استخارے کی دعا اور طریقہ

حضور اکرم ﷺ  نے اپنی امت کو زندگی گذارنے کا بہترین طریقہ یہ سکھایا کہ ہر آن ہر گھڑی اپنے آپ کو اللہ تعالٰی کی ذات کے ساتھ جوڑے رکھو اور ہر معاملے کو اللہ تعالی کے سپرد کرنا سکھایا،  اسی لئے آپ علیہ السلام ہر معاملے میں استخارے کا حکم فرماتے اور صحابہ کو باقاعدہ سکھاتے تھے،  جیسا کہ بخاری کی روایت میں ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضوراکرم ﷺ ہمیں ہر کام میں استخارہ اتنے اہتمام سے سکھاتے جیسے قرآن کی کوئی سورت سکھاتے تھے.

عن جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَلِّمُنَا الِاسْتِخَارَةَ فِي الْأُمُورِ كَمَا يُعَلِّمُنَا السُّورَةَ مِنَ الْقُرْآنِ يَقُولُ: إِذَا هَمَّ أَحَدُكُمْ بِالْأَمْرِ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ مِنْ غَيْرِ الْفَرِيضَةِ ثُمَّ لْيَقُلْ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَخِيرُكَ بِعِلْمِكَ وَأَسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ وَأَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ الْعَظِيمِ فَإِنَّك تَقْدِرُ وَلَا أقدر وَتعلم وَلَا أَعْلَمُ وَأنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ، اللَّهُمَّ إِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ خَيْرٌ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي (أو قال فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ) فَاقْدُرْهُ لِي وَيَسِّرْهُ لِي ثُمَّ بَارِكْ لِي فِيهِ، وَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ شَرٌّ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي (أَوْ قَالَ فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ) فَاصْرِفْهُ عَنِّي وَاصْرِفْنِي عَنْهُ وَاقْدُرْ لِيَ الْخَيْرَ حَيْثُ كَانَ ثُمَّ أَرْضِنِي بِهِ”.

قَالَ: «ويسمي حَاجته».

  • دو رکعت نماز پڑھی جائے اور پھر اس دعا کو مانگا جائے جو دعا لکھی گئی ہے.

بغیر نماز کے استخارہ کرنے کا حکم:

اگر نماز پڑھنے کا وقت میسر نہیں یا مختصر دعا پڑھنے کی طبیعت ہے تو روایات میں مختصر دعا بھی سکھائی گئی ہے جیسا کہ ترمذی شریف کی روایت ہے:

  • “اَللّهُمَّ خِرْلِی وَاخْتَرْلِی”

فتح الباری میں ابن ابی جمرہ کا قول منقول ہے کہ دعا سے پہلے نماز کا مقصد بادشاہ کے دروازے کو کھٹکھٹانا ہے کیونکہ اس میں اعلی درجے کی عاجزی ہے لیکن اگر (کسی وجہ سے اس وقت) نماز کا پڑھنا ممکن نہ ہو تو بغیر نماز کے بھی خیر کی دعا مانگی جاسکتی ہے.

قال ابن أبي جمرة (كما في “فتح الباري” (11/186): الحكمة في تقديم الصلاة على الدعاء أن المراد بالاستخارة حصول الجمع بين خيري الدنيا والآخرة، فيحتاج إلى قرع باب الملك، ولا شيء لذلك أنجع ولا أنجح من الصلاة، لما فيها من تعظيم الله، والثناء عليه؟ والافتقار إليه مآلا وحالا.

والاستخارة التي علمنا إياها الرسول صلى الله عليه وسلم تكون بصلاة ركعتين ثم الدعاء بعدها.

وإذا تعذر على المسلم الصلاة، لسبب من الأسباب فلا حرج عليه من دعاء الله تعالى أن ييسر له خير الأمرين من غير صلاة۔

امام نووی فرماتے ہیں کہ اگر (کسی وجہ سے اس وقت) نماز کا پڑھنا ممکن نہ ہو تو صرف دعا سے بھی استخارہ کیا جاسکتا ہے.

قال النووي رحمه الله في “الأذكار” (ص/120): “ولو تعذرت عليه الصلاة استخار بالدعاء”.

وقد نقل كلام النووي هذا جماعة من علماء المذاهب، مقرين ومستشهدين به.

انظر: “حاشية رد المحتار” (2/27)،

“الفواكه الدواني” (1/35)،

“شرح مختصر خليل للخرشي” (1/37)،

“أسنى المطالب” (1/205).

