چاند رات (لیلة الجائزہ) کی اہمیت وفضیلت
بسم اللہ الرحمن الرحیم
چاند رات (لیلة الجائزہ) کی اہمیت وفضیلت
رحمتوں ، برکتوں اور بخششوں والا مہینہ رمضان المُبارک کے اختتام پر آنے والی شب ، یعنی : عید الفطر کی رات ؛ جسے ہم چاند رات کہہ کر پکارتے ہیں، ایک بابرکت رات ہے ، چاند رات ؛ دراصل انعام والی، اور اجرت والی رات ہے ، پورے مہینے کی محنتوں کا بدلہ اسی رات میں ملتا ہے، یہ رات خصوصی برکتوں، رحمتوں،بخشش و مغفرت اور نہایت فضیلت والی رات ہے۔ اس رات میں اللہ تعالی اس ماہ مبارک کی تمام راتوں سے زیادہ سخی اور فیاض ہوکر اپنے بندوں کی مغفرت فرماتے ہیں۔
جناب رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: اللہ تعالی رمضان میں روزانہ افطارکے وقت ایسے دس لاکھ آدمیوں کو جہنم سے نجات عطا فرماتے ہیں ، جو جہنم کے مستحق ہوچکے تھے اورجب رمضان کاآخری دن ہوتا ہے تو یکم رمضان سے اس آخری دن تک جتنے لوگ جہنم سے آزاد ہوئے تھے ان سب کے برابراس آخری دن میں آزاد فرماتے ہیں۔ (صحیح ابن حبان)
احادیث مبارکہ کی روشنی میں آسمانوں میں اس رات کو ”لیلة الجائزہ“ ، یعنی: انعام والی رات، اور عید کے دن کو ”یوم الجائزہ“ ، یعنی: انعام والا دن، کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ یہ نام اِس لیے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس رات میں بندوں کو پورے رمضان کی مشقتوں اور قربانیوں کا بہترین صلہ عطا کیا جاتا ہے۔ (شعب الایمان )
حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺنے اِرشاد فرمایا: جس نے عیدین (عید الفطر اور عید الاضحی) کی دونوں راتوں میں اللہ تعالیٰ سے ا جر وثواب کی امید رکھتے ہوئے عبادت میں قیام کیا اُس کا دل اُس دن مردہ نہیں ہوگا ، جس دن سب کے دل مُردہ ہوجائیں گے۔ (الترغیب والترہیب )
مطلب یہ ہے کہ آدمی اِن راتوں کو عبادت ِ الٰہی میں مصروف رکھے، نماز ، تلاوت اَور ذکر ودُعا میں مشغول رہے۔ اِن راتوں میں عبادت کرنے والے کا دِل نہ مرے گا، اِس کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے خوف ناک، ہولناک اَور دہشت ناک دِن میں جب کہ ہرطرف خوف و ہراس، گھبراہٹ اَور دہشت پھیلی ہوئی ہوگی ، لوگ بدحواس ہوں گے ، اُس دِن میں حق جل شانہ اِس کو نعمت والی اَور سعادت والی زندگی سے سر فراز فرمائیں گے۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ سے نقل فرماتے ہیں : جو چار راتوں کو عبادت کے ذریعہ زندہ کرے اُس کے لیے جنّت واجب ہوجاتی ہے: لیلة الترویة، (یعنی: آٹھ ذی الحجہ کی رات، )عرفہ، (یعنی: نو ذی الحجہ کی رات،)لیلة النحر، (یعنی: عید الاضحی کی رات، )لیلة الفطر، (یعنی: عید الفطر کی شب)۔
الترغیب و الترھیب کی ایک روایت میں پانچ راتیں ذکر کی گئی ہیں ، جن میں سے چار تو وہی جو ابھی اوپر والی حدیث میں ذکر ہوئی ہیں اور پانچویں ؛ شعبان کی پندرہویں شب ، یعنی : شبِ براء ت ہے۔ (الترغیب و الترھیب)
مذکورہ حدیث میں اِن پانچ راتوں کی ایک خاص فضیلت یہ بیان فرمائی ہے کہ جو شخص اِن پانچ راتوں میں جاگ کر ذکرِ الٰہی اَور عبادت میں لگا رہے گا اللہ تعالیٰ اُس پر اپنا خاص اِنعام یہ نازل فرمائیں گے کہ اُسے جنت کی دو لت سے مالا مال فرمائیں گے۔ پورے سال میں اِن پانچ راتوں میں حسب وسعت بیدار رہ کر عبادت کرنا کوئی مشکل اَور دُشوار کام نہیں ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے موقوفاً مروی ہے کہ پانچ راتیں ایسی ہیں جن میں دعاء کو ردّ نہیں کیا جاتا:جمعہ کی شب ، رجب کی پہلی شب ، شعبان کی پندرہویں شب ، اور دونوں عیدوں(یعنی عید الفطر اور عید الاضحیٰ)کی راتیں۔ (مصنف عبد الرزاق)
عیدین کی راتوں کی فضیلت کے بارے میں وارد ہونے والی کئی روایات سند کے اعتبار سے اگرچہ کچھ کمزور ہیں، لیکن ایک تو فضائل کے معاملہ میں ضعیف روایات قابلِ قبول ہوتی ہیں(بشرطیکہ ضعف شدید نہ ہو)دوسرے ان روایات کے مختلف سندوں کے ساتھ مروی ہونے کی وجہ سے ضعف کسی درجہ میں دور بھی ہو جاتا ہے ، لہذا اس موقعہ پر روایات کی سندوں کے ضعف کو بنیاد بنا کر عیدین کی راتوں کی فضیلت کا یکسر انکار کر دینا جمہور کے موٴقف کے خلاف ہے۔
مذکورہ بالا احادیث مبارکہ سے اس رات کی فضیلت ومنقبت پوری طرح کھل کے سامنے آ چکی ہے، لیکن مشاہدہ یہ ہے کہ ہم جانے انجانے میں اس مبارک رات سے غافل رہتے ہیں، اس رات کے فوائد حاصل کرنے کی کوششیں بالکل نہ ہونے کے برابر نظر آتی ہے، حالانکہ یہ وقت تو پورے مہینے کی عبادات کا بدل وصول کرنے کا تھا، تھوڑا سا سوچنے کی ضرورت ہے کہ کوئی مزدور ، کوئی ملازم، کوئی محنت کرنے والا کام تو کرے، اور خوب محنت سے کرے، لیکن جب اجرت وصول کرنے کا وقت آئے تو وہ اجرت وصول ہی نہ کرے، تو کیا اسے عقلمند کہا جائے گا؟؟!!
