فتاوی تاتارخانیہ کا تفصیلی تعارف

کچھ مؤلف کے بارے میں:حیرت اور باعث ِتعجب ہے کہ مؤلف کتاب کے تذکرے سے تاریخی اور فقہی تمام کتب خاموش ہیں، اسی طرح وہ کتب جو خاص مؤلفین و مصنفین کے احوال پر لکھی گئی ہیں، ان میں بھی مؤلف کے بارے میں خاص معلومات مذکور نہیں ۔چند ایک کتاب میں مختصر سا تذکرہ کیا گیاہے ، جو یہ ہے :

 آپ کا نام فرید الدین عالم بن علاء اِندرپتی دھلوی ہے۔ آپ کا شمار اپنے وقت کے نابغۂ روزگار علماء و فقہاء میں ہوتا تھا، فقہ، اصولِ فقہ اور عربی ادب میں آپ کو مہارت وملکہ تامہ حاصل تھا۔ ۷۷۷ھ میں فتاویٰ تاتارخانیہ کی تالیف سے فارغ ہوئے ۔ آپ کی وفات سلطان فیروز تغلق کے دور حکومت ۷۸۶ھ میںہوئی۔(۱)

حاجی خلیفہ کا تسامح:کشف الظنون میں حاجی خلیفہ نے فتاویٰ تاتارخانیہ کا دو جگہ تذکرہ کیا ہے:

(۱)…تاتارخانیہ فی الفتاویٰ کے تحت۔(۲)

(۲)…’’زادالمسافر‘‘ کے تحت، اس دوسرے مقام پر حاجی خلیفہ سے مؤلف کی تاریخ وفات کی بابت سہو ہوا ہے، آپ لکھتے ہیں:

’ زادالمسافر ‘‘ فی الفروع، وھو المعروف بالفتاویٰ التاتارخانیۃ لعالم بن العلاء الحنفی، المتوفی ۲۸۶ھ ست وثمانین و مائتین۔‘‘(۳)

مؤلف کا سنِ وفات ۲۸۶ھ قرار دینا سہو ہے، کیوں کہ یہ بات واضح ہے کہ مؤلف نے یہ کتاب ’’فیروز شاہ تغلق‘‘ کے دور حکومت میں لکھی اوران کا دور حکومت ۷۵۲ھ سے ۷۹۲ھ پر مشتمل ہے۔(۴)

علامہ عبدالحئی لکھنویؒ حاجی خلیفہ کے اس تسامح کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

یعنی’’ مؤلف کے سن وفات کے بارے میں مصنفِ کشف الظنون کو ’’۷‘‘ اور ’’۲‘‘ کے عدد میں التباس ہوگیاہے، اس لئے کہ یہ دونوں عدد تقریباً ہم شکل ہیں‘‘۔(۵)

