فضائل صحابہ رضی اللہ عنہم واہل بیت اطہار

صحابی  رضی اللہ عنہ کی تعریف:

صحابی کی متفقہ تعریف جو جمہور محدثین وفقہاء کے نزدیک معتبر ومستند ہے، وہ حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ نے ذکر فرمائی ہے:

’’وهو من لقي النبي صلی الله علیه وسلم مؤمنا به، ومات علی الإسلام‘‘    

(نزہۃ النظر فی توضیح نخبۃ الفکر ص:۱۴۰، ط: مطبع سفیر،ریاض)

’’صحابی رضی اللہ عنہ وہ ہے جس کی نبی کریم ﷺسے ایمان کی حالت میں ملاقات ہوئی، اور اسلام پر اس کی وفات ہوئی ہو۔‘‘

صحابہ کا اجمالی تعارف:

صحابہ کرام رضوان رضی اللہ عنہم وہ بزرگ ہستیاں تھیں جن کو رب العالمین نے اپنے نبی کی صحبت کے لئے چن لیا ، ان کی آنکھوں نے نبی کو دیکھا ، انہوں نے نبی سے سیکھا ، اسلام کے لئے انہوں نے بڑی قربانیاں دیں ، اسلام کے لئے سب کچھ چھوڑا ان کا جینا اور مرنا اللہ ہی کے لئے تھا " محياي ومماتي لله رب العالمین " کی وہ اچھی اور سچی تصویر تھے ۔ قرآن انہوں نے یاد کیا ، ضبط صدر بھی کیا اور ضبط کتاب بھی ، حدیثوں کو یاد کیا اور ہم تک پہنچایا ۔ دین کے لئے سب کچھ قربان کیا پھر ہم تک اسلام پہنچا وہ رهبان باللیل تھے اور فرسان بالنھار بھی ،ان کی عظمت کی گواہی زمین بھی دے رہی ہے اور آسمان بھی ۔ ان کی فضیلت کے گن آفتاب بھی گارہا ہے اور ماہتاب بھی ، اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لئے ان نفوس قدسیہ نے سمندر میں بھی گھوڑے دوڑائے اور جب فارسی مجوسیوں نے یہ منظر دیکھا تو " دیو آمدند دیو آمدند " کہتے ہوئے بھاگے۔

             دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے                        بحر ظلمات میں دوڑا دئے گھوڑے ہم نے

قرآن کے اولین مخاطب وہی تھے،وہ اپنوں پر نرم تھے تو غیروں پر گرم:

" أشداء على الكفار ، رحماء بينهم"

انہیں کے ایمان کو قرآن نے معیار و میزان قرار دیا ۔انہیں کو "يؤثرون على أنفسهم ولو كان بهم خصاصة" کے وصف سےمتصف کیا ، وہ خود نہیں کھاتے تھے دوسروں کو کھلادیتے تھے ، ان کے یہ کارنامے دیکھ رب العالمین بھی خوش ہوتا تھا ۔

ان کا زمانہ " خیر القرون " اور وہ " خير أمة " قرار پائے ۔ان کے فکر و فہم اور طرز عمل ، طریق حیات سے اعراض کرنے والوں کوقرآن نے " سفھاء " کہا ہے ۔ان کے کارناموں سے ان کا رب راضی ہوا اور وہ بھی اپنے رب سے راضی ہوئے۔

ہم مسلمان ہیں انہیں کے طفیل   ۔ہم تک اسلام آیا انہیں کے طفیل .قرآن پڑھتے ہیں انہیں کے طفیل .

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم" بشر" تھے مگر وہ “خیر البشر" کےتربیت یافتہ تھے ۔ وہ اسی دنیا میں تھے مگر ان کا زمانہ "خیر القرون" تھااور وہ “خیر امت" تھے ۔ انہوں نے نبی ﷺسے قرآن سیکھا اور دنیا والوں کو سکھایا۔ ان کے بعد آنے والے لوگ ان کی خاکِ پا کے برابر بھی نہیں ہوسکتے ۔ ہم پہاڑ کے برابر خرچ کرکے ان کے معمولی خرچ کو بھی نہیں پہنچ سکتے ۔

ان میں سے کتنوں کو نبی سے جنت کی بشارت ملی ۔کوئی "صدیق" ہے ، "یار غار" ہے ، سفر وحضر میں آپ کا "رفیق" ہے ، سفرہجرت میں “ہم سفر“ ہے ۔کسی کو دیکھ کر شیطان بھاگتا ہے اور ان کی تائید وموافقت میں قرآن کی آیتیں نازل ہوتی ہیں ۔کوئی "ذی النورین" اور "شرم وحیا کا پیکر" ہے ۔کوئی " حیدر " اور " فاتح خیبر"کوئی "امین امت" ہے،کوئی "حواری رسول" ہے ، اور نبی ان کو اپنی زبان پاک سے "فداك أبي و أمي" فرمايا ا ور کوئی "ريحانة الرسول" ہے۔ کوئی "سیف من سيوف الله " اورکوئی "حب رسول" ہے ۔کوئی ’’مصلح بين الفئتين" ہے ۔کوئی "فقیہ " ہے۔کسی کو جبریل سلام کہہ رہے ہیں  ۔کسی کی موت پر رحمن کا عرش حرکت میں آجاتا ہے ۔کوئی نبی کا "رازداں" ہے۔ ان کی تفصیلات  قرآ ن مقدس اورکتب احادیث ميں منتشر ہیں۔

قرآن مقد س میں صحابہ کا ذکر مبارک:

اللہ تعالی ان سے راضی وہ اللہ سے راضی:

وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ۔

ترجمہ: اور مہاجرین اور انصار میں سے جو لوگ سبقت لے جانے والے ہیں اور وہ لوگ جنہوں نے اخلاص کے ساتھ ان کی پیروی کی، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ اور اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ تیار کیے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں ان میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہ بڑی کامیابی ہے۔(سوره توبہ آیت 100)

سبقت لے جانے والے مہاجرین اور انصار صحابہ رضی اللہ عنہم اور ان کی اتباع کرنے والوں سے اللہ تعالیٰ راضی ہے۔

صحابہ کا ذکر قرآن مجید و دیگر کتب سماویہ میں:

مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا.

ترجمہ: محمدﷺاللہ کے رسول ہیں، اور جو لوگ آپ کے ساتھ ہیں وہ کافروں پر سخت ہیں، آپس میں مہربان ہیں، اے مخاطب تو انہیں اس حال میں دیکھے گا کہ وہ کبھی رکوع میں ہیں، کبھی سجود میں ہیں، وہ اللہ کے فضل اور رضا مندی کو تلاش کرتے ہیں، ان کی شان یہ ہے کہ ان کے چہروں میں سجدوں کے نشان ہیں، ان کی یہ مثال توریت میں ہے، اور انجیل میں ان کا یہ وصف ہے کہ جیسی کھیتی ہو اس نے اپنی سوئی نکالی پھر اس نے اسے قوی کیا پھر وہ کھیتی موٹی ہوگئی پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہوگئی جو کسانوں کو بھلی معلوم ہونے لگی، تاکہ اللہ ان کے ذریعے کافروں کے دلوں کو جلائے، اللہ نے ان لوگوں سے جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ فرمایا ہے۔(فتح آیت 29)

محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ آپ کے ساتھ ہیں وہ کافروں پر سخت ہیں اور آپس میں ایک دوسرے پر رحم کرنے والے ہیں، اس مضمون کو سورة مائدہ میں ﴿اَذِلّة عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزّة عَلَی الْكٰفِرِیْنَ﴾ میں بھی بیان کیا ہے، اہل ایمان کی یہ شان ہے کہ کافروں کے مقابلہ میں سخت رہیں اور آپس میں ایک دوسرے پر رحم کریں یہ صفت حضرات صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) میں بہت زیادہ نمایاں تھیں۔

 حضرات صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) کی دوسری صفت یہ بیان فرمائی ﴿ تَرٰىهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا ﴾ اے مخاطب تو ان کو اس حال میں دیکھے گا کہ کبھی رکوع کیے ہوئے کبھی سجدہ کیے ہوئے اس میں کثرت سے نماز پڑھنا اور نمازوں پر مداومت کرنا نوافل کا اہتمام کرنا راتوں کو نمازوں میں کھڑا ہونا سب داخل ہے۔

