علم الصرف اور علم الاشتقاق کا ایک مختصر تعارف

وفاق المدارس العربیہ پاکستان میں جو نصاب پڑھایا جاتا ہے اس کا مأخذ درس نظامی کا نصاب ہے۔ درس نظامی کے بانی ملا نظام الدین سہالوی لکھنوی تھے، جن کا مرکز فرنگی محل لکھنو تھا۔ وقت اور حالات کے تقاضوں کے مطابق اس میں تبدیلی ہوتی رہی، مگر اصل ڈھانچہ اسی طرح باقی ہے۔اس میں ایک خاص ترتیب کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے، جس کے ذریعے مبتدی کو قرآن و حدیث کے فہم میں سہولت اور آسانی ہوجاتی ہے۔

علم الصرف کی اہمیت:

احکامِ شریعت سمجھنے کے لیے جہاں دیگر علومِ اسلامیہ کی اہمیت ہے، وہاں عربی زبان سیکھنے کے لیے ‘‘ فن صرف’’ کو بنیادی درجہ حاصل ہے ۔جب تک کوئی شخص اس فن میں مہارت تامہ حاصل نہ کرے اس وقت تک اس کے لیے علومِ اسلامیہ میں دسترس تو کجا پیش رفت ہی ممکن نہیں۔ قرآن وسنت کے علوم سمجھنے کے لیے یہ ہنر شرطِ لازم ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مدارسِ اسلامیہ میں اس فن کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔اس کی تدریس وتفہیم کے لیے ماہر اور صاحب فن اساتذہ کا انتخاب کیا جاتا ہے۔مولانا یوسف بنوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:’’فہم قرآن کے لیے علوم عربیّت کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت ہے۔ان علوم میں مہارت کے بغیر فہم القرآن کا دعویٰ مضحکہ خیز ہے۔ان علوم عربیّت میں’’علم الصرف‘‘ بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔‘‘(علم الصیغہ[اردو]:۵)

علم الصرف کی بنیای باتیں:

علم الصرف کا لغوی معنی ہے:’’الصرف والتصریف.پھیرنا۔‘‘اصطلاحی تعریف ہے:

’’۱)ھو علم بأصول یعرف بھا أحوال أبنیۃ الکلم الثلٰث من حیث التخفیف والإبدال والحذف وغیرھا.‘‘ترجمہ:’’صرف چند قوانین کا وہ علم ہے جن کے ذریعے تینوں کلموں کے احوال باعتبار تخفیف، ابدال اور حذف وغیرہ کے پہچانے جاتے ہیں۔‘‘ایک دوسری تعریف یہ کی گئی ہے:

’’۲) ھو علم یبحث فیہ عن الاعراض الذاتیۃ لمفردات کلام العرب من حیث صورھا وھیئاتھا کلاعلال و الادغام.‘‘

ترجمہ:’’علم صرف وہ علم ہے جس میں عربی کلمات مفردہ کے عوارض ذاتیہ سے بحیثیت صورت و ہیئت بحث کی جاتی ہے۔‘‘اس کاموضوع ہے:

۱)الکلمۃ من حیث الصیغۃ والبناء. ترجمہ:کلمہ صیغہ اور بناء کے اعتبار سے۔بعض نے اس کا موضوع یوں بیان کیا ہے:

۲)المفردات المخصوصۃ من الحیثیۃ المذکورۃ.ترجمہ:کلام عر ب کے مفردات صورت کی حیثیت سے۔اس کی غرض:

’’تحصیل ملکۃ یعرف بھا ما ذکر من الأحوال. ترجمہ:ایسا ملکہ حاصل کر لیا جائے جس کے ذریعے مفردات کے احوال مذکورہ یعنی ان کے عوارض ذاتیہ صورت کی حیثیت سے پہچانے جائیں۔ اس کی غایت ہے:

۱)صیانۃ الذھن عن الخطاء اللفظی فی کلام العرب من حیث الصیغۃ.ترجمہ:کلام عرب میں صیغے کے اعتبار سے ذہن کو غلطی سے بچانا۔