’’اندر پت ‘‘کی تحقیق:مؤرخین کی رائے سے معلوم ہوتا ہے کہ’’ دہلی ‘‘کا قدیم نام ’’اندر پت‘‘ تھا، بعد میں اس میں تبدیلی آئی اور اس کا نام دہلی ہوگیا ۔ سر سید احمد خان ’’ اندر پت ‘‘ کی تحقیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’پہلے ’’اندر پرست ‘‘اس میدان کا نام تھا جو پرانے قلعہ اور درے کے خونی دروازے کے درمیان میں ہے۔ ہندوؤں کے اعتقاد میں ’’اندر‘‘ نام ہے اکاس کے راجہ کا جو ہندوؤں کے مذہب میں ایک مقرری راجہ ہے اور ’’پرست‘‘ کہتے ہیں دونوں ہاتھوں کے ملے ہوئے لبوں کو، ہندوؤں کے اعتقاد میں یہ بات ہے کہ جہاں راجہ اندر نے کسی فرضی زمانے میں دونوں ہاتھ بھر کر موتیوں کا دان کیا تھا، اس سبب سے اس جگہ کو’’ اندر پرست ‘‘کہتے ہیں۔ کثرت استعمال سے رے اور سین حذف ہوگیا اور اندر پت مشہور ہوگیا۔ مگر میری سمجھ میں یہ معنی تو ایسے ہی ہیں جیسے اور ہندوؤں کی کہانیاں،… صحیح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ ’’پت‘‘ کے معنی صاحب اور مالک اور حاکم کے ہیں، جب یہ شہر آباد ہوا تو آباد کرنے والے نے نیک فال سمجھ کر ’’اندرپت ‘‘نام رکھا یعنی اس شہر کا مالک یا حاکم’’ اندر ‘‘ہے جو اکاس اور مہشت کا راجہ ہے۔ پہلے زمانے میں یہاں کے راجاؤں کی تخت گاہ ہستنا پور تھا، گنگا کے کنارے دلی سے تخمیناً سو میل دور ہے ،جب راجہ جد ہشتر اور راجہ جرجودھن میں بگاڑ ہوا تو راجہ جدہشتر نے یہ شہر آباد کیا۔ ہندی حسان کے بموجب یہ جھگڑا دوا پر جگ کے اخیر اور کلجگ کی ابتدا یعنی تین ہزار ایک سو اکیس سال قبل ولادت حضرت مسیح ہوا مگر یہ زمانہ صحیح نہیں معلوم ہوتا کیونکہ یہ مدت طوفان سے بھی پہلے کی ہے ،صحیح حساب سے یوں تحقیق ہوا ہے کہ واقعۂ مہابھارت اور راجہ جدہشتر کی مسند نشینی ایک ہزار چار سو پچاس سال تخمیناً قبل حضرت مسیح ہوئی پس اس شہر کے آباد ہونے کا یہی صحیح زمانہ ہے، اگر چہ اب اس شہر کا نشان باقی نہیں رہا لیکن شاہجہاں آباد کے جنوب کی طرف دلی دروازے کے باہر جو زمین ہے، اندرپت کی زمین کہلاتی ہے مگر خاص اندر پت کی آبادی اب نہیں رہی، ساری زمین میں زراعت ہوتی ہے اور وہاں کے زمیندار پرانے قلعے میں بستے ہیں اور یہ سب سے پہلا شہر ہے جو یہاں آباد ہوا اس کے بعد اور آبادیاں اس کے آس پاس ہوتی رہیں ہیں‘‘۔

اب سوال یہ ہے کہ اندر پت کا نام دہلی کس طرح اور کب ہوا؟ اس بارے میں تحقیق کرتے ہوئے سر سید احمد خان ’’دہلی ‘‘ کے عنوان کے تحت (مختلف اقوال ذکر کرنے کے بعد)لکھتے ہیں :

’’… مشہور بات جو صحیح بھی معلوم ہوتی ہے ، یہ ہے کہ دہلو قلوج کے راجہ نے، اس سبب سے کہ دہلی کے اکثر راجہ قنوج کے تابع رہے ہیں ، اندر پت میں اپنے نام پر شہر بسایا ، جب سے اس کا نام دہلی مشہور ہوا، بل کہ اصل نام ’’ دہلی ‘‘ کا ’’ دہلو ‘‘ ہے(پھر ’’واو‘‘ ،’’ یا ‘‘ سے تبدیل ہوگیا) ۔  (۶)  

ڈاکٹر بشیر احمد’’ اندر پت ‘‘ کے محل وقوع کے بارے میں لکھتے ہیں :

’’اندر پرستھ ، دہلی کا قدیم نام ہے ، اس کی حدود ’’ اوکھلا ‘‘ سے شروع ہو کر ’’ برابری ‘‘ نامی بستی پر ختم ہوتی ہے ‘‘۔(۷)

امیر’’ تاتارخان‘‘ :کتاب کا تعارف کرانے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ امیرتاتارخان کا بھی تعارف سامنے آجائے، جن کی ایماء و فرمائش پر یہ عظیم الشان کتاب منصہ شہود پر آئی۔