 تیسری صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا ﴿يَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانًا ﴾ (یہ حضرات اللہ کا فضل اور اس کی رضا مندی تلاش کرتے ہیں) جو اعمال اختیار کرتے ہیں ان کے ذریعہ کوئی دنیاوی مقصد سامنے نہیں ہے ان کے اعمال اللہ کا فضل تلاش کرنے اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہیں۔

 چوتھی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا ﴿سِيْمَاهُمْ فِيْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ ﴾ اس کا مطلب بتاتے ہوئے صاحب معالم التنزیل نے بہت سے اقوال نقل کیے ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے جو ظاہر لفظوں سے سمجھ میں آ رہا ہے کہ مٹی پر سجدہ کرنے کی وجہ سے ان کے ہاتھوں پر کچھ مٹی لگ جاتی ہے اور بعض حضرات نے یہ نقل کیا ہے کہ قیامت کے دن ان لوگوں کے چہرے روشن ہوں گے ان کے ذریعہ پہچانے جائیں گے کہ یہ لوگ نماز پڑھنے میں زیادہ مشغول رہتے تھے اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ اس سے اچھی عادت اور خصلت اور خشوع و تواضع مراد ہے جو لوگ کثرت سے نماز پڑھتے ہیں انہیں جو نماز کی برکات حاصل ہوتی ہیں ان میں سے ایک بہت بڑی صفت خوش خلقی اور تواضع بھی ہے ان کے چہروں سے ان کی یہ صفت واضح ہوجاتی ہے۔

 پھر فرمایا ﴿ ذٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرٰىةِ ﴾ (ان کی مذکورہ صفت توریت میں بھی بیان کی گئی ہے) پھر انجیل میں جو ان کی صفت بیان کی گئی اس کو بیان فرمایا ارشاد ہے ﴿ وَ مَثَلُهُمْ فِي الْاِنْجِيْلِ كَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْـَٔه ﴾ کہ انجیل میں ان لوگوں کی مثال یہ ہے کہ جیسے کسان نے نرم زمین میں بیج ڈالا اس زمین سے کھیتی کی سوئی نکلی یعنی ہلکا بہت پتلا تنا ظاہر ہوا، پھر یہ آگے بڑھا تو اس میں قوت آگئی پھر اور آگے بڑھا تو موٹا ہوگیا ان حالتوں سے گزر کر اب وہ ٹھیک طریقے سے اپنی پنڈلی پر اچھی طرح کھڑا ہوگیا اب یہ ہرا بھرا بھی ہے اندر سے نکل کر بڑھ بھی چکا ہے اور اس کا تنا اپنی جڑ پر کھڑا ہے کسان لوگ اسے دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہے ہیں اس مثال میں یہ بتادیا کہ محمد رسول اللہ (ﷺ) کے صحابہ اولاً تھوڑے سے ہوں گے پھر بڑھتے رہیں گے اور کثیر ہوجائیں گے اور مجموعی حیثیت سے وہ ایک بڑی قوت بن جائیں گے چناچہ ایسا ہی ہوا حضرات صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) پہلے تھوڑے سے تھے پھر بڑھتے رہے بڑھتے بڑھتے ہزاروں ہوگئے زمانہ نبوت ہی میں ایک لاکھ سے زیادہ ان کی تعداد ہوگئی پھر انہوں نے دین اسلام کو خوب پھیلایا قیصر و کسریٰ کے تخت الٹ دئیے ان کے مقابلہ میں کوئی جماعت جم نہیں سکتی تھی۔

 ﴿لِيَغِيْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کو بڑھایا قوت و طاقت سے نوازا تاکہ ان کے ذریعہ کافروں کے دلوں کو جلا دے کافروں کو یہ گوارا نہیں تھا اور نہ اب گوارا ہے کہ اسلام اور مسلمان پھیلیں پھولیں لیکن اللہ تعالیٰ نے اسلام کو بھی بڑھا دیا اور مسلمانوں کو بھی قوت دے دی جیسا کہ سورة الصف میں فرمایا ﴿يُرِيْدُوْنَ اَنْ يُّطْفِـٔوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ وَ يَاْبَى اللّٰهُ اِلَّا اَنْ يُّتِمَّ نُوْرَه وَ لَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ  هُوَ الَّذِيْ اَرْسَلَ رَسُوْلَه بالْهُدٰى وَ دِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَه عَلَى الدِّيْنِ كُلِّه  وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ﴾ (یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے مونہوں سے بجھا دیں اور اللہ اپنے نور کو پورا کرنے والا ہے اگرچہ کافروں کو ناگوار ہو اللہ وہی ہے جس نے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے سب پر غالب فرما دے اگرچہ مشرکوں کو ناگوار ہو)  ﴿وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْهُمْ مَّغْفِرَةً وَّ اَجْرًا عَظِيْمًا﴾ اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا کہ جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیے ان کی مغفرت ہوگی اور انہیں اجر عظیم دیا جائے گا) یہ بات بطور قاعدہ کلیہ بیان فرمائی ہے لفظوں کا عموم حضرات صحابہ کو بھی شامل ہے اور ان کے بعد آنے والے اعمال صالحہ والے مومنین کو بھی۔(انوار البیان)

ہر صحابی جنتی ہے:

وَكُلّا ‌وَعَدَ اللَّهُ ٱلحُسنَى  [النساء: 95]  یعنی ان سب سے اللہ تعالیٰ نے حسنیٰ کا وعدہ کیا ہے۔ یعنی ایمان کی وجہ سے جنت دینے کا۔(تفسیر مظہری)

صحابہ کی پیروی کا حکم ربانی:

(۱)  فَاِنْ آمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ آمَنْتُمْ بِه فَقَدِ اْهَتدَوْا۔ (البقرة: ۱۳۷)

ترجمہ:  اگر یہ (غیرمسلم) اسی طرح ایمان لے آئیں جیسے تم (اے صحابہ) ایمان لائے ہو، تو انہیں ہدایت مل جائے گی۔

اللہ تعالی نے دل صحابہ میں ایمان راسخ کیا اور گناہ سے نفرت ڈال دی:

وَلٰكنَّ اللّٰه حَبَّبَ اِلَیْكمُ الْاِیْمَانَ وَزَیَّنَه فِیْ قُلُوْبِكمْ وَكرَّه اِلَیْكمُ الْكفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْیَانَ، اُولٰٓئِك همُ الرَّاشِدُوْنَ۔ فَضْلاً مِنَ اللّٰه وَنِعْمة۔ (الحجرات: ۷-۸)

ترجمہ:  لیکن اللہ نے تم کو ایمان کی محبت عطا کردی، ایمان کو تمہارے لئے دل پسند بنادیا، اور تم کو کفر، فسق اور نافرمانی سے متنفر کردیا، یہ (صحابہ رضی اللہ عنہم) اللہ کے فضل وانعام سے راہِ راست پر ہیں ۔

اس وجہ سے  ارشاد نبوی ہے:

مَنْ أَحَبَّ لِلّٰه وَأَبْغَضَ لِلّٰه فَقَدْ اسْتَكمَلَ الْاِیْمَانَ۔ (بخاری)

ترجمہ:  جو اللہ کے لئے محبت کرے، اور اللہ کے لئے دشمنی کرے، اس کا ایمان مکمل ہے۔

مذکورہ آیت میں صحابہ کا یہی امتیاز بنایا گیا ہے کہ ان کی محبت وعداوت، دوستی ودشمنی، تعلق وبے تعلقی کے تمام جذبات ورجحانات صرف اللہ کی مرضی کے تابع تھے، جس سے ان کے ایمان کے کمال واستحکام کا اندازہ کیاجاسکتا ہے۔

صحابہ اپنے ماں باپ اور اولاد سے بھی زیادہ محبت  رسول اللہ ﷺ سے کرتے ہیں:

