سنتِ نبوی کی اتباع اور فضیلت

اللہ رب العزت نے مجسمہ انسانی کو اپنے ہاتھ سے تخلیق کیا،اس کو اشرف المخلوقات کا لقب دیا ،اس کی فطرت میں حق و باطل، ہدایت و ضلالت اور خیرو شر کے دو متضاد مادے رکھ دیے اور اس کو دارالامتحان میں پہنچا دیا۔انسان اگر راہِ حق کا مسافر بن جائے تو فرشتے اس کی قدم بوسی کو اتریں اور اگر فطرت سے بغاوت پر آمادہ ہوجائے توجانور بھی اس سے پناہ مانگیں۔انسان کو رضائے الٰہی کی منزل تک پہنچنے کے لیے کسی نمونہ ،آئیڈیل اور میر کارواں کی ضرورت پڑتی ہے، جس کے نقشِ قدم پر چل کر اور نشان منزل کو اپنا کر دائمی کام یابی پاسکے۔

اللہ رب العزت نے امتِ محمدیہ پر ایک عظیم احسان کیا ،خاتم النبیین، رحمة للعالمین، حضرت محمد مصطفی صلی الله علیہ وسلم کی شکل میں ایک نجات دھندہ عطا کیا ،ایک بے مثال، بے نظیر، آئیڈیل ونمونہ ودیعت کیا، ہدایت و خیر کے اس روشن چراغ کو جبلِ فاران کے افق سے نمودار کیا ، جو بلند ہوا اور ہوتا جارہا ہے ، جو چمکا اورچمکتا جا رہا ہے ، جو بڑھا اور بڑھتا جا رہا ہے ، جو پھیلا اور پھیلتا چلاجا رہا ہے ، جس کی کتاب ِ حیات کا ہر ورق و صفحہ، ہر موضوع و عنوان ، ہر سطرو جملہ اور ہر حرف ولفظ ، ہر زمانہ ،ہر شعبہ میں ہدایت کا روشن چراغ ہے ، جس نے زمان و مکان کی لامحدود وسعتوں کو مہر درخشاں کی مثل ضوفشاں کر دیا، انسانی معاشرے کے دشت بے اماں میں گل ہائے رنگارنگ اور میوہ ہائے شیریں سے لدے شجر سایہ دار کھڑے کر دیے اور افق تا افق محیط تاریکیوں کے سینے پر روشنی کی کرنیں پھیلادیں۔ عرب کے صحرا نشینوں نے آپ کی پیروی اور اتباع کرکے روم و فارس اور عرب و عجم پر حکم رانی کی ہے #
        ہوں گے جو محمد صلی الله علیہ وسلم کی سنت کے نگہبان
        ان لوگوں کو ہم ملک کا سردار کر دیں گے
        جس راہ سے گزریں گے سنتِ محمد صلی الله علیہ وسلم کے فدائی
        اس راہ کے ہر ذرے کو بیدار کر دیں گے

اتباع کیا ہے؟

اتباع کامعنی ہے"پیروی کرنا،تابع داری کرنااورپیچھے چلنا"۔امام فراء فرماتے ہیں:”الاتباع أن یسیر الرجل وأنت تسیر وراء ہ․“(نضرة النعیم:10/2)اتباع کااصل معنی ہے :”اقتفاء أثرالماشی“۔کسی کے نقشِ قدم پرچلنا،حکیم اختر صاحب فرماتے ہیں:

نقشِ قدم نبی کے ہیں جنت کے راستے

اتباع ” تبعیة“سے ہے ،” تبعیة“اس بچہ کو کہا جاتا ہے جو اپنی ماں اور باپ کی بلاسوچے سمجھے نقل کرتا ہو ۔حضوراکرم صلی الله علیہ وسلم کے لیے قرآن مجید میں اتباع کا لفظ اس لیے آیا ہے کہ ہم آپ صلی الله علیہ وسلم کی بغیر سوچے سمجھے اور بلا چوں چراں پیروی کریں ۔ امام احمد ، امام شافعی  اور امام ابن عبد البر اتباع کی اصطلاحی تعریف کرتے ہیں:”ھو أن یتبع الرجل ماجاء عن النبی صلی الله علیہ وسلم وعن أ صحابہ، ثم ھو من بعد فی التابعین مخیر“ (نضرة النعیم :10/2،بحوالہ أضواء البیان للسلقیطی:538/7) ترجمہ :اتباع یہ ہے کہ کوئی شخص حضور صلی الله علیہ وسلم، صحابہ کرام کی اتباع کرے اوران دونوں طبقات کے بعد والوں یعنی تابعین کے بارے میں اختیار ہے چاہے ان کی اتباع کرے یا نہ کرے۔

سنت کسے کہتے ہیں ؟

سنت ایک خاص طریقہ اور ضابطہ کو کہا جاتا ہے۔اس کا اطلاق سیرت وعادت اور فطرت ومزاج پر بھی ہوتا ہے ۔ہر صاحب لغت نے اپنے مزاج اور طبیعت کے مطابق سنت کی لغوی تحقیق کی ہے ، علامہ ابن درید نے”کتاب الجمہرة“میں صفحہ95 پر ، اسمٰعیل بن حماد جوہری نے الصحاح صفحہ518 پر، ،علامہ محمد مرتضیٰ زبیدی  نے ”تاج العروس“ کے 9/343پر، امام راغب اصفہانینے ”المفردات“کے صفحہ250 پر، علامہ ز مخشری نے”اساس البلاغة“کے صفحہ369 پر اورعلامہ ابن اثیر (الجزری) نے ”النہایة1/318 “پر سنت کی لغوی تحقیق کی ہے ۔علامہ ابن منظور افریقی (مصری) نے ”لسان العرب“میں جو تحقیق کی ہے وہ سب کا لبِ لباب ہے، وہ فرماتے ہیں:۔

