غامدی صاحب اور حدیث
ان کی فکر کا خلاصہ اس باب میں یہ ہے کہ احادیث آحاد دین کے فرائض، واجبات، سنت اسی طرح حرام، مکروہات وغیرہ میں بذاتہ نہ اضافہ کرسکتی ہیں نہ کمی۔ ہاں اگر کوئ حکم جو قرآن و سنت اور عقل کی رو سے ثابت شدہ ہو تو اس کی تائید و تصدیق کر سکتی ہیں۔ چنانچہ احکامات میں احادیث کے ذریعے کوئ تبدیلی نہیں لائی جاسکتی۔
" دين لاريب انهى دو (قران و سنت) صورتوں ميں هے. ان كے علاوه كوئ چيز دين هے نه اسے دين قرار ديا جاسكتا هے. رسول الله صلى الله عليه وسلم كے قول و فعل اور تقرير و تصويب كے اخبار آحاد جنهيں بالعموم "حديث" كها جاتا هے, ان كے بارے ميں همارا نقطۂ نظر يه هے كه ان سے دين ميں كسى عقيده و عمل كا هرگز كوئ اضافه نهيں هوتا".
(الميزان صفحه ۱۱ -۱۰ دار الاشراق لاهور طبع اول ۲۰۰۱)
اس طرح وہ انکار حجیت احادیث آحاد کا ارتکاب تو کرتے ہیں لیکن آداب و فضائل، ترغیب و ترہیب میں احادیث کی اہمیت کے قائل ہیں۔ دراصل غامدی صاحب قرآن و سنت کے بیانات کو اپنے متعین کردہ معانی کی روشنی میں جانچتے ہیں پھر ان معانی کی موافقت میں اگر کوئ حدیث مل جاۓ تو اس سے استدلال کر کے دیگر احادیث کا شدت سے رد کرتے ہیں۔
ذيل میں ہم غامدی صاحب کے کچھ تضادات کی مثالیں پیش کرتے ہیں جن سے یہ بات واضح ہو سکے گی ان شاء اللہ
۱۔ غیر نبی کے لئے الہام کا انکار:
قرآن میں غیر نبی کے لئے الہام ثابت ہے۔ اللہ کا ارشاد ہے:
“اور ہم نے موسی کی ماں کی طرف الہام کیا کہ وہ اسے (موسی علیہ السلام کو دریا میں) ڈال دے”۔ (سورۃ القصص)
اسى طرح مریم علیہا السلام کے واقعہ میں یوں آیا ہے:
“یاد کرو جب عمران کی بیوی نے کہا کہ اے میرے رب میں نذر مانتی ہوں کہ میرے پیٹ میں جو بچہ ہے اسے (دین کے لئیے) وقف کردوں گی"۔
اس سلسلہ میں بخاري شريف كى دو احادیث ملاحظہ فرمائیے:
۱۔ عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: سمعت رسول الله ﷺ يقول: لم يبقَ من النبوة إلا المبشرات، قالوا: وما المبشرات؟ قال: الرؤيا الصالحة. رواه البخاري.
ترجمه: نبوت میں سے سواۓ مبشرات كے كچھ نهيں بچا . پوچھا مبشرات كيا هيں؟ ارشاد فرمايا: سچے خواب.
٢- عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لقد كان فيما كان قبلكم من الأمم ناس محدثون، فإن يك في أمتي أحد فإنه عمر. زاد زكرياء بن أبي زائدة عن سعد عن أبي سلمة عن أبي هريرة قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: لقد كان فيمن كان قبلكم من بني إسرائيل، رجال يكلَّمون من غير أن يكونوا أنبياء، فإن يكن من أمتي منهم أحد فعمر. رواه البخاري
ترجمه: پچھلى امتوں ميں ايسے لوگ تھے جن سےكلام كيا جاتا تھا. اگر اس امت ميں كوئ هے تو وه عمر هے. دوسرى روايت ميں اضافه هے. نبى عليه السلام نے فرمايا: تم سے پهلے بنى اسرائيل ميں ايسے غير نبى مرد هوتے تھے جن سےكلام كيا جاتا تھا. اگر اس امت ميں كوئ هے تو وه عمر هے.
جب قرآن کی تصریح کی موافقت احادیث سے ہوتی ہے تو اس کے انکار کی وجہ کیا ہے؟
٢- ڈاڑھی کی عدم مشروعیت
غامدی صاحب ڈاڑھی کو اسلام کا حصہ نہیں مانتے بلکہ اسے عرب تہذیب و تمدن کا تسلسل قرار دیتے ہیں۔ قرآن کی چند آیات اس سلسلے میں پیش خدمت ہیں جن سے اس کی سنت انبیاء ہونے کا اشارہ ملتا ہے۔ پھر نبی کریم علیہ التسلیم اور صحابہ کرام علیہم السلام کا عمل اس کے موافق ہے پھر احادیث صحیحہ میں ڈاڑھی کا ذکر بصیغۂ امر اس کی مشروعیت ہی نہیں وجوب کا تقاضا کرتا ہے۔ لیکن غامدی صاحب اس کو واجب تو دور کی بات ہے، سنت بلکہ مستحب اور شرعی عمل ہی ماننے کو تیار نہیں۔ یہ بسا غنیمت ہے کہ مباحات میں شامل فرماتے ہیں۔
ا- فِطۡرَتَ اللّٰهِ الَّتِىۡ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيۡهَا ؕ لَا تَبۡدِيۡلَ لِخَـلۡقِ اللّٰه (الرّوم:٣٠)
ترجمه: خدا کی فطرت کو جس پر اُس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے (اختیار کئے رہو) خدا کی بنائی ہوئی (فطرت) میں تغیر وتبدل نہیں ہو سکتا
۲- قَالَ يَابۡنَؤُمَّ لَا تَاۡخُذۡ بِلِحۡيَتِىۡ وَلَا بِرَاۡسِىۡ (طه:٩٤)
ترجمه: كہنے لگے کہ بھائی میری ڈاڑھی اور سر (کے بالوں) کو نہ پکڑیئے۔
احادیث مبارکہ:
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خَالِفُوا الْمُشْرِكِينَ: أَوْفِرُوا اللِّحَى وَأَحْفُوا الشَّوَارِبَ ". وَفِي رِوَايَةٍ: "أنهكوا الشَّوَارِب وأعفوا اللحى". (متفق عليه)
ترجمه: مشركين كى مخالفت كرو ڈاڑھی بڑھاؤ مونچھیں كترواؤ.