لَا تَجِدُ قَوْماً یُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰه وَالْیَوْمِ الآخِرِ یُوَادُّوْنَ مَنْ حَادَّ اللّٰه وَرَسُوْلَه وَلَوْ كانُوْا آبَائهمْ أَوْ اَبْنَآ ئَهمْ أَوْ اِخْوَانَهمْ اَوْ عَشِیْرَتَهمْ، اُولٰٓئِك كتَبَ فِیْ قُلُوْبِهمُ الْاِیْمَانَ وَاَیَّدَهمْ بِرُوْحٍ مِنْه، وَیُدْخِلُهمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِها الْاَنْهٰرُ خَالِدِیْنَ فِیْها، رَضِیَ اللّٰه عَنْهمْ وَرَضُوْا عَنْه، اُولٰٓئِك حِزْبُ اللّٰه، اَلاَ اِنَّ حِزْبَ اللّٰه همُ الْمُفْلِحُوْنَ۔ (المجادلة: ۲۲)

ترجمہ:  تم کبھی یہ نہ پاؤگے کہ جو لوگ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والے ہیں ، وہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہوں جنہوں نے اللہ ورسول کی مخالفت کی ہو، خواہ وہ ان کے باپ ہوں یا بیٹے، یا بھائی یا اہل خاندان، یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان ثبت اور نقش کردیا ہے، اور ان کے قلوب کو اپنے فیض سے قوت دی ہے، اور ان کو ایسے باغات میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے، اللہ ان سے راضی ہوگیا ہے، اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے ہیں ، یہ اللہ کا گروہ ہے، یاد رکھو کہ ا للہ کا گروہ ہی فلاح پانے والا ہے۔

اِس آیت میں صحابہ کی ایمانی قوت اور دینی تصلب کا بڑے واضح اور بلند الفاظ میں ذکر فرمایا گیا ہے، اسی قوتِ ایمانی کا مظہر یہ تھا کہ صحابہ نے ایمان کی راہ میں قریب سے قریب تر رشتہ دار اور اہل تعلق سے ناطہ توڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، اسی ایمان کی بدولت راہِ حق کی تمام قربانیاں ان کے لئے سہل ہوگئی تھیں ۔

صحابہ بہترین افراد ہیں:

كنْتُمْ خَیْرَ اُمّة اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهوْنَ عَنِ الْمُنْكرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰه.(آل عمران: ۱۱۰)

یعنی  تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے نفع کے لئے برپا کی گئی ہے، تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔

یہاں بھی اولین خطاب صحابہ کو ہے، اور معرفت حق کا عظیم کارنامہ انجام دینے کی بنیاد پر وہ ’’خیر امت‘‘ اور ’’امت وسط‘‘ کے امتیازی القاب کے اولین مصداق بنے، اور ان کے ایمان کو کامل قرار دیا گیا۔

صحابہ کی تجارت ان کو اللہ عبادت سے نہیں روکتی:

یُسَبِّحُ لَه فِیْها بِالْغُدُوِّ وَالآصَالِ، رِجَالٌ لاَّ تُلْهیْهمْ تِجَارة وَلاَ بَیْعٌ عَنْ ذِكرِ اللّٰه وَاِقَامِ الصَّلَاة وَاِیْتَائِ الزَّكاة، یَخَافُوْنَ یَوْماً تَتَقَلَّبُ فِیْه الْقُلُوْبُ وَالْاَبْصَارُ۔                           (النور: ۳۶-۳۷)

ترجمہ:  ان (مسجدوں ) میں صبح وشام وہ (صحابہ رضی اللہ عنہم) تسبیح کرتے ہیں ، جن کو کوئی تجارت یا کوئی خرید وفروخت نہ اللہ کی یاد سے غافل کرتی ہے، نہ نماز قائم کرنے سے، نہ زکاۃ ادا کرنے سے، وہ اس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس میں دل اور نگاہیں الٹ پلٹ کر رہ جائیں گی۔اس  آیت میں صحابہ رضی اللہ عنہم کے ذوقِ عبادت، ذکر الٰہی اور تسبیح ومناجات کے اہتمام کی صراحت فرمائی گئی ہے۔

صحابہ کے دل تقوی سے معمور ہیں:

ایمانی زندگی کی اساس اور بنیاد تقویٰ ہے، جو انتہائی جامع اور ہمہ گیر مفہوم کی حامل حقیقت ہے، حضراتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سیرت وحیات تقویٰ کی شاہ کار سیرت وحیات ہے، قرآن وسنت اور احادیث وآثار میں اس کی صراحت مختلف انداز واسلوب میں آئی ہے۔اُولٰئِك الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰه قُلُوْبَهمْ لِلتَّقْویٰ، لَهمْ مَغْفِرة وَاَجْرٌ عَظِیْمٌ۔ (الحجرات: ۳)

ترجمہ:  یہ (صحابہ رضی اللہ عنہم) وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کے لئے جانچ لیا ہے (اور خاص کرلیا ہے) ان کے لئے مغفرت اور عظیم اجر ہے۔

وَاَلْزَمَهمْ كلِمة التَّقْویٰ وَكانُوْا اَحَقَّ بِها وَاَهلَها۔ (الفتح: ۲۶)

ترجمہ:  اور اللہ نے ان (صحابہ رضی اللہ عنہم) کو تقوے کی بات پر جمائے رکھا، اور وہی اس کے زیادہ حق دار اور اہل تھے۔

احادیث نبویہ میں ذکر صحابہ رضی اللہ عنہم:

آیاتِ قرآنیہ کے علاوہ احادیث نبویہ  میں جابجا جماعت صحابہ کا تذکرہ ملتا ہے۔

میرے صحابہ رضی اللہ عنہم میری امت کے لئے امن وسلامتی کا باعث ہیں:

عن أبي بردة عن أبيه قال : رفع - يعني النبي ﷺ - رأسه إلى السماء.. فَقَالَ: «النُّجُومُ أَمَنَةٌ لِلسَّمَاءِ، فَإِذَا ذَهَبَتِ النُّجُومُ أَتَى السَّمَاءَ مَا تُوعَدُ، وَأَنَا أَمَنَةٌ لِأَصْحَابِي، فَإِذَا ذَهَبْتُ أَتَى أَصْحَابِي مَا يُوعَدُونَ، وَأَصْحَابِي أَمَنَةٌ لِأُمَّتِي، فَإِذَا ذَهَبَ أَصْحَابِي أَتَى أُمَّتِي مَا يُوعَدُونَ». (رواه مسلم برقم 2531)

ترجمہ:حضرت ابوبردہ  ؓ  اپنے والد (حضرت ابوموسیٰ اشعری ) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے یعنی حضرت ابوموسی نے بیان کیا کہ (ایک دن ) نبی کریم ﷺ نے آسمان کی طرف اپنا سر مبارک اٹھایا اور آپ ﷺ اکثر (وحی کے انتظار میں ) آسمان کی طرف دیکھا کرتے تھے اور پھر فرمایا: ستارے آسمان کے لئے امن وسلامتی کا باعث ہیں جس وقت یہ ستارے جاتے رہیں گے تو آسمان کے لئے وہ چیز آجائے گی جو موعود ومقدر ہے ، میں اپنے صحابہ کے لئے امن وسلامتی کا باعث ہوں ، جب میں (اس دنیا سے) چلا جاؤں گا تو میرے صحابہ میری امت کے لئے امن وسلامتی کا باعث ہیں جب میرے صحابہ (اس دنیا سے ) رخصت ہوجائیں گے تو میری امت پر وہ چیز آپڑے گی جو موعود ومقدر ہے ۔" (مسلم )

صحابہ رضی اللہ عنہم کا زمانہ بہترین زمانہ ہے:

عن عمران بن حصين خَيْرُ أُمَّتي قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، (صحيح البخاري الرقم 6035)

ترجمہ:

حضرت عمران ابن حصین رضی اللہ عنہ   کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا " میری امت کے بہترین لوگ میرے قرن کے لوگ (یعنی صحابہ ہیں پھر وہ لوگ جو ان سے متصل ہیں (یعنی تابعی ) اور پھر وہ لوگ جو ان سے متصل ہیں ۔

