حضرات صحابہ کرام پر لکھی جانے والی کتابوں کا مختصر تعارف نامہ

اللہ جل شانہ نے نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی مخلصانہ رفاقت کے لیے جن خوش نصیب ہستیوں کا انتخاب کیا وہ کائنات میں انبیاء کے بعد سب سے افضل ہیں, انھیں اس سعادت کی بدولت بخشش کا پروانہ دیا گیا اور ان اوصاف سے نوازا گیا جو کائنات کی سب سے بہترین ہستی کی رفاقت پانے والوں کے شایان شان ہو......... ایمان ، اخلاص ، وفا ، اتباع ، ایثار ، عمل ، کردار ، جانثاری ، پلٹنا ،جھپٹنا ، جینا اور مرنا...یعنی سب کچھ اشارہ آبروئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نچھاور کرنے والے وہ مردان خدامست و خود آگاہ ، پیغمبرانہ تعلیمات کے علم بردار اور خدائی صداقتوں کے امین........ جانباز صحابہ جن کی جہاد زندگانی کی لازوال قربانیوں کی بدولت آج دین اسلام اپنی اصلی شکل وصورت میں موجود ہے........ ان رجال با صفا سے عشق و محبت اللہ کا تحفہ اور قدرت کی طرف سے قابل رشک نصیبہ ہے ، جسے نصیب ہو اس پر شکر کرے.......... اور جتنا کرے کم ہے!!

حضرات صحابہ کے تعارف اور زندگی پر سب سے پہلے کتاب امام بخاری رحمہ اللہ نے لکھی ہے ، " اسامی الصحابہ " کے نام سے ، اس کے بعد اپنے اپنے زمانہ میں علماء ، محدثین اور سوانح نگار اس موضوع پر لکھتے رہے ہیں........ تیسری صدی ہجری میں مشہور مورخ خلیفہ بن خیاط ، ابو بکر بن ابی خیثمہ اور ابن سعد نے لکھا......... چوتھی صدی ہجری میں امام بغوی ، ابن شاہین ، ابن حبان ، طبرانی ، ابن قانع اور ابن مندہ نے اس موضوع پر قلم اٹھایا........ پانچویں صدی ہجری میں ابو نعیم اصفہانی ، علامہ ابن عبد البر اور چھٹی صدی میں ابن عساکر نے صحابہ کے تعارف اور سوانح پر کتابیں لکھیں

لیکن اس موضوع پر سب سے زیادہ شہرت اور مقبولیت تین کتابوں کو حاصل ہوئی ، ایک علامہ ابن عبد البر کی الاستیعاب ، دوم ، علامہ ابن اثیر کی اسد الغابہ اور سوم حافظ ابن حجر کی الاصابہ ، ان تینوں کتابوں کے اردو تراجم ہو چکے ہیں

ابن عبد البر کی تین کتابوں
نے انھیں دوام بخشا ، ایک موطا امام مالک کی شرح " التمہید" دوسری کتاب علم کے آداب و فضیلت پر " جامع بیان العلم وفضلہ " اور تیسری کتاب " الاستیعاب فی اسماء الاصحاب " اس کتاب میں ساڑھے تین ہزار صحابہ کا تذکرہ ہے......... یہ قرطبہ کی یادگار ہیں ، مسلمانوں کی شاندار تاریخ کا مدفن اور علمی میراث کا امین.......وہ جو کسی نے کہا تھا وہاں کی فضاؤں میں:....پوشیدہ تیری خاک میں سجدوں کے نشاں ہیں ، خاموش اذانیں ہیں تیری باد سحر میں! ....اندلس ہی کے چھٹی صدی ہجری کے ایک عالم ابن فتحون نے استیعاب کا ذیل و ضمیمہ لکھ کر اس پر کافی اضافہ کیا

دوسری کتاب "اسد الغابہ " ہے جو ساتویں صدی ہجری کے مشہور مورخ علامہ ابن اثیر نے لکھی ہے اور اس میں انھوں نے سات ہزار پانچ سو چون صحابہ کا تذکرہ کیا ہے ، علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے اس کی تجرید کی ہے اور اس پر اضافہ کیا ہے