”والسنة: الطریقة والسیرة، حسنة کانت أوقبیحة، قال خالد بن عتبة الھذیلی:#فلا یجزعن سیرة أنت سرتھا، فاول أرض سنة من یسیر ھا․والحدیث: من سن سنة حسنة فلہ أجرھا وأجرمن عمل بھا، ومن سن سنة سیئة کان علیہ وزرھا وزر من عمل بھا․“(لسان العرب:62/399)
ترجمہ :۔ سنت سیرت کے معنی میں بھی آتا ہے، خواہ اچھی ہو یا بری، چناں چہ ہذیلی شاعر کہتا ہے :جو سیرت تم نے اختیار کر لی ہے، اس سے ہر گز مت گھبراؤ ،اس لیے کہ جو شخص کوئی سیرت اختیار کرتا ہے وہی اس کا سب سے پہلا پسند کرنے والا ہوتا ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ: جس شخص نے اچھی سنت اختیار کی اس کو اس کا اجر …اور جس نے بری سنت اختیار کی اس کا گنا ہ اس کو…ملے گا۔

سنت کی اصطلاحی تعریف فنون و اغراض کے مختلف ہونے سے بدل جاتی ہے ، محدثین، فقہاء اور اصولیین نے اپنی اپنی سوچ اور زاویہ سے سنت کی تعریف کی ہے، چند صفحات سب کے تحمل سے قاصر ہیں، اس لیے بطور خلاصہ ایک ہی ذکر کی جاتی ہے:

”کل ما اثر من النبی صلى الله عليه وسلم من قول، أو فعل، أو تقریر، أو صفة خلیقة أو خلقیة، سواء کان ذلک قبل البعثة، کتحنثہ فی غار حرا، أوبعدھا․“(السنة قبل التدوین:18۔19)
ترجمہ: سنت ہر وہ قول، فعل اور تقریر جو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے منقول ہو ، چاہے وہ فطری ہو یا اخلاقی، قبل البعثت ہو یا بعد البعثت ۔

سنت کی دو اقسام ہیں: سنت ِ موٴ کدہ اور سنتِ غیر موٴکدہ۔ پہلی ہدی اور دوسری کو زوائد کہتے ہیں،علامہ مکحول فرماتے ہیں:”السنة سنتان: سنة الأخذبھافریضة، وترکھاکفر، وسنة الأخذبھا فضیلة، وترکھالی غیرحرج․“
ترجمہ: سنت کی دو قسمیں ہیں جس پر عمل کر نا فرض کا درجہ رکھتا ہے اور ترک کفر تک پہنچاتاہے۔ جس پر عمل کرنے سے ثواب ملتا ہے اور چھوڑنے میں کوئی حرج نہیں ۔

اتباع ِ سنت فطری تقاضا

شریعت کے قوانین وضوابط اپنی جگہ، مگر فطرت کے بھی کچھ تقاضے ہوتے ہیں ،محبت کے کچھ اصول ہوتے ہیں ۔ انسانی فطرت ہے کہ جو جتنا بڑا محسن ہوتا ہے طبیعت اس جانب مائل ہوتی اور اس کے رنگ میں رنگنے کا جی چاہتا ہے۔محب ہمہ تن اسی جستجو میں رہتا ہے کہ محبوب کی محبت میں اضافہ ہی ہوتا چلاجائے ۔امت محمد یہ میں کوئی فرداس وقت تک مسلمان نہیں ہوسکتاجب تک حضور صلی الله علیہ وسلم کی محبت سب محبتوں پر غالب نہ ہو ،اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:﴿النَّبِیُّ أَوْلَی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ أَنفُسِہِمْ ﴾(احزاب:6) مسلمانوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی محبت میں ایسے ایسے کارنامہ سر انجام دیے ہیں کہ دنیا ان جیسی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ ہر زمانے کے مسلمانوں نے اپنا تن ،من ،دھن آپ صلی الله علیہ وسلم کی ناموس عصمت پرنچھاورکیا ہے۔

محب تو محب رہا، محبوب کے کیا کہنے …!!ہر وقت وہر گھڑی اپنی امت ہی کی فکر میں ہیں …عرش ہویا فرش ،دن ہویا رات ،گرمی ہویا سردی، صحت ہویا مرض،خوشی ہویاغمی، مرض الموت ہویا قیامت،حشر ہویا نشر ،ہر وقت ایک ہی صدا، ایک ہی ندا،ایک ہی پکار اور ایک ہی التجاہے ،یارب امتی، امتی…!! آپ صلی الله علیہ وسلم ہم سے اتنی محبت کرتے ہوں اور حضور صلی الله علیہ وسلم کے ہم پراتنے احسانات ہوں ،اس کے باوجود بھی ہم سنتوں کو سنت کہہ کر چھوڑدیں تو کہاں کا انصاف ہے؟یقینا ہم کچھ بھول رہے ہیں …!!

