ازدواجی زندگی اور اُسوۂ نبوی ﷺ (۲)
ازواج مطہرات کے ساتھ بے تکلفی اور زنانہ ناز و انداز کے پاس و لحاظ کا ایک لطیف مظہر حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ ایک بار سرکار دوعالم انے مجھ سے فرمایا : جب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو اور جب ناراض ہوتی ہو ، دونوں کو میں اچھی طرح سمجھ لیتا ہوں ، میں نے پوچھا : آپ کیسے سمجھ لیتے ہیں ؟ آپ نے ارشاد فرمایا : جب تم خوش رہتی ہو اور قسم کھانی ہوتی ہے تو کہتی ہو : محمد اکے رب کی قسم ! اور جب ناراض ہوتی ہو تو کہتی ہو : حضرت ابراہیم ؑ کے رب کی قسم ! میں نے کہا : اللہ کے رسول ! خدا کی قسم میں صرف آپ کا نام ہی چھوڑتی ہوں : ’’ ما أہجر إلا اسمک ‘‘ (بخاری ، کتاب النکاح ، حدیث نمبر : ۴۹۳۰) یعنی یہ صرف زبان سے ہوتا ہے ؛ لیکن دل میں ہمیشہ آپ اکا ذکر خیر بسا رہتا ہے ۔
ازواج کے ساتھ بے تکلفی کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ آپ بعض دفعہ ان کی آپسی نوک جھونک اور ایک دوسرے کے ساتھ تفریح سے بھی لطف اندوز ہوتے تھے ، اسی طرح کا ایک واقعہ حضرت عائشہ ؓ سے منقول ہے کہ ایک بار حضرت سودہؓ میرے پاس آئیں ، رسول اللہ ا ہم دونوں کے درمیان اس طرح بیٹھ گئے کہ آپ کا ایک پاؤں میری گود میں تھا اور ایک پاؤں ان کی گود میں ، میں نے ان کے لئے حریرہ بنایا اور ان سے کھانے کو کہا ، انھوں نے انکار کیا ، میں نے کہا : یا تو آپ کھائیں یا میں آپ کے چہرے پر مَل دوں گی ، انھوں نے پھر انکار کیا تو میں نے پیالے میں سے تھوڑا سا حریرہ لے کر ان کے چہرے پر مَل دیا ، آپ ا نے ان کی گود سے اپنا پاؤں ہٹالیا ؛ تاکہ وہ بھی مجھ سے بدلہ لے سکیں ؛ چنانچہ انھوں نے بھی تھوڑا سا حریرہ لے کر میرے چہرے پر بھی مَل دیا ، رسول اللہ ا اس منظر کو دیکھتے اور ہنستے رہے ۔ (نسائی ، کتاب عشرۃ النساء ، حدیث نمبر : ۸۹۱۷)
اسی طرح بعض اوقات ایک ہی برتن سے آپ ااور حضرت عائشہؓ غسل فرماتے اور دونوں اس سے پانی لیتے ، کبھی آپ احضرت عائشہؓ سے فرماتے کہ تم میرے لئے پانی چھوڑ دو ، اور کبھی حضرت عائشہ حضور سے عرض کرتیں کہ آپ میرے لئے پانی چھوڑ دیں :’’ حتی یقول لھا دعي لي و تقول لہ دع لي‘‘ (مسلم ، کتاب الحیض ، حدیث نمبر : ۳۲۱) — کبھی کبھی آپ ازواج مطہرات سے مزاح بھی فرماتے تھے ، ایک زوجۂ مطہرہ نے ایسا کپڑا پہنا ، جو بہت ڈھیلا ڈھالا تھا ، آپ انے فرمایا : پہنو اور اللہ کا شکر ادا کرو ، اور فرمایا کہ تمہارا دامن اس طرح گھِسٹ رہا ہے ، جیسے لباس عروسی کا دامن ہو : ’’ وجری من ذیلک ھذا کذیل العروس ‘‘ (کنزالعمال : ۷؍۲۰۶ ، حدیث نمبر : ۱۸۶۴۶) — حضرت عائشہ جب حرم مبارک میں آئیں تو کم عمر تھیں اور گڑیا بھی بناتی تھیں ، انھوں نے ایک گھوڑا بنایا اور اس میں پَر بھی لگا دیا ، آپ ادیکھ کر مسکرائے اورارشاد فرمایا : اس گھوڑے کے پر بھی ہیں ؟ حضرت عائشہؓ بھی بڑی ذہین اور ذکی خاتون تھیں ، کہنے لگیں : حضرت سلیمان ؑکے گھوڑوں کے تو پَر ہوتے تھے ۔ (ابوداؤد ، کتاب الادب ، حدیث نمبر : ۴۹۳۲)
