عربى زبان : شرف و اہمیت

دين کو سمجھنے کے لئے قرآن و حديث کی زبان سمجھنے کی ضرورت و اہمیت کو اجاگر کرکے، مستند ذرائع سے عربی زبان سیکھنے کی ترغیب

بسم الله الرحمن الرحيم
اللهم انفعنا بما علمتنا وعلمنا ما ينفعنا وزدنا علما

 

عربی زبان کی اہمیت اور اس کے بیش بہا فضائل کا احاطہ کرنا مشکل ترین بلکہ ناممکن امر ہے. 
          کیوں کہ اس مبارک زبان کے فضائل اتنے زیادہ ہیں کہ جس کو زبان بیان کرنے سے عاجز اور قلم  لکھنے سے قاصر ہے۔
 سب سے پہلے عربی زبان کے شرف کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ الله سبحانه وتعالىٰ نے اس زبان میں اپنا کلام نازل فرمایا :
إِنَّا أَنزَلْنَاهُ قُرْآناً عَرَبِيّاً لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ (سوره يوسف:٢)
ترجمہ:  ( بیشک ہم نے اس قرآن کو عربی نازل فرمایا تاکہ تم سمجھو) 
اس آیت مبارکہ کا معنی یہ ہے کہ الله تعالیٰ نے قرآنِ کریم کو عربی زبان میں نازل فرمایا کیونکہ عربی زبان سب زبانوں سے زیادہ فصیح ہے اور جنت میں جنتیوں کی زبان بھی عربی ہو گی اوراسے عربی میں نازل کرنے کی ایک حکمت یہ ہے کہ تم اس کے معنی سمجھ کر ان میں غوروفکر کرو اور یہ بھی جان لو کہ قرآن كريم الله تعالیٰ کا کلام ہے جو کہ عربی زبان میں نازل کیا گیا ہے.
نیز اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ قرآنِ مجید کا مسلمانوں پر ایک حق یہ بھی ہے کہ وہ اسے سمجھیں اور اس میں غورو فکر کریں اور اسے سمجھنے کے لئے " عربی زبان پر عبور ہونا ضروری ہے"
    کیونکہ یہ کلام عربی زبان میں نازل ہوا ہے اس لئے جو لوگ عربی زبان سے ناواقف ہیں یا جنہیں عربی زبان پر عبور حاصل نہیں تو انہیں چاہئے کہ مستند اور معتبر ذرائع سے عربی زبان سکھیں اور قرآن شریف کے تراجم اور ان کی تفاسیر کا مطالعہ فرمائیں تاکہ وہ قرآنِ مجید کو سمجھ سکیں۔
 افسوس! فی زمانہ مسلمانوں کی کثیر تعداد قرآنِ مجید کو سمجھنے اور اس میں غور وفکر کرنے سے بہت دور ہو چکی ہے
اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت عطا فرمائے۔ عربی کا سیکھنا بحیثیت ِ مجموعی اُمتِ مُسلمہ کیلئے فرضِ کفایہ ہے۔