اتباعِ سنت قرآن مجید کی نظر میں
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں مختلف مواقع پر مختلف انداز میں سنتِ نبوی کی اتباع کا حکم دیا ہے،کبھی وعدہ کرکے تو کبھی وعید سناکر ،کبھی ڈانٹ کر، کبھی خوش خبری سناکر تو کبھی ڈراکر ، کبھی انعام دے کر تو کبھی عذاب سناکر ۔ سب کالب لباب اور خلاصہ یہی ہے کہ تمہیں پسند ہویا ناپسند،تم پرخوش گوار گزرے یانا گوار ، تمہیں ہر حا ل میں محبوب صلی الله علیہ وسلم کی اتباع کرنی ہے ۔اسی لیے اللہ تعالیٰ نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی ذات کو بہترین نمونہ قرار دیا ۔

﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُولِ اللَّہِ أُسْوَةٌ حَسَنَة﴾․(احزاب:31)
کہیں پر مطلق اطاعت کا تاج آپ صلی الله علیہ وسلم کے سر پر رکھ دیا:﴿وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ لِیُطَاعَ بِإِذْن الله﴾․(نساء:64)
کہیں پر رسول کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا:
﴿مَّنْ یُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّہ﴾․(نساء:80)
کہیں پر اپنی محبت کو حضور صلی الله علیہ وسلم کی اتباع کے ساتھ مشروط کر دیا:﴿قُلْ إِن کُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّہَ فَاتَّبِعُونِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّہ﴾․(آل عمران:31)
کہیں پر رسول صلی الله علیہ وسلم کے امرونہی کا پابند بنا دیا:﴿َمَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانتَہُوا﴾․(حشر:7)

اللہ رب العزت نے جس طرح اپنے کلام میں اتباعِ سنت کی تاکید وتلقین کی ہے، اسی طرح تکوینی طور پر حضور پاک صلی الله علیہ وسلم کی ایک ایک سنت کو زندہ رکھا۔ آج دنیا بھر میں فقہاء کے چار مسالک رائج ہیں۔ بظاہر تو وہ فقہی اختلافات نظر آتے ہیں ، مگر در حقیقت ہر ہر سنت کی اتباع کا غیر محسوس طریقہ ہے۔

اتباعِ سنت نبی پاک صلی الله علیہ وسلم کے ارشادات کی روشنی میں

آقائے نام دار حضرت محمد مصطفی صلی الله علیہ وسلم خاتم النبیین وخاتم المرسلین ہیں۔ آپ جانتے تھے کہ ایک نبی و رسول کا مقام و مرتبہ کیا ہوتا ہے، اس کے حکم و امر کی کیا حیثیت ہوتی ہے اور اگر کوئی حکم عدولی کرے تو اس کا انجام قوم عاد، لوط اور قوم نوح کی طرح ہوتا ہے اور اس کا حشر فرعون ،ہامان اور نمرود کی طرح ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے آپ صلی الله علیہ وسلم نے بروقت اپنی امت کو اطاعت و اتباع کی ترغیب و تربیت کی، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:

فعلیکم بسنتی وسنة الخلفاء المجتھدین الراشدین، تمسکوا بھا، و عضواعلیھا بالنوا جذ․(رواہ احمد:28 /373)
ترجمہ :تم پر میری اور میرے خلفائے راشدین کی سنت پر عمل لازمی ہے ،اس کو تھام لو اور اس پر مضبوطی اختیار کرو۔

من تمسک بالسنة دخل الجنة․ (کنزالعمال:1/105) ترجمہ: جس نے سنت کو تھاما، وہ جنت میں داخل ہو گیا۔

فمن کانت فترتہ اِلیٰ سنتی، فقد افلح، ومن کانت فترتہ الیٰ غیر ذلک، فقد ھلک۔ (رواہ أحمد:11/375)
ترجمہ :جس کا اطمینان جاکر میری سنت پر ہوا، وہ کام یاب ہو گیا، اور جس کا اطمینان اس کے علاوہ پر ہوا، وہ ہلاک ہوگیا۔

فمن رغب عن سنتی فلیس منی۔(رواہ البخاری، کتاب النکاح، باب الترغیب فی النکاح:5063،ومسلم،کتاب النکاح:1401،وأحمد:11/9)
ترجمہ: جس نے میری سنت سے بے رغبتی کی وہ مجھ سے نہیں ہے۔

من أحب سنتی فقد أحبنی، ومن أحبنی کان معی فی الجنة۔(تہذیب تاریخ دمشق الکبیر:3/145)
ترجمہ: جس نے میری سنت سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی ، جس نے مجھ سے محبت کی وہ میرے ساتھ جنت میں ہوگا۔

من تمسک بسنتی عند فساد أمتی فلہ أجرما ئة شہید․ (مشکاةٰ المصابیح:1/62،رقم:176،ط:المکتب الاسلامی)
ترجمہ: جس نے میری امت کے فساد کے وقت میری سنت کو تھاما ، اس کو سو(100)شہیدوں کا ثواب ملے گا۔

خیر الحدیث کتاب اللہ، خیر الھدی ھدی محمد صلی اللہ علیہ وسلم، ومن شرالأمور محدثاتھا، وکل بدعة ضلالة۔(المسلم:2/592)
ترجمہ: بہترین کلام کتاب اللہ ہے، عمدہ سیرت ، محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ہے اور اس میں نئی چیزیں گھڑنا بدترین کام ہے اور ہر بدعت گم راہی ہے۔

قرآن و سنت کی ان قطعی نصوص کے بعد کیا کوئی حجت باقی رہ جاتی ہے؟ !! حیرت اور تعجب ہوتا ہے کہ آخر ہم کہاں پھرے جا رہے ہیں ؟!! ہم پیچھے مڑکر کیوں نہیں دیکھتے؟!!

