرتے ہیں، تو دوسرے حضرات اس کے خلاف مروجہ نصاب کی حمایت کرتے ہیں اور اس مسئلے نے کافی طول کھینچا اور طرفین کی جانب سے اخبارات و جرائد، رسائل و کتب میں اس پر بحثیں ہوئیں اور اب تک جاری ہیں؛ لہٰذا میں اس وقت اس مسئلے پر خامہ فرسائی کی کوئی ضرورت نہیں محسوس کرتا ۔

نصاب تعلیم کا اصل مقصد کیا ہے ؟

البتہ اس سلسلے میں اہل ِمدارس کو ایک بات پر خصوصیت کے ساتھ توجہ دینا چاہیے، وہ یہ کہ ہمارے ’’ نصاب ِتعلیم‘‘ کا اصل مقصد و ہدف، دین کے داعی و سپاہی ، قرآن و سنت کے مستند مفسر و شارح،تعلیمات ِاسلام کے مخلص معلم و مبلغ اور ملت کے بے لوث و سچے خادم ورہبر پیدا کرنا ہے، جو اپنی ذمے داریوں کو نباہتے ہوئے وقت کے تقاضوں، زمانے کی نزاکتوں ،لوگوں کے مزاجوں ،عرف و عادت کی تبدیلیوں کا لحاظ رکھتے ہوئےامت کو صحیح و سچے دین کی رہنمائی دیں ،باطل طاقتوں کا علمی و عملی طور پر جواب دیں اور دین اسلام کی حفاظت و اشاعت کا کام خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دیں ۔

اس مقصد کے پیش ِ نظر جو اصلاح و ترمیم ’’نصابِ تعلیم‘‘ میں کی جا سکتی ہے اور اس ضرورت کے لیے جن مضامین کااضافہ کیا جا سکتا ہے،اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں اور حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کی ترمیمات و اصلاحات کا سلسلہ ایک زمانے سے چل رہا ہے،چناں چہ مروجہ ’’درس ِنظامی‘‘ کی جو شکل آج ہے، وہ اُس صورت سے بہت حد تک مختلف ہے، جو دورِ اول میں تھی ،پچاسوں کتابیں اس سے اب خارج کردی گئی ہیں اور متعدد نئی کتابیں اس میں داخل کردی گئی ہیں ،جو اس بات کا کافی ثبوت ہے کہ عملاً ہر دور میں ’’اصلاح و ترمیم‘‘ کا کام انجام پاتا رہا ہے ۔

مگر جب بعض حلقوں کی جانب سے مروجہ’’ درسِ نظامی‘‘ کو ایک فرسودہ و لا یعنی نصاب ثابت کرنے کی کوشش کی گئی اور اس میں خامیاں تلاش کی جانے لگیں اور اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر یہ ہوا، کہ ان کی دیکھا دیکھی منکرین ِمدارس کی جانب سے ان مدارس کی افادیت کا یکسر انکار کیا جانے لگا اور ان مدارس کی ہیئت ِکذا ئیہ کو بدل کر کالجوں میں انھیں تبدیل کرنے کے مشورے اور تجاویز بھی دیے جانے لگے، تو لا محالہ دوسرے طبقے کی طرف سے اس کا جواب دینا پڑا اور بحث نے طول پکڑ لیا؛ ورنہ جہاں تک بندے کا خیال ہے، نصاب میں ترمیم و اصلاح کے سلسلے کا اختلاف کوئی حقیقی اختلاف نہیں؛ بل کہ محض صوری اختلاف ہے ،جس طرح کسی زمانے میں ’’ایمان میں کمی بیشی ‘‘ وغیرہ مسائل پر بعض بڑے بڑے حضرات نے کتب و رسائل لکھے اور اختلاف نے بحث و مناظرے تک نوبت پہنچادی؛مگر جب اصلیت سامنے آئی تو پتہ چلا ،کہ ان میں سرے سے کوئی حقیقی اختلاف تھا ہی نہیں، اسی طرح یہاں بھی ہے کہ ضرورت کی بنا پر نصاب میں ترمیم تو بہت پہلے سے جاری ہے اور اس میں کسی کو کوئی اختلاف نہیں ؛مگر پھر بھی اختلاف کی ایک صورت قائم ہے ۔

