موت کے وقت کلمہ زبان پر جاری نہ ہونا

سوال

ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک صحابی حضرت علقمہ رضی اللہ عنہ کی موت کے وقت ان کی زبان پر کلمہ جاری نہیں ہورہا تھا تو آپ علیہ السلام نے ان کی ماں کو بلوا کر دریافت فرمایا تو معلوم ہوا کہ وہ ماں کا نافرمان ہے اور ماں اسکو معاف کرنے پر راضی نہیں، لیکن جب آپ علیہ السلام نے اسکو جلانے کا کہا تو ماں نے معاف کردیا …کیا یہ واقعہ درست ہے؟

الجواب باسمه تعالی

یہ روایت اگرچہ امام احمد رحمہ اللہ نے ابتداء اپنی کتاب “مسند احمد”  میں ذکر کی لیکن بعد میں اس روایت کو اپنی کتاب سے نکال دیا کیونکہ اس کی سند انتہائی کمزور ہے.

ﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﻋﺒﺪﺍﻟﺮﺣﻤﻦ: ﻭﻛﺎﻥ ﻓﻲ ﻛﺘﺎﺏ ﺃﺑﻲ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻳﺰﻳﺪ ﺑﻦ ﻫﺎﺭﻭﻥ، ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﻓﺎﺋﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪﺍﻟﺮﺣﻤﻦ ﻗﺎﻝ: ﺳﻤﻌﺖ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺃﻭﻓﻰ ﻳﻘﻮﻝ:‏ ﺟﺎﺀ ﺭﺟﻞ ﺇﻟﻰ ﺍﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻓﻘﺎﻝ: ﻳﺎﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ! ﺇﻥ ﻫﺎﻫﻨﺎ ﻏﻼﻣﺎً ﻗﺪ ﺍﺣﺘﻀﺮ؛ ﻳﻘﺎﻝ ﻟﻪ: ﻗﻞ ﻻ ﺇﻟﻪ ﺇﻻ ﺍﻟﻠﻪ، ﻓﻼ ﻳﺴﺘﻄﻴﻊ ﺃﻥ ﻳﻘﻮﻟﻬﺎ. ﻗﺎﻝ: ﺃﻟﻴﺲ ﻗﺪ ﻛﺎﻥ ﻳﻘﻮﻟﻬﺎ ﻓﻲ ﺣﻴﺎﺗﻪ؟ ﻗﺎﻝ: ﺑﻠﻰ، ﻗﺎﻝ: ﻓﻤﺎ ﻣﻨﻌﻪ ﻣﻨﻬﺎ ﻋﻨﺪ ﻣﻮﺗﻪ؟ (ﻓﺬﻛﺮ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ ﺑﻄﻮﻟﻪ) ﻟﻢ ﻳﺤﺪﺙ ﺃﺑﻲ ﺑﻬﺬﻳﻦ ﺍﻟﺤﺪﻳﺜﻴﻦ (ﺣﺪﻳﺜﻴﻦ ﻣﻦ ﻃﺮﻳﻖ ﻓﺎﺋﺪ ﻋﻦ ﺍﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺃﻭﻓﻰ) ﺿﺮﺏ ﻋﻠﻴﻬﻤﺎ ﻣﻦ ﻛﺘﺎﺑﻪ؛ ﻷﻧﻪ ﻟﻢ ﻳﺮﺽ ﺣﺪﻳﺚ ﻓﺎﺋﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪﺍﻟﺮﺣﻤﻦ، ﻭﻛﺎﻥ ﻋﻨﺪﻩ ﻣﺘﺮﻭﻙ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ… ﺍﻧﺘﻬﻰ ﺍﻟﻨﻘﻞ ﻣﻦ “ﺍﻟﻤﺴﻨﺪ”…