اتباعِ سنت اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین

بعثتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل عرب پستی کے دہانے پر کھڑے تھے، ضلالت و گم راہی کی آخری حدود تک پہنچ چکے تھے اور اچھائی، بھلائی اور نیکی ان میں آخری سانسیں لے رہی تھی، مگر چند دنوں اور ہفتوں میں ان کی کایا پلٹ گئی، ان کی زندگیاں بدل گئیں، انہوں نے قیصر وکسریٰ کی قبائیں نوچیں، بڑے بڑے صاحب جبروت بادشاہوں کے تاج پاؤں میں روندے، ملائکہ ان کی مدد کو اترے، جنت کی ان کو بشارتیں آئیں ، فرشتوں نے ان کو سلام بھیجے، سمندروں اور دریاؤں نے ان کو راستے دیے، جس ملک وعلاقہ میں پہنچے وہاں کے باشندے ان کے گرویدہ ہوگئے، ظفر و فتح نے ان کے قدم چومے اور آسمان سے ان پر سکینہ نازل ہوئی۔

یہ مدد و نصرت کیوں اتری؟ اس لیے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے اپنے آپ کو مکمل طورپر سنت کے سانچہ میں ڈھال دیا تھا…لباس وپوشاک ،کلام و گفتگو، کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا، عبادات و معاملات،اخلاق و اقدار، تہذیب و تمدن… غرض یہ کہ ہر چیز میں دیکھتے کہ ہمارے رسول صلی الله علیہ وسلم کا اس میں کیا طریقہ کار تھا؟ وہ سنت پر مر مٹتے تھے، سنت کے مقابلہ میں کوئی رائے قبول نہ کرتے اور خلافِ سنت کاموں پر آگ بگولہ ہوجاتے، کبھی یہ نہ سوچتے تھے کہ اس میں کوئی علت ہے یا نہیں ، کوئی فائدہ ہے یا نہیں…!! امیر المومنین ، خلیفہ اول، حضرت ابو بکر صدیق فرماتے ہیں: ”میں ہر گز ایسا کام نہیں چھوڑ سکتا، جس کو نبی صلى الله عليه وسلم نے کیا ہو، میں ڈرتا ہوں کہ اگر میں کوئی سنت چھوڑ دوں گا تو بھٹک جاؤں گا۔“ (مسند احمد:1/20)

حضرت عمر نے حجر اسود کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ :
”میں جانتا ہوں تو پتھر ہے ، نفع دے سکتا ہے نہ نقصان، اگر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم تمہیں بوسا نہ دیتے تو میں بھی تمہیں بوسانہ دیتا۔“ (البخاری:1610)

ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:
”آخری زمانہ میں کچھ لوگ آئیں گے جو شبہاتِ قرآن کریم میں تم سے جھگڑیں گے، تم ان کے مقابلہ میں سنتوں کو تھامو، اصحابِ سنت کتاب اللہ کو زیادہ جاننے والے ہیں۔“(سنن الدارمی:80)

حضرت علی ایک دفعہ کھڑے ہو کر پانی پی رہے تھے، میسرہ بن یعقوب نے پوچھا: آپ کھڑے ہو کر پانی پی رہے ہیں؟ آپ  نے فرمایا:”اگر میں کھڑے ہو کر پانی پیتا ہوں تو میں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو اسی طرح دیکھا اور اگر میں بیٹھ کر پانی پیتا ہوں، تو میں نے تب بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کو اسی طرح دیکھا۔“(مسند احمد:2/242)

حضرت عبد اللہ بن عمر  فرماتے ہیں:
”ہم کچھ نہیں جانتے تھے، اللہ تعالیٰ نے ہماری طرف آپ صلی الله علیہ وسلم کو معبوث کیا ، پس ہم وہی کرتے ہیں جس طرح ان کو کرتے دیکھا ہے۔“(مسند احمد:9/495)

حضرت ابنِ عمر  سب سے زیادہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی سنتوں پر عمل کرتے تھے، سفر میں بلاضرورت لیٹ جاتے اور بغیر ضرورت کے قضاء حاجت کے لیے بیٹھ جاتے، پوچھنے پر یہی جواب دیتے کہ میں نے حضور صلی الله علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ آپ اکثر یہ آیت تلاوت فرماتے تھے:﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُولِ اللَّہِ أُسْوَةٌ حَسَنَة﴾․ (مسند احمد:9/191)

حضرت ابن مسعود کے بارے میں آتا ہے کہ آپ سب سے زیادہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی مشابہت اختیار کرتے تھے، حتی کہ گھر کے معمولات معلوم کرنے کے لیے اپنی والدہ کو حضور پاک صلی الله علیہ وسلم کے گھر بھیجتے تھے، ایک دفعہ فرمایا:”اتباع کرو ، بدعت اختیار نہ کرو ، ،پس یہی تمہاری نجات کے لیے کافی ہے۔“(الابانہ:1/328)

حضرت علی نے فرمایا:”اگر دین عقل کے تابع ہو تا تو ہم موزے کے باطن پر مسح کرتے، ،مگر ہم نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو ظاہر پر مسح کرتے دیکھا ہے۔“(مسند احمد:2/242)

اتباع ِ سنت کے موضوع پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے اتنے اقوال ہیں کہ ایک مستقل دیوان بھی ناکافی ہے…!! عقل والوں کے لیے اشارہ بھی کافی ہوتا ہے…!!
 

