اسلام میں طہارت و نظافت کی اہمیت
انسان چاہے کسی بھی شعبہ سے تعلق رکھتا ہو اُس کی سرشت اور فطرت طہارت و نظافت اور صفائی و ستھرائی پر بنائی گئی ہے۔ وہ پاکی کو پسند کرتا ہے اور ناپاکی سے نفرت کرتا ہے۔ صفائی ستھرائی سے اُس کی طبیعت میں نشاط اور تازگی پیدا ہوتی ہے اور غلاظت و نجاست سے اُس کی طبیعت کو منقبض اور مکدر کردیتی ہے ۔اسلام چوں کہ دین فطرت ہے ، اِس لئے ایک تو اُس نے اپنے والوں کے لئے طہارت و نصف ایمان قرار دیا ہے۔ (صحیح مسلم) اور دوسرے وہ اپنے پیروں کاروں کو ہر طرح کی عبادت سے پہلے ظاہر و باطن اور روح و جسم کو پاک صاف رکھنے کا حکم دیتا ہے۔قلب و نظر ہوں یا جسم و بدن، گھر بار ہو یا دفتر و آفس،لباس و پوشاک ہو یا وضع قطع، اشیائے خورد و نوش ہوں یا استعمال اور برتنے کی چیزیں، غرض تمام چیزوں میں اسلام نے اپنے پیروکاروں کو نہ صرف یہ کہ طہارت و نظافت اور صفائی و ستھرائی کے ساتھ رہنے کا حکم دیا ہے بلکہ اُن کی تمام عبادات کی صحت و درُستگی کو پاکیزگی کے ساتھ مشروط بھی قرار دیا ہے۔ چنانچہ جب تک کوئی مسلمان نجاست حکمیہ یعنی حدث اکبر اور جنابت سے اپنا بدن پاک نہ کرلے ، یا نجاست حقیقیہ کی دونوں قسموں ٗ نجاست غلیظہ (جیسے پیشاب پاخانہ،بہتے ہوئے خون ، شراب اور مرغی و بطخ وغیرہ کی بیٹ وغیرہ سے) ا ور نجاست خفیفہ(حلال جانوروں کے پیشاب اور حرام پرندوں کی بیٹ سے) خوب اچھی طرح پاکی حاصل نہ کرلے اسلام نے اُس وقت تک اُس کو عبادت کرنے سے منع کیا ہے۔البتہ طہارت و نظافت کے متعلق بعض چیزیں ایسی بھی ہیں جن کے ہوتے ہوئے اگرچہ اُس وقت آدمی عبادت تو کرسکتا ہے مگر اُن کو بھی اسلام نے ناپسند کیا ہے اِس لئے اُن کا دُور کرنا بھی ضروری ہے۔ جیسے نجاست غلیظہ اگر گاڑھے جسم والی ہو جیسے پاخانہ تو وہ ساڑھے تین ماشہ (3.402) گرام وزن تک معاف ہے۔ اور اگر پتلی ہو جیسے شراب پیشاب تو وہ ایک انگریزی روپیہ کے پھیلاؤ کے برابر (جو تقریباً سوا اِنچ کی گولائی بنتی ہے) معاف ہے۔ اسی طرح نجاست خفیفہ چوتھائی کپڑے یا چوتھائی عضو سے کم ہو تو معاف ہے۔معاف ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اگر اتنی نجاست بدن یا کپڑے پر لگی ہو اور نماز پڑھ لے تو نماز ہوجائے گی مگر مکروہ ہوگی اور قصداً اتنی نجاست بھی لگی رہنا جائز نہیں۔(تعلیم الاسلام :ص 37,38)
اسی طرح بعض چیزیں ایسی بھی ہیں جو غلیظ و نجس تو نہیں البتہ اُن کا اپنی مدت سے بڑھ جاناخلافِ اولیٰ و افضل ضرور ہے جیسے بدن کے غیر ضروری بالوں کا اور ناخنوں کا اپنی مدت سے بڑھ جانا تو اِن چیزوں کے بڑھ جانے کو بھی اسلام نے طہارت و نظافت منافی مانا ہے۔غیر ضروری بالوں اور ناخنوں کے متعلق اسلام نے یہ اسوۂ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پیش کیا ہے کہ ہرہفتے یاپندرہ دن بعد ان کا کاٹنا سنت ہے۔ چالیس دن تک چھوڑنا جائز ہے۔ اور اِس کے بعد گناہ ہے۔ افسوس کہ آج کل کے بعض نوعمر لڑکے اور مرد حضرات اسی طرح اکثر نوعمر لڑکیاں اور خواتین بڑے فیشن اور فخر سے اپنے ناخنوں کو غیر ضروری حد تک بڑھائے رکھتی ہیں ۔(آپ کے مسائل اور اُن کا حل:7/136,135 )
