حضرت مولانا ڈاکٹر منظور احمد مینگل صاحب

ان سے میرا رشتہ تلمذ کا ہے۔ میں نے درس نظامی کی اتنی کُتب ایک استاذ سے نہیں پڑھیں، جتنی ان سے پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔ انہوں نے ہمیں مختصر المعانی، مشکاۃ جلد اول، ہدایہ أخیرین، سنن ابی داود اور پھر تخصص فی الافتاء میں مقدمہ شامی پڑھائی۔ تخصص میں گھنٹوں ان کی بے تکلف مجلس میں بیٹھا کئے، اور ان کے خوان علم سے ریزہ چینی کرتے۔ صرف ونحو، منطق، حدیث وفقہ اور فن افتاء ، تمام منقول ومعقول متداول فنون میں وہ یگانہ وقت ہیں۔ ان کا ہر سبق ہمہ جہت ہوتا ہے۔ ایک سادہ سی عبارت پر ان کا عقلیت پسند مزاج منطقی کلیات منطبق کرنا شروع کر دیتا ہے۔ ذہین اور دراک طالب علم اس طرزِ تدریس سے لطف بھی لیتا ہے اور ان کی منطقی اور کلامی نکتہ آفرینیوں کو ضبط بھی کرلیتا ہے۔ متوسط اور کمزور طالب علم بس فرطِ عقیدت سے جھومتا اور واہ واہ کرتا نظر آتا ہے۔ ان کا درس حدیث جامعیت کے لحاظ سے اپنی مثال آپ ہوتا ہے۔ غرائب و نوادر، حدیثی فوائد، نحوی و بلاغی نکات، رجال سند سے متعلق اقوال جرح وتعدیل، ماضی بعید و قریب کے سلف کے ایمان افروز واقعات، عقائدی مباحث میں ائمہ کے اختلافات اور پھر ان پر ان کے دلچسپ علمی تبصرے، تصوف اور اس کے اساطین کے ایمان افروز تذکرے، یہ سبہی ذائقے ان کے ہر درس کی وہ خوراک ہے۔ جو طلبہ کو برابر فراہم ہوتی رہتی ہے۔عربی بے تکلف بولتے ہیں۔ دوران درس اچانک اردو سے عربی کی طرف منعطف ہوتے ہیں تو ان کی روانی تقریر تیز تر اور شعلہ خطابت فروزاں تر ہوجاتاہے۔ متشعب اور مسلسل مطالعہ کے سبب وہ خود پر ضبط نہیں کرپاتے، اور متعلقاتِ بعیدہ کی طرف تطرُّق کرتے ہوئے "معلومات" بہائے چلے جاتے ہیں۔ سریع المطالعہ بھی ہیں اور سریع الاخذ بھی۔ہر فن کی قدیم وجدید متداول کتب پڑھ ڈالی ہیں۔ جامعہ فاروقیہ میں ان کے دولت کدے پر ہزاروں عربی کتب پر ان کی مرقوم حواشی دیکھ چکا ہوں۔ نادر کتاب کا پتہ چلتے ہی بے قرار ہوجاتے ہیں اور اسے کسی بھی قیمت پر خرید لیتے ہیں۔ کئی مجلدات پر مشتمل کوئی علمی وادبی کتاب سفر میں ساتھ لے چلتے ہیں اور مراجعت تک اسے ختم کرچکے ہوتے ہیں۔برسوں بعد اگر اسی کتاب کے موضوع پر گفتگو چل نکلی تو اس کی عربی عبارتیں بے تکان پڑھتے چلے جائیں گے۔کھلی کتاب کی مانند ہیں۔ تکلفات سے نفور اور نفاق سے ملایین میل دور۔ جو دل میں ہے وہ زبان پر ہے۔ خود کو برملاچرواہا اور دیہاتی کہتے ہیں۔ طلبہ کے محبوب ہیں۔ بلکہ محبوب الخلائق ہیں۔ درسگاہ میں کہا کرتے:

"بلمبو! مطالعہ کیا کرو۔ مطالعہ کی توفیق جسے ملی، سمجھو یہ خدا کا محبوب ہے۔"

