علوم حدیث میں اختصاص ۔۔ اہمیت وضرورت
علوم حدیث کی اہمیت
تاریخِ اسلام کے قرونِ اولی میں علمائے حق نے دین کے بنیادی مآخذ کی حفاظت وصیانت کی خاطر جن نئے علوم وفنون کی داغ بیل ڈالی ہے، ان کا ایک معتدبہ حصہ مختلف جہات اور متنوع عنوانات سے معنون ہوکر ”علومِ حدیث“ کی صورت زندہ وتابندہ ہے، عنوان کی سادگی کی بنا پر ظاہربینوں کوپہاڑ، رائی کی ماننددکھنے لگتا ہے؛ لیکن حقیقت سے آشنا طبائع اس بحربیکراں میں غوطہ زن ہوکر انگشت بدنداں رہ جاتی ہیں، علم کا جوشیدائی بھی اس سفر پر روانہ ہوا تو متاعِ حیات تسلیم کرکے بھی تشنہ لبی پرشکوہ کناں نظر آیا،ان علوم کی وسعت کے اجمالی تعارف کے لیے چھٹی صدی ہجری کے معروف محدث وفقیہ، امام ابوبکر زین الدین حازمی رحمہ اللہ(۵۴۸- ۵۸۴ھ) کے اس فرمان پر نگاہ ڈالیے :
”علم حدیث کی انواع تقریباً سوہیں، حافظ ابوعبداللہ (حاکم )رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ”معرفة علوم الحدیث“ میں ان انواع میں سے معتدبہ تعداد ذکر کی ہیں،اور ہر نوع مستقل علم کی حیثیت رکھتی ہے،(بعض انواع ایسی ہیں کہ) اگر طالب علم پوری حیات مستعار انھیں میں صرف کرڈالے تب بھی انتہا کو نہ پا سکے گا؛ لیکن مبتدی کو چاہیے کہ ہر نوع سے معتدبہ استفادہ کرے؛ اس لیے کہ یہ حدیثی اصول ہیں، اور طالب علم اصول سے ہی نابلد ہو تو مقصود تک پہنچنا دشوار ہوجاتا ہے“(۱)۔
کچھ احوال واقعی:
مرور زمانہ کے ساتھ اب یہ سمجھانا بھی دشوار ہوچلاہے کہ ان علوم میں زندگیاں کھپانے کی ضرورت ہی آخر کیا ہے؟ بہتیرے طلبائے علم ،درس نظامی کی تکمیل کے بعد یہ سوال پوچھتے نظرآتے ہیں کہ محدثین نے جب بازی جیت لی ہے تو پھر ”تخصص فی علوم الحدیث“ کی بھلا ضرورت ہی کیا ہے؟ اس صحرانوردی سے ہمیں کیا فوائدحاصل ہو سکتے ہیں؟یہ اختصاص ہمیں مستقبل میں کس جہت سے نمایاں مقام دلاسکتا ہے؟ علم کے تنزل کے دور میں اس نوع کے سوالات تعجب خیز نہیں ہواکرتے، ایسے وقت بدیہی امور نظری بن ہی جایا کرتے ہیں، کچھ قصور ان نادان دوستوں کا بھی ضرور ہے جو سفر سے واپسی پرراہ کی حسین وادیوں کی واقعی وحقیقی منظر کشی نہ کرسکے، یا طبعی کسل کی بنا پر خرگوش کی مانند آخری گھڑیوں کے انتظار میں فرصت زریں کھوبیٹھے اور اقبال کے الفاظ میں” چند کلیوں پر ہی قناعت کرگئے“، ایسے میں کسی نوخیز نے کارگذاری پوچھی توچندنابیناؤں کی طرح قوتِ لامسہ کے ذریعے ہاتھی کی دم ، پیر اور شکم، جسے چھوکر محسوس کیا، اسی کا دم بھرتے نظر آئے، اور علم کی متلاشی پیاسی طبیعتیں اس ”جہت“کو تھوڑا خیال کرکے قدم بڑھاگئیں، یوں ذہانتوں کی بے توجہی سے میدان علم میں آیا خلا وسیع ہوتا چلا گیا۔
منظر کی دھندلاہٹ میں کچھ دخل رویوں کے افراط وتفریط کا بھی ہے، بعضے ان علوم کی عظمت تلے دب کر یوں مغلوب ہوئے کہ دیگر میادینِ علم سے مستغنی دکھائی دئیے، غلبہٴ حال میں یہ مسلمہ حقیقت نگاہ سے اوجھل ہوگئی کہ علومِ اسلامیہ سبھی اپنا سرمایہ ہیں ، باہم مربوط ہونے کی بنا ایک دوسرے کے محتاج ہیں، اورطبعی رجحانات کی تقسیم، تکوین کا کرشمہ ہے، جس سے ہر میدان کی رکھوالی مقصود ہے، ایک جماعت اس راہ سے خوابیدہ یا نیم چشیدہ ہی گذری اور جولوٹی تو اپنی ”پھوٹی کوڑی“ کو یواقیت وجواہر جان کر سلف کی جاں گسل جدوجہد پر ”دوحرف “ پڑھتے سنائی دی۔
”اپنوں“ کی اس بے اعتنائی میں ”غیروں“ کی اڑائی ”گرد“ کا کردار بھی بھولنے جیسا نہیں، کچھ خالی ذہن تھے ،سو جو جام تھمائے گئے، مخمور ہوکر انھیں کے گن گاتے نظر آئے، بعض عقلیت پسند تھے توانھیں من بھاتی عقلی موشگافیاں ”خوابیدہ ضمیر“ کی آواز لگیں، بھول گئے کہ واردانِ خوان نبوت، علم وتقوی کے شناور ہونے کے ساتھ”روایت ودرایت“ اور” عقل ونقل“ کے اسلحے سے بھی لیس تھے، وہ کھرا کھوٹا جانتے تھے اور انسانی وسعت کے دائرے میں اپنا فرض نبھاگئے ہیں، شکووں کی یہ داستاں طویل ہے اور درازگوئی کا یہ موقع نہیں، مدعا صرف یہ ہے کہ ”علومِ حدیث“ کے اس میدان پر راہ گیروں کی قلت کے کچھ داخلی وخارجی اسباب وعوامل بھی ہیں۔
اختصاص کیوں ضروری ہے؟
علومِ اسلامیہ کی دنیا وسیع وعریض ہے، دور قدیم میں طبائع باہمت، حوصلے بلند، صحتیں توانا اور حافظے مضبوط ہواکرتے تھے تو بیک وقت علوم عقلیہ ونقلیہ کی جامع شخصیات بھی موجود رہتی تھیں، عہد رفتہ کے ساتھ صلاحیتیں ضعف کا شکار ہوتی گئیں تو جامعیت کی شان بھی ندرت کا شکارہوتی ہوگئی، یوں اختصاصی مہارتوں کی ضرورت بڑھتی چلی گئی، اختصاصی مہارتوں کی اہمیت بتلانے کو زبانِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے نکلے ان الہامی جملوں میں پنہاں اشارے قابلِ غور ہیں:
”عن أنس بن مالک قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أرحم أمتی بأمتی ابوبکر، وأشدھم فی أمر اللّٰہ عمر، وأصدقہم حیائًا عثمان بن عفان، وأعلمھم بالحلال والحرام معاذ بن جبل، وأفرضھم زیدبن ثابت، وأقروٴھم أبی بن کعب، ولکل أمة أمین، وأمین ھذہ أمة ابوعبیدة بن الجراح“․(۲)
”حضرت انس بن مالک رضی اللہ راوی ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”میری امت کے سب سے رحم دل انسان ابوبکر، حکم خداوندی کے معاملے سب سے سخت عمر، سب سے باحیا عثمان بن عفان، سب سے زیادہ حلال وحرام کے مسائل جاننے والے معاذ بن جبل ، علم فرائض کے سب سے بڑے عالم زید بن ثابت، اور سب سے بڑے قاری ابی بن کعب ہیں، اور ہر امت کا ایک امین ہواکرتا ہے، میری امت کے امین ابوعبیدہ بن جراح ہیں۔ رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین“۔
محدثین اس حدیث کو عام طور پر ”مناقبِ صحابہ رضی اللہ عنہم“ کے ذیل میں ذکر کرتے ہیں، اس لیے کہ اس میں یکجا کئی کبار صحابہ کے مقام ومرتبہ اور ان کے امتیازی اوصاف وخصوصیات کابیان ہے،” اشارة النص“ کے طورپر اس حدیث سے یہ استنباط کیا جاسکتاہے کہ ”اختصاص“ کی بنیاد عہدِ نبوت میں ہی ڈال دی گئی تھی؛ چنانچہ مذکورہ روایت میں حضرت معاذ بن جبل، حضرت زیدبن ثابت اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہم کے اختصاصی علوم کی جانب واضح اشارہ ملتا ہے۔ یوں بھی دورِحاضر کو اختصاص (اسپیشلائزیشن specialization) کا عہد کہا جاتا ہے، بلکہ اب نوبت اس سے بڑھ کر ذیلی اختصاص(سب اسپیشلائزیشن sub specialization) تک جاپہنچی ہے؛ چنانچہ آج علاج کے سلسلے میں بھی جنرل ڈاکٹر کے بجائے متخصص (اسپیشلسٹspecialist) سے ہی رجوع کیا جاتا ہے،اس بنا پر علوم دنیویہ کی مانند علوم اسلامیہ میں بھی فطری طور پر یہی رویہ عین فطرت کے مطابق ہے کہ ضروری علوم میں کلی وبنیادی معلومات کے حصول کے بعد کسی ایک علم وفن میں کمال حاصل کیا جائے؛ کیونکہ ہر ایک علم وفن میں دقت رسی دشوار ہی نہیں،کہاجاسکتا ہے کہ آج کے دور میں ناممکن ہے، فقہ ظاہری کے امام اور پانچویں صدی کے نامور عالم ،حافظ ابومحمد علی بن حزم اندلسی رحمہ اللہ(۳۸۴-۴۵۶ھ)اپنی کتاب ”مراتب العلوم“ میں اس پہلو پر بحث کرتے ہوئے کچھ یوں رقم طراز ہیں:
”جس کسی نے بھی ہر علم میں مہارت حاصل کرنے کا ارادہ کیا وہ ختم ہوکررہ گیا اور کچھ حاصل نہ کرپایا، اس کی مثال اس تیزرفتار شخص کی مانند ہے جس کی کوئی منزل نہ ہو؛ اس لیے کہ متاعِ حیات بہت تھوڑی ہے،لہٰذا ہر علم میں سے کچھ حصہ حاصل کرنا چاہیے، یعنی اس کے بنیادی مقاصد کی معرفت کے بعد ضروری مباحث کو حاصل کرے، بعدازاں جس علم کی جانب طبعی و قلبی میلان اور رجحان ہواس میں حتی الامکان مزید محنت وکوشش سے کام لے،یوں فہم وذکاوت، طبعی قوت، جمعیتِ خاطر اور یکسوئی کے بہ قدرکم وبیش دو تین علوم میں ہی مہارت حاصل کرسکے گا“۔ (۳)
ذرا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو ہمارے سلف میں یہی رجحان پایا جاتا تھا، امام لغت وجلیل القدر امام ابوعبید قاسم بن سلام رحمہ اللہ (۱۵۷- ۲۲۴ھ) کا کہنا ہے:
”جب بھی کسی متعدد علوم پر نگاہ رکھنے والے عالم سے مناظرے کی نوبت آئی تو میں غالب رہا؛ لیکن ایک فن کے ماہر کو ہمیشہ اس فن میں مجھ پر غلبہ حاصل رہاہے“۔(۴)
چنانچہ متقدمین کے دور سے ہی حدیث کے سلسلے میں محدث کی اور فقہ واستنباط کے پہلو سے فقیہ کی رائے ہی معتبر قرار پاتی تھی، کوئی بعید نہیں کہ علوم اسلامیہ کی تدوین کے ابتدائی ادوار میں ”فقہ“ کی وسعت کے تین مختلف زاویوں(عقائد، فقہ اوراحسان) میں سمٹنے کے پسِ پشت یہی فکر کارفرما رہی ہو، اس پہلو سے علامہ ابن حجر ہیتمی مکی رحمہ اللہ(۹۰۹-۹۷۳ھ) کا یہ جملہ ان گنت پیچیدہ گتھیاں سلجھا سکتا ہے:
”من غلب علیہ فن یرجع الیہ فیہ دون غیرہ“․(۵)
”جس عالم پر کوئی ایک فن غالب ہو تو اسی فن سے متعلق ان سے رجوع کیا جائے گا، دیگر علوم میں ان سے رہنمائی نہیں لی جائے گی“۔
برصغیر کے نامور محقق عالم مولانا عبدالحی لکھنوی رحمہ اللہ(۱۲۶۴-۱۳۰۴ھ) رقم طراز ہیں:
”اللہ تعالی نے ہر موقع کے مناسب کلام اور ہر فن کے لائق مردانِ کار پیدا کیے ہیں، اپنی مخلوقات میں سے بعض کو خاص نوع کی فضیلت بخشی ہے، جو باقی مخلوق میں نہیں، بعض محدثین کو محض احادیث کی روایت کرنے کا مشغلہ نصیب ہواہے، حدیث کی فقہ اور اسرار تک ان کی رسائی نہیں، یونہی فقہاء کی ایک جماعت مسائلِ فقہیہ کے ضبط میں مصروف رہی ہے، انھیں حدیثی روایات میں مہارت حاصل نہ تھی،لہٰذا ہر ایک طبقہ کو اس کا جائز مقام دینا اور ان کے مراتب کی حدود پر قائم رہنا ضروری ہے“۔ (۶)