ﻭﺃﻣﺎ ﺑﻘﻴﺔ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ، ﻛﻤﺎ ﺟﺎﺀﺕ ﻓﻲ ﺍﻟﻤﺼﺎﺩﺭ ﺍﻷﺧﺮﻯ ﺍﻟﺘﻲ ﺫﻛﺮﺗﻪ، ﻓﻬﻲ ﻛﺎﻟﺘﺎﻟﻲ:

ﻗﺎﻝ: ‏ﻓﻨﻬﺾ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺻﻠﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻭﻧﻬﻀﻨﺎ ﻣﻌﻪ ﺣﺘﻰ ﺃﺗﻰ ﺍﻟﻐﻼﻡ ﻓﻘﺎﻝ: ﻳﺎ ﻏﻼﻡ! ﻗﻞ ﻻ ﺇﻟﻪ ﺇﻻ ﺍﻟﻠﻪ. ﻗﺎﻝ: ﻻ ﺃﺳﺘﻄﻴﻊ ﺃﻥ ﺃﻗﻮﻟﻬﺎ، ﻗﺎﻝ: ﻭﻟﻢ؟ ﻗﺎﻝ: ﻟﻌﻘﻮﻕ ﻭﺍﻟﺪﺗﻲ، ﻗﺎﻝ: ﺃﺣﻴﺔ ﻫﻲ؟ ﻗﺎﻝ: ﻧﻌﻢ، ﻗﺎﻝ: ﺃﺭﺳﻠﻮﺍ ﺇﻟﻴﻬﺎ، ﻓﺄﺭﺳﻠﻮﺍ ﺇﻟﻴﻬﺎ؛ ﻓﺠﺎﺀﺕ، ﻓﻘﺎﻝ ﻟﻬﺎ النبی ﺻﻠﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: ﺍﺑﻨﻚ ﻫﻮ؟ ﻗﺎﻟﺖ: ﻧﻌﻢ. ﻗﺎﻝ: ﺃﺭﺃﻳﺖ ﻟﻮ ﺃﻥ ﻧﺎﺭﺍً ﺃﺟﺠﺖ؛ ﻓﻘﻴﻞ ﻟﻚ: ﺇﻥ ﻟﻢ ﺗﺸﻔﻌﻲ ﻟﻪ ﻗﺬﻓﻨﺎﻩ ﻓﻲ ﻫﺬﻩ ﺍﻟﻨﺎﺭ. ﻗﺎﻟﺖ: ﺇﺫﻥ ﻛﻨﺖ ﺃﺷﻔﻊ ﻟﻪ، ﻗﺎﻝ: ﻓﺄﺷﻬﺪﻱ ﺍﻟﻠﻪ، ﻭﺃﺷﻬﺪﻳﻨﺎ ﻣﻌﻚ ﺑﺄﻧﻚ ﻗﺪ ﺭﺿﻴﺖ. ﻗﺎﻟﺖ: ﻗﺪ ﺭﺿﻴﺖ ﻋﻦ ﺍﺑﻨﻲ، ﻗﺎﻝ: ﻳﺎ ﻏﻼﻡ! ﻗﻞ ﻻ ﺇﻟﻪ ﺇﻻ ﺍﻟﻠﻪ. ﻓﻘﺎﻝ: ﻻ ﺇﻟﻪ ﺇﻻ ﺍﻟﻠﻪ. ﻓﻘﺎﻝ ﺻﻠﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: ﺍﻟﺤﻤﺪ ﻟﻠﻪ ﺍﻟﺬﻱ ﺃﻧﻘﺬﻩ ﻣﻦ ﺍﻟﻨﺎﺭ‏.