تیسری کتاب نویں صدی ہجری کے شہرہ آفاق مصنف ، شارح بخاری حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی ہے ، انہوں نے اس موضوع پر سابقہ تمام کتابوں کو سامنے رکھ کر " الاصابہ" کے نام سے حضرات صحابہ کے حالات و واقعات پر شاندار کتاب لکھی جو اس وقت اس موضوع پر ایک بنیادی مرجع کی حیثیت رکھتی ہے، انہوں نے آٹھ سو نو ہجری میں اس کتاب کا آغاز کیا اور آٹھ سو سینتالیس میں اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا یعنی چالیس سال کا عرصہ انھوں نے اس کی تالیف میں لگایا ، اس میں انہوں نے بارہ ہزار چار سو چھتیس صحابہ اور صحابیات کا ذکر کیا ہے ، ان کا کہنا ہے کہ یہ تعداد اصل صحابہ کے دسویں حصے کے برابر بھی نہیں ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حجہ الوداع کے موقع پر صحابہ کی تعداد سوا لاکھ کے قریب تھی!!

اردو زبان میں دار المصنفین نے" سیر الصحابہ" کے عنوان سے صحابہ رض کا تعارفی سلسلہ شروع کیا تھا جو گیارہ جلدوں میں شائع ہوا ، جس کا اکثر حصہ شاہ معین الدین ندوی نے لکھا ہے....... مولانا یوسف کاندھلوی رحمہ اللہ کی " حیات الصحابہ" بہت عام و مقبول ہے ، انہوں نے اس کتاب میں حضرات صحابہ کی اخلاقی زندگی کے پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے ، رافت پاشا کی " صور من حیات الصحابہ" بھی اسی طرح کی کاوش ہے ، حضرات صحابہ رض کے اخلاق ، دنیا سے بے رغبتی ، خوف آخرت اور ایثار و قربانی کے واقعات کو بطور خاص اس میں جمع کیا ہے ، ......طالب ہاشمی مرحوم نے بھی اپنے عام فہم اسلوب میں سینکڑوں صحابہ و صحابیات کے حالات پر مختلف کتابیں لکھیں.

" کاروان جنت" کے نام سے علامہ عبداللہ احمد پوری نے ان ایک سو تئیس صحابہ کے حالات لکھے جو مبشرین فی الجنت تھے یعنی جن کو دنیا ہی میں ، زبان رسالتماب صلی اللہ علیہ وسلم سے جنت کی خوش خبری دی گئی ۔

برادرم مولانا جمیل الرحمان عباسی نے " وہ پروانے محمد ص کے" ۔۔۔۔ کے نام سے شمع رسالت پر جان کے نذرانے کو اپنی نجات وسعادت کا ذریعہ سمجھنے والے پچاس کے قریب صحابہ کرام کا تذکرہ کیا اور یوں انہوں نے بھی اپنا نام " خریداران یوسف" میں شامل کردیاہے

حاصل ان سب کتابوں اور تحریروں کا یہ ہے کہ نور نبوت سے براہ راست فیض حاصل کرنے والے حجاز مقدس کے یہ سعادت مند ، ایمان کا معیار اور رسالت کا حسن ہیں ، جہالت کی شب ظلمت ،میں صبح کے تارے اور گمراہی کے گھپ اندھیاروں میں ہدایت کے نجوم و ستارے ہیں..۔ جن کی زندگیاں ، آج کی زوال پذیر امت مرحومہ کے ماضی کی دلکش داستاں ہیں.... ایک ایسی داستاں جس کا آغاز فاران کی چوٹیوں سے ہوا اور رفعت افلاک ، آج تک اس کی تکبیر مسلسل سے گونج رہی ہے:

ہاں دکھا دے اے تصور! پھر وہ صبح و شام تو
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو !

شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2025

تبصرے

يجب أن تكون عضوا لدينا لتتمكن من التعليق

إنشاء حساب

يستغرق التسجيل بضع ثوان فقط

سجل حسابا جديدا

تسجيل الدخول

تملك حسابا مسجّلا بالفعل؟

سجل دخولك الآن
ویب سائٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اس سائٹ کے مضامین تجارتی مقاصد کے لئے نقل کرنا یا چھاپنا ممنوع ہے، البتہ غیر تجارتی مقاصد کے لیئے ویب سائٹ کا حوالہ دے کر نشر کرنے کی اجازت ہے.
ویب سائٹ میں شامل مواد کے حقوق Creative Commons license CC-BY-NC کے تحت محفوظ ہیں
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2025