جب ہر فن میں صاحب فن کا قول ہی معتبر ٹھہرا تو ہر دور میں ہر فن کے متخصصین کا وجود بھی ناگزیر قرار پاتا ہے،پھر جب کہ علوم آلیہ بلکہ علوم عقلیہ کے شناور ان پر زندگیاں نچھاور کررہے ہوں تو علوم عالیہ اور خصوصا علوم حدیث پر جان نثاری کی اہمیت مخفی نہ رہنی چاہیے،بلاشبہ کسی بھی علم وفن کی اہمیت سے انکار نہیں؛ لیکن ”أعط کلَ ذی حقٍ حقَّہ“(۷) (ہر حق دار کو اس کا حق دو) کے مخاطبین سے واجب حق کی ادائیگی کا سوال بھی اہلِ عقل کے ہاں یقیناغیردانشمندانہ شمارنہ ہوگا، تعلیم کے انتہائی مرحلے میں طبعی رجحانات ومیلانات کو پیشِ نظر رکھ کر صلاحیتوں کی تقسیم کے لمحات میں ہر میدان کی علمی ضروریات کو دیکھتے ہوئے منصفانہ تقسیم کا مطالبہ عینِ فطرت ہے اور یہی ا ن گزارشات کا مقصود ہے۔
”تخصصات“ کے سلسلے میں ایک عمومی اشکال سننے میں آتا ہے کہ قدماء میں تو یہ طریقہ رائج نہیں رہا،آخر اس کی کیا ضرورت ہے؟ عرض یہ ہے کہ بلاشبہ قدماء کے ہاں مروجہ طرز پر ”تخصصات“ کا رواج نہ تھا؛ لیکن امتِ مسلمہ کی تعلیمی تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دور میں بھی رسمی طالب علمی سے فراغت کے بعد طلباء کو جس فن سے قلبی وابستگی ہوتی تواس فن کے ماہر کے ہاں جاکر مزید رسوخ حاصل کیا کرتے تھے، عصرِحاضر میں چونکہ انفردای تعلیم کا یہ سلسلہ دشوار ہوچلا ہے، اس بنا پر مدارس وجامعات میں انتظامی طور پر اصحابِ فن کی نگرانی میں شعبے کھول کر طلبائے علم کو استفادے کی دعوت دی جاتی ہے، گویازمانے کے چلن کی بنا پر اسلوب ومنہج کا فرق ہے؛جب کہ حقیقت وہی ہے جو قدماء سے چلی آرہی ہے۔
علومِ حدیث میں اختصاص کی ضرورت:
مندرجہ بالا تفصیل سے اجمالی طور پر دیگر علوم کی طرح علومِ حدیث میں اختصاص کی اہمیت وضرورت بھی واضح ہوگئی، اس سلسلے میں چند مزید گزارشات، نکات کی صورت پیش کی جاتی ہیں:
۱- قرآن کریم کے بعد دین کا دوسرا بنیادی ماخذ” حدیث وسنت“ ہے؛ اس لیے حفظ مراتب کے پہلو سے بھی قرآن وعلومِ قرآن کے بعد علومِ حدیث زیادہ توجہات کے مستحق ہیں،شاید اسی بنا پر مولانا محمد انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ(۱۲۹۲-۱۳۵۲ھ) کے افادات پر مشتمل ”انوار الباری شرح صحیح بخاری“ کے مرتب مولانا احمد رضا بجنوری رحمہ اللہ کا تجزیہ ہے: ”میرے نزدیک علومِ اسلامیہ میں سب سے زیادہ اہم اور مشکل ، حدیث ہی کا تخصص ہے“۔(۸)
درسِ نظامی کے مختلف درجات میں کتب صحاح سمیت دیگر کتب حدیث اور اصول حدیث کی کتب شامل نصاب ہیں، جن سے علومِ حدیث سے بنیادی شناسائی تو ضرور پیدا ہوجاتی ہے؛ لیکن دیگر علوم کی طرح اختصاصی مہارت تک رسائی حاصل نہیں ہوتی،لہٰذا جیسے” تخصص فی التفسیر واصولہ“، ”تخصص فی الفقہ والافتاء“، ”تخصص فی الادب العربی“،”تخصص فی الدعوة والارشاد“ اور”تخصص فی العلوم العقلیة“ کی ضرورت بجاطور پر محسوس کی جاتی ہے، وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ ذہین فضلاء کی ایک جماعت ”تخصص فی علوم الحدیث“ کی جانب متوجہ ہو، اور اس جہاں میں زندگی کھپا کرامتِ مسلمہ کی طرف سے فرضِ کفایہ کی ادائیگی کا ذریعہ ثابت ہو، اس نکتے کو پیش نظر رکھتے ہوئے گردوپیش پر نگاہ ڈالی جائے تو افراد کی جتنی تعداد دیگر میدانوں میں نظر آتی ہے، علوم حدیث میں اختصاصی مہارتوں کی جانب ویسی توجہات نہیں۔
۲- عصر حاضر میں علوم حدیث کے بہت سے پہلو بے اعتنائی کا شکار ہیں، مثلا: رجال احادیث، جرح وتعدیل، ضبط اسمائے روات، غریب الحدیث، اسباب ورود احادیث، ناسخ ومنسوخ، اور احادیث الاحکام وغیرہ، علوم حدیث ایک وسیع میدان ہے، علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے ان علوم کی چورانوے(۹۴) انواع ذکر کی ہیں، ان میں سے ہر نوع پر مستقل کتب کی تالیف سے اسلامی کتب خانے میں ایک بہت بڑا ذخیرہ وجودمیں آیا ہے، اور روز بروز اس میں مختلف جہات سے ترتیب وتدوین، تلخیص واختصار اور مختلف مباحث کے حوالے سے اٹھنے والے نئے اشکالات و سوالات کا جواب دینے کے لیے لکھا جانے والا لٹریچر بڑھ رہا ہے، جن کے تعارف، مناہج کی پہچان اور استفادہ کے طریقہٴ کار کی معرفت کارے دارد، ”علوم حدیث میں اختصاص“ کا ایک اہم مقصداس قیمتی ذخیرے کا تعارف اور ہر علم وفن میں لکھی گئی کتب کے مناہج کی معرفت بھی ہے؛ تاکہ اس قیمتی ذخیرے سے واقفیت حاصل کرنے کے نئے مباحث میں امت مسلمہ کی رہنمائی کی جاسکے۔
۳- ہر دور کی طرح دورِ حاضر میں بھی عوام اور خواص کے مختلف حلقوں میں شدید ضعیف اور موضوع احادیث کاچلن ہے، موضوعات کے اس شیوع میں کھرے کھوٹے کی تمیز کرکے عوام وخواص میں اس کا شعور بیدار کرنے کرنا بھی ایک اہم عمل ہے، نیز فتن ودیگر موضوعات کی بے شمار روایات کا صحیح فہم نہ ہونے کی بنا پر غلط فہمیوں کا ایک طوفان برپا ہے، محتمل روایات کے مصداقات کی تعیین کے ذریعے بھی فتنہ وفساد کی راہیں وا کی جارہی ہیں، اس صورت حال کی بناپر عوام میں جو بے چینی اور ہیجان کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے، اصحاب فہم ودانش اس کا ادراک کررہے ہیں۔