آپ ایک ایسے محبت کرنے والے شوہر تھے ، جو نہ صرف بیویوں کی دل داری کا خیال رکھتے تھے ؛ بلکہ ان کے کاموں میں بھی مدد فرماتے تھے ، حضرت عائشہ ؓسے دریافت کیا گیا کہ آپ جب اپنے گھر میں ہوتے تو کیا کرتے تھے ؟ حضرت عائشہؓ نے فرمایا : گھر کے کاموں میں مدد فرماتے ’’ کان فی مھنۃ أھلہ‘‘ (بخاری ، حدیث :۲۷۶، ترمذی ، حدیث نمبر : ۲۴۸۹ ) ایک اور روایت میں ہے : کپڑے میں پیوند لگا دیتے ، بکرے کا دُودھ دُوہ دیتے اور عام طور پر مرد اپنے گھر میں جو کام کرتے ہیں ، اسے انجام دیتے تھے : ’’ وکان یرقع ثوبہ ویحلب الشاۃ ویعمل ما یعمل الرجال فی بیتہ‘‘ ۔ (مسند احمد ، حدیث نمبر : ۲۹۴۷ ، مسند ابی یعلی ، حدیث نمبر : ۴۸۷۳)
یہ بھی معمول مبارک تھا کہ روزانہ دو دفعہ تمام ازواج مطہرات کے یہاں تشریف لے جاتے ، ان کی خیریت دریافت کرتے اور کچھ وقت ان کے ساتھ گزارتے ، ایک تو عصر کے بعد آپ کی تشریف آوری ہوتی : ’’ وکان إذا صلی العصر دار علی نسائہ ، فدنا منھن واستقرأ أحوا لھن‘‘ (بخاری ، کتاب النکاح ، حدیث نمبر : ۴۹۱۸) چنانچہ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ تمام ازواج مطہرات کے پاس تشریف لے جاتے ،اظہار محبت کے لئے ان پر ہاتھ رکھتے اور ایسا عمل کرتے جس سے تعلق کا اظہار ہو ، یہاں تک کہ آخری گھر تک پہنچتے ، اور جن کی باری ہوتی ، ان کے یہاں قیام فرماتے : ’’ قلّ یوم إلا وھو یطوف علی نسائہ فیذ نومن أھلہ فیضع یدہ ویقبل کل امرأۃ من نسائہ حتی یأتی علی آخرھن فإن کان یومھا قعد عندھا‘‘ (ابوداؤد ، کتاب النکاح ، حدیث نمبر : ۲۱۳۵) — دوسرے : فجر کے بعد مسجد میں تشریف فرما ہوتے اور صحابہ استفادہ کے لئے آپ اکے گِرد بیٹھ جاتے ، پھر جب سورج طلوع ہوجاتا تو ایک ایک بیوی کے پاس تشریف لے جاتے ، ان کو سلام کرتے ، انھیں دُعا دیتے اور جس کی باری ہوتی ، ان کے پاس مقیم ہوجاتے ۔ (فتح الباری : ۱۵؍۹۶)
مغرب بعد معمول مبارک تھا کہ جن زوجۂ مطہرہ کی باری ہوتی ، آپ ان کے یہاں مقیم ہوجاتے اور تمام ازواج مطہرات وہیں جمع ہوجاتیں ، کبھی کبھی ایک ساتھ اجتماعی کھانا ہوتا ، جب آرام فرماتے تو جن کی باری ہوتی ، ان کے ساتھ ایک ہی بستر پر اور ایک ہی لحاف میں آرام فرماتے ، کبھی ایسا بھی ہوتا کہ کسی بیوی کی گود میں سر رکھ کر سہارا لیتے ، اگر کوئی زوجہ مطہرہ حیض کی حالت میں ہوتیں ، تب بھی ان کے ساتھ بے گانگی کا عمل نہ ہوتا ؛ بلکہ ان کے ساتھ ہی سوتے : ’’کان یباشر نساء ہ فوق الإزار وھن حیض ‘‘ ۔(مسلم ، کتاب الحیض ، حدیث نمبر : ۲۹۴)