اتباعِ سنت اور اسلافِ امت

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بعد تابعین و تبع تابعین سے لے کر ہندو پاک کے اکابرینِ امت تک ہر فرد اتباع ِ سنت کا شیدائی تھا، ان کا اوڑھنا ، بچھونا، دل کا سکون، آنکھوں کا نور اور سینہ کی ٹھنڈک اتباعِ سنت میں تھی، ان کے شب و روز کا ایک ایک عمل، زبان کا ایک ایک قول اور زندگی کاایک ایک معمول…سنتِ رسول صلی الله علیہ وسلم کے سانچہ میں ڈھلا ہوا تھا۔ معاملات سے لے کر عبادات تک اور اخلاق و عادات سے لے کر معاشرت تک، ہر ہر شعبے میں ان کی زندگی رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی اتباع کا نمونہ تھی، وہ اٹھتے بیٹھتے…کھاتے پیتے…سوتے جاگتے…ملتے جلتے…آتے جاتے…اسی طرح بے شمار طبعی امور میں بھی نہ صرف سنتوں کا خیال رکھتے تھے ،بلکہ پابندی کے ساتھ عمل پیرا ہوتے تھے۔

امام شافعی  فرماتے ہیں:”جب میں کسی کو حدیث و سنت پر عمل کرتا ہوا دیکھتا ہوں تو گویا میں کسی صحابی کو دیکھتا ہوں ۔“(خطبات ازپروفیسر عبد الشکور:2/35)امام مالک کا مشہور قول ہے:”ان السنة مثل سفینة نوح، من رکبھا نجی، ومن تخلف عنھا غرِق․“( شمائل کبریٰ:1/43) ترجمہ: سنت مثلِ سفینہ نوح ہے، جو سوار ہوا، نجات پاگیا ، جو پیچھے رہا غرق ہو گیا۔

امام زہری فرماتے ہیں:”الاعتصام بالسنة نجاة․“(سنن الدارمی:28)امام اوزاعیکا ارشاد ہے:”ندور مع السنة حیث دارت․“ (نضرة النعیم:2/40) ایک اور جگہ فرمایا:”پانچ چیزیں ایسی ہیں جس پر صحابہ اور تابعین اچھی طرح عمل پیراتھے، ان میں سے ایک اتباعِ سنت ہے۔“(نضرة النعیم:2/40)امام ابو عثمان الحیری فرماتے ہیں:”جس نے قول و فعل میں اپنے نفس کوسنت کا عادی بنایا ، وہ دانش مندی والی باتیں کرے گا۔“(الاعتصام:65)امام ابو زناد فرماتے ہیں:"سنتیں حق کی راہیں ہیں، جو اکثر رائے کے خلاف آتی ہیں۔ پس مسلمانوں کے لیے اس کی اتباع کے علاوہ کوئی چارہٴ کار نہیں ہے۔“ (نضرة النعیم:2/40، بحوالہ: البخاری-الفتح:4/225)

امام ابو حفص فرماتے ہیں:” جس نے افعال و احوال کو ہر وقت سنت پر نہ پرکھا اور نہ ہی اس کے نفس نے اس کا اہتمام کیا، تو اس کو مردوں کی صف میں شمار نہ کرو۔“(الاعتصام:64)امام ابوبکر ترمذی کا ارشاد ہے: ”صرف اور صرف اہل محبت ہی تمام اوصاف میں بلند ہمت ہوتے ہیں اور وہ یہ بلند ہمتی سنت کی اتباع اور بدعت سے اجتناب کے ذریعہ حاصل کرتے ہیں۔“ (الاعتصام:62)امام ہشام بن عروہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں:”ان السنن قوام الدین․“(الترغیب والترھیب:1/124)اور امام سیوطی نے اس موضوع پر ایک شان دار کتاب لکھی ، اس کا نام ہے ”مفتاح الجنة فی الاحتجاج بالسنة․“ (الترغیب والترھیب:1/126)

حضرت بشر حافی فرماتے ہیں: ایک دفعہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم میرے خواب میں آئے اور پوچھا ”اے بشر!کیا تو جانتا ہے کہ تمہیں اللہ تعالیٰ نے ہم نشینوں میں کیسے بلند مرتبہ عطا کیا؟“میں نے کہا ”نہیں! یا رسول اللہ“ فرمایا:”میری سنتوں کی اتباع ، نیک لوگوں کا احترام وغیرہ کی وجہ سے…۔“(الاعتصام:16)”حضرت ابو عثمان حیری فرماتے ہیں:”اگر حضورپاک صلی الله علیہ وسلم کی صحبت کواختیارکرناچاہتے ہو توسنت کی اتباع کرو۔“(الاعتصام:65)اور امام عبد اللہ بن دیلمی فرماتے ہیں :”ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ دین اس وقت نکلنا شروع ہو جاتا ہے جب سنت کو چھوڑ دیا جاتا ہے، پھر ایک ایک سنت کر کے سارا دین چلا جاتا ہے، جیسے رسی کا ایک ایک بٹ نکالنے سے رسی ختم ہو جاتی ہے۔“(سنن الدارمی:28)

مجدد الف ثانی علامہ سرہندی فرماتے ہیں :میں ہر وقت اپنے اور دوسرں کے لیے یہ دعا کرتا ہوں:
”اللھم أحیني متبعاً للسنة، وأمتنی متبعاً للسنة، وأحشرنی علی اتباع السنة․“(مقالاتِ عثمانی)

حضرت شیخ الہند اکثر وتروں کے بعد دو رکعات نفل بیٹھ کر پڑھا کرتے تھے ، کسی نے پوچھا کہ”اس سے تو ثواب آدھا رہ جاتا ہے ؟ “آپ نے جواب دیا ”بھائی ! اس سے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی اتباع میں جی زیادہ لگتا ہے۔“حکیم الامت حضرت مولانااشرف علی تھانوی ایک دفعہ بازار گئے اور جہاں کہیں سے ”کدو “ملے جمع کر کے لے آئے ، کسی نے پوچھا اتنے سارے کدوں کا کیا کریں گے؟ فرمایا ”میرے نبی صلی الله علیہ وسلم کو ”کدو“ بہت محبوب تھے، میں اس سنت پر عمل کرتے ہوئے کدو کھاؤں گا۔“حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی نے فرمایا”ایک دفعہ فاقہ کی وجہ سے سنت پر عمل کرتے ہوئے دو پتھرپیٹ پرباندھے ، مجھے بہت سکون اور نورانیت محسوس ہوئی۔“شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی کا اتباعِ سنت بہت مشہور تھا ،آپ آخری عمر میں بہت علیل ہو گئے تھے ، حکیموں اور خادمین نے بہت اصرار کیا کہ آپ کو تکلیف اور پریشانی ہوگی آپ ٹیک لگاکر کھاناکھالیں، آپ نے فرمایا ”نہیں! یہ خلافِ سنت ہے“اور ٹیک چھوڑ کر کھانا کھایا۔(اتباع سنت)

