اپنے بچے کو اللہ کے حوالے کرنا
سوال:
ایک قصہ مشہور ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے سامنے سے ایک شخص گذرا جس نے بچے کو کندھے پر بٹھایا ہوا تھا تو حضرت عمر ان دونوں کی مشابہت دیکھ کر متعجب ہوئے، اس شخص نے عرض کیا کہ حضرت اس بچے کی ولادت کا قصہ بڑا عجیب ہے. جب یہ ماں کے پیٹ میں تھا اور مجھے جہاد میں جانا تھا تو میں نے اللہ تعالٰی سے کہا کہ اے اللہ! میں اس حمل کو تیرے سپرد کرتا ہوں، یہ دعا کرکے میں اللہ کے راستے میں چلا گیا، جب میں واپس آیا تو مجھے خبر دی گئی کہ میری اہلیہ کا انتقال ہوگیا، مجھے بہت افسوس ہوا. جب ایک رات کو ہم کھانا کھانے بیٹھے تو میں نے دیکھا کہ قبر سے روشنی باہر آرہی ہے، میں نے اپنے بھائی سے پوچھا کہ یہ روشنی کیسی ہے تو اس نے کہا کہ ہر رات اس قبر سے یہ روشنی پھوٹتی ہے، مجھے جستجو ہوئی اور میں نے قبر کھودنے کا ارادہ کیا کہ اچانک قبر خودبخود کھل گئی اور یہ بچہ ماں کی گود میں بیٹھ کر کھیل رہا تھا، میں قبر میں اترا تو ایک ندا آئی کہ تو نے بچے کو اللہ کے سپرد کیا تھا، اللہ تعالٰی نے اسکی حفاظت فرمائی، اگر تو ماں کو بھی اللہ کے سپرد کرتا تو اسکو بھی سلامت پاتا. کیا یہ واقعہ درست ہے؟
الجواب باسمه تعالی
یہ قصہ مختلف کتابوں میں منقول ہے جیسے ابن ابی الدنیا نے اپنے مختلف تصنیفات میں اور خرائطی، طبرانی، عجلونی اور مختلف مصنفین نے اپنی کتب میں ذکر کیا ہے.
والقصة رواها ابن أبي الدنيا في كتاب “مجابو الدعوة”، وفي “مَن عاش بعد الموت” وفي “هواتف الجنان”، وفي كتاب “القبور”، ورواها الخرائطي في “مكارم الأخلاق” والطبراني في “الدعاء”. وأوردها العجلوني في “كشف الخفاء” نقلا عن عز الدين بن جماعة في كتاب “هداية السالك إلى المذاهب الأربعة في المناسك”، أنه قال: رُوي عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه… فَذَكَر القصة….. (والتعبير بـ “رُوي” تضعيف ، إذ أنها صيغة تمريض).
اس واقعے کا متن:
جاء رجل الى أمير المؤمنين عمر بن الخطاب رضي الله تعالى عنه وأرضاه وكان الرجل معهُ ابنه وليس هناك فرق ما بين الابن وأبيه فتعجب عمر رضي الله عنه قائلاً: والله ما رأيت مثل هذا اليوم عجبا، ما أشبه أحد أحداً أنت وأبنك الا كما أشبه الغراب الغراب (والعرب تضرب في أمثالها أن الغراب كثير الشبه بقرينه).
فقال الرجل: ياأمير المؤمنين! كيف ولو عرفت بأن أمه ولدته وهي ميتة. فغير عمر من جلسته وبدل من حالته وكان رضي الله عنه وأرضاه يحب غرائب الأخبار فقال للرجل: أخبرني؟ قال: يا أمير المؤمنين! كانت زوجتي أم هذا الغلام حاملاً به فعزمت على السفر فمنعتني فلما وصلت الى الباب الحت علي أن لا أذهب وقالت: كيف تتركني وأنا حامل، فوضعت يدي على بطنها وقلت: “اللهم إنني أستودعك غلامي هذا” ومضيت. وخرجت فمضيت وقضيت في سفري ماشاءالله لي ان أمضي وأقضي ثم عدت فلما عدت وإذا بباب بيتي مقفل وإذا بأبناء عمومتي يحيطون بي ويخبرونني أن زوجتي قد ماتت.