الغرض اس وقت اس مسئلے پر کچھ کہنا مجھے مقصود نہیں؛ البتہ مذکورہ بالا ہدف و مقصد کے پیش ِنظر ہمارے نصاب میں جن با توں کا مزید اہتمام ہو نا چاہیے ،اس کی جانب اشارہ کرنا چاہتا ہوں ۔

عربی زبان کی مہارت

ان میں سے ایک یہ ہے کہ عربی صرف ونحو اور ادب کی تعلیم کا چوں کہ اصل مقصد عربی زبان پر عبور ہے؛ اس لیے ضروری ہے کہ ایسی کتب کو اس میں جگہ دی جائے، جو اس مقصد میں زیادہ سے زیادہ معین ومفید ہیں؛ تاکہ طلبا میں عربی کی صحیح اور مضبوط استعداد پیدا ہو۔ عام طور پر یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ’’ درسِ نظامی‘‘ کے اکثر فارغین عربی پر عبور نہیں رکھتے ،یا کم از کم یہ بات ہے کہ وہ بے تکلفانہ طور پر عربی کی بول چال اور لکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ، ہو سکتا ہے کہ پہلے زمانے میں اس کی اس قدر ضرورت نہ رہی ہو اورجیسا کہ بعض حضرات نے کہا ہے، کہ ’’درس ِنظامی‘‘ کا اصل مقصد قرآن و حدیث کی فہم پیدا کرنے کے لیے فنی نہج پرپڑھادینا ہو؛مگر آج وقت اور حالات کا تقاضا یہ ہے کہ ایک عالم عربی زبان میں نہ صرف فنی طور پر مہارت حاصل کرے؛ بل کہ اس کے ساتھ ساتھ تقریر و تحریر کا بھی پورا سلیقہ پیدا کرے ۔

عربی زبان کی مہارت نہ ہونے کی پہلی وجہ

اور مذکورہ خامی کی ایک وجہ تو یہ سمجھ میں آتی ہے کہ عربی زبان پڑھانے کے لیے، جن کتابوں کو داخل ِنصاب رکھا گیا ہے ،ان میں سے بنیادی کتابیں: جیسے’’ میزان‘‘، ’’ منشعب‘‘،’’نحو میر‘‘ و’’ صرف میر‘‘ وغیرہ فارسی زبان میں ہیں اور یہ ظاہر ہے کہ فارسی اور عربی دونوں زبانیں، ہماری مادری زبانیں نہیں ہیں ،ہم بچے کو ایک غیر مادری و بیگانہ زبان، دوسری غیر مادری و بیگانہ زبان کے ذریعے سکھانا چاہتے ہیں، تو اس کی مثال بالکل ایسی ہے، جیسے: کسی ہندوستانی کوانگریزی زبان کی تعلیم فرانسیسی کے ذریعے دی جائے۔اس صورت میں طالب ِعلم پر دو بے گانہ زبانیں سیکھنے کا بار پڑ تا ہے ،جس کا نتیجہ وہی رونما ہوتا ہے اور ہونا چاہیے، کہ اصل مقصد سے طالب ِعلم رہ جاتا ہے ؛لہٰذا عربی سکھانے کے لیے مادری زبان کو واسطہ و وسیلہ بنانا چاہیے ۔ الحمد للہ اس سلسلے میں بعض عمدہ و اچھی کتابیں منصہ شہود پر رونما ہو چکی ہیں، جن سے استفادہ کیا جا سکتا ہے ۔

اب رہا یہ سوال کہ پھر علما نے اس کو کیوں داخل نصاب کیا؟ کیا ان کی نظر اس کی طرف نہیں گئی ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جس زمانے میں یہ کتابیں نصاب میں داخل کی گئیں،وہ دَور اور اس کے بعد بھی ایک زمانے تک فارسی یہاں کی مادری زبان تھی؛ اس لیے اس وقت یہی مناسب تھا ؛ لیکن جب یہ ہماری مادری زبان نہیں رہی، تو اس کو نصاب میں باقی رکھنا مفید ہونے کے بہ جائے مضر ہوگا۔