یہ سب اقوال اور واقعات آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہیں، ان جیسے انمول موتیوں سے کتابیں بھری پڑی ہیں ، کون کون سا واقعہ اور کون کون سا قول نقل کروں؟ صفحات کم ہو تے جا رہے ہیں اور سطریں سمٹتی جا رہی ہیں، جب کہ اسلافِ امت کا ہرہر قول اور ہرہر واقعہ آگے بڑھ کر یہی کہہ رہا ہے کہ ”مجھے بھی ذکر کرو…میرے بارے میں لکھو…میرا بھی تذکرہ ہونا چاہیے…!!“ بہت کچھ بیان ہوتا رہا اور بہت کچھ ہوتا رہے گا، بہت کچھ لکھا جاتا رہے گا ،مگر فائدہ اور نتیجہ اسی وقت حاصل ہوگا جب عملی زندگی کو سنوارا جائے گا۔

اتباعِ سنت کا ثمرہ

﴿من یطع اللہ ورسولہ ند خلہ جنت تجری من تحتھا الانھار﴾․ترجمہ:جس نے اللہ اور رسول کی اطاعت کی وہ ایسی جنت میں داخل ہو جائے گا جس کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کیا ہی عمدہ انعام کا ذکر کیا ہے۔ اتباعِ سنت کمالِ محبت کی دلیل ہے، اتباع سے جہاں اللہ تعالیٰ کی محبت، رحمت، مغفرت اور رضاعت ملتی ہے، وہاں پر مدد و نصرت اور عزت و فلاح نصیب ہوتی ہے۔ نفسانی خواہشات دور ہوتی ہیں اور عبادت میں لذت محسوس ہوتی ہے۔ متبعِ سنت زمانہ کا امام و مقتدا ہوتا ہے۔ اتباعِ سنت کے بغیر کچھ حاصل نہیں ہوتا…نہ منزل ملتی ہے…نہ نجات ملتی ہے…نہ ترقیاں ملتی ہیں…نہ کمالات حاصل ہوتے ہیں۔سنتِ رسول صلی الله علیہ وسلم ایسا نور اور ایسی روشنی ہے…جس سے ہر قسم کی تاریکیاں کافور ہو جاتی ہیں۔ جو شخص اس سایہ میں آجائے گا…خواہ وہ قصداً آیا ہو یا غیر ارادی طور پر…اپنے اختیارات سے آیا ہو یا غیر اختیاری طور پر…تو وہ ہر قسم کی گم راہی اور تاریکیوں سے محفوظ ہوجائے گا۔

ایک صا حبِ بصیرت بزرگ فر ما تے ہیں:اتبا ع سنت سے خوش گوار تبدیلی محسوس ہوگی… چین و سکون نصیب ہو گا … کا مو ں میں آسا نی و برکت نظر آئے گی …دولت اور وقت میں بر کت ہو گی…وہ لوگ جو آپ سے نفرت کرتے ہیں …وہ آپ سے محبت کر نے والے بن جائیں گے …آپ ہر دلعزیز بنتے جا ئیں گے ، اس لیے کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم کی سنتوں میں ایسی دلکشی اور کشش ہے کہ دوسروں کو اپنی طرف کھنچتی ہے، یہی کا فر کو بھی اپنی طرف ما ئل کر لیتی ہے …کافر بھی جب کسی سنت پر عمل کرنے والے کو دیکھے گا تو اس کی طرف مائل ہو گا۔ ( اتبا ع سنت : ۹۴ ، حوالہ اصلاحی خطبات )

آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک دفعہ ایک یہودی اور منا فق کے مابین فیصلہ کیا ، فیصلہ یہودی کے حق میں تھا ۔منا فق نے کہا حضرت عمر فاروق  سے فیصلہ کر واتے ہیں۔ دو نوں حضرت عمر کے پاس حاضر ہوئے ،سارا واقعہ سنایا گیا، یہودی نے کہا کہ ایک دفعہ حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم میرے حق میں فیصلہ کر چکے ہیں ، مگر میرے مد مقابل نے کہا کہ آپ سے فیصلہ کر وائیں ، حضرت نے کہا یہیں رکو ،میں فیصلہ کرتا ہوں، گھر گئے اور تلوار لاکرمنافق کا سر تن سے جدا کردیا اور فرمایا کہ جس کو حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ پسند نہیں اُس کا اِس دنیا میں رہنے کا کوئی حق نہیں!!