جناب محمد اسحاق بھٹی صاحب ’’ تاریخ فیروز شاہی‘‘ کے حوالے سے امیر تاتار خان کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’معتبر روایت ہے کہ سلطان غیاث الدین تغلق کے عہد حکومت میں خراسان کے ایک صاحب جاہ و حشم فرماں روانے ملتان اور دیپال پور پر حملہ کرکے اس نواح کو تاخت و تاراج کیا۔ یہ (حملہ آور)بادشاہ اپنی ایک زوجہ پر جو بے حد صاحب ِحسن وجمال تھی، اس درجہ شیدا تھا کہ اس کو کبھی اپنے سے جدا نہیں کرسکتا تھا۔ اس مہم میں یہ زوجہ بادشاہ کے ہمراہ تھی اور حاملہ تھی۔ ملتان و دیپال پور میں قدم رکھتے ہی اس بیگم کے بطن سے بچہ پیدا ہوا۔ اتفاق سے اس شب سلطان تغلق نے خراسانی لشکر پر شب خون مارا اور قتل عام شروع کردیا۔ خراسانی لشکر نے شکست کھائی اور ہر شخص نے راہ فرار اختیار کی اور پریشانی کے عالم میں اس بچے کو گہوارے میں چھوڑ دیا… سلطان تغلق کا لشکر، مال غنیمت کو ہر جانب تلاش کررہا تھا کہ ان کی نظر اس گہوارے پر پڑی۔ گہوارہ مع بچے کے بادشاہ کے روبرو لایاگیا۔ سلطان تغلق نے اس نوزائیدہ بچے کو دیکھ کر بے حد پسند کیا۔ بادشاہ نے اس خوش نصیب بچے کی باپ کی طرح پرورش شروع کی… سلطان تغلق نے اس فرزند کو تاتار ملک کے نام سے موسوم کیا جو اس عہد میں خُرد سال تھا۔ یہ بچہ جوان ہوا اور سلطان محمد تغلق کے عہد حکومت میں جوان ہوکر مشہور زمانہ ہوا۔ یہ لڑکا دلاوری و زور آزمائی اور شجاعت و بہادری میں یکتائے زمانہ ہوا اور محمد تغلق کے عہد حکومت میں لشکر کشی و فتوحات ملکی میں نادر روزگار خیال کیا جانے لگا، اس شخص نے اپنے زور بازو سے کئی ممالک فتح کئے۔

 فیروز شاہ صحن گلبن کے محل میں دربار کرتا اور بادشاہ کے دائیں جانب جو وزرا کےلیے مخصوص ہے، تاتار خاں کو جگہ عطا ہوئی اور بادشاہ کے بائیں جانب خان جہان مقبول کی جگہ مقرر ہوئی۔ اگرچہ خان جہان مقبول وزیر تھا لیکن بادشاہ کے دائیں جانب تاتارخان ہی کو جگہ عنایت ہوئی۔ تاتار خان کی رحلت کے بعد یہ جگہ خان جہان مقبول کو عطا ہوئی۔

 فیروز شاہ کو تاتارخان پر کلی اعتماد تھا اور بادشاہ امور ملکی میں ہمیشہ تاتارخان سے مشورہ لیا کرتا اور اس امیر کی رائے کے مطابق مہماتِ ملکی کا فیصلہ کرتا اور ان کی بابت احکام جاری کرتا تھا۔ خان ،مذکورہ بادشاہ کا بہی خواہ اور خیر اندیش تھا اور اس کی فطرت بے حد عمدہ و سلیم واقع ہوئی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس امیر کو بے شمار صفات سے آراستہ کیا تھا۔تاتار خان نے توفیق الٰہی سے ملک حجاز کا سفر کیا اور حرمین شریفین کی زیارت کے بعد ہندوستان واپس آیا۔ اس امیر کی صحبت میں ہمیشہ علماء و فضلا کا مجمع رہتا اور تاتارخان اس مقدس گروہ کی عزت کرتا۔ ’’تفسیر تاتارخانی‘‘ جو بہترین و مشہورزمانہ تفسیر ہے، اسی کی جمع کردہ ہے۔ غرض اس امیر کے تمام افعال پسندیدہ تھے اور اللہ تعالیٰ نے اس کو ہر طرح کی خوبی سے آراستہ فرمایا تھا۔ تاتار خان نے جلوسِ فیروز شاہی کے چند سال بعد وفات پائی ‘‘۔(۸)