عربی پر مہارت نہ ہونے کی دوسری وجہ

اور دوسری وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ ان بنیادی کتابوں کی تعلیم میں وہ طریقہ استعمال کیا جاتا ہے، جو تخصص کے کسی شعبے یا تحقیقی ادارے کے شایان شان ہے، جیسے: ’’کافیہ‘‘ اور’’ شرح ِجامی‘‘ کے سبق میں ان کتابوں کے سارے اسراری مباحث ،ان کے مالہ و ما علیہ کے ساتھ اس طرح بیان کیے جاتے ہیں، کہ وہ درسِ نحو کے بہ جائے درسِ فلسفہ کہے جانے کا مستحق نظر آتا ہے اور ان میں لفظی موشگافیوں، عبارتی تعقیدات ہی کو سب کچھ اور نقطۂ عروج خیال کیا جاتا ہے۔ یہ طرز ِتعلیم مفید ہونے کے بہ جائے طالب کی استعداد میں فتور کا سبب بن جاتا ہے ؛کیوں کہ یہمباحث اس کی استعداد و ضرورت دونوں سے آگے کی چیز ہے۔

مدارس میں ’’انگریزی‘‘ زبان کا مسئلہ

دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے نصاب میں’’ انگریزی ‘‘اور صوبائی و علاقائی زبان کو بھی ایک جزو لازم کی طرح داخل کرنے کی ضرورت ہے ،جس طرح ہمارے اسلاف نے وقت کی ضرورت کا لحاظ کرتے ہوئے اس زمانے میں ’’فارسی‘‘ زبان کو داخل نصاب کیا تھا ؛کیوں کہ آج ’’انگریزی‘‘ زبان صرف ہمارے ملک ہی میں نہیں؛ بل کہ خود ہمارے اپنوں کے گھروں میں بھی اس قدر رواج پاگئی ہے،کہ ان لوگوں کی افہام و تفہیم اور ان تک اسلام کے صحیح پیغام کی دعوت، اب اسی زبان میں منحصر ہو گئی ہے، اسی طرح غیروں کے سامنے اسلام کی صحیح و سچی تصویر اور اس کے مستند پیغام کی دعوت اس کے بغیر ممکن نظر نہیں آتی،کہ ان ہی کی زبان کو ذریعہ و وسیلہ بنایا جائے ،اسی طرح اپنی علاقائی زبان کو ان ہی مقاصد کے لیے سیکھنا ایک ضرورت بن گیا ہے ۔

آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو ان ہی مقاصد کے پیش ِنظر’’ عبرانی‘‘ زبان سیکھنے کا حکم دیا تھا ،آپ نے ان سے فرمایا تھا کہ مجھے یہود کی تحریر پر اطمنان نہیں ؛اس لیے تم اس کو سیکھ لو ،حضرت زید رضی اللہ عنہ نے صرف دو ہفتوں میں ان کی زبان اور اس کی تحریر سیکھ لی تھی ۔            (الإصابۃ: ۲؍۵۹۳)

ابن سعد رحمہ اللہ نے ان الفاظ میں اس روایت کو نقل کیا ہے :

’’قاَلَ لِيْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم : إِنَّہٗ یَأْتِیْنِيْ کُتُبٌ مِّن أُناَسٍ لاَ أُحِبُّ أَنْ یَقْرَأَھاَ أَحَدٌ، فَھَلْ تَسْتَطِیْعُ أَنْ تَعَلَّمَ الْعِبْرَانِیَّۃَ ، أَوْ قَالَ:السُّرْیَانِیَّۃَ ؟ فَقُلْتُ : نَعَمْ ، قَالَ: فَـتَعَلَّمْتُھَا فِيْ سَبْعَ عَشَرَۃَ لیلۃً ‘‘ (طبقات ابن سعد: ۲؍۳۵۸)