فقلت: انا لله وانا اليه راجعون. فأخذوني ليطعموني عشاءً قد أعدوه لي فبينما أنا على العشاء وإذا بدخان يخرج من المقابر، فقلت: ما هذا الدخان؟ قالوا: هذا الدخان يخرج من مقبرة زوجتك كل يوم منذ أن دفناها، فقال الرجل: والله إنني لمن أعلم خلق الله بها، كانت صوامةً قوامةً عفيفة لا تقرب منكراً وتأمر بالمعروف ولا يخزيها الله أبدا، فقمت وتوجهت الى المقبرة وتبعني أبناء عمومتي. فقال: فلما وصلت إلى قبرها ياأمير المؤمنين أخذت أحفر حتى وصلت اليها فاذا بها ميتة جالسة وابنها هذا الذي معي حي عند قدميها وإذا بمناد ينادي: يا من استودعت الله وديعةً خذ وديعتك.
اس واقعے کی اسنادی حیثیت:
اس واقعے کا مدار ایک راوی پر ہے جس کا نام عبيد بن إسحاق العطار ہے۔
اس راوی کے بارے میں محدثین کے اقوال:
١. امام بخاری کہتے ہیں کہ یہ شخص منکر روایات نقل کرتا تھا۔
قال فيه الإمام البخاري (كما في “التاريخ الكبير” 5/441): عبيد بن إسحاق أبو عبدالرحمن العطار الكوفي مات سنة عشرة، عنده مناكير.
٢. یحیي بن معین کہتے ہیں کہ یہ ضعیف راوی ہے۔
قال يحيى: هو ضعيف، وقال ايضاً (1/74): عبيد بن إسحاق العطار ضعيف.
:٣. ایک اور جگہ فرمایا
لیس بشئ.
٤. امام نسائی کہتے ہیں کہ یہ متروک راوی ہے۔
وقال فيه النسائي (1/72): عبيد بن إسحاق العطار متروك الحديث؛ كوفي.
٥. ابن عدی کہتے ہیں کہ عام طور پر منکر المتن یا منکر السند روایات نقل کرتا ہے.
اس واقعے کی ایک اور سند:
اس واقعے کے ضعف کی بڑی وجہ عبید بن اسحاق العطار ہے. لیکن بعض کتابوں میں اس واقعے کی ایک اور سند بیان کی جاتی ہے کہ اس واقعے کو عثمان بن زفر نے عاصم بن محمد سے نقل کیا ہے.
اس سند میں ابن ابی الدنیا کے استاد محمد بن الحسین ثقہ ہیں لیکن ان کے استاد عثمان بن زفر مجہول الحال راوی ہیں، اگرچہ بعض محدثین نے ان کو صدوق قرار دیا ہے.
قال أبو عبدالباري: في كلام أبي حاتم بيان سبب الإنكار ألا وهو تفرد عبيد بن إسحاق به مع ضعفه، لكنه لم يتفرد به، بل تابعه عثمان بن زفر (وهو صدوق كما في التقريب).
قال ابن أبي الدنيا عقب الرواية السابقة: قال محمد بن الحسين (شيخه في الحديث) فسألت عثمان ابن زفر عن هذا الحديث فقال: سمعته من عاصم بن محمد.
ومحمد بن الحسين هو أبوشيخ البرجلاني، أورده الذهبي في الميزان (3/522) فقال: أرجو أن يكون لا بأس به، ما رأيت فيه توثيقا ولا تجريحا، لكن سئل عنه إبراهيم الحربي فقال: ما علمت إلا خيرا.
وتعقبه الحافظ في اللسان (5/137) فقال: وما لذكر هذا الرجل الفاضل الحافظ (يعني في الضعفاء) وقد ذكره ابن حبان في الثقات (8/88، رقم:15338).
حکیم ترمذی عبید بن اسحاق العطار کی سند سے نقل کرتے ہیں کہ محمد بن ابراہیم العمری نے اس واقعے کی تصدیق کی ہے اور بعض لوگوں نے اس بچے کے بچے کو کوفہ میں دیکھا ہے۔
وزاد الحكيم الترمذي من طريق عبيد بن إسحاق: فحدثت بهذا الحديث محمد بن إبراهيم العمري فقال: هذا والله الحق، وقد سمعت عم أبي عاصم يذكر، ورأيت ابن ابن هذا الرجل بالكوفة وقال لي موالينا: هو هذا.
خلاصہ کلام
اس واقعے کے متعلق اگرچہ ایک سند اور کچھ اقوال ثبوت کے بھی موجود ہیں لیکن اس واقعے کا متن اس قدر منکر اور انوکھا ہے کہ حدیث سے شغف رکھنے والا ادنی طالب علم بھی اس کی صحت میں شک کرےگا، لہذا ہمارے نزدیک یہ واقعہ ثابت نہیں اور اس کو بیان کرنے اور پھیلانے سے اجتناب کرنا چاہیئے۔
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