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَمَرَ بِإِحْفَاءِ الشَّوَارِبِ وَإِعْفَاءِ اللِّحَى. (موطا)
ترجمه: رسول الله صلى الله عليه وسلم نے ڈاڑھی بڑھانے اور مونچھیں كتروانے كا حكم فرمايا.
عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ " أَحْفُوا الشَّوَارِبَ وَأَعْفُوا اللِّحَى". (النسائ)
ترجمه: ڈاڑھی بڑھاؤ مونچھیں كترواؤ.
عنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " جُزُّوا الشَّوَارِبَ وَأَرْخُوا اللِّحَى خَالِفُوا الْمَجُوسَ " . (مسلم)
ترجمه: مونچھیں تراشو اور ڈاڑھی بڑھاؤ مجوسيوں كى مخالفت كرو .
اشارۃ النص اور انبیاء سابق کے عمل سے جب ڈاڑھی کی تائید ہوتی ہے اور پھر امت مسلمہ کا عملی تواتر بھی اس کا مؤید ہے تو پھر وہ کون سی شرعی و اخلاقی ضرورت ہے جس کی بنیاد پہ ڈاڑھی کی مشروعیت کا انکار اس قدر شدومد سے کیا جارہا ہے؟ کیا صحیحین کی روایات کو جب کہ وہ غامدی صاحب کے وضع کردہ اصول کے موافق ہوں رد کیا جا سکتا ہے؟ مزيد براں نبى عليه السلام كا اسوه, آپ صلى الله عليه وسلم كا اسے فطرت ميں شمار فرمانا بجاۓ خود اس كى مشروعيت و استحباب كى مستقل دليل هے.
عنِ الْبَرَاءِ، قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم رَجِلاً مَرْبُوعًا عَرِيضَ مَا بَيْنَ الْمَنْكِبَيْنِ كَثَّ اللِّحْيَةِ. (نسائ)
ترجمه: رسول الله صلى الله عليه وسلم كشاده چوڑے سينے ,گھنى ڈاڑھی والےتھے.
عن عائشة رضي الله عنها قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : "عشر من الفطرة: قص الشارب، وإعفاء اللحية، والسواك، واستنشاق الماء، وقص الأظفار، وغسل البراجم، ونتف الإبط، وحلق العانة، وانتقاص الماء" ((قال الراوي: ونسيت العاشرة إلا أن تكون المضمضة، قال: وكيع- وهو أحد رواته. (مسلم)
ترجمه: رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا: دس باتيں فطرت ميں شامل هيں - مونچھیں كتروانا اور ڈاڑھی بڑھانا الخ
۳- جمع بین الصلوتین
ائمہ ثلاثہ رحمہم اللہ کے نزدیک مسافر کے لیئے جمع تقدیم و تاخیر دونوں مشروع و مسنون ہیں جبکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اسے ناجائز قرار دیتے ہیں۔ ان کا استدلال قرآن کی اس صریح آیت سے کہ:
اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتۡ عَلَى الۡمُؤۡمِنِيۡنَ كِتٰبًا مَّوۡقُوۡتًا (النساء: ۱۰۳)
ترجمه: بےشک نماز کا مومنوں پر اوقات (مقررہ) میں ادا کرنا فرض ہے.
اس کے مقابل چند احادیث مبارکہ میں نبی کریم علیہ افضل الصلوات و السلام سے جمع بین الصلوتین ثابت ہوتا ہے جو ائمۂ ثلاثہ کا مستدل ہے۔ ان روایات کو امام ابو حنیفہ جمع صوری پہ محمول کرتے ہوۓ قرانی نص پہ احادیث آحاد سے زیادتی کو قبول نہیں فرماتے۔
غامدی صاحب اس مسئلہ میں ائمۂ ثلاثہ کے ساتھ ہیں حالانکہ ان کے اصول کے مطابق انہیں احادیث کے مقابلے میں قرآن کی قطعی آیت کو بنیاد بنا کر احادیث میں تاویل کرنی چاہیئے تھی۔
اس سلسله ميں متعدد مثاليں پيش كى جاسكتى هيں. سر دست اسى په اكتفا كر كے اهل نظر كو دعوت فكر هے.
وما علينا الا البلاغ