اس روایت کو نقل کرنے والے دیگر محدثین کرام:

١ . امام عقیلی: ﺃﺧﺮﺟﻪ ﺍﻟﻌﻘﻴﻠﻲ ﻓﻲ “ﺍﻟﻀﻌﻔﺎﺀ ﺍﻟﻜﺒﻴﺮ” ‏3/461

٢ . ابن جوزی: ﻭﻣﻦ ﻃﺮﻳﻘﻪ ﺍﺑﻦ ﺍﻟﺠﻮﺯﻱ ﻓﻲ “ﺍﻟﻤﻮﺿﻮﻋﺎﺕ” 3/87

٣ . طبرانی: ﻭﻋﺰﺍﻩ ﻏﻴﺮ ﻭﺍﺣﺪ ﻟﻠﻄﺒﺮﺍﻧﻲ.

٤ . خرائطی: ﻭﺭﻭﺍﻩ ﺍﻟﺨﺮﺍﺋﻄﻲ ﻓﻲ “ﻣﺴﺎﻭﺉ ﺍﻷﺧﻼﻕ” ﺭﻗﻢ:251

٥ . بيهقی: ﻭﺍﻟﺒﻴﻬﻘﻲ ﻓﻲ “ﺷﻌﺐ ﺍﻹﻳﻤﺎﻥ”6/197 ﻭﻓﻲ “ﺩﻻﺋﻞ ﺍﻟﻨﺒﻮﺓ” 6/205

٦ . قزوینی: ﻭﺍﻟﻘﺰﻭﻳﻨﻲ ﻓﻲ “ﺍﻟﺘﺪﻭﻳﻦ ﻓﻲ ﺗﺎﺭﻳﺦ ﻗﺰﻭﻳﻦ” 2/369

ان تمام محدثین نے اس روایت کو فائد بن عبدالرحمن کی سند سے نقل کیا ہے.

ﺟﻤﻴﻌﻬﻢ ﻣﻦ ﻃﺮﻳﻖ ﻓﺎﺋﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪﺍﻟﺮﺣﻤﻦ، ﻋﻦ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺃﻭﻓﻰ.

فائدبن عبدالرحمن  اس راوی کے بارے میں محدثین کرام کے اقوال:

١.  امام احمد کہتے ہیں کہ یہ متروک الحدیث ہے.

ﻗﺎﻝ ﻓﻴﻪ ﺍﻹﻣﺎﻡ ﺃﺣﻤﺪ: ﻣﺘﺮﻭﻙ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ

٢.  ابن معین کہتے ہیں کہ یہ کسی قابل نہیں۔

ﻭﻗﺎﻝ ﺍﺑﻦ ﻣﻌﻴﻦ: ﻟﻴﺲ ﺑﺸﻲﺀ

٣.  ابن ابی حاتم کہتے ہیں کہ میرے والد کہتے تھے کہ یہ گیا گذرا راوی ہے،  اس کی روایات نہ لکھی جائیں،  ابن ابی اوفی سے اس کی نقل کردہ روایات باطل ہیں جن کی کوئی اصل نہیں۔۔۔۔ اگر اس کی روایات کے جھوٹ ہونے پر قسم کھائی جائے تو غلط نہ ہوگا۔

ﻭﻗﺎﻝ ﺍﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺣﺎﺗﻢ: ﺳﻤﻌﺖ ﺃﺑﻰ ﻳﻘﻮﻝ: ﻓﺎﺋﺪ ﺫﺍﻫﺐ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ، ﻻ ﻳﻜﺘﺐ ﺣﺪﻳﺜﻪ، ﻭﺃﺣﺎﺩﻳﺜﻪ ﻋﻦ ﺍﺑﻦ ﺃﺑﻰ ﺃﻭﻓﻰ ﺑﻮﺍﻃﻴﻞ ﻻ ﺗﻜﺎﺩ ﺗﺮﻯ ﻟﻬﺎ ﺃﺻﻼ، ﻛﺄﻧﻪ ﻻ ﻳﺸﺒﻪ ﺣﺪﻳﺚ ﺍﺑﻦ ﺃﺑﻰ ﺃﻭﻓﻰ، ﻭﻟﻮ ﺃﻥ ﺭﺟﻼ ﺣﻠﻒ ﺃﻥ ﻋﺎﻣﺔ ﺣﺪﻳﺜﻪ ﻛﺬﺏ ﻟﻢ ﻳﺤﻨﺚ.