مفتی نظام الدین شا مزئی شہید  اس واقعہ کو ذکر کر کے فرماتے ہیں: صحا بہ کے ہاں منکر ِسنت کی سزا قتل ہے ۔ اب اس واقعہ کی روشنی میں وہ لوگ اپنے انجام پر غور کریں جو اپنی زندگی کے مختلف مو اقع میں سنت رسول کو جاننے کے باوجود تر ک کردیتے ہیں اور عملاً گویا منکر ہوتے ہیں، وہ اگر دنیا وی سزا سے بچ جا ئیں گے تو کیا وہ آخری عذاب سے بچ جائیں گے ؟ ترک سنت سے اللہ تعالیٰ کا غضب، قہر اور غصہ نازل ہو تا ہے اور زندگی کے خوب صورت پہلو مر جاتے ہیں ،حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تارکِ سنت کو اپنی شفاعت سے محروم فرما دیا۔ (ما ہنا مہ الفا روق، جلد: 1 ، شمار : 3)

دور حاضر میں اتباعِ سنت کا فقدان اور اثرات
آج سے ایک صدی قبل ”لارڈ میکا لے “ نے کہا تھا کہ ” میں ایسا نصاب اور پرو گرام تشکیل دوں گا ، جس سے یہ مسلمان اگر یہودی اور عیسائی نہ بن سکے تو مسلمان بھی نہیں رہیں گے۔ “ آج اس شاطر دماغ کا دعوی سچ ہوتا دکھائی دے رہا ہے ۔ دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی مسلمان آباد ہیں ، فرد ہو یا جماعت ، ایک گھر ہو یا پورا خاندان ،ایک چھوٹی سی بستی ہو یا بڑے سے بڑاشہر، غیر مسلم ممالک میں رہنے والی مسلم اقلیت ہو یا مسلم ممالک کی غالب اکثریت ، ہر فرد مسلمان ہونے کا دعویٰ تو کرتا ہے، مگر شکل و صورت اور وضع قطع سے وہ کہیں سے بھی مسلمان نہیں لگتا ۔ سنت کو سنت کہہ کر چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ ہرطرف، ہر جانب اتباع سنت کا فقدان ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ جہاں ایک طرف مسلمان مغلوب ہیں، ان کا خون ندی نالو ں کی طرح بہہ رہاہے، مسلمانوں کی بستیاں روئی کے گا لو ں کی طرح اُ ڑ رہی ہیں اور لمحہ بھر میں سینکڑوں مسلمان لقمہ اجل بن جاتے ہیں ، وہاں دوسری طرف اسلام پر نزع کا عالم طاری ہے ، ہر طرف فحاشی و عریانی کا طوفان برپا ہے ، مادیت کا سیلاب رواں ہے ۔ ہر طرف مغربیت کی گھٹائیں چھائی ہوئی ہیں، بدکاری اور شراب نوشی عام ہے ، رب کی نا فرمانیاں حد سے تجاوز کر چکی ہیں، ہر کوئی الحاد، زندقہ،بد دینی اوربے دینی میں مبتلا ہے، اخلاقی اقدار، روحانی بصیرت اور ایمانی جوہر کھو چکا ہے۔انٹر نیٹ، کمپیوٹر ، ٹیلی ویژن اور میڈیا کی تباہ کاریاں عام ہیں ، مساجد اور خانقاہیں ویران، جب کہ سینما گھر اور نیٹ کلب آباد ہیں۔

افسوس صرف یہ نہیں کہ کچھ معلوم نہیں، بلکہ جو معلوم ہے، وہ معمول میں نہیں ہے اور افسوس صد افسوس یہ ہے کہ آج کا دینی طبقہ بھی اس رخ پر چل پڑا ہے اور اسی بہاوٴ میں بہہ رہا ہے…!!آج ہم یہ رونا روتے ہیں کہ ہماری پگڑیاں اچھالی جا رہی ہیں …ہمارے قباء نوچے جا رہے ہیں … ہمارے ذاتی امور پر نکتہ چینی ہو رہی ہے … مگر کبھی یہ نہیں سوچتے کہ آج مسا جد سے لے کر مدارس تک …خا نقاہوں سے لے کر چھوٹے سے چھوٹے دینی اداروں تک …ہم وارثان ِانبیا ء ہوکر بھی عملی دنیا میں کئی سنتوں کو نظر انداز کر جاتے ہیں …کیا اس سے حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم کا دل نہ دکھتا ہو گا…؟!! کیا اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم خفا نہیں ہوں گے…؟!!کیا اللہ تعالیٰ اس پر ناراض نہیں ہوتے ہوں گے…؟!! تو پھر یہ آہ وبکا کس بات کی …؟!!

آج گلی کو چوں سے لے کر بڑی بڑی شاہ راہوں تک نا موس رسالت اور حر متِ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم پر احتجاج اور ریلیا ں نکال کر ہم ظاہری محبت کا اظہا رتو کر لیتے ہیں ،مگر صبح سے شام ،دن سے رات تک اور سر سے پاوٴں تک ہم حضور اکرم صلى الله عليه وسلم کی کئی سنتوں کو ذبح کر دیتے ہیں۔اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ہما رے دل آپ صلى الله عليه وسلم کے حقیقی مقام ، مرتبہ اورعظمت سے خالی ہیں، اس لیے کہ ہمارے دلوں میں دنیا اور اس دنیا کی محبت گھر چکی ہے ، ہمارے آئیڈیل وہ داغ دار لوگ بن چکے ہیں جو ملمع سازی کے ساتھ کیمرے کی سکر ین میں آجاتے ہیں، متبعِ سنت علماء و صلحاء سے ہمارانا طہ ٹوٹ چکا ہے ، ہمارے بچے نوجوان ہو کر بوڑھے ہو جاتے ہیں مگر سیرتِ طیبہ سے بالکل نابلد ہوتے ہیں ، ہم بچپن ہی سے بچوں کے ہاتھ میں لہوو لعب کے ایسے آلا ت پکڑا د یتے ہیں کہ وہ مرتے دم تک ان میں کھو کر سیرت النبی صلى الله عليه وسلم سے غافل ہو جا تے ہیں۔

ہم متبع سنت کیسے بن سکتے ہیں ؟

        اگر تم چاہتے ہو سارے زمانہ کا اَمن
        تو یہ راز پو شیدہ ہے محمد صلی الله علیہ وسلم کے خزانہ میں