صحیح بخاری کے حافظ ہیں۔ گذشتہ آٹھ سال سے تنہا صحاح ستہ پڑھا رہے ہیں۔ موفق ہیں، اس قدر تدریسی مشاغل کے ساتھ اسفار بھی کرتے ہیں کہ ملک بھر سے انہیں درس یا بیان کے لئے دعوتیں موصول ہوتی ہیں۔ اپنے شیخ استاذ المحدثین حضرت شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان سے ان کا تعلق عقیدت کی آخری سرحد پر ہے کہ انہی کا تراشا ہوا ہیرا ہیں۔حضرت مولانا ڈاکٹر عادل خان شہید کے تلمیذ بھی تھے اور یار بھی۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت شہید رحمہ اللہ کے دونوں صاحبزادوں برادرم مفتی محمد انس عادل اور برادرم مفتی محمد عمیر عادل (جو ان کے تلامذہ ہیں) کے پاس خود چل کر آتے ہیں۔کبھی انہیں اپنے ہاں بلاکر ان کی تکریم وضیافت کرتے ہیں۔ تواضع اور احترام دیکھئے کہ اپنی بے باک گفتگو کے لئے مشہور یہ نامدار شخصیت ان دونوں برادران کی مجلس میں یکسر بدلے نظر آتے ہیں۔ ملتے وقت ان کی پیشانیوں پر بوسہ دیں گے۔ مجلس پر کچھ دیر ہیبت ناک خاموشی طاری رہے گی۔ان کی نمدیدہ آنکھوں سے آنسو کی لڑی گرنے لگے گی۔ مجلس کا رنگ بدلنے کے لئے ذہین و کریم برادران میں سے کوئی ایک یہ سکوت توڑ کر کسی موضوع کا ذکر چھیڑ دیں گے۔ برادران بھی ان سے تلمذ کے سبب ان کے ادب و احترام کے تمام تر قرینے نبھاتے ہیں۔ استاذ المحدثین مولانا سلیم اللہ خان کا فاروقیہ "رجال سازی" کی فیکٹری ہے۔ اس کے تیار کردہ رجال علم وفضل میں "مینگل" کو اللہ نے عام وخاص کا "منظور" بنادیا ہے۔یہ اپنا تقوی "ضلع جگت" کے پیچھے چھپائے پھرتے ہیں، آپ نے جو "مینگل" یوٹیوب پر قہقہے بکھیرتا دیکھا ہے۔ یہ وہ نہیں جو ہم نے درسگاہ میں دیکھا ہے۔درسگاہ کے استاذ مینگل کا رنگ ہی نرالا ہے۔ جہاں وہ ایک متبحر محدث اور فقیہ کی صورت چہکتے ہیں۔ امامت کے مصلے پر نماز فجر میں کلام اللہ کا زمزمہ بلند کرتے ہیں تو پیچھے کھڑے نمازیوں کی روح شاد و ہشاش ہوجاتی ہے۔ کلام اللہ کے ساتھ ان کا اشتغال عشق والا ہے۔ چلتے پھرتے زبان تلاوت سے تر رہتی ہے۔ بیت الخلا جاتے وقت منہ میں رومال ٹھونس دیتے ہیں کہ بے ادبی نہ ہوجائے۔ پاکستان کے تمام بڑے چھوٹے، معروف وغیر معروف مدارس کے طلبہ میں غیرمعمولی مقبول ومحبوب ہیں۔ابھی جب جامعہ فاروقیہ حب ریور روڈ کی سالانہ تقریب میں خطاب کرنے آئے تو ہال نعرہائے تکبیر سے گونج اٹھا۔ وہ تو صرف حاضری لگانے آئے تھے۔ مجھے اسٹیج پر بلاکر فرمایا " بس مجھے نکلنا ہے۔ مفتی انس عادل سے میری اجازت لے لیجئے"۔ میں ان کے پاس سے ہوکر یہ پیغام لایا کہ آپ کو ابھی بلا تاخیر اسٹیج پر دعوت دی جائے گی پھر جتنی دیر آپ چاہیں گفتگو فرمائیں"۔ پھر وہ میرِ مجلس بن گئے۔ اور دیر تک اپنے مخصوص انداز میں گل افشانی کرتے رہے۔

 

حبيب حسين

استاذ ادب عربی جامعہ فاروقیہ فیز II کراچی
کل مواد : 5
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2025

تبصرے

يجب أن تكون عضوا لدينا لتتمكن من التعليق

إنشاء حساب

يستغرق التسجيل بضع ثوان فقط

سجل حسابا جديدا

تسجيل الدخول

تملك حسابا مسجّلا بالفعل؟

سجل دخولك الآن
ویب سائٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اس سائٹ کے مضامین تجارتی مقاصد کے لئے نقل کرنا یا چھاپنا ممنوع ہے، البتہ غیر تجارتی مقاصد کے لیئے ویب سائٹ کا حوالہ دے کر نشر کرنے کی اجازت ہے.
ویب سائٹ میں شامل مواد کے حقوق Creative Commons license CC-BY-NC کے تحت محفوظ ہیں
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2025