زیر ِتعارف کتاب:کتاب کا اصل نام ’’ زادالسفر‘‘ یا ’’ زادالمسافر‘‘ ہےلیکن چونکہ مؤلف نے یہ کتاب فیروز شاہ تغلق کے وزیر باتدبیر اور فوجی جرنیل ’’ تاتارخان‘‘ کے ایماء اور فرمائش پر لکھی ہے ،  اس لیے اس کی طرف منسوب کرتے ہوئے اس کا نام ’’ فتاویٰ تاتارخانیہ‘‘ رکھا۔ مؤلف اور امیرتاتارخان کے مابین گہری دوستی تھی اورامیر تاتارخان ایک باذوق اور علمی انسان تھا، اس نے مؤلفؒ سے درخواست کی کہ فقہ کے موضوع پر ایک جامع کتاب مرتب کی جائے جو فقہ حنفی کے تمام مسائل پر حاوی ہو۔ مؤلفؒ نے امیر تاتارخان کی رغبت اوراس کے شوق کو دیکھتے ہوئے کتاب لکھنے کا عزم کیا، امیر تاتارخان نے بھی مؤلف کو مکمل تعاون کی یقین دہانی کروائی اور اس وقت فقہ حنفی کی جتنی کتابیں مطبوعہ یا محظوطہ صورت میں جہاں کہیں بھی موجود تھیں، وہ مؤلف کی خدمت میں پیش کیںلیکن افسوس کہ امیر تاتارخان اپنی حیاتِ مستعار میں اس کتاب کو پورا ہوتا نہ دیکھ سکا اور اس کی وفات کے بعد ۷۷۷ھ میں کتاب پایہ تکمیل کو پہنچی۔علامہ عبدالحئی لکھنوی فتاویٰ تاتارخانیہ کا تعارف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

 ’’عالم کبیر شیخ فرید الدین عالم بن العلاء حنفی اندرپتی کا شمار فقہ ، اصولِ فقہ اور عربی کے ممتاز علماء میں ہوتا ہے ،ان کی ایک تصنیف ’’ فتاویٰ تاتارخانیہ ‘‘ ہے جس کا اصل نام ’’ زاد السفر‘‘ ہے ۔ یہ کتاب سن ۷۷۷ ھ میں امیر تاتار خان کے حکم پر تصنیف کی،جس کی بنا پر ا س کی طرف اس کو منسوب کردیا۔بادشاہ فیروز شاہ کا مطالبہ تھا کہ یہ کتاب اس کی طرف منسوب کی جائے لیکن مصنف ؒنے اس کو قبول نہ کیا‘‘۔(۹)

حاجی خلیفہ کشف الظنون   (۱/۳۲۲ )  میں لکھتے ہیں:

’’ ھو کتاب عظیم فی مجلدات جمع فیہ مسائل المحیط البرہانی، والذخیرۃ، و الخانیۃ، والظہیریۃ، وجعل المیم علامۃ للمحیط، وذکر اسم الباقي، وقدّم بابا فی ذکر العلم، ثم رتّب علی أبواب الہدایۃ،وذکر أنہ أشار إلی جمعہ الخان الأعظم’’تاتارخان‘‘ولم یسم ولذلک اشتہربہ،وقیل:إنہ سمّاہ’’زاد المسافر‘‘۔