۴- اصول حدیث کی متداول کتب، محدثین اور خصوصا فقہ شافعی کی نمائندہ شمار کی جاتی ہیں، جن کے بہت سے مباحث میں فقہائے حنفیہ کی آرا محدثین سے مختلف ہیں، اور درسِ نظامی کا عام فاضل محض حافظ ابن حجرعسقلانی رحمہ اللہ(۷۷۳- ۸۵۲ھ) کی” نزہة النظرشرح نخبة الفکر“یاعلامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ(۸۴۹-۹۱۱ھ) کی ”تدریب الراوی فی تقریب النواوي“ پڑھ کر حدیثی مباحث میں محدثین وشافعیہ کی آرا کو پیش نظر رکھتے ہوئے بہت سی الجھنوں کا شکار رہتا ہے، امرواقعہ یہ ہے کہ فقہائے احناف کی اصولی آرا ہماری اصول فقہ کی ”کتب السنة“ کے ضمن میں زیربحث آتی ہیں، وہاں اس جانب توجہات مبذول نہیں رہتیں، نیز احناف کے ہاں اس پہلو سے مستقل کام بھی کم ہے،ان اسباب کی بنا پر نصابی تعلیم کے دوران اصول حدیث کے پہلو سے خلا باقی رہ جاتا ہے؛ جب کہ اختصاصی شعبوں میں اس کمی کی تلافی کی کوشش کی جاتی ہے، علوم حدیث کے نامور عالم ومحقق مولانا محمد عبدالرشید نعمانی رحمہ اللہ(۱۴۲۰ھ) کا درج ذیل بیان پڑھیے:
”حنفی عالم کو محدثین کی مصطلح کے علاوہ اصول فقہ کی کتابوں میں جو”سنت“ کی بحث ہے، اس کو خاص طور پر پیش نظر رکھنا چاہیے، خصوصاً جصاص کی اصول فقہ، سرخسی اور بزدوی رحمہم اللہ کی کتابوں میں جو سنت کی بحث ہے، وہ پیش نظر رہے کہ ہمارے ہاں نقدِ حدیث کے وہی اصول ہیں جو ان کتابوں میں مذکو ر ہیں، وہ نہیں جو ابن صلاح اور بعد کے لوگوں نے بنائے ہیں، اس سلسلے میں ”کشف بزدوی“ اور ”اصول سرخسی“ کا مطالعہ بہت ضروری ہے“۔ (۹)
۵- ”تخصص فی علوم الحدیث“ کے ان شعبوں کا ایک بنیادی مقصدعلم حدیث کی تدریسی استعداد کے ساتھ تالیفی صلاحیت پیدا کرنا بھی ہے، اصحاب نظر جانتے ہیں کہ مسلمانوں کا موجود مطبوعہ کتب سے کئی گناہ بڑاذخیرہ مخطوطات کی صورت میں مسلم وغیرمسلم دنیا کے مختلف سرکاری ، ادارتی اور نجی کتب خانوں میں پردئہ اخفا میں ہے، ایسے میں پختہ وذی استعداد مدرسین کے ساتھ تحقیق مخطوطات کے ماہر اورعمدہ تالیفی صلاحیتوں کے حامل فضلاء بھی علمی میدان کی ضروت ہیں، مولانا محمد عبدالرشید نعمانی رحمہ اللہ نے ایک موقع پر لکھا تھا:
تخصص کی دو شکلیں ہیں:
(۱)ایک یہ کہ طالب علم درس کے سلسلے میں استعداد پیدا کرسکے، اور وہ ”التخصص فی درس الحدیث“ کا اہل ہو۔
(۲)دوسرے یہ کہ جب لوگوں میں تصنیف وتالیف کی اہلیت ہو، ان کے تخصص کا مطلب یہ ہے کہ وہ کسی خاص موضوع پر کسی کتاب کی تالیف کرسکیں، یا حدیث کے کسی مخطوطے کی تصحیح کرسکیں، اس پر تعلیقات وحواشی لکھ سکیں“۔(۱۰)
۶- سابقہ نکات کے ضمن میں یہ پہلو بھی اہم ہے کہ حدیث کی حجیت اور شرح وبیان کے حوالے مختلف طبقات کے اشکالات وجوابات کا سلسلہ ایک عرصہ سے جاری ہے، منکرینِ حدیث بھی اپنی مردہ اسکیم میں جان ڈالنے کی خاطر نت نئے مباحث چھیڑ کر سادہ لوح مسلمانوں میں تشکیکی جراثیم پیدا کرنے کے لیے کوشا ں رہتے ہیں، اس پر مستزاد بعض مسلم دانشور بھی اپنی کم فہمی کی بنا پر شبہات میں مبتلا ہو کر دانستہ ونادانستہ طور پر عوام میں ان کی اشاعت کی سرگرمیوں میں مصروفِ عمل ہیں، اس صورتِ حال نے آج پرانی بحثوں کو دوبارہ زندہ کردیا ہے اور اس وقت عرب وعجم میں متنوع حدیثی موضوعات پر کتب ومقالات لکھے جارہے ہیں، سیمینار اور کانفرنسیں ہورہی ہیں، برصغیر میں بھی اس صورت حال کی لپیٹ میں ہے، اور کسی درجے میں یہاں بھی اس پہلو پر کام کیا جارہا ہے؛ لیکن جدید چیلنجز کی بنا پر بہت سے تشنہ پہلوٴوں پر قدیم ذخیرے کی روشنی میں عوام اور عصری تعلیم یافتہ طبقوں کی ذہنی سطح کو سامنے رکھتے ہوئے علمی و تحقیقی لٹریچر کی ضرورت دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔
برصغیر کے چندمعروف شعبہائے تخصص فی علوم الحدیث کا ایک تعارف
جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن:
یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ برصغیر میں علوم حدیث میں اختصاص کے لیے مستقل شعبہ کی بنیاد ڈالنے میں پہل کا اعزاز جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کوحاصل ہے، محدث العصر مولانا سید محمدیوسف بنوری رحمہ اللہ(۱۳۹۷ھ) نے ۱۳۸۳ھ بمطابق ۱۹۶۳ء میں اس شعبے کی بنیاد ڈالی،اور علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ کے شاگردرشید مولانا محمد ادریس میرٹھی رحمہ اللہ(۱۴۰۹ھ) کو نگران مقرر فرمایا، بعد ازاں مولانا محمد عبدالرشید نعمانی رحمہ اللہ اور ان کے بعد استاذ محترم مولانا محمد عبدالحلیم چشتی مدظلہ(فاضل دارالعلوم دیوبند ) تاحال مشرف کے منصب پر فائز ہیں۔