" قرن " عہد زمانہ کو کہتے ہیں ، جس کی مقدار بعض حضرات نے چالیس سال ، بعض نے اسی سال اور بعض نے سو سال مقرر کی ہے آنحضرت ﷺ کے قرن سے مراد صحابہ کا قرن ہے ۔ اس قرن کی ابتدازمانہ رسالت سے ہوتی ہے اور اس کا آخر وہ زمانہ ہے جب تک کہ ایک صحابی بھی دنیا میں باقی رہا یعنی ١٢٠ھ تک ۔(مظاہر حق)

کوئی صحابی رضی اللہ عنہ جہنمی نہیں ہے:

عن جابر عن النبي ﷺ قال : " لا تمس النار مسلما رآني أو رأى من رآني " . رواه الترمذي

ترجمہ:

حضرت جابر رضی اللہ عنہ  نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا " اس مسلمان کو ( دوزخ کی ) آگ نہ چھوئے گی جس نے مجھ کو دیکھا ہو یا اس شخص کو دیکھا ہو جس نے مجھ کو دیکھا ۔" (ترمذی )

مطلب یہ کہ جس شخص نے آنحضرت ﷺ کو دیکھا یا آنحضرت ﷺ کو دیکھنے والے یعنی صحابی کو دیکھا وہ جنت میں جائے گا،بشرطیکہ اس کا خاتمہ ایمان واسلام پر ہوا ہو، اس شرط کی بنیاد پر (کہ خاتمہ ایمان واسلام پر ہوا ہو ) آنحضرت ﷺ کی اس بشارت کی پیش نظر صحابی وتابعی تو جنتی ہیں لیکن حق تعالیٰ کے فضل سے امید ہے کہ ہر مسلمان جنتی ہے ۔

 واضح رہے کہ کسی کے جنتی ہونے کی امید رکھی جاتی ہے جو ایمان واسلام کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوا لیکن کچھ مخصوص لوگ ایسے ہیں جن کے جنتی ہونے کی واضح بشارت آنحضرت ﷺ نے اس طرح دی ہے کہ اسی دنیا میں بتایا جا سکتا ہے کہ یہ لوگ یقینی طور پر جنتی ہیں جیسے عشرہ مبشرہ ، یا جیسے صحابہ وتابعین کے بارے میں آپ ﷺ نے اس حدیث میں عمومی بشارت عطا فرمائی ہے ، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ ﷺ کی بشارت دوسرے مسلمان محروم ہیں ۔(مطاہر حق)

جس نے میرے صحابہ کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی:

عن عبد الله بن مغفل قال : قال رسول الله ﷺ : " الله الله في أصحابي لا تتخذوهم غرضا من بعدي فمن أحبهم فبحبي أحبهم ومن أبغضهم فببغضي أبغضهم ومن آذاهم فقد آذاني ومن آذاني فقد آذى الله ومن آذى الله فيوشك أن يأخذه " . رواه الترمذي

ترجمہ:

اور حضرت عبداللہ ابن مغفل رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ ( پوری امت کو خطاب کر کے) فرمایا : اللہ سے ڈرو، پھر اللہ سے ڈرو میرے صحابہ کے حق میں ، میرے بعد تم ان (صحابہ رضی اللہ عنہم ) کو نشانہ ملامت نہ بنانا (یاد رکھو) جو شخص ان کو دوست رکھتا ہے ، تو میری وجہ سے ان کو دوست رکھتا ہے اور جو شخص ان سے دشمنی رکھتا ہے ، تو وہ مجھ سے دشمنی رکھنے کے سبب ان کو دشمن رکھتا ہے ۔ اور جس شخص نے ان کو اذیت پہنچائی اس نے گویا مجھ کو اذیت پہنچائی اور جس شخص نے مجھ کو اذیت پہنچائی اس نے گویا اللہ کو اذیت پہنچائی اور جس شخص نے اللہ کو اذیت پہنچائی تو وہ دن دور نہیں جب اللہ اس کو پکڑے گا ۔"

یہ وہ حدیث مبارکہ ہے جو ہر جمعہ مبارک کو ہر خطیب  اپنے خطبہ میں  پڑھتا ہے۔ہمیں اس کا معنی اچھی طرح  یاد رکھنا  ہوگا۔

میرا صحابہ رضی اللہ عنہم ستاروں کی مانند ہیں:

عن عمر بن الخطاب قال : سمعت رسول الله ﷺ يقول : " سألت ربي عن اختلاف أصحابي من بعدي فأوحى إلي : يا محمد إن أصحابك عندي بمنزلة النجوم في السماء بعضها أقوى من بعض ولكل نور فمن أخذ بشيء مما هم عليه من اختلافهم فهو عندي على هدى " قال : وقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " أصحابي كالنجوم فبأيهم اقتديتم اهتديتم " .(  مشكوة ،رواه رزين)

ترجمہ: حضرت عمر بن خطاب  ؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا میں نے اپنے پروردگار سے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان اختلاف کے بارے میں پوچھا جو (شریعت کے فروعی مسائل میں ) میرے بعد واقع ہوگا ؟ تو اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ مجھ کو آگاہ کیا کہ اے محمد !( ﷺ ) حقیقت یہ ہے کہ تمہارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میرے نزدیک ایسے ہیں جیسے آسمان پر ستارے، (جس طرح) ان ستاروں میں سے اگرچہ بعض زیادہ قوی یعنی زیادہ روشن ہیں لیکن نور (روشنی ) ان میں سے ہر ایک میں ہے (اسی طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے ہر ایک اپنے اپنے مرتبہ اور اپنی اپنی استعداد کے مطابق نور ہدایت رکھتا ہے ) پس جس شخص نے (علمی وفقہی مسائل میں ) ان اختلاف میں سے جس چیز کو بھی اختیار کر لیا میرے نزدیک وہ ہدایت پر ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں اور رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ " میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں (پس تم ان کی پیروی کرو) ان میں سے تم جس کی بھی پیروی کرو گے ہدایت پاؤ گے ۔ (رزین)

شان صحابہ حضرت علی رضی اللہ عنہ  کی زبانی:

حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اپنے خطاب میں ارشاد فرمایا:

لَقَدْ رَأَیْتُ اَصْحَابَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰه عَلَیْه وَسَلَّمَ، فَمَا أَریٰ أَحَداً یُشْبِههمْ مِنْكمْ، لَقَدْ كانُوْا یُصْبِحُوْنَ شُعْثاً غُبْراً، وَقَدْ بَاتُوْا سُجَّداً وَقِیَاماً، یُرَاوِحُوْنَ بَیْنَ جِبَاههمْ وَخُدُوْدِهمْ، وَیَقْضُوْنَ عَلیٰ مِثْلِ الْجَمْرِ مِنْ ذِكرِ مَعَادِهمْ، كأَنَّ بَیْنَ أَعْیُنِهمْ رُكبَ الْمِعْزیٰ مِنْ طُوْلِ سُجُوْدِهمْ، إِذَا ذُكرَ اللّٰه همَلَتْ أَعْیُنُهمْ حَتّٰی تَبُلَّ جُیُوْبُهمْ، وَمَادُوْا كمَا یَمِیْدُ الشَّجَرُ یَوْمَ الرِّیْحِ الْعَاصِفِ، خَوْفاً مِنَ الْعِقَابِ وَرَجَائً لِلثَّوَابِ، مُرْه الْعُیُوْنِ مِنَ الْبُكائِ، خُمْصَ الْبُطُوْنِ مِنَ الصِّیَامِ، ذُبْلَ الشِّفَاه مِنَ الدُّعَائِ، صُفْرَ الأَلْوَانِ مِنَ السَّهرِ، عَلیٰ وُجُوْههمْ غَبَرَةُ الْخَاشِعِیْنْ، اُولٰئِك اِخْوَانِيْ الذَّاهبُوْنَ، فَحَقٌّ لَنَا اَنْ نَظْمَأَ إِلَیْهمْ، وَنَعَضَّ الأَیْدِیَ عَلیٰ فِرَاقِهمْ۔ (نہج البلاغۃ: ۱۴۳ور۱۷۷)