سببِ تالیف:مؤلف نے مقدمہ میں کتاب کا سبب تالیف ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’… فقد أشار إليّ مَن إشارتہ حکم ، و طاعتہ غنم ، وأمرہ یتلقّی … أن أتشمّر لجمع کتاب جامع الفتاوی والواقعات حاوي الروایات۔۔ ۔  ‘‘

یعنی ’’مجھے اس کتاب کے لکھنے کا حکم امیر تاتار خان نے دیا کہ ایک ایسی کتاب لکھی جائے جو فقہ حنفی کے تمام مسائل کو حاوی ہواور اس قدر جامع ہو کہ لوگوں کو دوسری کتابوں سے مستغنی کردے ، لہٰذا میں نے امتثالاً للامر فقہ حنفی کی چھوٹی بڑی سینکڑوں کتابوں کو سامنے رکھ کر یہ مجموعہ تیار کیا‘‘۔

مراجع و مصادر :اس کتاب کی تیاری میں مؤلف ؒ کے پیش نظر تقریباً ۱۳۰کتابیں تھیں ، جن میں سے ۳۰کا ذکر خود مؤلف نے مقدمہ میں کیا ہے ، فرماتے ہیں :

’’فجمعت من کل ضخم ، و لطیف حجم ، من المحیط، والذخیرۃ، والفتاوی الخانیۃ، والظہیریۃ، والخلاصۃ، وجامع الفتاوی، والتجرید، والتفرید، والنوازل، والہدایۃ، وشرحَیہا، والوقایۃ، والحاوي، والفتاوی العتابیۃ، والغیاثیۃ، والصیرفیۃ، والسراجیۃ، والنسفیۃ، والحجۃ، والتھذیب، وجامع الجوامع، وفتاوی الناطفي، وخزانۃ الفقہ، والکبری، والصغری،والینابیع، والملتقط، والمختار، والمضمرات، والعیون‘‘۔

یہ تیس کتب تو وہ ہیں جن کا خود مؤلف نے تذکرہ کیا ہے ، اس کے علاوہ تحقیق و تتبع کے نتیجے میں جو کتب سامنے آئیں ہیں ان کی تعداد تقریباً۱۰۰ ہے ، جن کا ذکر محقق نے اپنے مقدمہ میں کیا ہے۔

کتاب کی ترتیب :کتاب کی ابتداء میں مؤلف ؒ نے ایک طویل مقدمہ لکھا ہے جو مندرجہ ذیل سات فصول پر مشتمل ہے:

 ٭…الفصل الأول: في فضیلۃ العلم۔ ٭…الفصل الثاني: في فضل العلم والفقہ، والعالم والمتعلم، والتعلیم والتعلّم۔ ٭…الفصل الثالث: في فرض العین و الکفایۃ من العلوم۔ ٭…الفصل الرابع: في آفۃ العلم۔ ٭…الفصل الخامس: في بیان السنۃ والجماعۃ۔ ٭…الفصل السادس: فیمن یحل لہ الفتوی و من لایحل لہ۔ ٭…الفصل السابع: في آداب المفتي والمستفتي۔

’کتاب الطہارۃ ‘‘تا’’کتاب الوصایا‘‘ مکمل فقہی احکام و مسائل کا ذخیرہ ہے، مسائل نقل کرنے میں مؤلف نے مندرجہ ذیل چار امورکا اہتمام والتزام کیا ہے:

     (۱):… جن جن کتب سے مسائل نقل کئے ہیں، ان کے نام صراحۃً ذکر کئے ہیں۔

     (۲):… صرف نقل مسائل پر ہی اکتفا کیا ہے، نصوص و دلائل کے ذکر کرنے کا اہتمام نہیں کیا۔

     (۳):…بعض اوقات ایک مسئلے کو مختلف کتب سے ذکر کرتے ہیں تو اس صورت میں ہر کتاب کا نام ذکر کرتے ہیں۔

