ورقہ بن نوفل کا اسلام
حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہونے کے بعد سب سے پہلے جن دو شخصیتوں کے سامنے یہ حقیقت آئی ان میں سے ایک حضرت خدیجہ اور دوسرے ورقہ بن نوفل تھے.
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا حضور ﷺ کو لےکر ورقہ کے پاس گئیں تو ورقہ نے کہا کہ شاید یہ وہی نبی ہیں جن کا گذشتہ امتوں کو انتظار تھا اور پھر آپ علیہ السلام سے عرض کیا کہ اگر میں اس وقت زندہ رہا جب آپ ﷺ کی قوم آپ ﷺ کو مکہ سے نکالےگی تو میں آپ ﷺ کی بھرپور مدد کرونگا.
وقال عروة بن زبیر: لما وصفت خدیجة لورقة بن نوفل شأن محمد قال لها: واللہ یاابنة اخی! ما أدری لعل صاحبك النبی الذی ینتظر أھل الکتاب الذی یجدونه مکتوبا عندهم فی التوراة والإنجيل، والله لئن أدرکته وأنا حي لأبلین فی نصرته وحسن موازرته عذرا، فمات ورقة قبل ذلك. (الاصابة: 6/608، دلائل النبوة، بيهقی: 2/145
◄حضرت خدیجہ نے جب آپ علیہ السلام سے ورقہ کے بارے میں سوال کیا کہ وہ تو اعلان نبوت سے قبل فوت ہوا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ میں نے ورقہ کو سفید لباس میں ملبوس دیکھا، اگر وہ جہنمی ہوتا تو سفید لباس میں نہ ہوتا. (یہ روایات اگرچہ سند کے لحاظ سے ضعیف ہیں)
- روى الإمام أحمد في مسنده قال: (24367) حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، حَدَّثَنَا أَبُوالْأَسْوَدِ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ خَدِيجَةَ سَأَلَتْ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ وَرَقَةَ بْنِ نَوْفَلٍ، فَقَالَ: قَدْ رَأَيْتُهُ فِي الْمَنَامِ، فَرَأَيْتُ عَلَيْهِ ثِيَابُ بَيَاضٍ، فَأَحْسِبُهُ لَوْ كَانَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، لَمْ يَكُنْ عَلَيْهِ بَيَاضٌ…
قلت: وهذا اسناد ضعيف، ابن لهيعة ضعيف سيء الحفظ جدًا…والصواب الارسال.
- وأخرجه الترمذي في سننه قال: حدثنا أبوموسى الانصاري، أخبرنا يونس بن بكير، أخبرنا عثمان بن عبدالرحمن، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة قالت: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ورقة، فقالت له خديجة: إنه كان صدقك، وإنه مات قبل أن تظهر. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: “أريته في المنام وعليه ثياب بياض، ولو كان من أهل النار لكان عليه لباس غير ذلك”. (هذا حديث غريب).
وعثمان بن عبدالرحمن، ليس عند أهل الحديث بالقوي.
◄ اسی طرح آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ ورقہ کو برا مت کہو کیونکہ میں نے اس کی ایک یا دو جنتیں دیکھی ہیں.
- وأخرج الحاكم في مستدركه قال: (4211) أَخْبَرَنِي عَبْدُاللهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ زِيَادٍ الْعَدْلُ، ثنا الْإِمَامُ أَبُوبَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، ثنا أَبُوسَعِيدٍ الْأَشَجُّ، ثنا أَبُومُعَاوِيَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا تَسُبُّوا وَرَقَةَ فَإِنِّي رَأَيْتُ لَهُ جَنَّةً أَوْ جَنَّتَيْنِ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ وَلَمْ يُخَرِّجَاہ.
- ثم ذكره الإمام أحمد في العلل بصيغة التمريض فقال (3:419)
وَمِنْهُم ورقة بن نَوْفَل بن أَسد الَّذِي يُقَال أَن النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: “لَا تَسُبُّوا وَرَقَة فَإِنِّي رَأَيْت لَهُ جنَّة أَو جنتين…”
- وعلله الإمام الدارقطني في علله بالإرسال فقال(157/3495): وَسُئِلَ عَنْ حَدِيثِ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “لَا تَسُبُّوا ورقة بن نوفل؛ فإني رأيت له جنة، أو جنتين”.
