کتابوں کی باتیں
کتاب کہتی ہے، ’’ مجھے پڑھو۔‘‘ رفیع الزماں زبیری اس کے جواب میں نہ صرف کتاب پڑھتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی پڑھنے پراکساتے ہیں۔ یہ کام وہ اخبار ’’ ایکسپریس‘‘ میں چھپنے والے اپنے کالم سے لیتے ہیں جس کا عنوان انہوں نے ’’ کتابوں کی باتیں‘‘ رکھا ہے۔ کتاب کایہ مطالبہ کہ اسے پڑھا جائے کیوں ہے اور کیا وہ یہ تقاضا کرنے میں حق بجانب ہے ؟تو سنیے:
کتابوں کی ایک اپنی دنیا ہے، ہمہ جہت اور بہت دلفریب۔ یہ دنیا انسان کی بہترین تخلیق ہے۔ زندہ و جاوید۔ انسانی ہاتھوں سے بنائی ہوئی عالی شان عمارتیں مسمار ہوجاتی ہیں۔ عظیم الشان قلعے، بلند و بالا مینار کھنڈر بن جاتے ہیں، قومیں فنا ہوجاتی ہیں، تہذیبیں بوڑھی ہوجاتی ہیں اور پھر معدوم ہوجاتی ہیں۔ ان کے آثار باقی نہیں رہتے۔ پھر ایک تاریک دور کے بعد نئی نسلیں ابھرتی ہیں۔ نئی قومیں وجود میں آتی ہیں اور انسانی تعمیر وتخلیق کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے۔
کتابیں ان پیہم انقلابات کی چشم دید گواہ ہوتی ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے کل ہی لکھی گئی ہوں۔ کتابیں ماضی کی زندہ تصویریں ہوتی ہیں۔ یہ مستقبل کے در کھولتی ہیں۔ شعور کی قندیلیں جلاتی ہیں۔ عظیم انسانوں کے کارنامے بیان کرکے ہماری ہمت بندھاتی ہیں۔ فرد کا تاریخ میں کردار کا حوالہ دیتی ہیں۔ فطرت انسانی کی بو قلمونیوں کامنظر دکھاتی ہیں۔ مایوس دلوں کو امید کی کرنوں سے منور کرتی ہیں۔ کتابیں ہمیں زندگی کے نئے رخ دکھاتی ہیں، ہمیں جینا سکھاتی ہیں۔ ہمارے پژمردہ دلوں کو شگفتگی عطا کرتی ہیں۔
کتابیں علم کا خزانہ ہیں ۔ ان سے انسانی ذہن روشن اور خرد بیدار ہوتی ہے۔ لاعلمی کے اندھیرے علم کی روشنی سے مٹ جاتے ہیں۔ علم درحقیقت جاننے کی ایک آرزو ہے۔ یہ آرزو کتابوں سے پوری ہوتی ہے۔ علم کے میدان میں پیش قدمی کا سب سے اہم ذریعہ کتابوں کا مطالعہ ہے۔ کتابوں کا مطالعہ ہمیں زندگی میں کامیابیوں کا راستہ دکھاتا ہے۔ پڑھو اور آگے بڑھو کا درس دیتا ہے۔
کتابیں ہماری تنہائی کی ساتھی ہیں۔ یہ کبھی ہنساتی ہیں، گدگداتی ہیں۔ کبھی رلاتی ہیں اور اداس کردیتی ہیں۔ کبھی عشق و محبت کی لافانی داستانیں سنا کردل گرماتی ہیں۔ یہ ہمارے لیے دنیا کے جھگڑوں سے اور زندگی کی الجھنوں سے فرار کا راستہ بن جاتی ہیں۔
اب اگر یہ سب کچھ سچ ہے تو کتاب کایہ مطالبہ کہ ’’ مجھے پڑھو‘‘ حق بجانب ہے۔ رفیع الزماں نے کتاب پڑھتے وقت محسوس کیا کہ کسی اچھے کام میں دوسروں کو شریک نہ کرنا کوئی اچھی بات نہیں۔ آپ ایک کتاب پڑھ رہے ہیں کسی کی خود نوشت آپ بیتی ہے۔ وہ اپنی داستان سنارہا ہے۔ وہ روتا ہے تو آپ کو رونا آتا ہے، وہ ہنستا ہے تو آپ اس کے ساتھ ہنستے ہیں ہر شخص کی کہانی الگ ہوتی ہے، اس کے بیان کرنے کا انداز بھی الگ ہوتا ہے۔ آپ کتاب پڑھ چکتے ہیں تو پڑھنے میں لطف آیا تھا، اس کا مزہ دیر تک رہتا ہے۔ رفیع الزماں کو خیال آیادوسرے لوگوں کو بھی تو اس لطف میں شریک کرو۔ اسی سے ’’ کتابوں کی باتیں‘‘ کا کالم شروع ہوا یہ کوئی تبصرہ و تنقید نہیں۔ کتاب اچھی ہے یا بری ہے اس بھی غرض نہیں ہے۔ پس یہ بتانا مقصد ہے کہ اس کتاب میں کیا کچھ ہے۔ ان کا کام یہ ہے کہ وہ آپ کو کتاب اور صاحب کتاب میں ملوادیتے ہیں ۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ اس تعارف سے مطمئن ہوتے ہیں یا کچھ اور زیادہ جاننا چاہتے ہیں۔ رئیس فاطمہ لکھتی ہیں کہ کتابوں کے تعارف کی غرض سے رفیع الزماں زبیری نے جو اسلوب اور طریقہ کار وضع کیا ہے وہ بالکل مختلف اور منفرد ہے۔ وہ کتاب اور صاحب کتاب کے ہمراہ چلتے ہیں اور کتاب کی روح کو اخذ کرلیتے ہیں ۔ صرف یہی نہیں، بلکہ قاری کو بھی اپناہم سفر بنالیتے ہیں۔ اردو زبان میں یہ تعارفی انداز بالکل جداگانہ نوعیت کا حامل ہے۔ عموماًوہ کتاب کے کسی کردار کو لے کر اپنا مدعا بیان کرتے ہیں اورقاری میں اس کتاب کے مطالعے کی لگن پیدا کرنے میں سو فیصد کامیاب رہتے ہیں۔ کتاب کی روح کو اس طرح اخذ کرلینا اور اس کے معانی و مطالب تک پہنچنا دراصل رفیع الزماں زبیری کا اپنا تراشیدہ اسلوب ہے جو صرف انہی سے مخصوص ہے۔ اس اعتبار سے میرے نزدیک و کتب بینی اور کتب شناسی کا ایک ایسا ماحول پیدا کردیتے ہیں جو کتاب کلچر کے فروغ کا آئینہ دار ہے۔ زبیری صاحب کالم نویس ہیں۔ جن کتابوں کا وہ اپنے کالم ’’ کتابوں کی دنیا‘‘ میں ذکر کرتے ہیں، بلاشبہ ان کے حوالے سے قارئین میں ایک تجسس بیدار ہوجاتا ہے ۔ زبیری صاحب نے سفر ناموں، آپ بیتیوں، سوانح عمریوں کے علاوہ دیگر موضوعات کی جو کہکشاں سجائی ہے، وہ بلاشبہ اس قابل ہے کہ ان کے کالموں کے مجموعے کو اپنے مواد اور کتب خزینہ کے باوصف ہونے کی وجہ سے اہم لائبریریوں میں ضرور ہوناچاہیے۔
مسعود احمد برکاتی لکھتے ہیں کہ رفیع الزماں زبیری نے اپنے اخباری کالم میں کتابوں کا جو تعارف کرایا ہے وہ بہت دلچسپ انداز میں ہے۔ انہوں نے ہر کتاب کے مفید پہلوئوں کو اس طرح بیان کیا ہے کہ مصنف ، مولف کا مقصد اور کتاب کا موضوع پوری طرح واضح ہوجائے کتابوں کے انتخاب میں بڑا تنوع ہے۔ ادب اور شخصیات کے علاوہ اہم واقعات کی جھلک بھی آگئی ہے۔ بعض کتابوں کے حوالے سے قومی اور سیاسی مسائل بھی خاموشی سے در آئے ہیں۔ اس طرح ہر کتاب کا تعارف مختلف انداز سے ہوا ہے۔ اس کے لیے بڑے وسیع مطالعے کی ضرورت تھی جس کا حق رفیع الزماں نے ادا کیا ہے۔
رفیع الزماں زبیری کے کالموں کے چھ مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ ’’ کتابوں کی باتیں‘‘ ’’ کتاب اور صاحب کتاب‘‘، آپ بیتی، جگ بیتی‘‘ ، ’’ نقش کتاب‘‘ ، ’’حرف کتاب‘‘ اور ’’ کتابوں کی محفل‘‘۔ ان میں جن موضوعات پر کالم شامل ہیں وہ ادب، شعروشاعری، تاریخ، شخصیات، خاکے، خود نوشت، سوانح حیات، دین و مذہب، سیاست اور سفرنامے ہیں۔ ان کتابوں کے مصنف اور مولف مشہور و معروف اور کم معروف دونوں ہیں۔