ترجمہ:  میں نے رسول اللہ ﷺکے صحابہ کی ایسی شان دیکھی ہے کہ میں تم سے کسی کو ان کے مشابہ نہیں پاتا، وہ صبح اس حال میں نظر آتے تھے کہ ان کے بال بکھرے ہوئے ہوتے، غبار آلود ہوتے، رات انہوں نے سجدے اور قیام میں گذاری ہوتی، کبھی اپنی پیشانیوں پر جھکے ہوتے تھے، کبھی اپنے رخساروں پر، قیامت کی یاد سے ایسے بے چین نظر آتے تھے جیسے انگاروں پر کھڑے ہوں ، ان کی پیشانی (کثرت وطولِ سجود سے) ایسی سخت وخشک معلوم ہوتی تھی جیسے بکری کی ٹانگ، اللہ کا نام لیا جاتا تو ان کی آنکھیں ایسی اشک بار ہوجاتیں کہ ان کے گریبان ودامان تر ہوجاتے، اور وہ اس طرح سزا کے خوف اور ثواب کی امید میں لرزتے ہوئے نظر آتے، جیسے تیز آندھی کے وقت درخت، ان کی آنکھیں فرطِ گریہ سے سفید تھیں ، ان کے پیٹ روزوں کی وجہ سے پیٹھ سے لگے ہوئے ہوتے، ان کے ہوٹ دعا سے خشک ہوتے، ان کے رنگ بے خوابی اور بیداری کی وجہ سے زرد ہوتے، ان کے چہروں پر اہل خشیت کی اداسی ہوتی، یہ میرے وہ بھائی ہیں جو دنیا سے چلے گئے، ہم کو حق ہے کہ ہم میں ان سے ملنے کی پیاس پیدا ہو، اور ہم ان کی جدائی پر ہاتھ مَلیں ۔

صحابہ کے کردار اور عبادت وعمل اور سیرت وحیات کی منظر کشی اس سے زیادہ جامع، حقیقت پسندانہ اور اعلیٰ الفاظ واسلوب میں نہیں کی جاسکتی۔حاصل یہ کہ انبیاء کے بعد صحابہ کرام کی جماعت انسانی عالمی مرقع کی سب سے حسین ودل آویز تصویر کہلانے کی مستحق ہے، اِس جماعت کا ہرہر فرد فیض نبوی کی وجہ سے نبوت کا شاہکار اور پوری نسل انسانی کے لئے باعث شرف وافتخار ہے، اور بقول حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ:

’’انسانیت کے مرقع میں ؛ بلکہ اس پوری کائنات میں پیغمبروں کو چھوڑکر اس سے زیادہ حسین وجمیل، اس سے زیادہ دل کش ودل آویز تصویر نہیں ملتی، جو صحابہ کی زندگی میں نظر آتی ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت ایک ایسا انسانی مجموعہ تھا، جس میں نبوت کے اعجاز نے متضاد انسانی کمالات پیدا کردئے تھے، ان کا معاشرہ جس کی بنیاد صحبت نبوی، تربیت ایمانی اور تعلیماتِ قرآنی پر پڑی تھی، ایک بے خار انسانی گلدستہ تھا، جس کا ہر پھول اور ہر پتّی اس کے لئے باعث زینت تھی‘‘۔ (دو متضاد تصویریں ۱۸و۴۲)

صحابہ منتخب شخصیات ہیں:

علامہ ذہبیؒ نے اپنی ’’کتاب الکبائر‘‘ میں ’’اَلْكبِیْرُة السَّبْعُوْنَ: سَبٌّ اَحَدٍ مِنَ الصَّحَابة: (سترواں کبیرہ گناہ: صحابہ میں سے کسی کو برا کہنا) کا عنوان قائم کیا ہے، اور متعدد احادیث کی روشنی میں واضح طور پر ثابت فرمایا ہے کہ حضرات صحابہ کی شان میں معمولی گستاخی بھی بدترین گناہ اور سنگین جرم ہے، انہوں نے یہ حدیث بھی پیش کی ہے کہ آپ ﷺکا ارشاد ہے:

اِنَّ اللّٰه اخْتَارَنِیْ وَاخْتَارَلِیْ اَصْحَاباً، فَجَعَلَ لِیْ مِنْهمْ وُزَرَائَ وَأَنْصَاراً وَأَصْهاراً، فَمَنْ سَبَّهمْ فَعَلَیْه لَعْنة اللّٰه وَالْمَلاَ ئِكة وَالنَّاسِ أَجْمَعِیْنَ، لاَ یَقْبَلُ اللّٰه مَعَه یَوْمَ الْقِیَامة صَرْفاً وَلَا عَدْلاً۔ (كتاب الكبائر للذهبی)

ترجمہ:  بلاشبہ اللہ نے مجھے منتخب فرمایا ہے، اور میرے لئے صحابہ منتخب فرمادئے، پھر ان میں سے میرے لئے وزیر، مددگار اور سسرالی رشتہ کے قرابت دار بنادئے، پس جو ان کو برا کہے، اس پر اللہ، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے، اللہ اس سے قیامت کے دن نہ فرض قبول فرمائے گا اور نہ نفل۔

صحابہ کی تنقیص  کرنے کا نقصان:

مشہور محدث امام ابوزرعہ رازیؒ تحریر فرماتے ہیں :

اِذَا رَأَیْتَ الرَّجُلَ یَنْتَقِصُ اَحَداً مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰه صَلَّی اللّٰه عَلَیْه وَسَلَّمَ فَاعْلَمْ أَنَّه زِنْدِیْقٌ، وَذٰلِك أَنَّ الرَّسُوْلَ حَقٌّ، وَالْقُرْآنَ حَقٌّ، وَمَا جَائَ بِه حَقٌّ، وَاِنَّمَا رَویٰ إِلَیْنَا ذٰلِك كلَّه الصَّحَابة، وَهٰؤُلاَئِ یُرِیْدُوْنَ أَنْ یَجْرَحُوْا الصَّحَابة لِیُبْطِلُوْا الْكتَابَ وَالسُّنّة، فَهمْ زَنَادِقة۔(الاصابۃ: ۱؍۱۱)

ترجمہ:  جب تم کسی شخص کو دیکھو کہ وہ صحابہ کرام میں سے کسی کی تنقیص کررہا ہے، تو سمجھ لو کہ وہ زندیق ہے، ایسا اس لئے ہے کہ رسول برحق ہیں ، قرآن برحق ہے، رسول کی لائی ہوئی تعلیمات برحق ہیں ، اور یہ سب چیزیں ہم تک صحابہ کی روایت سے ہی پہنچی ہیں ، اب یہ (مخالفین) کتاب وسنت کو باطل کرنے کے لئے صحابہ کو مجروح کرنا چاہتے ہیں ؛ اس لئے یہ زندیق ہیں ۔

امام نووی ؒشرح مسلم میں وضاحت کرتے ہیں :

وَاعْلَمْ اَنَّ سَبَّ الصَّحَابة حَرَامٌ مِنْ فَوَاحِشِ الْمُحَرَّمَاتِ۔ (صحیح مسلم مع شرح نووی: ۲؍۳۱۰)

ترجمہ:  جان کہ صحابہ کو برا کہنا حرام ہے، انتہائی بے ہودہ عمل اور سخت ممنوع ہے۔

اہل بیت

اہل بیت رسول ﷺ کا اطلاق کن کن پر ہوتا ہے:

" اہل بیت " یعنی آنحضرت ﷺ کے گھر والوں " سے کون کون لوگ مراد ہیں ؟ اس بارے میں مختلف روایتیں ہیں ۔ اہل بیت کا اطلاق ان لوگوں پر بھی آیا ہے جن کو زکوۃ کا مال لینا حرام ہے یعنی بنو ہاشم اور ان میں آل عباس ، آل جعفر اور آل عقیل شامل ہیں ۔ بعض روایتوں میں آنحضرت ﷺ کے اہل وعیال کو " اہل بیت " کہا گیا ہے جن میں ازواج مطہرات یقینی طور پر شامل ہیں ، لہٰذا جو لوگ ازواج مطہرات کو اہل بیت سے خارج قرار دیتے ہیں وہ مکابرہ کا شکار ہیں اور قرآن کریم کی اس آیت (لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا) (الاحزاب : 23) ۔سے اپنا اختلاف ظاہر کرتے ہیں کیونکہ جب اس سے پہلے بھی اور بعد میں بھی ازواج مطہرات ہی کو مخاطب تو پھر ان کو (یعنی ازواج مطہرات کو ) درمیان آیت کے مضمون (اہل البیت ) اور اس کے مصداق میں شامل نہ کرنا آیت کو اس کے عبارتی تسلسل اور معنوی سیاق وسباق سے الگ کردینا ہے ۔

