استاذ محترم مولانا عمر فاروق رحمہ اللہ، ایک گوہر نایاب وپیکر علم وعمل
سال کا اختتام تھا، اگلے سال کتب حدیث پڑھنی تھیں، اور مدرسہ کے اس وقت تک کے طے شدہ نظام کے مطابق حضرت استاذ محترم نے ہی صحیح مسلم پڑھانی تھی، ظہر کی نماز کے بعدمدرسہ کی مسجد میں استاذ جی کے پاس حاضر ہوا، اور عرض کیا کہ ان شاء اللہ اگلے سال آپ سے صحیح مسلم پڑھیں گے، استاذ جی مسکرانے لگے، اور فرمایا: ’’اللہ تعالی میرے شر سے آپ کی حفاظت فرمائے۔‘‘
یہ استاذ محترم سے پہلی ملاقات تھی، جس میں تعارف بھی ہوا، اور علیک سلیک بھی، اور اس ملاقات میں استاذ جی کی جو مسکراہٹ دیکھی پھر ہمیشہ ساری زندگی استاذ جی کے چہرے پر وہ مسکراہٹ نظر آتی رہی، اور استاذ جی نے جو جملہ فرمایا تھا، بعد میں جب استاذ جی کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کا موقع ملا تو اندازہ ہوا کہ استاذ جی واقعۃ اپنے بارے میں کچھ ایسا ہی گمان رکھتے ہیں، ’’درخت جتنا پھل دار ہوتا ہے، اتنا ہی جھکا ہوا ہوتا ہے‘‘ محاورہ اپنی حقیقت کے ساتھ استاذ جی پر صادق آتا تھا، دس سال سے زائد طویل عرصہ استاذ محترم سے تعلق رہا، اس عرصے میں کبھی بھی استاذ جی سے اپنے متعلق کوئی تعریفی جملہ نہیں سنا۔ جتنا استاذ جی علم، عمل، تقوی، زہد، اخلاص، عبادت کے اعلی درجے پر تھے اتنا ہی زیادہ استاذ جی اپنے آپ کو کم تر سمجھتے تھے، اور اتنے ہی زیادہ متواضع تھے۔
میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جس نے استاذ جی کو نہیں دیکھا، یا ان کے ساتھ نہیں بیٹھا، وہ استاذ محترم کو سمجھ ہی نہیں سکتا، استاذ محترم ایسے چھپے ہوئے گوہر نایاب تھے، جو شنید سے نہیں، دید سے تعلق رکھتا ہے ۔۔۔ اور استاذ جی ایسی صفات اور اخلاق کے جامع تھے جو بہت ہی نایاب ہیں، خال خال کسی میں یہ ساری صفات جمع ہوتی ہیں۔
جیسے: پختہ، مضبوط اور ٹھوس علم جس کے پاس ہوتا ہے، اس کی ایک شان وشوکت ہوتی ہے، کسی قدر جلال اور رعب ہوتا ہے، اس سے ہر کوئی آسانی سے بات نہیں کر سکتا، اور نہ وہ ہر ایک کو ہر وقت اہمیت سے جواب دے پاتا ہے، استاذ جی کی علمی پختگی مدرسہ کے تمام بڑے اساتذہ میں مسلم تھی، دو جملے محدثین کے یہاں مشہور ہیں، ایک مذمت کے لیے اور دوسرا تعریف کے لیے:
کان علمه أكبر من عقله
كان عقله أكبر من علمه
استاذجی کی تعریف میں دوسرا جملہ بالکل صادق آتا ہے، استاذ جی صرف کتابوں کا علم نہیں رکھتے تھے، بلکہ دین کا صحیح فہم اور گہری سمجھ اور موقع شناسی، مردم شناسی استاذ جی کے خواص تھے، لیکن اس کے باوجود انتہائی وسیع ظرف کے مالک ، بہت زیادہ متواضع ، ہر ایک کو عزت دینا، ہر ایک کا ادب کرنا ، ہر ایک کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرنا ، استاذ جی کا طبعی مزاج تھا۔۔۔۔
اور جو شخص بہت متواضع ہو اور بہت نرم ہو، تو بسا اوقات لوگوں کے دلوں میں اس کی عظمت میں کمی آجاتی ہے، یا اس کے آس پاس والے اس کے احترام میں عملًا کمی کر دیتے ہیں، اگرچہ دل سے اس کو محترم سمجھتے ہوں، لیکن استاذ جی کی خوش خلقی ، وسعت ظرفی،اور نرم مزاجی کے باوجود ایسے باوقار اور با رعب شخصیت کے مالک تھے کہ استاذ جی کو پہلی نظر میں دیکھنے والا ہر شخص سہم جاتا ، پھر جب استاذ جی اس کے ساتھ ہنستے بولتے تو وہ کیفیت جاتی رہتی ۔۔
اس طرح استاذ جی کی شخصیت جامع بین الضدین ، نہیں بلکہ، جامع بین الاضداد تھی، اور خوبیوں کا ایک سرچشمہ تھی، استاذ جی کی شخصیت میں اگر اس کی بنیادی وجوہات پوچھی جائیں، تو میں چند باتوں عرض کروں گا، جو ہمارے لیے مشعل راہ ہیں:
سب سے پہلی چیز ، استاذ جی کا ذوق عبادت، پاؤں کی تکلیف ، جسم کے بھاری پن، اور بیماریوں کےباوجود لمبا لمبا بے حرکت قیام استاذ جی کی عام عادت تھی۔
دنیا سے بے رغبتی، استاذ جی نے اپنی ساری زندگی بہت معمولی اسباب ووسائل میں گزاری، چاہتے تو اپنی علمی صلاحیتوں کے بل بوتے پر، اور جو مقام آپ کو مختلف اداروں میں حاصل تھا اس کے سہارے بہت ساری دنیاوی سہولتیں اور آسانیاں جمع کر لیتے، لیکن آپ نے دنیا کے لیے کوئی ایسی سعی نہیں کی، بلکہ یکسوئی سے علم و عمل، دعوت وتبلیغ ، وعظ وارشاد کی محنت میں لگے رہے، عملا بھی نہیں کی، اور کبھی زبان سے بھی اس کا اظہار نہیں کیا، صراحتًا نہ کنایۃً ،۔۔۔۔۔کہنے تو بہت لوگ دنیا سے بے رغبتی کی ترغیب دیتے ہیں، لیکن وسائل کی کمی پر صبر کر جانا، بڑے جگر گردے کا کام ہے۔
استاذ جی کی زبان سے کبھی شکوہ نہیں سنا گیا، بیماری کے آخری ایام میں بھی ہمیشہ استاذ جی کو شاکر پایا، بلکہ استاذ جی کے ایام مرض میں متعدد بار استاذ جی کے گھر جانا ہوا، بعض دفعہ بغیر پیشگی اطلاع بھی گیا، لیکن ہر دفعہ استاذ جی نے بہت خوشی کا اظہار کیا، اور کافی دیر بٹھایا، ہمارے طبیعت پوچھنے پر خوب اطمینان کے جملوں کہے ، بلکہ موقع بموقع اپنی عادت کے موافق ظریفانہ چٹکلے بھی سنائے، اور ہمیشہ استاذ جی کی زبان سے شکر کے الفاظ نہیں، نعمتوں کی تقریر سنی، جس پر وہ اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے تھے۔۔۔
کبھی استاذ جی کی زبان سے کسی کی غیبت نہیں سنی گئی ، طنز کرنا، تنقید کرنا، یہ تو بہت دور کی بات ہے، استاذ جی اپنے شاگردوں کی اصلا ح کرنے کے لیے ایسی کوئی صورت نہیں اختیار فرماتے تھے جس سے مخاطب کی کوئی کمی بیان کرنی پڑے ، یعنی بالکل صاف اور صریح طور پر کسی کی اصلاح بھی نہیں فرماتے تھے ۔
استاذ جی کے انداز میں بہت نرمی تھی، کسی سے کوئی سخت بات بھی کہنی ہوتی تو نرم لہجے میں کہتے، استاذ جی کو ہم نے کبھی ڈانٹتے ہوئے تو سنا ہی نہیں، اگر چہ ایسے مواقع ہر ایک کے ساتھ پیش آتے ہیں، جس میں سخت بات کہنے کی ضرورت پیش آتی ہے تو استاذ جی وہ سخت بات بھی نرم لہجے میں ، سمجھانے کے انداز میں کر جاتے تھے۔۔۔
استاذ جی کے پاس کوئی اپنا مسئلہ لے کر آتا ، اور کوئی بات کرنے آتا، تو استاذ جی اس کی بات کو بہت اہمیت دیتے، اس کے مسئلہ کو دھیان سے سنتے، کبھی بھی اس کو بات بے قیمت یا بے اہمیت نہیں گردانتے، بلکہ پوری توجہ دیتے ، اور اس کا جو مناسب حل سمجھتے وہ ضرور بتاتے، چنانچہ ایک تجربہ کار، مشاق ، ٹھوس عالم، بزرگوں کے صحبت یافتہ، جہاں دیدہ ، ۔۔۔۔ شخص کی طرف سے اپنے مسائل کا حل مل جانا ایک ایسی نعمت تھی، جو دنیا بھر کی دولت سے نہیں خریدی جا سکتی ، واقعی ۷ شوال ۱۴۴۶ ھ ، ۶ اپریل ۲۰۲۵ ء بروز اتوار ہم اس عظیم نعمت سے محروم ہو گئے۔
سچ یہ ہے کہ ہمیں اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ استاذ جی اتنی جلدی رخصت ہو جائیں گے، شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ استاذ جی سےعلالت کے ایام میں بھی جب بھی ملاقات کے لیے گئے، استاذ جی ہمیشہ خوب اچھے سے ملے، کبھی شکوہ نہیں کیا، بلکہ ہمیشہ اپنی صحت کے متعلق اطمینان دلاتے رہے۔
بہرحال ہر انسان نے اس فانی دنیا سے جانا ہے، البتہ ایک گوہرِ نایاب ہماری نظروں سے اوجھل ہوگیا، اور علم و حکمت، تقویٰ و طہارت، اور عاجزی و انکساری کا ایک روشن باب ہماری آنکھوں کے سامنے ہی بند ہوگیا۔ وہ مسکراتا چہرہ، وہ شفقت بھرا لہجہ، وہ صبر و شکر کی عملی تصویر... اب یہ سب ہماری یادوں کا قیمتی اثاثہ اور زندگی کے سفر میں مشعلِ راہ ہیں۔