(حضرت زید کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس لوگوں کے خطوط آتے ہیں،میں پسند نہیں کرتا، کہ کوئی ان پر مطلع ہو ، کیا تم سے یہ ہو سکے گا؟ کہ عبرانی زبان سیکھ لو، یا یہ فرمایا کہ سریانی زبان سیکھ لو۔ کہتے ہیں کہ میں نے ’’ہاں ‘‘کہا اور سترہ دنوں میں میں اس کو سیکھ لیا۔)

اگر آج ہم نے اس کی طرف توجہ نہ کی؛ تواس کے دو نقصانات واضح ہیں : ایک تو یہ کہ ہم امت تک دین کا پیغام پہنچانے میں قاصر رہ جائیں گے، جو کہ ہماری ذمے داری ہے۔ دوسرے: یہ کہ انگریزی تعلیم یافتہ لوگ محض زبان دانی کی بنیاد پر دینی رہبر و قائد بن کر کھڑے ہوجائیں گے اور اپنی جہالتوں سے امت کو گمراہ کرتے رہیں گے؛مگر علما کا طبقہ زبان نہ جاننے کی وجہ سے اس کا کوئی تدارک نہ کر پائے گا ۔ چناں چہ آج بعض علاقوں میں یہ صورتِ حال بھی پیدا ہوگئی ہے ،کہ بعض گمراہ یا جاہل لوگ اسلام کی دعوت و تبلیغ کے نام سے انگریزی زبان میں لوگوں کو متأثر کر رہے ہیں اور عوام ا لناس ان پر علما سے زیادہ اعتماد کر نے لگے ہیں ؛بل کہ اس قسم کے لوگوں کے بارے میں یہ خیال کر نے لگے ہیں، کہ یہی لوگ حقیقی معنے میں علما ہیں ، جب کہ ان لوگوں کو علم و دین سے کوئی دروکار نہیں ۔ یہ در اصل زبان کی طاقت ہے ۔

حضرت قاسم العلوم نانوتوی رحمہ اللہ کا واقعہ

اس سلسلے میں ہو سکتا ہے کہ بہت سارے حضرات کو یہ سن کر بے حد تعجب معلوم ہو، کہ قاسم العلوم حضرت مولانا نانوتوی رحمہ اللہ نے خود ایک موقعے پر انگریزی زبان سیکھنے کا عزم فرمالیا تھا؛ مگر اس کے بعد جلد ہی وفات ہو جانے سے یہ خواہش آپ کی پوری نہیں ہو سکی۔

چناں چہ حضرت مولانا مناظرا حسن گیلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

’’ اس سلسلے کی ایک دلچسپ بات وہ ہے، جسے بہ راہ ِراست اس فقیر نے مولانا حافظ محمد احمد مرحوم (سابق مہتمم دار العلوم دیوبند) سے سنی تھی، اپنے والد مرحوم حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ (بانی دار العلوم) کے متعلق یہ قصہ بیان کر تے تھے، کہ آخری حج میں جب جارہے تھے، تو کپتان جہاز نے جو غالباً کوئی’’ اٹالین‘‘ تھا، عام مسلمانوں کے اس رجحان کو جسے مولانا کے ساتھ عموماً وہ دیکھ رہا تھا، یہ دریافت کیا کہ یہ کون صاحب ہیں ؟ حجاج میں کوئی انگریزی جاننے والے مسلمان بھی تھے ، انھوں نے کپتان سے مولانا کے حالات بیان کیے ،اس نے ملنے کی خواہش ظاہر کی، وہاں کیا تھا ، مولانا بہ خوشی کپتان سے ملے ،کپتان نے اجازت چاہی، کہ کیا مذہبی مسائل پر گفتگو کر سکتا ہوں ؟ مولانا نے اسے بھی منظور فرمالیا، وہی انگریزی خواں صاحب ترجمان بنے ، کپتان پوچھتا تھا اور مولانا جواب دیتے تھے ، تھوڑی دیر کے بعد مولانا کے خیالات کو سن کر وہ کچھ مبہوت سا ہو گیا اور مولانا کے ساتھ اس کی گرویدگی اتنی بڑھی کہ قریب تھا کہ وہ اسلام کا اعلان کردے۔ ـ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس واقعے کا مولانا محمد قاسم رحمہ اللہ پر اتنا اثرپڑا کہ آپ نے جہاز ہی پر عزم فرمالیا ،کہ واپس ہو نے کے بعد میں انگریزی زبان خود سیکھوں گا ؛کیوں کہ مولانا کو یہ محسوس ہورہا تھا کہ جتنا اثر کپتان پر بہ راہ ِراست گفتگو سے پڑ سکتا تھا، ترجمان کے ذریعے وہ بات نہیں حاصل ہورہی ہے ؛ لیکن افسوس ہے کہ اجلمسمیّٰ نے واپس آنے کے بعد فرصت نہ دی ۔‘‘