◄ اسی طرح جب آپ علیہ السلام کے سامنے آپ کے اولین محسنین کا تذکرہ ہوا مثلا: خدیجہ، ابوطالب اور ورقہ بن نوفل کا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا:
☆ ابوطالب کو میری برکت سے جہنم کی گہرائی سے نکال کر جہنم کے کنارے پر لایا گیا.
☆ خدیجہ کیلئے جنت میں نہر کے کنارے محل تیار کیا گیا.
☆ ورقہ بن نوفل کو جنت میں سندس کے لباس میں دیکھا.
(اخرجه ابن عدی فی “الكامل”: 1/519)
عن جابر رضی الله عنه قال: سئل رسول الله صلی الله علیه وسلم عن ابی طالب قال: أخرج الی ضخضاح من جهنم.
- وسئل عن خدیجة قال: ابصرتها علی نهر من انهار الجنة فی بیت من قصب لا صخب فیه ولا نصب.
- وسئل عن ورقة بن نوفل قال: ابصرته فی بطنان الجنة علیه السندس.
ورقہ بن نوفل کے بارے میں علمائے امت کے اقوال:
١. ورقہ بن نوفل (حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے چچازاد بھائی) صحابی تھے، اس قول کے قائل امام طبری، بغوی، ابن قانع، ابن السکن وغیرہ ہیں۔
ورقة بن نوفل بن أسد بن عبدالعزى بن قصي القرشي الأسدي، ابن عم خديجة زوج النبي صلى الله عليه وسلم. فمن العلماء من ذكره في الصحابة كالطبري والبغوي وابن قانع وابن السكن وغيرهم۔ [“الإصابة” (6/607)]۔
٢. امام زرکلی کہتے ہیں کہ ورقہ ابن نوفل کی زندگی کے بارے میں ایک کتاب لکھی گئی جس میں ان کو صحابہ میں شامل کیا گیا ہے۔
وقال الزركلي رحمه الله: وفي المؤرخين من يعده في الصحابة۔
قال البغدادي: ألف أبوالحسن برهان الدين إبراهيم البقاعي تأليفا في إيمان ورقة بالنبي، وصحبته له، سماه بذل النصح والشفقة، للتعريف بصحبة السيد ورقة۔ [“الأعلام” (8/115)]۔
٣. ورقہ حالت ایمان میں دنیا سے گئے ہیں لیکن صحابی نہیں تھے۔ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ ورقہ فترہ کے دور میں دعوت اسلام سے قبل انتقال کر گئے تھے۔
قال ابن كثير رحمہ الله: وتقدم الكلام على إيمان ورقة بن نوفل بما وجد من الوحي، ومات في الفترة رضي الله عنه۔ [“البداية والنهاية” (3/25)]
٤. امام ذہبی نے ذکر کیا ہے کہ دعوت اسلام سے پہلے فترہ وحی میں ورقہ کا انتقال ہوا، لہذا وہ صحابی نہیں کہلائے جائینگے۔
وقد ذكر الذهبي: وإنما مات الرجل في فترة الوحي بعد النبوة وقبل الرسالة، كما في الصحيح۔ [“سير أعلام النبلاء” (1/129)]
٥. حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ ورقہ نے اقرار نبوت تو کیا تھا لیکن دعوت سے قبل انتقال ہوگیا، لہذا ان کو صحابی کہنا مشکل ہے۔
وقال الحافظ ابن حجر رحمه الله بعد أن ذكر حديث بدء الوحي: “فهذا ظاهره أنه أقر بنبوته، ولكنه مات قبل أن يدعو رسول الله صلى الله عليه وسلم الناس إلى الإسلام، فيكون مثل بحيرا، وفي إثبات الصحبة له نظر۔ [“الإصابة” (6/607)].
خلاصہ کلام
ان تمام روایات کا خلاصہ یہی ہے کہ ورقہ بن نوفل ادیان سابقہ میں سے حق راستے پر تھے اور ان کا انتقال حالت ایمان پر ہوا ہے، لہذا بعض علماء نے انکو صحابہ میں شمار کیا ہے اور بعض نے نہیں، لیکن مؤمن ہونے اور اہل جنت ہونے میں کسی کا بھی اختلاف نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