اگر ہم چا ہتے ہیں کہ فرد سے جماعت تک، گھر سے خاندان تک ، بستی سے شہروں تک اور ملک سے پوری دنیا تک سب امن وآشتی کا گہوارہ بن جائیں تو ہمیں اپنی زند گیا ں بد لنی ہوں گی ، حضور پاک صلی الله علیہ وسلم کے حقیقی مقام و مرتبہ کو پہچاننا ہوگا ۔ نیک وصالح علماء اور بزر گانِ دین کی صحبت اختیار کرکے دنیا اور اہل دنیا کی محبت نکالنی پڑے گی،اغیار کی مشا بہت چھوڑ کر نبوی رنگ میں رنگناہو گا ،اپنا ہر قول اور ہر فعل آپ صلی الله علیہ وسلم کی سنتو ں سے مزین کرنا ہوگا۔اس کا سب سے بہترین طر یقہ یہ ہے کہ ہم خودبھی اور اپنے بچوں کو بھی سیرتِ النبی صلی الله علیہ وسلم کامطا لعہ کرائیں۔قدرت اللہ شہاب ”شہاب نامہ“میں لکھتے ہیں: ”سیا سی شکستگی ،معاشی بد حالی ، ثقا فتی ابتری اور رو حانی اقدار کی بدحالی کے اس تاریک دور میں مسلمانوں کے دینی شعور کو سہارا دینے اور محکم رکھنے کے لیے علمائے کرام اور روحانی پیشو اوٴں نے بہت سے راستے اختیار کیے۔ ان راستوں میں ایک یقینی راستہ سیرت ِطیبّہ کی نشرواشاعت کا اہتمام تھا کیوں کہ احیائے ایمان میں حبِ رسول اور ذکرِ رسول صلی الله علیہ وسلم کیمیا کی طرح اکسیر کا حکم رکھتا ہے۔“( شہاب نامہ ازقدرت اللہ شہاب)

خلا صہ کلام

امام اہل سنت حضرت مولاناسر فراز خان صفدر نے اتباع ِسنت پر اپنے دلی جذبات کا اظہار بہت عمدہ الفاظ میں کیا ہے ،جو اس مضمون کا لب ِ لباب اور خلا صہ ہے، فرماتے ہیں: ” جناب ِنبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی تعلیم عین فطرِت انسانی کے موافق اور متوازی ہے۔اورانسانی فطرت کے دبے اورپھٹے ہوئے جملہ تقاضوں کی ترجمانی ہے اوراس کی خلاف ورزی فطرتِ انسانی سے بغاوت ہے۔ہادیِ بر حق ،رہبرِکامل،خاتم النبیین،حضرت محمد مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلم کی شر یعت اورآئین جس تو جہ کا مستحق ہے ،اگر ویسی ہی توجہ اس کی طرف کی جائے توآج بھی مسلمان وہی جوشِ ایمانی اوروہی مبہوت کن کارنامے دنیا کوپھر دکھا سکتے ہیں۔جو آں حضرات کے صحابہ کرام نے دکھا ئے تھے۔ مذھب ِاسلام اور سنت ِ رسول ہی کے ذریعہ دنیا میں کا مل اتحا د، صحیح عدل اور مکمل امن قائم ہو سکتا ہے، نہ ان جیسا رہبر کامل دنیا میں پیدا ہوا اور نہ تاقیامت پیدا ہوگااور نہ کو ئی نظام اور آ ئین ہی ایسا موجود ہے ۔

ولادت سے لے کر وفات تک ، خو شی سے لے کر غمی تک ،زندگی کے ہرپہلو اورہرشعبہ میں اس کی اصلاح کے لیے ہم کو صرف سنت ِ رسول اللہ اور شر یعت ِ اسلامی کی طرف متو جہ ہونا پڑ ے گا ، جو ہر طرف سے محفوظ و موجود ہے ۔کسی دو سری شر یعت ،کسی دوسرے ہادی، کسی اور آئین اور کسی رسم ورو اج کی طرف نہ تو ہمیں نگا ہ اٹھانے کی ضرورت ہے اور نہ گنجائش۔بھلا جس کے گھر میں شمعِ کا فوری روشن ہو ،اس کو فقیر کی جھو نپڑی سے اس کا ٹمٹما تا ہوا چراغ چرانے کی کیا ضرورت اور حا جت ہے ؟ ہاں! مگر کوئی خوش نصیب اس کی طرف ہا تھ بھی گو بڑھائے۔ کو تا ہ دست اور بد قسمت کوسنتِ رسول اللہ کے آب ِ حیا ت سے کیا فا ئد ہ ؟ #
        یہ بزم مئے ہے یہاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
        جو بڑھ کر خود اُ ٹھا لے ہاتھ میں مینا اُسی کا ہے
                    (راہ سنت :24)

احتشام الحسن ، چکوال

مدّرس:جامعہ اظہار الاسلام(جدید)چکوال
کل مواد : 10
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2024

تبصرے

يجب أن تكون عضوا لدينا لتتمكن من التعليق

إنشاء حساب

يستغرق التسجيل بضع ثوان فقط

سجل حسابا جديدا

تسجيل الدخول

تملك حسابا مسجّلا بالفعل؟

سجل دخولك الآن
ویب سائٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اس سائٹ کے مضامین تجارتی مقاصد کے لئے نقل کرنا یا چھاپنا ممنوع ہے، البتہ غیر تجارتی مقاصد کے لیئے ویب سائٹ کا حوالہ دے کر نشر کرنے کی اجازت ہے.
ویب سائٹ میں شامل مواد کے حقوق Creative Commons license CC-BY-NC کے تحت محفوظ ہیں
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2024