استخارے کے مختلف طریقے:

موجودہ دور میں جہاں نت نئے ایجادات ہوئے وہیں پر دینی معاملات میں بھی نت نئے طریقے شروع کئے گئے ہیں اور میرا ذاتی تجربہ ہے کہ استخارے کے نام کو بہت زیادہ استعمال کیا گیا، کہیں آن لائن استخارے تو کہیں پر استخارے کیلئے پرچیاں ڈلوائی گئیں اور کہیں پر زائچے نکلوا کر استخارے کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی.

☆ اس میں واضح بات یہ ہے کہ استخارہ خود کرنے کا عمل ہے، پورے دور صحابہ میں کسی سے استخارہ کروانے کا واقعہ نہیں ملتا اور نہ خواب کے نظر آنے کو لازم قرار دیا گیا، بلکہ اللہ سے خیر کو طلب کرکے دل کے اطمینان کو بنیاد بنایا گیا اور اگر دل مطمئن نہیں ہورہا یا بات سمجھ نہیں آرہی تو مشورے کا حکم قرآن مجید میں دیا گیا ہے.

کسی اور سے استخارہ کروانے کا حکم:

کسی اور سے استخارہ کروانے کے متعلق علمائےکرام کے مختلف اقوال ہیں:

١.  بعض حضرات نے اس کا انکار کیا ہے اور اسکی وجہ یہ بیان کی ہے کہ خیر القرون میں اس عمل کا ثبوت موجود نہیں.

٢.  بعض علماء فرماتے ہیں کہ یہ نماز ہے اور نماز میں نیابت نہیں ہوتی.

جیسے ابن عبدالبر سے منقول ہے کہ اس بات پر پوری امت کا اجماع ہے کہ نماز چاہے فرض ہو يا نفل،  زندہ یا مردہ کسی کی طرف سے بھی اس میں نیابت درست نہیں.

قال ابن عبدالبر رحمه الله: أما الصلاة فإجماع من العلماء أنه لا يُصلِّي أحدٌ عن أحدٍ فَرْضاً عليه من الصلاة، ولا سُنة، ولا تطوعا لا عن حي ولا عن ميت، وكذلك الصيام عن الحي، لا يجزئ صوم أحدٌ في حياته عن أحد، وهذا كله إجماع لا خلاف فيه.

جبکہ بعض علمائےکرام نے استخارے میں نیابت کو درست قرار دیا ہے اور انہوں نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ اسکے بارے میں کوئی ثبوت تو موجود نہیں لیکن انہوں نے ایک  روایت سے استدلال کیا ہے کہ “اگر تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کو نفع پہنچا سکتا ہے تو پہنچادے”.

وقد رأى بعض العلماء صحة النيابة في الاستخارة، ففي حاشية العدوي المالكي على شرح الخرشي لخليل:

تنبيه: كان بعض المشايخ يستخير للغير، وقال بعض الفضلاء: يؤخذ من قوله صلى الله عليه وسلم: “من استطاع منكم أن ينفع أخاه فلينفعه”. أن الإنسان يستخير لغيره، والحديث في الجامع الصغير، وفي الاستدلال بما ذكر شيء كما في بعض الشراح.

وقال سليمان الجمل الشافعي في فتوحات الوهاب:

تنبيه: ظاهر الحديث (أي الوارد في تعليم الاستخارة) أن الإنسان لا يستخير لغيره، وجعله الشيخ محمد الحطاب المالكي محل نظر، فقال: هل ورد أن الإنسان يستخير لغيره؟ لم أقف في ذلك على شيء، ورأيت بعض المشايخ يفعله.

قلت: قال بعض الفضلاء: ربما يؤخذ من قوله عليه السلام: “من استطاع منكم أن ينفع أخاه فلينفعه” أن الإنسان يستخير لغيره.

موسوعہ الفقہیہ الکویتیہ میں کسی اور کی طرف سے استخارہ کرنے کے باب میں لکھا ہے کہ مالکیہ اور شوافع اس کے جواز کے قائل ہیں جبکہ حنفیہ اور حنابلہ اس باب میں خاموش ہیں.

