زنا قرض ہے

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ زنا کبیرہ گناہوں میں سے ایک بہت بڑا گناہ ہے اور اس کی برائی کیلئے یہ بات کافی ہے کہ قرآن مجید نے اس قبیح عمل کیلئے 

انه كان فاحشة ومقتا وساء سبيلا

فرمایا کہ یہ عمل بےحیائی اور غلط روش کا مجموعہ ہے اور قرآن نے اس عمل کو روکنے کیلئے اس عمل کے دواعی (یعنی اسکی طرف لے جانے والے افعال) بدنظری اور بےپردگی تک کو منع فرما دیا.  لیکن ہمارے ہاں بہت ساری مشکلات میں سے ایک مشکل یہ بھی ہے کہ شریعت نے جس عمل کیلئے جو حکم یا درجہ مقرر کیا ہوتا ہے ہم اس حکم اور درجے پر اکتفاء نہیں کرتے بلکہ کچھ ایسا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس عمل سے شریعت کا فائدہ ہونے کے بجائے خود شریعت کو نقصان پہنچتا ہے. اسی سلسلے میں ہر عمل کیلئے موضوع اور من گھڑت روایتوں کا سہارا لےکر اس کو عام کیا جاتا ہے،  یہی سلسلہ زنا کے متعلق روایات کو پوسٹوں کے ذریعے عام کرکے کیا جارہا ہے.

زنا کے متعلق کچھ مشہور کردہ باتیں:

جیسا کہ پہلے کہا جاچکا ہے کہ زنا کی شناعت اور خباثت کے بیان کیلئے قرآن مجید کی آیات کریمہ اور بےشمار صحیح احادیث موجود ہیں لیکن پھر بھی ہمارے ہاں اس بات کو بطور حدیث پیش کیا جاتا ہے:

  • زنا ایک قرض ہے، اگر باپ لےگا تو بیٹی کو ادا کرنا پڑےگا. یہ بات سند کے لحاظ سے بھی درست نہیں اور نہ ہی عقلا اور نقلا اسکا کوئی ثبوت ہے.

ثابت شدہ روایات:

اس موضوع کے بارے میں جو روایت ثابت ہے اسکے الفاظ کچھ یوں ہیں:

  • “عفّوا تعف نساؤكم”

کہ تم پاک دامن رہو تمہاری عورتیں بھی پاکدامن  رہیں گی.

اس روایت کے دو طرق سند ضعیف سے ثابت ہوکر حسن لغیرہ کے درجے تک پہنچتے ہیں جبکہ باقی طرق موضوع ہیں.

پہلی سند:

وأخرجه أبونعيم أيضاً في المرجع السابق (2/285) من طريق الوليد بن مسلم، ثنا صدقة بن يزيد، ثنا العلاء بن عبدالرحمن، عن أبيه، عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: “عفوا تعف نساؤكم”.

اس سند کو اگرچہ امام حاکم نے صحیح قرار دیا ہے لیکن امام ذہبی نے سوید کو ضعیف قرار دیا ہے.

الحديث صححه الحاكم، وتعقبه الذهبي بقوله:  “بل سويد ضعيف”.

قلت: سويد هذا هو ابن إبراهيم الجَحْدَري، أبوحاتم الحنّاط، وهو صدوق، إلا أنه سيىء الحفظ، له أغلاط.

– الكامل لابن عدي (3/1257، 1259)، والتقريب (1/340 رقم 593)، والتهذيب (4/270 رقم 467).

دوسری سند:

اس سند میں صدقہ بن یزید ضعیف راوی ہے.

وأما الطريق التي رواها أبونعيم، عن الوليد بن مسلم، ففي سندها شيخ الوليد، وهو صدقة بن يزيد الخراساني، الشامي، ضعفه أحمد، وابن عدي، وأبوحاتم، وعده ابن الجارود، والساجي، والعقيلي في الضعفاء.

– وقال البخاري: منكر الحديث. ووثقه أبوزرعة الدمشقي، ودحيم.

قلت: ولعل الأرجح من حاله أنه: صدوق يخطيء.

اس مضمون کی موضوع روایات:

١.  حضرت عائشہ کی روایت: اس میں خالد بن یزید العمری جھوٹا راوی ہے.

عن الزبير، عن عائشة، عن النبي صلَّى الله عليه وسلم قال: “عفوا تعف نساؤكم، وبروا آباءكم تبركم أبناؤكم، ومن اعتذر إلى أخيه المسلم من شيء بلغه عنه، فلم يقبل عذره، لم يرد عليّ الحوض”.

– قال الهيثمي في “المجمع” (8/81 و 139): فيه خالد بن يزيد العمري وهو كذاب.

٢.  حضرت انس کی روایت: اس میں ابراہیم بن ہدبة الفارسی البصری ہے جس کو خبیث جھوٹا قرار دیا گیا ہے.

وأما حديث أنس رضي الله عنه فقال السيوطي في الموضع السابق: قال ابن عساكر في سباعياته: أخبرني أبوالقاسم هبةالله بن عبدالله بن أحمد الواسطي، الشروطي، أنبأ أبوبكر أحمد بن علي بن ثابت الخطيب، أنبأ أبوسعيد أحمد بن محمد بن عبدالله الماليني، سمعت أبابكر المفيد، سمعت الحسن بن عبدالله العبدي، سمعت أباهدبة يحدث عن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: “بروا آباءكم تبركم أبناؤكم، وعفوا تعف نساؤكم، ومن لم يقبل متنصلاً صادقاً أو كان كاذباً فلا يرد على الحوض”.

والحديث بهذا الإسناد موضوع.