     (۴):…نقل مسائل کے لئے چونکہ مصنف نے ’’ محیط برہانی‘‘ (مؤلفہ برہان الدین محمود بن احمد مازہ بخاری متوفی ۶۱۶ھ) کو اصل بنیاد بنایا ہے، اس بنا پر نقل مسائل میں اس کا ذکر بکثرت آتا ہے تو اس کی طرف اشارہ کرنے کے لئے ’’میم‘‘ کا رمز استعمال کرتے ہیں۔

کتاب کے مسائل و ابواب کی ترتیب ’’ ہدایہ ‘‘ کے مطابق ہے ، مؤلف علام  لکھتے ہیں :

’’ ورَتَّبت أبوابہ علی ترتیب الھدایۃ ‘‘۔

مسائل کی تعداد :ہر جلدکی ابتدامیںبیس جلدوں میں موجود ابواب کی ایک اجمالی فہرست دی گئی ہے، جس میں ہر جلد میں مذکور مسائل کی تعداد کا اندازہ ہوتا ہے ، اس فہرست کے مطابق پوری کتاب میں ۳۳۷۷۸مسائل ہیں ۔ یہ تو صر ف وہ تعداد ہے جو اہم مہم مسائل پر نمبر لگانے سے معلوم ہوتی ہے ، ہر ہر مرقوم مسئلہ کے ذیل میں دسیوں مسائل ہیںجس سے اندازہ لگا یا جاسکتا ہے کہ یہ کتاب لاکھوں مسائل کا مجموعہ اور فقہ حنفی کا عظیم الشان انسائیکلوپیڈیا ہے ۔

مؤلف کا اسلوب و انداز:سب سے پہلے ’’ کتاب ‘‘ کا عنوان قائم کرتے ہیں ، اس کے بعد متعلقہ ’’ کتاب‘‘ کی لغوی ، ا صطلاحی تعریف کرتے ہیں ، اس کے بعد اہم مہم مسائل اور اقسام و غیرہ کو ’’الخلاصۃ ‘‘کے عنوان سے ذکر کرتے ہیں ،اس کے بعد وہ ’’ کتاب ‘‘ جتنی ’’ فصول ‘‘ پر مشتمل ہے ، اس کی تعدا د ذکر کرتے ہیں ، پھر ’’ الفصل الأول ‘‘، ’’ الفصل الثانی‘‘۔ ۔ ۔ کا عنوان قائم کرتے ہیں ، اور ہر ہر فصل کے تحت جتنے مسائل ہیں ان کو ’’ أنواع ‘‘ پر تقسیم کرتے ہیں ، ترتیب اس طرح ہے :

’’کتاب الطھارۃ… المضمرات : الطھارۃ في اللغۃ: النظافۃ ، وفي الشرع : عبارۃ عن غسل الأعضاء مخصوصۃ بصفۃ مخصوصۃ، الخلاصۃ:اعلم بأن الطھارۃ شرط جواز الصلاۃ … ھذا الکتاب یشتمل علی تسعۃ فصول …الفصل الأول :في الوضوء ، وھو یشتمل علی أنواع: نوع منہ في بیان فرائضہ:فنقول : فرض الوضوء: غسل الوجہ …نوع منہ في تعلیم الوضوء… نوع منہ في بیان سنن الوضوء وآدابہ‘‘…ھکذا إلی آخرہ ۔

’’فتاویٰ تاتارخانیہ ‘‘پرتحقیقی کام کی تفصیل:فتاویٰ تاتارخانیہ پر اب تک تین مرحلوں میں کام ہوا ہے۔ابتدائی دو مراحل میں کام اپنی انتہاء کو نہ پہنچ سکا اور آخری مرحلہ میں یہ کام مکمل ہوگیا ، اب تک جو کام ہوئے، اس کی تفصیل یہ ہے :