علم الاشتقاق کی بنیادی باتیں:

یہاں یہ بات ذین نشین رہے کہ علم الصرف کے ضمن میں علم الاشتقاق بھی پڑھایا جاتا ہے۔ان دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔یہ ایک دوسرے کے بغیر نامکمل ہیں۔عموماًان دونوں فنون کو ایک شمار کیا جاتا ہے؛ جب کہ باریک فرق کی وجہ سے یہ ایک دوسرے سے جدا ہیں۔ان کی تعریفات سے یہ فرق بالکل واضح ہے۔ اشتقاق کالغوی معنی ہے:الشق أی الخرق.پھاڑنا۔اس کی اصطلاحی تعریف ہے:ھو علم بتحویل الأصل الواحد الیٰ أمثلۃ مختلفۃ لمعان مقصودۃ.ترجمہ:وہ علم ہے کہ جس میں اصل واحد کی تحویل کے ساتھ مختلف امثلہ کی طرف پھیر کر مقصودی معنی حاصل کیے جاتے ہیں۔اس کا موضوع ہے:مفردات کلام العرب من حیث الأصالۃ والفرعیۃ فی الجوھر.ترجمہ:عربی کلام کے مفردات جوہر میں اصل و فرع ہونے کے اعتبار سے۔اس کی غرض ہے:تحصیل ملکۃ یعرف بھا الانتساب علی وجہ الصواب.ترجمہ:ایسا ملکہ حاصل کیا جائے جس کے ذریعے بعض کلمات کی طرف اصالت کی اور بعض کی طرف فرعیت کی نسبت صحیح طریقے سے کی جاسکے۔اس کی غایت ہے:الاحتراز عن الخلل فی الانتساب.ترجمہ:کلمات کی طرف اصالت اور فرعیت کی طرف نسبت میں غلطی سے بچنا۔

علم الصرف کے مدوّن اوّل:

یہ فن پہلی صدی ہجری میں علم النحو کے ساتھ مدوّن کیا گیا تھا۔بعد میں دوسری یا تیسری صدی ہجری میں اسے ایک مستقل فن کی حیثیت حاصل ہوئی اور اس کے مسائل و احکام کو الگ سے تدوین کیا گیا۔مشہور قول کے مطابق اس فن کے مدوّن اوّل ابو عثمان بکر المازنی رحمہ اللہ ہیں۔ان کی تاریخ وفات ۱۴۸ ؁ھ یا ۲۴۹ ؁ھ ہے۔نحو کے مشہور امام، امام اخفش رحمہ اللہ کے شاگرد تھے۔ان کی علوم میں پختگی کافی مشہور تھی۔اما م مبرّد رحمہ اللہ کا قول ہے:’’سیبویہ کے بعد ابو عثمان سے زیادہ نحو کا کوئی بڑا عالم نہیں۔‘‘ان کی مشہور تصنیفات کتاب القرآن، علل النحو، تفاسیر کتاب سیبویہ، ما یلحن فیہ العامۃ، التصریف، الالف و اللام، العروض، القوافی اور الدیباج فی کتاب سیبویہ ہیں۔
مفتی رفیع عثمانی صاحب زید مجدہم علم الصیغہ[اردو] کے مقدمہ میں اس کے بعد فرماتے ہیں:یہ تو مشہور قول تھا جو کشف الظنون اور مفتاح السعادۃ میں ذکر ہے لیکن ناچیز کی تحقیق یہ ہے کہ فنِ صرف کے مدوّن اوّل ابو عثمان المازنی رحمہ اللہ نہیں، بل کہ ان سے ایک صدی قبل امام اعظم ابو حنیفہ النعمان بن ثابت رحمہ اللہ (متوفی:۱۵۰ ؁ھ) ہیں۔جو فقہ کے مدوّن اوّل ہونے کے علاوہ فن صرف میں بھی ایک مستقل رسالہ تصنیف فرما چکے تھے۔رسالے کا نام’’المقصود‘‘ ہے جو مصر کے مشہور مکتبہ ومطبعہ مصطفیٰ البابی الحلبی سے ۱۳۵۹ ؁ھ بمطابق ۱۹۴۰ ؁ء میں طبع ہوا ہے۔احقر کو یہ رسالہ مکہ مکرمہ میں ایک کتب فروش سے ۱۳۸۴ ؁ھ میں ملا تھا۔‘‘آگے فرماتے ہیں کہ اس رسالے کے ساتھ اس کی تین شروحات(المطلوب، امعان الانظار اور روح الشروح) بھی شائع ہوئی ہیں۔