جاء في الموسوعة الفقهية الكويتية (ج:3، ص:246):

النِّيَابَةُ فِي الاِسْتِخَارَةِ: الاِسْتِخَارَةُ لِلْغَيْرِ قَال بِجَوَازِهَا الْمَالِكِيَّةُ، وَالشَّافِعِيَّةُ أَخْذًا مِنْ قَوْلِهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ أَنْ يَنْفَعَ أَخَاهُ فَلْيَنْفَعْهُ.

وَجَعَلَهُ الْحَطَّابُ مِنَ الْمَالِكِيَّةِ مَحَل نَظَرٍ. فَقَال: هَل وَرَدَ أَنَّ الإِْنْسَانَ يَسْتَخِيرُ لِغَيْرِهِ؟ لَمْ أَقِفْ فِي ذَلِكَ عَلَى شَيْءٍ، وَرَأَيْتُ بَعْضَ الْمَشَايِخِ يَفْعَلُهُ. وَلَمْ يَتَعَرَّضْ لِذَلِكَ الْحَنَابِلَةُ والحنفية.

ایک روایت کی تحقیق:

استخارے کے متعلق ایک مشہور روایت زبان عام پر جاری ہے:

  • “ما خاب من استخار ولا ندم من استشار”

اس روایت کے متعلق عرض ہے کہ یہ روایت سند کے لحاظ سے انتہائی ضعیف ناقابل بیان ہے،  اور اسکے ضعف کی وجہ اس میں موجود راوی عبدالسلام اور عبدالقدوس ہیں،  انکے بارے میں سب سے محتاط قول علامہ ھیثمی کا ہے کہ  “کلاھما ضعیفان جدا”. یہ روایت “معجم طبرانی” میں ہے.

عبدالقدوس بن حبیب  کے بارے میں محدثین کے اقوال:

ابوحاتم: متروك الحدیث، کان لا یصدق.

البخاری: ترکوہ، منکر الحدیث.

ابن حبان: کان یضع الحدیث علی الثقات، لا یحل کتابة حدیثیه ولا الروایة عنه.

النسائی: متروك.

مسلم: ذاهب الحدیث.

الهيثمی: رواہ الطبرانی فی الأوسط والصغیر من طریق عبدالسلام بن عبدالقدوس وكلاهما ضعیفان جدا.

خلاصہ کلام

استخارہ ایک بہت عظیم عمل ہے اور ہر مسلمان کو اس کی عادت بنانی چاہیئے کہ زندگی کے ہر چھوٹے بڑے معاملے میں اپنے رب سے خیر کو طلب کیا جائے لیکن یہ عمل خود کرتے رہنا چاہیئے،  اگر کبھی کبار کوئی اہم کام ہو اور کچھ سمجھ نہ آرہا ہو تو کسی قریبی دیندار سمجھدار شخص سے استخارہ کروانے میں حرج نہیں،  لیکن نہ تو اس کو عادت بنایا جائے اور نہ دھندا بنانے والوں کے ہاتھوں کھلونا بننا چاہیئے۔

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ

مفتی عبد الباقی اخوانزادہ صاحب

مہتمم جامعہ اسلامیہ رضیہ للبنات سائیٹ کراچی
مفتی عبدالباقی اخونزادہ مدظلہ نے 1994 میں جامعہ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاون کراچی سے درسِ نظامی کی تعلیم مکمل کی۔
جس کے بعد 1995-1996 میں اسی ادارے سے تخصص فی الفقہ کیا۔
بعد ازاں2001-2004 تک جامعہ دارلعلوم کراچی سے تمرینِ افتاء کیا اور وفاقی اردو یونیورسٹی سے تاریخِ اسلام میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔
اس وقت مفتی صاحب جامعہ اسلامیہ رضیہ للبنات سائیٹ کراچی میں مہتمم کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

کل مواد : 12
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2024

تبصرے

يجب أن تكون عضوا لدينا لتتمكن من التعليق

إنشاء حساب

يستغرق التسجيل بضع ثوان فقط

سجل حسابا جديدا

تسجيل الدخول

تملك حسابا مسجّلا بالفعل؟

سجل دخولك الآن
ویب سائٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اس سائٹ کے مضامین تجارتی مقاصد کے لئے نقل کرنا یا چھاپنا ممنوع ہے، البتہ غیر تجارتی مقاصد کے لیئے ویب سائٹ کا حوالہ دے کر نشر کرنے کی اجازت ہے.
ویب سائٹ میں شامل مواد کے حقوق Creative Commons license CC-BY-NC کے تحت محفوظ ہیں
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2024