( بہ حوالہ ’’تاریخ ِدرس نظامی‘‘ :۱۴۷-۱۴۸)

جدید’’ علم الکلام‘‘ کی ضرورت

ایک اہم نصابی ضرورت ’’جدید علم الکلام‘‘ کی ہے ،جس کے ذریعے طلبا میں موجودہ دور میں باطل فلسفوں کے خلاف نبرد آزمائی اور مقابلے کی صلاحیت و استعداد پیدا ہو ،جس طرح ہمارے اسلاف نے ان کے زمانے کے باطل فلسفوں اور اِزَموں کا رد کرنے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ’’قدیم علم الکلام‘‘ کی داغ بیل ڈالی اور اس کو اپنے نصاب کا جزو بنایا تھا ۔

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے اسی غرض سے ’’الانتباھات المفیدۃ في حلّ الإشکالات الجدیدۃ ‘‘تحریر فرمائی تھی ۔

فرق ِضالہ کا تعارف و تعاقب

اسی طرح ایک ضرورت اس کی محسوس ہو تی ہے، کہ باطل فرقوں کا اور ان کے عقائد ونظریات ، مراسم و افعال کا تعارف کرایا جائے اور قرآن و حدیث اور اصول کی روشنی میں ان کے باطل عقائد ونظریات کا محققانہ و اصولی جواب و بطلان بھی طلبا کے ذہن نشین کرایا جائے اور اس قسم کے اسباق کے لیے محاضرات قائم کیے جائیں اور یہ ہفتہ یا پندرہ روز میں ایک دفع بھی کافی ہو سکتا ہے ۔

 

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

16مئی 2019بروز اتوار

الناشر

یکے از خدام

مفتی ابوالحسن المنجہ خیلوی عفی عنہ

 


دینی مدارس کا نصاب ونظام

از افادات
شیخ طریقت حضرت اقدس مفتی شعیب اللہ خان صاحب مفتاحی مدظلہم العالی
(بانی ومہتمم الجامعۃ الاسلامیۃ مسیح العلوم،بنگلور)

نشر واہتمام
مفتی ابو الحسن المنجہ خیلوی عفی عنہ

کل مضامین : 14
اس سلسلے کے تمام مضامین

مفتی محمد شعیب اللہ خان صاحب

بانی ومہتمم الجامعۃ الاسلامیۃ مسیح العلوم،بنگلور
کل مواد : 14
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2025

تبصرے

يجب أن تكون عضوا لدينا لتتمكن من التعليق

إنشاء حساب

يستغرق التسجيل بضع ثوان فقط

سجل حسابا جديدا

تسجيل الدخول

تملك حسابا مسجّلا بالفعل؟

سجل دخولك الآن
ویب سائٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اس سائٹ کے مضامین تجارتی مقاصد کے لئے نقل کرنا یا چھاپنا ممنوع ہے، البتہ غیر تجارتی مقاصد کے لیئے ویب سائٹ کا حوالہ دے کر نشر کرنے کی اجازت ہے.
ویب سائٹ میں شامل مواد کے حقوق Creative Commons license CC-BY-NC کے تحت محفوظ ہیں
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2025