اس شعبے کے پچاس سالوں میں دسیوں تحقیقی مقالات لکھے گئے، جن کی ایک فہرست مولانا علی احمد ومولانا صہیب ضیاء (متخصصین فی علوم الحدیث جامعہ) کی محنت وکوشش سے سہ ماہی ”تحقیقات حدیث“ (۱۱) میں چھپ چکی ہے، جس میں ۸۸ مقالات کا ذکر ہے،ان کے علاوہ بھی بہت سے مقالات کی فہرست جامعہ کے ریکارڈ میں موجود ہے۔
حضرت بنوری رحمہ اللہ کی خواہش تھی کہ یہاں تحقیقی مقالات لکھے جائیں اور طبع ہوکر علمی ذخیرے میں موجود خلا کو پر کریں؛چنانچہ جامعہ کے اس شعبے میں لکھے جانے والے بہت سے مقالات ملک وبیرون ملک کے مختلف اشاعتی اداروں سے طبع ہوکر عام ہوچکے ہیں، جن میں سے چند معروف مقالات کا تعارف درج ذیل ہے:
۱- ”السنة ومکانتھا فی ضوء القرآن الکریم“ از مولانا ڈاکٹر حبیب اللہ مختار شہید رحمہ اللہ(۱۹۹۷ء): یہ مقالہ حضرت مولانا محمد ادریس میرٹھی رحمہ اللہ کی نگرانی میں لکھا گیا ہے، اس دور میں انکارِ حدیث کے فتنے نے سر اٹھایا ،جس میں قرآن کریم کی آڑمیں ذخیرئہ حدیث کو بے وقعت بنانے کے مذموم مقاصد کارفرما تھے؛ اس لیے اس مقالے میں قرآن کریم کی روشنی میں سنتِ نبویہ کی حیثیت ومرتبہ متعین کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے، اصل عربی مقالہ ”مکتبہ بنوریہ“ سے اور اردو ترجمہ ۱۴۰۰ھ میں جامعہ کے اشاعتی شعبے ”مجلس دعوت وتحقیق اسلامی “سے طبع ہوچکاہے۔
۲-”مسانید الإمام أبي حنیفة وعدد مرویاتہ من المرفوعات والآثار“ از مولانا محمد امین اورکزئی شہید رحمہ اللہ(۲۰۰۹ء): یہ مقالہ بھی حضرت مولانا محمد ادریس میرٹھی رحمہ اللہ کی نگرانی میں لکھا گیا ہے، اس میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا حدیثی مقام، ان کی بیس سے زائد ”مسانید“ کا تعارف وتجزیہ اور ان میں جمع شدہ روایات کی تعداد بیان کی گئی ہے، ۱۳۹۸ھ میں ”مجلس دعوت وتحقیق اسلامی“ سے اور دوسری بار مولانا شہید کے ادارے ”جامعہ یوسفیہ شاہووام ہنگو “ سے اشاعت پذیر ہوچکا ہے۔
۳- ”الکتب المدونة فی الحدیث وأصنافہا وخصائصہا“ از مولانا محمد زمان کلاچوی : مقالے کا موضوع عنوان سے ظاہر ہے، حضرت بنوری رحمہ اللہ کی خواہش تھی کہ کتب حدیث کے تفصیلی تعارف پر مشتمل کتاب ترتیب دی جائے، یہ مقالہ اسی خواہش کی ایک تکمیلی کوشش ہے، ”المصنفات في الحدیث“ سے اردو ترجمہ نوشہرہ کی ”القاسم اکیڈمی“ نے نہایت اہتمام سے شائع کیا ہے۔
۴- ”الکلام المفید في تحریر الأسانید“ از مولانا روح الامین بنگلہ دیشی: مولانا محمد عبدالرشید نعمانی رحمہ اللہ کی زیرنگرانی لکھے گئے اس مقالے میں بنیادی طور پر مولانا نعمانی کی اور اس ضمن میں اکابراساتذئہ دارالعلوم دیوبند کی اسانید کو یکجا کرنے کی سعی کی گئی ہے، جن سے مولانا روح الامین نے کتبِ احادیث پڑھی ہے۔ علمائے دیوبند کے ”اثبات“ میں اس کتاب کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ پہلے پہل ۱۴۲۵ھ میں” مکتبہ حجاز دیوبند“ سے اور دوسری بارکچھ عرصہ قبل ”زمزم پبلشرز“ کراچی سے طبع ہوچکا ہے۔
۵- ”أحادیث تلامیذ الإمام وأحادیث العلماء الأحناف في صحیح البخاری“ از مولانا مفیض الرحمن چاٹگامی: فقہائے احناف پر حدیث سے دوری کا ایک بے بنیاد اتہام باندھا جاتا ہے، استاذ محترم مولانا ڈاکٹر محمدعبدالحلیم چشتی مدظلہ کے اشراف میں لکھے گئے اس مقالے میں ذخیرہ حدیث کی معتبر ترین کتاب ”صحیح بخاری“ میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے تلامذہ اور دیگر حنفی فقہا کی سند سے مذکو روایات کو جمع کیا گیا ہے، ”الوردة الحاضرة“ کے نام سے ”زمزم پبلشرز“ سے شائع ہوچکا ہے۔
۶- ”ثنائیات الإمام الأعظم أبي حنیفة“ از مولانا عبدالعزیز یحی سعدی : امام بخاری رحمہ اللہ کی ”صحیح“ میں بائیس ”ثلاثیات“(جن روایات میں امام بخاری رحمہ اللہ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان محض تین واسطے ہیں) ہیں، اور محدثین کے ہاں ایسی روایات کی زیادہ اہمیت ہوتی ہے، جن کی سند میں واسطے کم ہوں، استاذ محترم مولانا چشتی مدظلہ کی نگرانی میں تحریر کیے گئے پیش نظر مقالے میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی (۲۱۹) ”ثنائیات“(جن روایات میں امام عالی مقام اور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں محض دو واسطے ہیں) جمع کی گئی ہیں ، پہلی بار کراچی سے اور بعدازاں ۱۴۲۶ھ میں”الإمام أبوحنیفة وثنائیاتہ“ کے نام سے بیروت کے معروف اشاعتی ادارے ”دارالکتب العلمیة“ سے عالم عرب کے محقق عالم ڈاکٹر نور الدین عتر حفظہ اللہ کی گراں قدر تقریظ کے ساتھ طبع ہوکر عام دستیاب ہے۔