پہلا مرحلہ:شیخ ابراہیم بن محمد حلبیؒ ( متوفی ۹۵۶ھ) نے ایک جلد میں فتاویٰ تاتارخانیہ کی تلخیص کی ہے اور ایسے نادر اور کثیر الوقوع مسائل کا انتخاب کیا ہے جو کتب متداولہ میں نہیں ہیں اور ہر مسئلے کے لیے کتب کا حوالہ بھی دیا ہے،جیسا کہ حاجی خلیفہ نے لکھا ہے:

’’ ثم إن الإمام إبراہیم بن محمد الحلبي المتوفی سنۃ ست و خمسین و تسع مائۃ، لَخَّصہ في مجلّد وانتخب منہ ماہو غریب أو کثیر الوقوع ولیس في الکتب المتداولۃ، والتزم بتصریح أسامي الکتب، وقال :متی أطلق الخلاصۃ فالمراد بہا شرح التہذیب، وأما المشہورۃ فتقید بالفتاوی‘‘۔(۱۰)

یہ کتاب مخطوطہ اور مطبوعہ دونوں صورتوں میں موجود نہیں ہے ۔

دوسرا مرحلہ:مدرسہ عالیہ دہلی کے رئیس، محقق قاضی سجاد حسین بجنوریؒ(متوفی: ۱۴۱۰ھ ،۱۹۹۰ء) نے پروفیسر خلیق احمد نظامی کے توجہ دلانے پر اس کتاب کی تحقیق و تنقیح شروع کی، ’’ کتاب الطہارۃ‘‘ سے ’’ کتاب البیوع ‘‘کے ’’باب بیع التلجئۃ‘‘ تک آپ کی تحقیق پہنچی تھی کہ آپ کا وقت موعود آ پہنچا اور یہ کام نامکمل رہ گیا ہے۔’’ کتاب الطہارۃ ‘‘تا ’’کتاب الوقف ‘‘ تک پانچ جلدوں میںآپ کا تحقیق کردہ حصہ ہندو پاک کے مختلف مکتبوں سے چھپ چکاہے۔

تیسرا مرحلہ:اب یہ تیسرے مرحلے میں پایہ تکمیل کو پہنچی ہے جو مفتی شبیر احمد قاسمی صاحب مدظلہ (شیخ الحدیث و رئیس دار الافتاء جامعہ قاسمیہ شاہی مراد آباد ، ہندوستان )کی تگ و دو اور محنت و جستجوکے بعد ہماری دسترس میں ہے۔

پیش نظر نسخہ:اس وقت ہمارے پیش نظر مفتی صاحب موصوف کا تحقیق شدہ نسخہ ہے جسےپاکستان میں مکتبہ فاروقیہ، کوئٹہ نے ۲۳جلدوں میں شائع کیا ہے، آخری تین جلدیں فہرست پر مشتمل ہیں۔ فاضل محقق نے کتاب کی تحقیق و تعلیق میں درج ذیل امور کا اہتمام کیا ہے :

(۱): … مخطوطات کی طرف مراجعت کا خصوصی اہتمام کیا ہے ، دورانِ تحقیق محقق کے پیش نظر چھ نسخے تھے:

(الف)مخطوطہ قسطنطنیہ:یہ مخطوطہ مکمل ہے اور۸ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے ۔ اس کی کتابت کے واضح ہونے کی بنا پرفاضل محقق نے اسی مخطوطے کو بنیاد بنا کر تحقیقی عمل سر انجام دیاہے۔

(ب)مکتبہ رضا کانپور، انڈیا میں موجود مخطوطہ:یہ مخطوطہ جہازی سائز کی دو جلدوں میں ہے، اس مخطوطے میں بھی اغلاط کم ہیںلیکن خط بہت باریک ہے جس کی بناء پر پڑھنا دشوار ہے۔