٤ . امام بخاری کہتے ہیں کہ یہ منکر الحدیث ہے.

ﻭﻗﺎﻝ ﺍﻟﺒﺨﺎﺭﻱ:  ﻣﻨﻜﺮ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ. ﺍﻧﻈﺮ: “ﺗﻬﺬﻳﺐ ﺍﻟﺘﻬﺬﻳﺐ” 8/256

٥. ابن حبان نے ان کی روایات کو ناقابل اعتماد قرار دیا.

ﻭﻗﺎﻝ ﺍﺑﻦ ﺣﺒﺎﻥ: ﻛﺎﻥ ﻣﻤﻦ ﻳﺮﻭﻯ ﺍﻟﻤﻨﺎﻛﻴﺮ ﻋﻦ ﺍﻟﻤﺸﺎﻫﻴﺮ، ﻭﻳﺄﺗﻲ ﻋﻦ ﺍﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺃﻭﻓﻰ ﺑﺎﻟﻤﻌﻀﻼﺕ، ﻻ ﻳﺠﻮﺯ ﺍﻻﺣﺘﺠﺎﺝ ﺑﻪ. [“ﺍﻟﻤﺠﺮﻭﺣﻴﻦ” ‏(2/203)]

٦. امام حاکم کہتے ہیں کہ یہ ابن أبی أوفی سے من گھڑت روایات نقل کرتا ہے۔

ﻭﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﻪ ﺍﻟﺤﺎﻛﻢ ﺭﺣﻤﻪ ﺍﻟﻠﻪ: ﻳﺮﻭﻱ ﻋﻦ ﺍﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺃﻭﻓﻰ ﺃﺣﺎﺩﻳﺚ ﻣﻮﺿﻮﻋﺔ. (ﺍﻟﻤﺪﺧﻞ ﺇﻟﻰ ﺍﻟﺼﺤﻴﺢ:‏155)

خلاصہ کلام

اس روایت کی اسنادی حیثیت انتہائی کمزور اور ناقابل اعتبار ہے،  لہذا اس واقعے کو آپ علیہ السلام کی طرف منسوب کرنا یا اسکو بیان کرنا درست نہیں.

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ

 

مفتی عبد الباقی اخوانزادہ صاحب

مہتمم جامعہ اسلامیہ رضیہ للبنات سائیٹ کراچی
مفتی عبدالباقی اخونزادہ مدظلہ نے 1994 میں جامعہ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاون کراچی سے درسِ نظامی کی تعلیم مکمل کی۔
جس کے بعد 1995-1996 میں اسی ادارے سے تخصص فی الفقہ کیا۔
بعد ازاں2001-2004 تک جامعہ دارلعلوم کراچی سے تمرینِ افتاء کیا اور وفاقی اردو یونیورسٹی سے تاریخِ اسلام میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔
اس وقت مفتی صاحب جامعہ اسلامیہ رضیہ للبنات سائیٹ کراچی میں مہتمم کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

کل مواد : 12
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2024

تبصرے

يجب أن تكون عضوا لدينا لتتمكن من التعليق

إنشاء حساب

يستغرق التسجيل بضع ثوان فقط

سجل حسابا جديدا

تسجيل الدخول

تملك حسابا مسجّلا بالفعل؟

سجل دخولك الآن
ویب سائٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اس سائٹ کے مضامین تجارتی مقاصد کے لئے نقل کرنا یا چھاپنا ممنوع ہے، البتہ غیر تجارتی مقاصد کے لیئے ویب سائٹ کا حوالہ دے کر نشر کرنے کی اجازت ہے.
ویب سائٹ میں شامل مواد کے حقوق Creative Commons license CC-BY-NC کے تحت محفوظ ہیں
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2024