۷- ”الجمع بین الآثار“ از مولانا ایوب رشیدی: یہ مقالہ بھی استاذ محترم مولانا چشتی مدظلہ کی نگرانی کے دور میں لکھا گیا ہے، اس میں امام ابوایوسف اور امام محمد رحمہما اللہ کی”کتاب الآثار“ کی روایات کو جمع کرکے ان کے رجال پر کلام کیا گیا ہے، ابتدا میں استاذ محترم کے قلم سے لکھا گیا مقدمہ ایک تحقیقی مقالے کی شکل اختیار گیا ہے، اس مقدمے کے اردو ترجمے کا ایک حصہ سیرت طیبہ کے متعلق مولانا ڈاکٹر عزیز الرحمن کی ادارت میں شائع ہونے والے ششماہی ”السیرة“(۱۲) میں قسط وار چھپ چکا ہے، امید ہے کہ ا ن شاء اللہ جلد ہی مستقل کتابی صورت میں طبع ہوگا؛جبکہ اصل عربی مقالہ حال ہی میں ”لمحات من التربیة الفقہیةفي خیر القرون“ کے نام سے اردن کے اشاعتی ادارے ”دارالفتح“ سے چھپا ہے، مولانا رشیدی کا مقالہ ۱۴۲۶ھ میں”زمزم پبلشرز“ سے چھپ کر عام ہوچکا ہے۔
۸- ”الفقہ فی السند“ از مولانا اللہ بخش ایاز ملکانوی: وادی مہران میں فقہ اسلامی کے نمو وارتقا اور یہاں کے اہل علم کی فقہی خدمات کے جائزہ ، تعارف وتبصرہ کے حوالے سے لکھے گئے اس مقالے کا اردو ترجمہ ”القاسم اکیڈمی“ نوشہرہ سے شائع ہوا ہے۔
۹- ”دراسات في أصول الحدیث علی منھج الحنفیة“ از مولانا عبدالمجید ترکمانی: احناف کے اصول حدیث پر اپنی نوعیت کا یہ منفرد کام استاذ محترم مولانا محمد عبدالحلیم چشتی مدظلہ کی نگرانی میں انجام پایا تھا، مزید اضافات اور فنی ترتیب وتدوین کے بعد ابتدا میں ”مکتبة السعادة“ کراچی سے اور پھر بیروت کے معروف اشاعتی ادارے ”دارابن کثیر“سے یکے بعد دیگرے دو بار طبع ہوچکا ہے، حال ہی میں مزید اضافات کے ساتھ ”مکتبة الکوثر“ سے اس کتاب کا چوتھا ایڈیشن شائع ہواہے، کتاب کے طبع ہونے اور علمی حلقوں میں عام ہونے کے بعد عرب وعجم کے کبار اہل علم نے نوجوان مقالہ نگار کی اس کاوش کوبنظر تحسین دیکھا اور موٴلف کو بلندپایہ تعریفی کلمات سے نوازاہے،مقام شکر ہے کہ احناف کے اصول حدیث کے حوالے سے اسے اب مرجعیت کا مقام مل چکا ہے؛ چنانچہ موضوع سے متعلق بیشتر علمی وتحقیقی مقالات میں اس کے حوالے دیے گئے ہیں، بلاشبہ اگر جامعہ کے” شعبہ تخصص فی علوم الحدیث“ میں ہونے والے تحقیقی کام کی ایک عمدہ مثال ہے۔
جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کے اس شعبے نے علوم حدیث کے میدان میں پیش رفت کے سلسلے میں نمایاں کردار ادا کیا، معاشرے کوماہرین علوم حدیث کی ایک کھیپ فراہم کی،ملک وبیرون ملک کے کئی جامعات کے شعبہائے تخصص فی علوم الحدیث میں مصروف عمل بہتیرے اہل علم جامعہ کے اس شعبے سے ہی فیضیاب ہوکر مرجعیت کے مقام پر پہنچے، والحمد للّٰہ علی ذلک․
جامعہ فاروقیہ کراچی:
جامعہ فاروقیہ میں حضرت مولانا سلیم اللہ خان مدظلہ نے ۱۴۲۵ھ میں اس شعبہ کی بنیاد ڈالی،اورمولانا نور البشر نور الحق مدظلہ و مولانا ساجد صدوی حفظہ اللہ (متخصص فی علوم الحدیث جامعہ بنوری ٹاؤن) کی نگرانی میں ”تخصص فی علوم الحدیث“ کا شعبہ قائم کیا، اس شعبے میں لکھے گئے مقالات کی ایک فہرست سہماہی۲۰۱۰ء میں تحقیقات حدیث (۱۳)میں شائع ہوچکی ہے، اس کے بعد بھی کافی مقالے لکھے گئے ہیں، جن کی تفصیلات سردست سامنے نہیں، بلاشبہ جامعہ کے اس شعبے نے قلیل مدت میں نہایت قیمتی اور قابلِ قدر کام سامنے لائے ہیں، جن میں سے دو نمایاں مطبوعہ مقالات درج ذیل ہیں:
۱- ”غیر معتبر روایات کا فنی جائزہ“ از مولانا طارق امیر خان: محدثین کی متنوع خدمات میں سے ایک اہم خدمت موضوع روایات کو ذخیرئہ حدیث سے ممتاز کرنا ہے، اس موضوع پر بھی معتدبہ موادحدیثی کتب خانے کی زینت ہے، پیش نظر مقالہ اسی جدوجہد کا تسلسل ہے، جس میں پاک وہند میں زبان زد عوام وخواص اٹھائیس (۲۸)روایات کی تحقیق کی گئی ہے، ابتدا میں موضوع روایات وکتب موضوعات سے متعلق وقیع مقدمہ ہے، یہ مقالہ مولانا نور البشر مدظلہ کی زیرنگرانی لکھا گیا اور ”زمزم پبلشرز“ سے طبع ہوچکا ہے، موٴلف نے تخصص سے فراغت کے بعد بھی اس نوع پر کام جاری رکھا ،ان شاء اللہ جلد ہی اس سلسلے کی دوسری جلد منظر عام پر آرہی ہے۔
۲- ”الجزء فی فضائل القرآن“ از مولانا طارق امیر خان: یہ مقالہ بھی موٴلف نے جامعہ فاروقیہ میں تخصص کے دوران ترتیب دیا ہے،جس میں شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا رحمہ اللہ (۱۸۹۸-۱۹۸۳ء) کی ”فضائل قرآن“ کے حدیثی فوائد کے ضمن میں ٓنے والی روایات کی تخریج وتحقیق کی گئی ہے، اوراب یہ کام کتابی صورت میں ”زمزم پبلشرز“ سے چھپ چکا ہے۔
دیگرمقالات میں سے چنداہم عنوانات ملاحظہ فرمائیں:
۱-”تحقیق ودراسة کتاب”إمعان النظر في توضیح شرح نخبة الفکر“ للعلامة محمد اکرام السندي النصربوري“ مولوی کفایت اللہ محمد زکریا۔
۲- ”تحقیق ودراسة کتاب ”بھجة النظر شرح شرح نخبة الفکر“ لابی الحسن الصغیر السندي“ مولوی محمد کاشف بن محمد یونس۔
۳- ”الامام ابن ھمام وآراوٴہ الأصولیہ في ”فتح القدیر“ مولوی حسین احد۔