أبوهدبة الراوي للحديث عن أنس اسمه إبراهيم بن هدبة الفارسي، البصري، وهو كذاب خبيث، كذبه ابن معين، وعلي بن ثابت، وأبوحاتم.

وقال ابن حبان: دجال من الدجاجلة. اهـ. من المجروحين (1/114 -115)، واللسان (1/119 – 120 رقم: 370).

٣.  ابن عباس کی سند: اس میں بھی اسحاق بن نجیح الملطی جھوٹا ہے.

وأما حديث ابن عباس رضي الله عنهما فأخرجه ابن عدي في الكامل (1/324) من طريق إسحاق بن نجيع الملطي، عن ابن جريج، عن عطاء، عن ابن عباس، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: “عفوا تعف نساؤكم”.

ومن طريق ابن عدي أخرجه ابن الجوزي في “الموضوعات” (3/106).

وهذا أيضاً موضوع بهذا الإسناد في سنده إسحاق بن نجيح الملطي وقد كذبوه. (الكامل: 1/323 – 325) والتقريب.

اس موضوع کے متعلق من گھڑت روایات:

١. “ما زنی عبد قط فادمن علی الزنا إلا ابتلى فی اهل بیته”.

اگر کوئی بندہ زنا کا عادی بنتا ہے تو اس کی سزا کے طور پر اس کے گھر والوں کو اس عمل میں مبتلا کردیا جاتا ہے. یہ روایت من گھڑت ہے.

  • “ما زنی عبد قط فادمن علی الزنا إلا ابتلى فی اھل بیته”.

یہ روایت موضوع ہے. اس میں اسحاق بن نجیح روایات گھڑنے والا راوی ہے.

ھذا الحدیث موضوع.

رواه ابن عدي (15/2) وأبونعيم في “أخبار أصبهان” (1/278)

عن إسحاق بن نجيح عن ابن جريج عن عطاء عن ابن عباس رضی اللہ عنهما مرفوعا، وقال ابن عدي: “وإسحاق بن نجيح بين الأمر في الضعفاء، وهو ممن يضع الحديث”.

– وأورده السيوطي في “ذيل الأحاديث الموضوعة” (ص: 149 رقم: 728) وقال: “إنه من أباطيل إسحاق بن نجيح”.

  • “من زنى زني به ولو بحيطان داره”.

یہ روایت بھی من گھڑت ہے. اس میں قاسم الملطی جھوٹا راوی ہے.

ھذا الحدیث موضوع.

رواه ابن النجار بسنده عن القاسم بن إبراهيم الملطي: أنبأنا المبارك بن عبدالله المختط: حدثنا مالك عن الزهري عن أنس رضی اللہ عنه مرفوعا، قال ابن النجار: “فيه من لا يوثق به”. قلت: وهو القاسم الملطي كذاب. [كذا في “ذيل الأحاديث الموضوعة” للسيوطي (ص 134) و”تنزيه الشريعة” لابن عراق (316/1)].

خلاصہ کلام

اللہ رب العزت ظالم ذات نہیں اور نہ ہی کسی ایک شخص کے گناہوں کی سزا دوسروں کو دینگے، البتہ علمائے امت فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کھلم کھلا زنا کرے اور اپنے اس فسق اور گناہ پر اصرار کرتا رہے تو یقینا اس کے گھر والے جو اس کو یہ عمل کرتے دیکھ رہے ہونگے انکے دلوں سے بھی اس گناہ کی برائی ختم ہوجائےگی اور وہ بھی اس عمل میں مبتلا ہونگے، لیکن اگر کوئی کسی غلطی کو کرنے کے بعد توبہ کرلے اور اپنے عمل پر شرمندہ ہو تو انشاءاللہ اس کی مغفرت اور رحمت بہت وسیع ہے،  اور اللہ رب العزت جس عمل کو خود ناپسند فرماتے ہیں اس عمل میں اپنے بندوں کو سزا کے طور پر کیوں مبتلا فرمائینگے.

اللہ رب العزت ہم سب کے ایمان اور عزتوں کی حفاظت فرمائے..(آمین)

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ

مفتی عبد الباقی اخوانزادہ صاحب

مہتمم جامعہ اسلامیہ رضیہ للبنات سائیٹ کراچی
مفتی عبدالباقی اخونزادہ مدظلہ نے 1994 میں جامعہ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاون کراچی سے درسِ نظامی کی تعلیم مکمل کی۔
جس کے بعد 1995-1996 میں اسی ادارے سے تخصص فی الفقہ کیا۔
بعد ازاں2001-2004 تک جامعہ دارلعلوم کراچی سے تمرینِ افتاء کیا اور وفاقی اردو یونیورسٹی سے تاریخِ اسلام میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔
اس وقت مفتی صاحب جامعہ اسلامیہ رضیہ للبنات سائیٹ کراچی میں مہتمم کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

کل مواد : 12
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2025

تبصرے

يجب أن تكون عضوا لدينا لتتمكن من التعليق

إنشاء حساب

يستغرق التسجيل بضع ثوان فقط

سجل حسابا جديدا

تسجيل الدخول

تملك حسابا مسجّلا بالفعل؟

سجل دخولك الآن
ویب سائٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اس سائٹ کے مضامین تجارتی مقاصد کے لئے نقل کرنا یا چھاپنا ممنوع ہے، البتہ غیر تجارتی مقاصد کے لیئے ویب سائٹ کا حوالہ دے کر نشر کرنے کی اجازت ہے.
ویب سائٹ میں شامل مواد کے حقوق Creative Commons license CC-BY-NC کے تحت محفوظ ہیں
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2025