چنانچہ امام محمد فخرالدین رازی نے لکھا ہے کہ " یہ آیت آنحضرت ﷺ کی ازواج مطہرات کو شامل ہے کیونکہ آیت کا سیاق وسباق پوری شدت سے اس کا متقاضی ہے پس ازواج مطہرات کو اہل بیت کے مصداق سے خارج کرنا اور ان کے علاوہ دوسروں کو اس مصداق کے ساتھ مختص کرنا صحیح نہیں ہوگا ۔

 امام رازی آگے لکھتے ہیں ۔ یہ کہنا زیادہ بہتر اور اولی ہے کہ " اہل بیت " کا مصداق آنحضرت ﷺ کی اولاد اور ازواج مطہرات ہیں اور ان میں حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین بھی شامل ہیں ، نیز حضرت علی رضی اللہ عنہ  بھی آنحضرت ﷺ سے خصوصی نسبت وتعلق اور خانگی قرب رکھنے کے سبب اہل بیت میں سے ہیں ، تاہم بعض مواقع پر اہل بیت کا اطلاق اس طرح بھی آیا ہے کہ جس سے بظاہر یہ مفہوم ہوتا ہے کہ اس کا مصداق صرف فاطمہ زہرا ، علی مرتضی ، حسن اور حسین ہیں جیسے حضرت انس کی روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ جب نماز فجر کے لئے مسجد میں آتے تو راستہ میں حضرت فاطمہ کے گھر کے سامنے سے گزرتے ہوئے یوں فرماتے الصلوة یااهل البیت ، انما یرید الله لیذهب عنكم الرجس اهل البیت ویطهر كم تطهیرا ۔ (ترمذی)

بہر حال  بعض سے بنو ہاشم اور آنحضرت ﷺ کے اہل وعیال پر " اہل بیت " کا اطلاق ثابت ہوتا ہے اور بعض  سے اہل بیت کامصداق صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ ، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما معلوم ہوتے ہیں بلکہ ان ہی چہار تن پاک پر اہل بیت کا اطلاق شائع اور مشہور بھی ہے لہٰذا علماء نے ان تمام روایتوں میں تطبیق اور ان کے اطلاقات کی توجیہہ میں یہ کہا ہے کہ " بیت " کی تین نو عیتیں ہیں (١) بیت نسب (٢) بیت سکنی (٣) ولادت ۔ پس بنوہاشم یعنی عبد المطلب کی او لاد کو تو نسب اور خاندان کے اعتبار سے آنحضرت ﷺ کا اہل بیت (اہل خاندان ) کہا جائے گا ۔ دراصل عرب میں جد قریب کی اولاد کو بیت (یعنی خاندان یاگھرانہ ) یا خاندان سے اس شخص کے باپ اور دادا کی اولاد مراد ہوتی ہم آنحضرت ﷺ کی ازواج مطہرات کو اہل بیت سکنی (اہل خانہ ) کہا جائے گا چنانچہ عرف عام میں کسی شخص کی بیویوں کو اس کے اہل بیت یا " گھروالی " سے تعبیر کیا جانا مشہور ہی ہے اور آنحضرت ﷺ کی اولاد (ماجد کو اہل بیت ولادت کہا جائے گا اور اگرچہ آپ ﷺ کی تمام ہی اولاد پر اہل بیت ولادت کا اطلاق کیا جائے ۔(مظاہر حق)

غور سے دیکھا جائے تو ان اقوال میں کوئی تضاد نہیں، اس لیے کہ جن لوگوں نے یہ کہا ہے کہ یہ آیت ازواجِ مطہراتؓ کی شان میں نازل ہوئی اور اہلِ بیت سے وہی مراد ہیں، یہ اس کے منافی نہیں کہ دوسرے حضرات بھی اہلِ بیت میں شامل ہوں، اس لیے صحیح یہی ہے کہ لفظِ اہلِ بیت میں ازواجِ مطہراتؓ بھی داخل ہیں، کیوں کہ شانِ نزول اس آیت کا وہی ہیں اور شانِ نزول کا مصداقِ آیت میں داخل ہونا کسی شبہ کا محتمل نہیں اور حضرت فاطمہ و علی و حسن و حسین رضی اللہ عنہم بھی ارشادِ نبوی ﷺکے مطابق اہلِ بیت میں شامل ہیں۔ اس آیت سے پہلے اور بعد میں دونوں جگہ {نساء النبی} کے عنوان سے خطاب اور ان کے لیے مؤنث کے صیغے استعمال فرمائے گئے ہیں، سابقہ آیات میں {فلا تخضعن بالقول} سے آخر تک سب صیغے مؤنث کے استعمال ہوئے ہیں اور آگے پھر {واذکرن ما یتلی}ٰ میں بصیغۂ تانیث خطاب ہوا ہے، اس درمیانی آیت کو سیاق و سباق سے کاٹ کر بصیغۂ مذکر {عنکم}اور{یطہرکم} فرمانا بھی اس پر شاہدِ قوی ہے کہ اس میں صرف ازواج ہی داخل نہیں کچھ رجال بھی ہیں۔(معارف القرآن بتصرف) جن کا بیان مذکور ہوا۔

تاہم حضرات گرامی اہل بیت کے فضائل عرض کئے جائیں گے۔

وعن زيد بن ارقم قال : قام رسول الله صلى الله عليه و سلم يوما فينا خطيبا بماء يدعى : خما بين مكة والمدينة فحمد الله وأثنى عليه ووعظ وذكر ثم قال : " أما بعد ألا أيها الناس فإنما أنا بشر يوشك أن يأتيني رسول ربي فأجيب وأنا تارك فيكم الثقلين : أولهما كتاب الله فيه الهدى والنور فخذوا بكتاب الله واستمسكوا به " فحث على كتاب الله ورغب فيه ثم قال : " وأهل بيتي أذكركم الله في أهل بيتي أذكركم الله في أهل بيتي " وفي رواية : " كتاب الله عز و جل هو حبل الله من اتبعه كان على الهدى ومن تركه كان على الضلالة " . رواه مسلم

ترجمہ:

اور حضرت زید ابن ارقم کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ ایک دن مکہ ومدینہ کے درمیان پانی والے مقام پر کہ جس کو خم کہا جاتا تھا خطاب عام کے لئے ہمارے سامنے کھڑے ہوئے پہلے اللہ کی حمد وثنا کی ، پھر لوگوں کو (اچھی باتوں اور اچھے اعمال کی ) نصیحت فرمائی ، ان کو اللہ کا ثواب وعذاب یاد دلایا (اور غفلت و کوتاہی کے خلاف خبردار کیا اور پھر فرمایا : بعد ازاں ۔ اے لوگو ! آگاہ ہو ، میں تمہارے ہی مانند ایک انسان ہوں (اس امتیاز کے ساتھ کہ اللہ نے تمہاری ہدایت کے لئے مجھ کو اپنا رسول بنا کر بھیجا اور مجھ پر وحی آتی ہے ) وہ وقت قریب ہے جب پروردگار کا فرستادہ (یعنی ملک الموت عزرائیل علیہ السلام مجھ کو اس دنیا سے لے جانے کے لئے یا تو تنہایا جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ ) آئے اور میں اپنے پروردگار کا حکم قبول کروں میں تمہارے درمیان دو عظیم بانفیس چیزیں چھوڑ جاؤں گا ، جن میں سے ایک کتاب اللہ ہے جس میں ہدایت (یعنی دین ودنیا کی فلاح وکامیابی تک لیجانے والی راہ راست کا بیان ) اور نور ہے پس تم کتاب اللہ کو مضبوط پکڑ لو (یعنی اپنے مسائل کا حل اسی کی روشنی میں ڈھونڈو اسی کو اپنا رہنما اور مستدل بناؤ ، اس کو یاد کرکے اپنے سینوں میں محفوظ کرو اور اس کے علوم ومعارف کو حاصل کرو) غرض کہ آپ ﷺ نے لوگوں کو کتاب اللہ تئیں خوب جوش دلایا اور اس کی طرف راغب کیا ، پھر فرمایا اور (ان دوعظیم چیزوں میں سے دوسری چیز ) میرے اہل بیت ہیں میں تمہیں اللہ کا وہ عذاب یاد دلاتا ہوں جو میرے اہل بیت کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی اور تقصیر کے سبب ہوگا " میں (دوبارہ ) تمہیں اللہ کا عذاب یاد دلاتا ہوں جو میرے اہل بیت کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کے سبب ہوگا " اور ایک روایت میں (جن میں سے ایک کتاب اللہ ہے " کی جگہ ) یہ الفاظ ہیں : کتاب اللہ ، اللہ کی رسی ہے ، جو شخص کتاب اللہ کی اطاعت کرے گا (یعنی اس پر ایمان لائے گا اس کو ، یاد کرے گا ، اخلاص کے ساتھ اس کا علم حاصل کرے گا اور اس پر عمل پیرا رہے گا تو وہ راست پر رہے گا اور جو شخص اس کو چھوڑ دے گا (یعنی نہ تو اس پر ایمان لائے گا ، نہ اس کو یاد کرے گا ، نہ اس کے علم وعمل میں مخلص ہوگا ) تو وہ گمراہ رہے گا ۔" (مسلم )

" خم " مکہ اور مدینہ کے درمیان حجفہ کے قریب ایک مشہور جگہ کا نام ہے جس کو " غدیر خم " بھی کہا جاتا ہے ۔ دراصل " غدیر " پانی کے حوض کو کہتے ہیں اور اس جگہ کسی حوض یا تلاب کی شکل میں پانی موجود رہا ہوگا ، اس مناسبت سے اس جگہ کو " غدیر خم " کہا جانے لگا ، خطاب عام کی یہ صورت اس وقت پیش آئی تھی جب آپ ﷺ حجۃ الوداع سے فارغ ہو کر مکہ سے مدینہ کو واپس لوٹ رہے تھے اور غدیر خم پر پڑاؤ ڈالا گیا تھا ۔

عن جابر قال : رأيت رسول الله صلى الله عليه و سلم في حجته يوم عرفة وهو على ناقته القصواء يخطب فسمعته يقول : " يا أيها الناس إني تركت فيكم ما إن أخذتم به لن تضلوا : كتاب الله وعترتي أهل بيتي " . رواه الترمذي

ترجمہ:" حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ انہوں نے کہا میں رسول اللہ ﷺ کو آپ کے حج کے موقع پر عرفہ کے دن اپنی قصواء نامی اونٹنی پر خطبہ دیتے سنا کہ فرمایا : لوگو ! میں تمہارے درمیان وہ چیز چھوڑے جا رہا ہوں کہ اگر تم نے اس کو مضبوطی سے پکڑے رکھا تو تم کبھی گمراہ نہ ہو گے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی کتاب اور میری اولاد ، میرے اہل بیت ۔" (ترمذی )

قصواء اس اونٹنی کو کہا جاتا ہے جس کے کان کا کوئی کونہ کٹا ہوا ہو ۔ آنحضرت ﷺ کی اونٹنی کا کان پیدائشی طور پر ایسا ہی تھا اور کٹا ہوا نہ تھا یہ وجہ تسمیہ بھی ہو سکتی ہے کہ قصواء بمعنی بعید ہو ۔چنانچہ منقول ہے کہ آپ ﷺ کی یہ اونٹنی نہایت تیز رفتار تھی اور دور دور تک تیز رفتار سے چلتی جاتی تھی ۔

وعن زيد بن أرقم قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إني تارك فيكم ما إن تمسكتم به لن تضلوا بعدي أحدهما أعظم من الآخر : كتاب الله حبل ممدود من السماء إلى الأرض وعترتي أهل بيتي ولن يتفرقا حتى يردا علي الحوض فانظروا كيف تخلفوني فيهما " . رواه الترمذي

ترجمہ:

حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں میرے بعد جب تک تم انہیں پکڑے رہو گے کبھی گمراہ نہ ہو گے ایک ان میں دوسری سے عظیم تر ہے ۔ وہ ایک تو اللہ کی کتاب ہے اور اللہ تعالیٰ کی آسمان سے زمین کی طرف پھیلی ہوئی رسی ہے اور دوسری میری اولاد میرے گھر والے ہیں اور وہ الگ الگ نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر وہ میرے پاس آ پہنچیں گے پس تم لوگ سوچ لو کہ تم میرے بعد ان سے کیا معاملہ کرتے ہو اور کیسے پیش آتے ہو ۔" (ترمذی )

عن ابن عباس  قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " أحبوا الله لما يغذوكم من نعمه فأحبوني لحب الله وأحبوا أهل بيتي لحبي " . رواه الترمذي

ترجمہ:

اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم اللہ سے محبت رکھو کیونکہ وہی تمہیں اپنی نعمتوں سے رزق پہنچاتا ہے اور تمہاری پرورش کرتا ہے اور اس بناء پر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو مجھ سے محبت رکھو اور میرے اہل بیت کو میری محبت کی وجہ سے عزیز و محبوب رکھو ۔ " (ترمذی )

وعن أبي ذر أنه قال وهو آخذ بباب الكعبة : سمعت النبي صلى الله عليه و سلم يقول : " ألا إن مثل أهل بيتي فيكم مثل سفينة نوح من ركبها نجا ومن تخلف عنها هلك " . رواه أحمد

ترجمہ:

اور حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن ) انہوں نے کعبہ کے دروازہ کو پکڑ کر یوں بیان کیا میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ " یاد رکھو ، تمہارے حق میں میرے اہل بیت کی وہی اہمیت ہے جو نوح کی کشتی میں سوار ہو گیا اس نے نجات پالی اور جو شخص اس کشتی میں سوار ہونے سے رہ گیا وہ ہلاک ہوا ۔ " (احمد )

اہل بیت کے خصوص افراد کے فضائل:

حضرت علی رضی اللہ عنہ

صحابیِ رسول حضرت سعد ابن ابی وقاصؓ روایت کرتے ہیں، رسول اللہﷺنے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا:

 قال (النبیﷺ): ألا ترضی أن تكون بمنزلة هارون من موسیٰ، ألا أنه لیس نبی بعدی۔

کیا تم اس پر راضی نہیں کہ تمھاری مجھ سے وہی منزلت ہے، جو ہارونؑ کو موسیٰؑ (علیہما السلام) سے ہے، فرق بس اتنا ہے کہ (حضرت ہارونؑ نبی تھے اور) میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔(بخاری، ابن ماجہ)

حضرت علی رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں، اس ذات (یعنی اللہ) کی قسم! جس نے دانہ پھاڑا (نباتات نکالی) اور مخلوقات پیدا کیں:

لقد عهد إلی النبی الأمی ﷺ أنه لا یحبك إلا مؤمن، ولا یبغضك إلا منافق۔ (ترمذی)

میرے ساتھ حضرت نبی کریم ﷺنے وعدہ فرمایا تھا کہ میرے (علی رضی اللہ عنہ کے) ساتھ محبت صرف مومن ہی کرے گا اور (مجھ سے) بغض صرف منافق ہی رکھے گا،نیز جس وقت یہ آیت نازل ہوئی،تورسول اللہ انے حضرت علیؓ، فاطمۃ الزہراؓ، حسنؓ اورحسین رضی اللہ عنہ کوبلاکردعاکی:{ندع أبناءنا وابناء كم }۔(آل عمران:61 )الٰہی!یہ میرے گھرکے لوگ ہیں۔ (ترمذی)

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا زمانے بھر کی عورتوں کی سردار، حضرت نبی کریم ا کی جگر گوشہ اور نسبتِ مصطفائی، سید الخلق رسول اللہ ﷺکی صاحبزادی اور حضراتِ حسنینؓ کی والدہ ہیں(سیر اعلام النبلاء)،