۴- ”الحدیث الضعیف ومدی الاستدلال بہ في الفضائل والأحکام“ مولوی محمد عمران ۔
جامعہ بنوریہ کراچی:
جامعہ بنوریہ میں یہ شعبہ قائم ہوئے کچھ عرصہ گذرا ہے، اور مولانا آصف اخترحفظہ اللہ اس کے نگراں ہیں، مولانا بھی استاذ محترم مولانا چشتی مدظلہ کے فیض یافتہ ہیں۔
جامعہ اشرف المدارس کراچی:
جامعہ اشرف المدارس میں قائم شعبہ ”تخصص فی علوم الحدیث“ مولانا مفیض الرحمن چاٹگامی کے اشراف میں قائم ہے، مولاناچاٹگامی جامعہ بنوری ٹاؤن کے متخصص اور کئی کتب کے موٴلف ہیں۔
معہدعثمان بن عفان کراچی:
مولانا نور البشر نور الحق مدظلہ(استاذ جامعہ فاروقیہ کراچی) کے اس ادارے میں ”تخصص فی الفقہ والحدیث“ کا دوسالہ منفرد کورس چند سال سے جاری ہے، جس میں اصول افتاء وعلوم حدیث کی منتخب کتب کی تدریس ومطالعہ کے ساتھ افتا وتخریج کی تمرین بھی کرائی جاتی ہے، مولانا مدظلہ تحقیقی مزاج ومذاق رکھنے والے پختہ عالم ومدرس اورتحقیق وتخریج کے میدان میں طویل تجربہ رکھتے ہیں؛ اس لیے مختصر دورانیے میں دونوں مہارتیں حاصل کرنے کے خواہش مند ذی استعداد طلبہ اس ادارے سے منسلک ہوکر فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔
مجلس البحوث الاسلامیة راولپنڈی:
مسجد الہلال اصغر مال اسکیم میں استاذ محترم مولانا محمد عبدالحلیم چشتی مدظلہ کی سرپرستی اور جامعہ بنوری ٹاؤن کے متخصصین مولانا محمد عاصم انعام ،مولانا ایوب رشیدی اور مولانا وصی اللہ حفظہم اللہ ودیگر علماء کی نگرانی میں مجلس البحوث الاسلامیة اور اس کے ذیلی شعبے ”تخصص فی علوم الحدیث والسنة“کو قائم ہوئے کچھ عرصہ گذرا ہے، اس دوران یہاں دیگر مقالات کے علاوہ ایک نمایاں کام شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا رحمہ اللہ کی شہرہ آفاق کتاب”فضائل اعمال“ کی تخریج کا ہوا، جو اب چھپ کر عام ہوچکا ہے۔
دارالعلوم دیوبند:
برصغیر کی عظیم دینی درس گاہ، دارالعلوم دیوبند میں یہ شعبہ۱۴۲۰ھ میں قائم ہوا اور مولانا نعمت اللہ اعظمی مدظلہ(۱۹۳۲-۲۰۱۳ء) اس کے نگران مقرر ہوئے، بعدازاں مولانا عبداللہ معروفی حفظہ اللہ بھی بحیثیت معاون اس شعبے سے منسلک ہوئے، اس شعبے کے شائع شدہ چند اہم تحقیقی مقالات درج ذیل ہیں:
۱-”الحدیث الحسن في جامع الترمذي“، ۲- ”الحدیث الحسن الصحیح“، ۳- ”الحدیث الحسن الغریب“،۴- ”الحدیث الغریب“: یہ مقالہ مولانا نعمت اللہ ا عظمی مدظلہ اور مولانا عبداللہ معروفی مدظلہ کی نگرانی میں شعبے کے پانچ طلبہ نے لکھا ہے، جس میں”جامع الترمذي“ کی ان احادیث کی تحقیق کی گئی ہے، جن کو امام ترمذی رحمہ اللہ (۲۷۹ھ) نے ”حسن“ لکھاہے، ابتدا میں انہی روایات پر کام ہوا، بعد ازاں امام موصوف کی دیگر اصطلاحات پر بھی تحقیقی کام ہوا، ہر جلد کی ضخامت چھے سو صفحات سے زائد ہے، یہ مکمل کام اسی شعبے میں ہوا۔
۵-”حقیقة الزیادة علی القرآن بخبر الواحدواستعراض علمی لإیرادات ابن القیم علی الحنفیة بناء علی ھذا الأصل“:مقالے کے عنوان سے اس کے موضوع کی وضاحت ہوجاتی ہے، یہ کام حضرت مولانا نعمت اللہ اعظمی مدظلہ کے اشراف میں تین طلبہ نے کیا اورمولانا عبداللہ معروفی حفظہ اللہ نے ترمیم وتہذیب فرمائی ، ”المکتبة العثمانیة“ دیوبند سے چھپ چکا ہے۔(۱۴)
مظاہر العلوم سہارن پور:
جامعہ کی مجلسِ شوری کی تجویز سے سنہ۱۴۱۵ھ میں اس شعبے کا قیام عمل میں آیا، اور حضرت مولانا زین العابدین اعظمی رحمہ اللہ(۱۳۵۱-۱۴۳۴ھ) نگران مقرر ہوئے، دوسرے ہی سال طلبہ کی تعداد میں اضافہ کی بنا ان کی معاونت کے لیے مولانا عبداللہ معروفی حفظہ اللہ کا تقرر کی گیا، ۱۴۲۱ھ میں شائع شدہ شعبے کی پانچ سالہ کارکردگی کی روداد کے مطابق اس قلیل مدت کے دوران شعبے میں انجام پانے والے نمایاں تحقیقی کام درج ذیل ہیں:
۱- ”الموٴتلف والمختلف فی أسماء نقلة الحدیث“ اور”مشتبہ النسبة“ کی تحقیق وتعلیق، یہ دونوں اہم کام تخصص کے طلباء کے ہاتھوں تکمیل کو پہنچے۔
۲- علامہ محمد بن محمد بن سلیمان مغربی رحمہ اللہ کی شہرہ آفاق کتاب ”جمع الفوائد من جامع الأصول ومجمع الزوائد“ کی تحقیق ، یہ کام بھی مولانا زین العابدین اعظمی رحمہ اللہ کی نگرانی میں شعبے کے متخصصین کے ذریعے انجام پایا ہے۔
ان دو اہم علمی کاوشوں کے علاوہ بھی دسیوں مقالات لکھے گئے ہیں، جن میں سے بعض زیورِ طبع سے آراستہ ہوچکے ہیں، سردست تفصیلات دستیاب نہ ہونے کی بنا پر ان کا تعارف پیش نہیں جاسکتا۔(۱۵)
مرکز الدعوة الاسلامیةڈھاکہ بنگلہ دیش:
یہ ادارہ بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں قائم ہے، جس کے شعبہ ”تخصص فی علوم الحدیث“ کے نگراں مفتی عبدالمالک (متخصص جامعہ بنوری ٹاؤن) ہیں، مولانا حدیث وفقہ کے پختہ ومحقق عالم ہیں،جامعہ بنوری ٹاؤن میں تخصص کے بعد جامعہ دارالعلوم کراچی میں”تخصص فی الافتاء“ کیا،بعد ازاں اپنے استاذ مولانا محمد عبدالرشید نعمانی رحمہ اللہ کے ایما پر عالم عرب کے محقق ومحدث شیخ عبدالفتاح ابوغدہ رحمہ اللہ(۱۴۱۷ھ) کی خدمت میں بھی کافی عرصہ رہے ، یوں مولانا نے عرب وعجم کے جہابذہ سے خوب استفادہ کیا، علوم حدیث کے مبتدئین کے لیے انھوں نے ”المدخل إلی علوم الحدیث الشریف“ کے نام سے ایک مفید کتاب ترتیب دی ہے، اور عرصہ سے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی ”نزہة النظر شرح نخبہ الفکر“ کی شرح وتعلیق میں مشغول ہیں، بنگلہ دیش میں مولانا جیسی محدثانہ مزاج کی حامل شخصیت کا وجود نعمت سے کم نہیں۔
یہاں علوم حدیث میں اختصاص سے متعلق چند شعبوں کا ذکر کیا گیاہے، جن کے بارے میں کسی قدر معلومات مہیا ہوسکی ہیں، استیعاب ممکن تھا نہ مقصود، بلاشبہ ان کے علاوہ بھی اندرون وبیرون ملک کئی اداروں میں ”تخصص فی علوم الحدیث“ کے شعبے قائم ہیں، جن سے حسب مناسبت فضلائے کرام استفادہ کرسکتے ہیں۔
متخصصین سے ایک گزارش:
اس مقام کی مناسبت سے ”متخصصین فی علوم الحدیث“ سے خصوصاً اور دیگر اہل اختصاص کی خدمت میں عموما ایک برادرانہ وخیرخواہانہ گزارش پیش کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے، وہ یہ کہ کسی بھی علم وفن کے ساتھ مناسبت کی بقا کے لیے اس کا دائمی ومربوط مطالعہ ضروری ہوتا ہے، اختصاصی مہارت حاصل کرلینے کے باوجود ربط وتسلسل نہ رہنے کی بنا پر برسوں کی محنت ہواہوجاتی ہے، اس رویے سے بعض اوقات جزئیات تو درکنار ، فن کے بنیادی اصول وکلیات بھی ذہن سے اوجھل ہوجاتے ہیں اور عمومی مشاہدے کی رو سے بھی یہ عین فطری معاملہ ہے، امام فن جرح وتعدیل و محدث جلیل القدرامام عبدالرحمن مہدی رحمہ اللہ(۱۹۸ھ) کامقولہ ہے:
”انما مثل صاحب الحدیث بمنزلة السمسار، اذا غاب عن السوق خمسة أیام تغیر بصرہ“․(۱۶)
”حدیث کا طالب علم دلال کی مانندہے، چند روز بھی مارکیٹ سے دور رہے تو فنی بصیرت (اور پیشہ ورانہ مہارت) میں فرق آجاتا ہے“۔
چند روز کی غیبوبت سے اتنا تغیر آجاتا ہے تو فنی مطالعہ کے بالکلیہ ترک کی صورت میں اختصاصی استعداد کا کیا حشر ہوگا؟!ایسے میں مسلسل مطالعہ وتحقیق کے عمل سے جڑے بغیرخودکو متخصص باور کراتے رہنا خام خیالی ہی کہی جاسکتی ہے، یوں ہم عوام کو تو مطمئن کرسکتے ہیں؛ لیکن ضمیر کی عدالت میں جواب دہی سے عاجز رہیں گے،امام احمدبن حنبل شیبانی رحمہ اللہ (۲۴۱ھ) سے ایک موقع پر دریافت کیا گیا: حدیث کی طلب کب تک جاری رکھنی چاہیئے؟ فرمایا: ”موت تک“۔(۱۷)گویا حقیقی متخصص وہی ہے جو تحقیق ومطالعہ کے سفر میں کسی مقام پر قناعت کے بجائے فن کے ساتھ دائمی ربط قائم رکھے ۔
$$$
مآخذ ومراجع:
(۱) عجالة المبتدي وفضالة المنتھي في النسب، ص:۳، المطبعة الأمیریة بالقاھرة امام ابن صلاح رحمہ اللہ نے ”مقدمہ“ میں پینسٹھ (۶۵) انواع ذکر کی ہیں؛جبکہ علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے دیگر کتب سے جمع کرکے اپنے اضافات کے ساتھ ”تدریب الراوي“ میں چورانوے (۹۴) انواع ذکرکی ہیں۔
(۲) سنن الترمذي، أبواب المناقب، باب مناقب معاذ بن جبل، ۲ : ۶۹۹، رحمانیہ۔
(۳) مراتب العلوم لابن حزم ضمن مجموع رسالاتہ،۴:۷۷، ۷۸۔
(۴) جامع بیان العلم وفضلہ لابن عبدالبر ،باب اثبات المناظرة والمجادلة واقامة الحجة، ص: ۳۳۵، رقم: ۹۴۳، دارابن حزم ۱۴۲۷ھ۔ ۲۰۰۶ء۔
(۵) الفتاوی الحدیثیة، ص: ۳۲۸، قدیمی کتب خانہ کراچی۔
(۶) التعلیقات الحافلة علی الأجوبة الفاضلة، ص:۳۱، مکتب المطبوعات الاسلامیة حلب سوریا، ۱۴۳۶ھ۔ ۲۰۰۵ء․
(۷) صحیح البخاری، کتاب الصوم، باب من أقسم علی اخیہ لیفطر فی التطوع، ۱: ۲۶۴، قدیمی۔
(۸) تخصص حدیث شریف، تعارف ، اصول وضوابط، ص:۲۷، جامعہ مظاہر علوم سہارن پور، انڈیا۔
(۹) ایضا، ص: ۲۵۔
(۱۰) ایضا، ص:۲۳۔
(۱۱) تحقیقات حدیث، شمارہ : ۲، بابت محرم الحرام ۱۴۳۱ھ بمطابق جنوری ۲۰۱۰ء ۔
(۱۲) ششماہی السیرة شمارہ ۶و۷ رمضان ۱۴۲۲ھ اور ربیع الاول ۱۴۲۳ھ۔
(۱۳) تحقیقات حدیث، شمارہ:۱ بابت رمضان المبارک ۱۴۲۹ھ ستمبر ۲۰۰۸ء۔
(۱۴) یہ مقالات اب تک ہمارے ملک میں عام نہیں، ہوئے، دارالعلوم دیوبند کے شعبہ ”تخصص فی علوم الحدیث“اور مذکورہ مقالات کے متعلق یہ معلومات مولانا عبید انور بن مولانا نسیم اختر شاہ قیصر(متخصص فی علوم الحدیث دارالعلوم دیوبند) نے عنایت فرمائیں، فجزاہ اللہ خیراً۔
(۱۵) مذکورہ معلومات رسالہ”تخصص حدیث شریف، تعارف ، اصول وضوابط، مطبوعہ : مظاہر علوم سہارن پور،“سے حاصل کی گئی ہیں۔
(۱۶) الجامع لاخلاق الراوي وآداب السامع للخطیب، باب دوام المراعاة للحدیث والمذاکرة بہ واتقاء الفتورعنہ، ص:۴۱۳، رقم: ۱۹۰۹، دارالکتب العلمیة بیروت لبنان ۱۴۱۷ھ۔۱۹۹۶ء۔
(۱۶) شرف أصحاب الحدیث للخطیب،۲: ۱۲۸، رقم: ۱۳۵،مکتبة ابن تیمیة القاہرة۔