ماضی قریب کی بات ہے کہ ایک مسلمان طالب علم ’’لندن‘‘ میں تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ وہ جس مکان میں مقیم تھا، اُس میں ایک انگریز خاتون رہتی تھی۔ اور وہاں مختلف ممالک کے طلبہ بھی مقیم تھے۔ اِس عورت نے طالب علم سے کہا: ’’کیا آپ کو میرے کپڑے دھونے پر بھروسہ نہیں ہوتا؟‘‘طالب علم نے جواب دیا: ’’کیوں نہیں؟مجھے بھروسہ ہے کہ آپ کپڑے ٹھیک دھوتی ہیں!‘‘’’پھر آپ اپنے کپڑے خود دھوکر میرے حوالے کیوں کرتے ہیں؟‘‘ خوتون نے پوچھا۔ طالب علم نے کہا: ’’اگر مجھے کپڑے خود دھونے ہوتے تو میں آپ کے حوالے کیوں کرتا؟‘‘ واقعہ یہ ہے کہ میں اپنے کپڑے دھوکر آپ کو نہیں دیتا ٗ ویسے ہی دے دیتا ہوں۔‘‘ خاتون نے کہا: ’’پھر یہ کیا بات ہے کہ مجھے دوسرے لوگوں کے زیر جامہ میں طرح طرح کے دھبے اور بدبو محسوس ہوتی ہے، لیکن آپ کے زیر جامہ پر کبھی ایسی کوئی چیز مجھے نہیں ملی!‘‘ طالب علم نے جواب دیا: ’’محترمہ !میں مسلمان ہوں! میرا دین مجھے پاکی اور نظافت کا حکم دیتا ہے، اگر میری شلوار یا زیر جامے پر پیشاب کا قطرہ بھی پھیل جائے تو ایسی حالت میں اُس وقت تک نماز نہیں پڑھتا جب تک اُسے دھو نہ لوں ، اِس لئے میرے کپڑوں میں کوئی ناپاک چیز نہیں رہ سکتی اور جب کپڑے اُتارتا ہوں ہوں تو وہ پاک صاف ہوتے ہیں۔‘‘ انگریز خاتون بولی: ’’تمہارا اسلام اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں کی بھی تمہیں تعلیم دیتا ہے؟‘‘ طالب علم نے کہا: ’’رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ اللہ کو ہر وقت یاد رکھیں! چناں چہ جب میں بیت الخلاء جاتا ہوں تو پہلے ایک دُعاء پڑھتا ہوں، نکلتا ہوں تو دُوسری دُعاء پڑھتا ہوں، جب نئے کپڑے پہنتا ہوں تب بھی دُعاء پڑھتا ہوں ، اسی طرح کھانا کھانے، گھع سے نکلنے، سونے، جاگنے اور زندگی کے ہر اہم کام کے موقع پر ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسم نے دُعائیں سکھائی ہیں۔وہ پڑھتا ہوں تاکہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ میرا تعلق مضبوط رہے۔کیوں کہ یہ تعلق ہی صحیح راستے کی طرف میری ہدایت کرتا ہے۔اور مجھے ایسے کاموں سے باز رکھتا ہے جو اللہ کی ناراضی کا باعث ہوں۔‘‘
انگریز خاتون کو اِس نوجوان کی یہ باتیں بڑی عجیب ٗ مگر بڑی دل کش محسوس ہوئیں۔ اِس کے بعد اُس نوجوان کی نشست و برخاست، اُس کے رہن سہن اور عادات و اطوار غور سے دیکھتی رہی، اور اُس کی تہذیب، اُس کی شائستگی، اُس کی پاکیزگی، اُس کی عفت اور فضولیات سے اُس کے اجتناب نے رفتہ رفتہ اُس خاتون کے دل میں اسلام کے لئے ایک جستجو پیدا کردی۔ وہ اُس نوجوان سے اسلامی تعلیمات کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرتی رہی، یہاں تک کہ اسلام کی حقانیت اُس کے دل میں گھر کرگئی۔ حق کے نور نے اُس کے دل کو بھی منور کردیا۔ اور وہ نہ صرف یہ کہ خود مسلمان ہوئی ، بلکہ اپنے خاندان کے متعدد افراد کو بھی مسلمان کرلیا۔(مجلہ التضامن الاسلامی، شوال 4041 ہجری ص 66,67 )