 جن کے متعلق رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا ہے:

فاطمة بضعة منی، فمن أغضبها أغضبنی۔(بخاری، مسلم )

 فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے، جس نے اسے ناراض کیا، اس نے مجھے ناراض کیا۔

نیز وہ خود روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے اپنی وفات کے وقت مجھے یہ بشارت دی تھی:

انی سیدة نساء أهل الجنة الا مریم بنت عمران۔

تم جنّتی عورتوں کی سردار ہو، سوائے مریم بنتِ عمران کے۔ (ترمذی)

وعن جميع بن عمير قال : دخلت مع عمتي على عائشة فسألت : أي الناس كان أحب إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم ؟ قالت : فاطمة . فقيل : من الرجال ؟ قالت : زوجها إن كان ما علمت صواما قواما . رواه الترمذي

ترجمہ:

اور حضرت جمیع بن عمیر (تابعی ) کہتے ہیں کہ (ایک دن ) میں اپنی پھوپی کے ساتھ ام المؤمنین حضرت عائشہ   ؓ   کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے پوچھا ، رسول اللہ ﷺ کو سب سے زیادہ محبت کس سے تھی ؟ حضرت عائشہ   ؓ   نے جواب دیا فاطمہ   ؓ   سے میں نے جواب دیا فاطمہ   ؓ   سے پھر میں نے پوچھا اور مردوں میں سب سے زیادہ محبت کس سے تھی ؟ حضرت عائشہ   ؓ   نے فرمایا : فاطمہ   ؓ   کے شوہر (علی المرتضیٰ ) سے ۔" (ترمذی)

عن زید ابن ارقم أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال لعلي وفاطمة والحسن والحسين : " أنا حرب لمن حاربهم وسلم لمن سالمهم " . رواه الترمذي

ترجمہ:

" اور حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے حضرت علی ، فاطمہ ، حسن ، حسین رضی اللہ عنہم ، کے حق میں فرمایا کہ " جو کوئی ان سے لڑے میں اسے لڑونگا اور جو کوئی ان سے مصالحت رکھے میں اس سے مصالحت رکھوں گا ۔" (ترمذی )

حضراتِ حسنین رضی اللہ عنہما:

رسول اللہ ﷺکے اپنے نواسوں سے محبت کے سیکڑوں واقعات بہت مشہور ہیں لیکن ہمیں چوں کہ مضمون کو طوالت سے بھی بچانا ہے، اس لیے چند احادیثِ مبارکہ کے ذکر پر اکتفا کرتے ہیں۔رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا:

 ان الحسن والحسین سید الشباب اهل الجنة.

حسن اور حسین اہلِ جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔(ترمذی)

وعن أنس قال : لم يكن أحد أشبه بالنبي صلى الله عليه و سلم من الحسن بن علي وقال في الحسن أيضا : كان أشبههم برسول الله صلى الله عليه و سلم . رواه البخاري

ترجمہ:

اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ سے سب سے زیادہ مشابہت رکھنے والا حسن بن علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ کوئی نہیں تھا نیز حضرت انس رضی اللہ عنہ نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی کہا کہ وہ بھی رسول اللہ ﷺ سے بہت زیادہ مشابہ تھے (بخاری )

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،میں نے رسول اللہ ﷺکو ارشاد فرماتے ہوئے سنا:

من احبها فقد احبنی، ومن ابغضها فقد ابغضنی۔ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم )

جس نے ان دونوں (حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما) سے محبت کی، یقینا اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں سے بغض کیا، یقینا اس نے مجھ سے بغض کیا۔

ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا:

«هَذَانِ ابْنَايَ وَابْنَا ابْنَتِيَ، اللَّهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُمَا فَأَحِبَّهُمَا وَأَحِبَّ ‌مَنْ ‌يُحِبُّهُمَا». «سنن الترمذي» (5/ 657 ت شاكر)

یہ دونوں (حضرت حسنؓ اور حسینؓ) میرے بیٹے اور نواسے ہیں، اے اللہ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں آپ بھی ان دونوں سے محبت فرمائیے اور جو ان سے محبت کرے، ان سے بھی محبت فرمائیے۔

وعن ابن عباس قال : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم حاملا الحسن بن علي على عاتقه فقال رجل : نعم المركب ركبت يا غلام فقال النبي صلى الله عليه و سلم : " ونعم الراكب هو " . رواه الترمذي

ترجمہ:

اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ (ایک روز ) رسول کریم ﷺ حسن بن علی رضی اللہ عنہ کو اپنے کندھے پر بٹھائے ہوئے تھے کہ ایک شخص بولا اے (خوش نصیب ) منے ! کیسی اچھی سواری پر تم سوار ہوئے ۔ نبی کریم ﷺ نے (یہ سن کر) فرمایا " اور سوار بھی تو کتنا اچھا ہے ۔ " (ترمذی )

عن عقبة بن الحارث قال : صلى أبو بكر العصر ثم خرج يمشي ومعه علي فرأى الحسن يلعب مع الصبيان فحمله على عاتقه . وقال : بأبي شبيه بالنبي ليس شبيها بعلي وعلي يضحك . رواه البخاري

ترجمہ:" حضرت عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ (اپنے زمانہ خلافت میں یا اس سے پہلے ایک دن ) عصر کی نماز پڑھ کر باہر نکلے اور (کہیں جانے کے لئے ) چلنے لگے ، اس وقت ان کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی تھے (راستہ میں ) حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب حسن رضی اللہ عنہ کو دیکھا جو بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے تو ان کو اٹھا کر اپنے کندھے پر بٹھا لیا (از راہ خوش طبعی ) بولے : میرا باپ قربان ہو ، یہ (حسن ) نبی کریم ﷺ سے بہت مشابہ ہیں علی رضی اللہ عنہ کے مشابہ نہیں ہے (یہ سن کر ) حضرت علی رضی اللہ عنہ (اظہار خوشی کے طور پر) ہنسنے لگے ۔ " (بخاری )

محمد ﷺقرآن ہیں تو تفسیر صحابہ رضی اللہ عنہم               محمد ﷺحدیث  ہیں تو تشریح صحابہ رضی اللہ عنہم

محمد ﷺ سورج  ہیں تو  کرنیں  صحابہ رضی اللہ عنہم             محمد ﷺپھول  ہیں تو  خوشبو صحابہ رضی اللہ عنہم

محمد ﷺ معلم  ہیں تو  شاگرد صحابہ رضی اللہ عنہم               محمد ﷺ سالار  ہیں تو فوج صحابہ رضی اللہ عنہم    

اسی کا دنیا میں نام ہوگا           صحابہ کا جو غلام ہوگا             کرے صحابہ سے جو محبت      وہی جہاں کا امام ہوگا

خلاصہ یہ ہے کہ:صحابہ ہمارے ایمان کا حصہ ہیں،جن کو اللہ تعالی نے اپنی رضااور کامیابی کا سرٹیفکیٹ دیاہے،قرآن مجید کی مؤمنین والی صفات کے اولین مصداق ہیں،نبوی ﷺ کی اتباع کے بعد اتباع صحابہ ہمارے  لئے ضروری ہے۔

مفتی محمد خان عفی عنہ

فاضل جامعہ اشرفیہ لاہور
کل مواد : 7
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2024

تبصرے

يجب أن تكون عضوا لدينا لتتمكن من التعليق

إنشاء حساب

يستغرق التسجيل بضع ثوان فقط

سجل حسابا جديدا

تسجيل الدخول

تملك حسابا مسجّلا بالفعل؟

سجل دخولك الآن
ویب سائٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اس سائٹ کے مضامین تجارتی مقاصد کے لئے نقل کرنا یا چھاپنا ممنوع ہے، البتہ غیر تجارتی مقاصد کے لیئے ویب سائٹ کا حوالہ دے کر نشر کرنے کی اجازت ہے.
ویب سائٹ میں شامل مواد کے حقوق Creative Commons license CC-BY-NC کے تحت محفوظ ہیں
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2024