روزے ختم ہوتے ہی ہم سب دنیاداری خرافات میں الجھے ہوئے نظر آتے ہیں۔ خواتین بازاروں میں شاپنگ کی خاطر چکر کاٹ رہی ہوتی ہیں، ایک طرف بیوٹی پالرز ساری ساری رات آباد رہتے ہیں، تو دوسری طرف وہ مرد جو پورا مہینہ رمضان المبارک کے احترام میں داڑھی نہیں کٹواتے تھے، اب حجام کے پاس رات گئے تک اپنی باری کے انتظار میں بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں۔ گھروں میں مستورات صبح کی تیاریوں، عید کے میٹھے میٹھے پکوان تیار کرنے میں ہی ساری ساری رات صرف کر دیتی ہیں ۔ اور مرد حضرات اپنی رات کو تفریح، ہوٹلوں اور بازاروں ( جہاں بیسیوں گناہوں میں مبتلا ہونا پڑتا ہے)میں خریداریوں کی نذر کر دیتے ہیں ، یا لمبی تان کے سوجاتے ہیں، جس کی بنا پر ان کی نماز فجر تک خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ دیکھنے میں آتا ہے عید الفطر کے دن نماز فجر کی رونق ہی ختم ہو جاتی ہیں۔ اور تو اور ؛ ہمارے اعتکاف میں بیٹھنے والے بھائی بھی چاند نظر آتے ہی ایسے غائب ہو جاتے ہیں کہ صبح نماز فجر میں ہی یا عید الفطر کی نماز میں نظر پڑتے ہیں۔
عظمت و فضیلت والی یہ رات اللہ تعالی کی طرف سے امت محمدیہ کے لیے ایک خصوصی تحفہ ہے ، اس سے بے اعتنائی اور اس کے بابرکت لمحات کو خرافات ومنکرات میں ضائع کرنا، اللہ تعالیٰ کی اس نعمت اور عطا کی بڑی بے قدری ہے، اس سے بچنے اور اس رات کو قیمتی بنانے کی فکر ہم سب کے لیے از حد ضروری ہے۔ اس رات میں اپنے کریم رب کو راضی کرنا ہے، اپنی محنت پر اپنی اجرت وصول کرنی ہے۔
اس کے لیے دو کام کرنے ہیں؛ ایک تو اس رات کو فضولیات ومنکرات سے پاک رکھنا ہے۔ دوسرا جتنا ممکن ہو اپنے آپ کو اس رات میں بھی عبادت میں مشغول رکھنا ہے۔ اس رات میں شب بیداری وعبادت کے لیے شریعت کی طرف سے کوئی خاص طریقہ اور کوئی خاص عبادت مقرر نہیں ہے، بلکہ اپنی طبیعت کے مطابق جو شخص جتنی بھی اور جو بھی عبادت، جہاں بھی یعنی: گھر میں یا مسجد میں جس طرح بھی آسانی سے ہوسکے ، کر لے۔ نوافل پڑھے جائیں، قرآن مجید کی تلاوت، اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں ، بالخصوص اپنی اور امت مسلمہ کی مغفرت کی دعائیں کی جائیں، رمضان المبارک کی عبادات میں جو کمیاں رہ گئیں ان پر استغفار کیا جائے۔
اور کوشش کی جائے کہ عشاء کی نماز اور صبح فجر کی نماز تو جماعت سے ہی ادا ہو، اِتنا کر لینے سے بھی اِس رات کی فضیلت اَور ثواب سے محرومی نہ ہوگی، اور ہماری یہ رات عبادت میں شمار ہو گی، بشرطیکہ گناہوں اور خرافات سے بچے رہے تو۔
خلاصہ یہ کہ اگر اِس مبارک رات کو بھی قیمتی بنانا ہے، اور اگر خدا نخواستہ کسی نیک کام کی توفیق نہ ملے تو کم اَزکم یہ کوشش تو ضرور ہی کر نی ہے کہ گناہ میں تو مبتلاء ہو کر اللہ تعالیٰ کے مجرم نہ بنیں۔