(ج) سالارجھنگ میں محفوظ مخطوطہ:اس کا خط عمدہ اور صاف ہے لیکن اکثر جگہ عبارت واضح نہیں، جس کی بناپر غلطی کا اندیشہ ہے ، اغلاط کی تو بھر مار ہے ۔فاضل مؤلف فرماتے ہیں کہ کثرت ِاغلاط کی بنا پر اس نسخہ پر بالکل اعتماد و اعتبار نہیں کیا۔

(د)مکتبہ خدا بخش ، پٹنہ، بہار میں موجود مخطوطہ:اس کا خط بھی واضح اور صاف ہے لیکن تمام الفاظ غیر منقوط ہیں اور غلطیاں بھی کافی ہیں۔

(ھ)مخطوطہ نشاشیبی:اس کا خط عجیب و غریب اور بے ڈھنگا ہے۔ جس کی بناپر اس سے استفادہ کرنا مشکل ہے۔

(و)قاضی سجاد حسین کا تحقیق شدہ مطبوعہ نسخہ:فاضل محقق فرماتے ہیں کہ اس مطبوعہ نسخہ سے جس قدر ہوسکا خوب نفع اٹھایا۔

فتاویٰ تاتار خانیہ کی اس عظیم الشان خدمت پرفاضل محقق اہل علم کی جانب سے مبارکباد کے مستحق ہیں۔ وقت تالیف سے لے کر آج تک اس شاندار انداز میںیہ کتاب منصہ شہود پرنہیں آئی۔مصنف کے زمانہ تصنیف سے آج تقریباً ساڑھے چھ سو سال بعد تحقیق و تعلیق کے زیور سے آراستہ ہو کر یہ کتاب طبع ہوکر پر آئی ہے،محقق موصوف نے اس کتاب کی تحقیق تعلیق میںمسلسل تین سال محنت کی ہے ،ان کی یہ خدمت علماء و فقہائے اسلام کی ایک دیرینہ خواہش کی تکمیل ہے ۔جزاہ اللہ عنا و عن جمیع المسلمین أحسن الجزاء

 

٭…٭…٭

حوالہ جات:

(۱)(نزہۃ الخواطر:۲/۱۴۸،دار ابن حزم، کشف الظنون: ۱/۳۲۲،دارالکتب العلمیۃ، بیروت،  ہدیۃ العارفین:۲/۳۰۹،دارإحیاء التراث العربی،بیروت، معجم المؤلفین:۵/۵۲، دارإحیاء التراث العربي،بیروت)

(۲)(کشف الظنون: ۱/۳۲۲)

(۳)(کشف الظنون: ۲/۲۴۸)

(۴)(تاریخ فرشتہ :۱؍۳۱۹،۳۲۸،المیزان ،لاہور)

(۵)(نز ھۃ الخواطر:۲/۱۷۰)

(۶)(آثار الصنادید:دوسرا باب ، ص:6,7)

(۷)( واقعات دارالحکومت دہلی ،ص:20)

(۸) برصغیر میں علم فقہ :۱۴۰،کتاب سرائے ،لاہور،نزہۃ الخواطر:۲/۱۴۸)

(۹)(نزھۃ الخواطر:۲/۱۶۹)

(۱۰)(کشف الظنون :۱/۳۲۲ )

شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2024

تبصرے

يجب أن تكون عضوا لدينا لتتمكن من التعليق

إنشاء حساب

يستغرق التسجيل بضع ثوان فقط

سجل حسابا جديدا

تسجيل الدخول

تملك حسابا مسجّلا بالفعل؟

سجل دخولك الآن
ویب سائٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اس سائٹ کے مضامین تجارتی مقاصد کے لئے نقل کرنا یا چھاپنا ممنوع ہے، البتہ غیر تجارتی مقاصد کے لیئے ویب سائٹ کا حوالہ دے کر نشر کرنے کی اجازت ہے.
ویب سائٹ میں شامل مواد کے حقوق Creative Commons license CC-BY-NC کے تحت محفوظ ہیں
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2024