علم الصرف کی نصابی کتب:

درس نظامی کے آٹھ سالہ کورس میں پہلے[اولیٰ] اور دوسرے[ثانیہ] سال میں علم الصرف کی تعلیم دی جاتی ہے۔علم الصرف عربی زبان کی گرائمر ہے جس میں چند گردانیں اور قوانین ہوتے ہیں، جنہیں سمجھا کر یاد کروا دیا جاتا ہے اور پھر ان کا خوب اجراء کرایا جاتا ہے۔پہلے سال[اولیٰ] میں علم الصرف(اوّلین اور آخیرین)، صفوۃ المصادر، ابواب الصرف اور ارشاد الصرف پڑھائی جاتی ہیں۔ دوسرے سال[ثانیہ] میں علم الصیغہ بمع خاصیات ابواب پڑھائی جاتی ہے۔پہلے سال کا امتحان چوں کہ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے تحت نہیں ہوتا اس لیے بعض مدارس میں ’’قانونچہ کامروی‘‘ وغیرہ بھی پڑھایا جاتا ہے۔ذیل میں ان نصابی کتب کے مصنفین کے مختصر حالات زندگی اپنی کتاب’’تذکرۃ المصنفین و تعریفات العلوم‘‘ سے درج کیے جاتے ہیں۔

صاحب ارشاد الصرف:

نام:مولانا خدا بخش صاحب رحمہ اللہ۔مصنف کے حالات بارے میں اکثر نے سکوت اختیار کیا ہے۔البتہ ’’خیر الزاد‘‘ کے مؤلف ’’عبد الرشید بلال صاحب‘‘ لکھتے ہیں کہ میں نے خود سندھ جاکر تحقیق کی تو مفتی غلام قادر صاحب ؒ [شیخ الحدیث مدرسہ اسلامیہ دار الھدیٰ ٹھیڑی سندھ] نے ارشاد فرمایا کہ:ارشاد الصرف کے مصنف مولانا غلام غوث ہزارویؒ کے علاقے کے رہنے والے مولانا حافظ خدا بخش ہزاروی ثم السندھی شہیدِ کشمیرؒ ہیں؛ جو سندھ میں ’’جھنڈا پیر‘‘ کے مشہور مدرسہ میں پڑھاتے رہے۔پاکستان بننے کے متصل بعد جہادِ کشمیر میں اکبر علی خان مرحوم کی کمانڈ میں جہاد کرتے ہوئے شہید ہوگئے۔ آپ انتہائی نیک سیرت، بہت محنتی اور زیرک استاد تھے۔اپنے اساتذہ کرام پر احقاق حق و ابطال باطل کی خاطر عجیب و غریب سوالات کرتے تھے؛ اسی وجہ سے اپنے ہم عصروں میں ’’سؤّل‘‘[زیادہ سوال کرنے والا] مشہور ہوئے۔‘‘

صاحب علم الصرف اور صفوۃ المصادر:

نام:مشتاق احمد۔نسبت:چرتھاؤلی[چرتھاول ضلع مظفر نگر، بھارت] تعلیم: آپ نے درسی کتب مولانا نظام الدین کیرانوی رحمہ اللہ سے پڑھیں۔بعد میں ’’اجمیر‘‘ جاکر سند فراغت حاصل کی۔تدریس:دہلی سے عملی زندگی کا آغاز کیا۔کچھ عرصہ احمد آباد چلے گئے۔وہاں سے رنگون اور پھر دہلی۔آخر میں مستقل دارالعلوم دیوبند منتقل ہوگئے اور تصنیفی زندگی شروع کی۔’’اشاعت ادب‘‘ کے نام سے اپنے ایک کتب خانے کی بنیاد رکھی۔ وفات:۱۹۵۲ ؁ء/۱۳۷۲ ؁ھ کو دیوبند میں۔تصنیفات:عربی کا آسان قاعدہ، علم الصرف (چار حصے)، علم النحو مع الترکیب، عوامل النحو، عربی گفت گو نامہ، عربی صفوۃ المصادر، فارسی زبان کا آسان قاعدہ، فارسی بول چال، لطائف فارسی، صرف و نحو فارسی۔

صاحب تیسیر الابواب:

نام:خیر محمد بن الٰہی بخش بن خدا بخش۔نسبت:جالندھری۔پیدائش:۱۳۱۳ ؁ھ /۱۸۹۵ ؁ء کو اپنے ماموں کے گھر جالندھر میں۔تعلیم:ابتدائی کتب اپنے ماموں سے پڑھیں۔۱۳۳۲ ؁ھ/۱۹۰۵ ؁ء کو مدرسہ رشیدیہ جالندھر میں داخلہ لیا۔ایک سال یہاں پڑھنے کے بعد مدرسہ صابریہ چلے گئے۔۱۳۲۸ ؁ھ تک یہیں پڑھا، پھر بلند شہر کے مدرسہ منہج العلوم میں منتقل ہوگئے۔آخر میں مدرسہ اشاعت العلوم بانس بریلی سے ۱۳۳۵ ؁ھ میں سند فراغت حاصل کی۔ اساتذہ:مولانا فضل محمد، مولانا فقیر اللہ، مولانا سلطان احمد، مولانا محمد یاسین سرہندی، مولانا عبد الرحمان سلطان پوری، مولانا سلطان احمد پشاوری، مولانا سلطان احمد بریلوی رحمہم اللہ۔تدریس:مدرسہ اشاعت العلوم سے فراغت کے بعد ایک سال وہیں پڑھایا۔پھر مدرسہ منڈی صادق گنج میں کچھ عرصہ پڑھایا اور صدر مدرس رہے۔پھر اساتذہ نے جالندھر کے ’’مدرسہ عربیہ فیض محمدی‘‘ کی سرپرستی آپ کے حوالے کر دی۔۱۹؍شوال ۱۳۴۹ ؁ھ/۹؍مارچ ۱۹۳۱ ؁ء کو اپنے شیخ مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کے مشورہ پر جالندھر میں مدرسہ ’’خیر المدارس‘‘ کی بنیاد رکھی۔۱۳۶۶ ؁ھ/ ۱۹۴۷ ؁ء کو جب پاکستان بنا تو آپ نے مدرسے کو پاکستان منتقل کردیا، جو تاحال قائم ہے۔وفات: ۲۰؍ شعبان ۱۳۹۰ ؁ھ۔ تصنیفات:افادات و نکات تفسیریہ، دروس فی علوم القرآن، خیر الاصول فی حدیث الرسول، خیر التنقید فی سیر التقلید، خیر الارشاد الی التقلید و الاجتھاد، شبھات فی مسئلۃ التقلید وکشفھا، خیر المصابیح فی عدد التراویح، مسائل صلاۃ التراویح، خیر الوسیلۃ، خیر الجواب فی ایصال الثواب، میزات الفقہ الحنفی، ترجمۃ موجزۃ للامام الاعظم ابی حنیفہ النعمان بن ثابت رحمہ اللہ، تسہیل المبتدی اور تیسیر الابواب۔

صاحب علم الصیغہ:

نام:عنایت احمد۔نسبت:الدیوی ثم الکاکوروی۔پیدائش:۹؍شوال ۱۲۲۸ ؁ھ بہ مطابق اکتوبر ۱۸۱۳ ؁ء کو دیوہ ضلع بارہ بنکی میں۔اساتذہ:سید محمد بریلوی، مولانا حیدر علی ٹونکی،مولانا نور الاسلام دھلوی، شیخ اسحاق بن افضل عمری اور شیخ بزرگ علی مارہروی رحمہم اللہ۔قید و بند:نواب خان بہادر نے روہیل میں عَلم جہاد بلند کیا تو آپ نے مالی تعاون کا فتوی دیا، جو بعد میں انگریز کے ہاتھ لگا اور آپ کو قید کر کے کالا پانی جزیرے کی جیل میں ڈال دیا گیا۔جزیرہ کے حاکم کو تقویم البلدان کا ترجمہ ہندی زبان میں کروانا تھا۔آپ نے وہ ترجمہ کیا، جس سے خوش ہوکر آپ کو رہا کر دیا گیا۔وفات:۱۷؍شوال۱۸۹۹ ؁ھ بہ مطابق ۷؍اپریل۱۸۶۳ ؁ء کو بحری جہاز پر حج کے لیے جاتے ہوئے راستے میں جہاز کے ڈوبنے پر زندگی کی بازی ہار گئے۔تصنیفات:علم الصیغہ، علم الفرائض، رسالۃ فی فضل لیلۃ القدر، رسالۃ فی فضل العلم والعلماء، الاربعین من احادیث النبی الامین ﷺاور تاریخ حبیب اللہ فی سیرۃ النبی ﷺ وغیرہ۔

علم الصرف کی بنیادی اور قدیم کتب:

۱)المقصود:لامام الاعظم ابو حنیفۃؒ [متوفی۱۵۰ھ]،

۲)التصریف:لأبی عثمان المازنیؒ [متوفی:۲۴۹ھ]،

۳)التکملۃ:لأبی علی الفارسیؒ [متوفی:۳۷۷ھ]،

۴)التصریف الملوکی:لأبی الفتح ابن جنیّؒ [متوفی: ۳۹۲ھ]،

۵)المفتاح فی الصرف:لعبد القاہر الجرجانیؒ [متوفی:۴۷۱ ؁ھ]،

۶)الوجیز فی علم التصریف:لأبی البرکات الأنباریؒ [متوفی:۵۷۷ھ]،

۷)التتمّۃ فی التصریف:لابن القبیصیؒ [متوفی:ساتوں صدی کے شروع میں

۸)نزہۃالطرف فی علم الصرف:للمیدانیؒ [متوفی: ۵۱۸ھ]،

۹) الممتع:لابن عصفورؒ [متوفی:۶۶۹]،

۱۰)الشافیۃ:لابن الحاجبؒ [متوفی:۶۴۶ھ]،

۱۱) مراح الأرواح ؒ :أحمد المسعودی،

۱۲) المغنی فی تصریف الأفعال :محمد عبد الخالق عضیمۃؒ ،

۱۳) جامع الدروس العربیۃ :الشیخ مصطفی الغلایینیؒ ۔

احتشام الحسن ، چکوال

مدّرس:جامعہ اظہار الاسلام(جدید)چکوال
کل مواد : 10
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2025

تبصرے

يجب أن تكون عضوا لدينا لتتمكن من التعليق

إنشاء حساب

يستغرق التسجيل بضع ثوان فقط

سجل حسابا جديدا

تسجيل الدخول

تملك حسابا مسجّلا بالفعل؟

سجل دخولك الآن
ویب سائٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اس سائٹ کے مضامین تجارتی مقاصد کے لئے نقل کرنا یا چھاپنا ممنوع ہے، البتہ غیر تجارتی مقاصد کے لیئے ویب سائٹ کا حوالہ دے کر نشر کرنے کی اجازت ہے.
ویب سائٹ میں شامل مواد کے حقوق Creative Commons license CC-BY-NC کے تحت محفوظ ہیں
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2025