     اور پوری دنیا کی زبانوں میں سے واحد "عربی زبان " ہی ایسی ہے جس کو " الله رب العزت نے اپنے کلام کے لیے منتخب فرمايا ۔
کیا دنیا میں کوئی اور زبان بھی ایسی ہے جس میں الله عزّ وجلّ نے اپنا کلام نازل فرمایا ہو اور وہ آج تک باقی ہو؟
      صرف اور صرف یہ عربى زبان کی ہی فضيلت ہے کہ جس میں اللہ جلّ شانه نے اپنا کلام نازل فرمایا۔
  دوسری بڑی فضیلت یہ ہے کہ ختم النبیین و خاتم المرسلین نبی کریم ﷺ کی زبان عربی تھی۔
 اور یہی تو وہ مبارک زبان ہے کہ جس کے ذریعے "اللّٰه کا دین" صحابہ کرام رضوان الله عليهم اجمعين کے ذریعے ہم تک پہنچا،  اور "اہل جنّت" بھی اسی زبان میں بات کریں گے۔
ایک بات جو سب سے زیادہ دل پر اثر کرنے والی ہے کہ "عربی زبان کی فصاحت و بلاغت اور اس کا اعجاز یہ ہے کہ اس زبان کے کم حرفوں میں بہت سے معانی پوشیدہ ہوتے ہیں، گویا تھوڑے سے الفاظ میں ایک سمندر چھپا ہوتا ہے۔"
 یہی وجہ ہے کہ عربی زبان کا ترجمہ اگر کسی دوسری زبان میں کیا جائے دوسری زبان کے الفاظ زیادہ اور عربی زبان کے الفاظ کم ہوں گے۔
   مشہور مقولہ ہے " خير الكلام ما قلّ ودلّ "
 وہی کلام دلوں پر اثر کرکے ذہن پر گہرے نقوش چھوڑ جاتا ہے جو "مختصر اور پُر اثر ہو"۔
عربی زبان کے اس اعجاز اور فصاحت وبلاغت سے زیادہ بڑا شرف یہ ہے کہ یہ قرآن كريم،  سنت نبوی اور جنّت كی زبان ہے۔
قال امام الثعالبي رحمه الله :"من أحب الله تعالى أحب رسوله محمداً صلى الله عليه وسلم، ومن أحبَّ الرسول العربي أحبَّ العرب، ومن أحبَّ العرب أحبَّ العربية التي بها نزل أفضل الكتب على أفضل العجم والعرب، ومن أحبَّ العربية عُنيَ بها، وثابر عليها، وصرف همَّته إليها "
یہ وہ زبان ہے جس کو اللہ سبحانه وتعالٰى نے اپنے کلام کے لیے منتخب فرمايا  تو  کیوں نہ ہم بھی اس زبان کو اپنے سیکھنے کے لیے منتخب کرلیں اور اس زبان میں بات کرکے نبی کریم صلی الله علیه وسلم کی سنّت کو زندہ کرکے اللہ تعالٰى کے محبوب بن جائیں۔
 لأنّ التحدث باللغة العربية من إتباع نبينا عليه السلام۔
ترجمہ: کیونکہ عربی زبان میں بات کرنا ہمارے نبي کریم صلى الله عليه وسلم کی سنت ہے.. 
اور احادیث شریف میں سنّت زندہ کرنے کا حکم اور اُس پر بڑے ثوابوں کے وعدے ہیں انس رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
من أحیا سنّتی، فقد أحبّنی، ومن أحبّنی کان معی فی الجنة (رواہ الترمذى)  اللھم ارزقنا يارب
جس نے میری سنت زندہ کی بیشک اُس نے مجھ سے محبت ہے اور جسے مجھ سے محبت ہے وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔

حضرت بلال رضی اللہ تعالٰی عنه کی حدیث ہے رسول الله صلی اللہ تعالٰی علیه وسلم فرماتے ہیں:

من أحیا سنّةً من سنّتی قد أمیتت بعدي، فإنّ له من الأجرِ مثلَ أجورِ من عملَ بھا من غیرِ أن ینقصَ من أجورھم شیئاً ( رواہ الترمذي ورواہ ابن ماجة عن عمرو بن عوف رضی اللّٰه تعالٰی عنه ) 

جو میری کوئی سنت زندہ کرے کہ لوگوں نے میرے بعد چھوڑدی ہو جتنے اس پر عمل کریں سب کے برابر اسے ثواب ملے اور ان کے ثوابوں میں کچھ کمی نہ ہو۔ 

ابن عباس رضی الله تعالٰی عنہما کی حدیث ہے رسول الله صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
" من تمسّك بسنّتی عند فسادِ أمتّي فله أجرِ مائةُ شھید" ( رواہ البیھقی فی الزھد) 
جو فسادِ اُمت کے وقت میری سنت مضبوط تھامے اسے سَو شہیدوں کا ثواب ملے.

          وللّٰه الحمد أولاً وآخراً
✍️كتبته : بنت مرسلين، كراتشي.

 

بنت مرسلین

معلمة مدارس الدينية.
بنت مرسلین، کراچی
متخصصہ فی اللغة العربية، والافتاء
مدّرسة في المدارس الدينية.

کل مواد : 3
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2025

تبصرے

يجب أن تكون عضوا لدينا لتتمكن من التعليق

إنشاء حساب

يستغرق التسجيل بضع ثوان فقط

سجل حسابا جديدا

تسجيل الدخول

تملك حسابا مسجّلا بالفعل؟

سجل دخولك الآن
ویب سائٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اس سائٹ کے مضامین تجارتی مقاصد کے لئے نقل کرنا یا چھاپنا ممنوع ہے، البتہ غیر تجارتی مقاصد کے لیئے ویب سائٹ کا حوالہ دے کر نشر کرنے کی اجازت ہے.
ویب سائٹ میں شامل مواد کے حقوق Creative Commons license CC-BY-NC کے تحت محفوظ ہیں
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2025