عورتوں میں زینت و آرائش کا جذبہ بہ مقابلہ مردوں کے زیادہ ہوتا ہے ؛ اسی لئے شریعت میں انھیں سونا اور ریشم کی بھی اجازت دی گئی ہے ، جس سے مردوں کو منع فرمایا گیا ہے ، آپ عورتوں کے اس فطری جذبہ کا بھی پورا خیال رکھتے تھے ، حضرت جابر سے روایت ہے کہ ہم لوگ سفر میں رسول اللہ اکے ساتھ تھے ، جب ہم واپس لوٹے اور مدینہ میں داخل ہونا چاہا تو آپ انے فرمایا : ٹھہر جاؤ ، رات ہوجانے دو ؛ تاکہ جن کے بال بکھرے ہوئے ہوں ، وہ کنگھی کرلیں اور جسم کو فاضل بال سے صاف ستھرا کرلیں : ’’ حتی تمتشط الشعثۃ وتستحد المغیبۃ‘‘ (ابوداؤد ، کتاب الجہاد ، حدیث نمبر : ۲۷۷۸) — حضرت عائشہؓ اور حضرت حفصہؓ کے ہاتھوں میں سونے کے کنگن تھے ، آپ انے دریافت فرمایا : کیا تم نے اس کی زکوٰۃ ادا کی ہے ؟ اگر تم نے اس کی زکوٰۃ ادا نہیں کی تو یہ آگ کے کنگن ہیں ، (ابوداؤد ، کتاب الزکوٰۃ ، حدیث نمبر : ۱۵۶۵ ، ترمذی ، کتاب الزکوٰۃ ، حدیث نمبر : ۶۳۷) یعنی آپ نے کنگن پہننے کو ناپسند نہیں کیا ؛ بلکہ زکوٰۃ ادا نہ کرنے پر ناگواری ظاہر فرمائی ، اسی طرح واقعۂ افک مشہور ہے ، جس میں حضرت عائشہؓ کا ایک قیمتی ہار گم ہوگیا تھا ، غرض کہ باوجود اس کے کہ آپ کی زندگی نہایت سادہ تھی اور ازواج مطہرات کے یہاں تعیش کا کوئی تصور نہیں تھا ؛ لیکن عورتوں میں زیب و زینت کا جو فطری جذبہ ہوتا ہے ، آپ نے اپنی ازواج مطہرات کے لئے اس کا لحاظ رکھا ؛ تاکہ اُمت کے لئے نمونہ ہو ۔
جیسے شوہر یہ چاہتا ہے کہ بیوی اس کے لئے زیب و زینت اختیار کرے ، اسی طرح بجاطورپر عورتوں کو بھی یہ چاہنے کا حق ہے کہ اس کا شوہر اس کے لئے جائز حدود میں بن سنور کررہے ، آپ اکے یہاں اس کا بھی لحاظ تھا ، یوں تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسے حسن سے نوازا تھا ، جس کی تاریخ انسانی میں کوئی مثال ہی نہیں ، یہاں تک کہ بعض روایات کے مطابق آپ کے رُخ روشن کی روشنی میں بعض ازواج مطہرات سوئی میں دھاگہ بھی پہنالیا کرتی تھیں ؛ (خصائص الکبریٰ : ۱؍۱۰۹) لیکن اس کے علاوہ ظاہری اسباب کے اعتبار سے بھی آپ کو اس کا لحاظ تھا ، آپ زلف مبارک میں تیل لگانے اور کنگھی کرنے کا اہتمام فرماتے ، ریش مبارک میں بھی کنگھی کرتے ، صاف ستھرے کپڑے پہنتے ، کبھی کبھی قیمتی لباس بھی زیب تن فرماتے ؛ حالاںکہ آپ کے پسینے کی خوشبو بھی مشک سے بڑھی ہوئی تھی ؛ لیکن اس کے باجود آپ عطر کا بھی بکثرت استعمال کرتے اور مسواک کا بھی خصوصی اہتمام فرماتے ۔
مرد ہوں یا عورت ، ان میں ایک جذبہ تفریح کا بھی رکھا گیا ہے ، آدمی جب نئے مقامات کو دیکھتا ہے تو اس کو نشاط حاصل ہوتا ہے ، آپ اپنی ازواج کے معاملے میں اس کو بھی ملحوظ رکھتے تھے اور سفر میں ان کو اپنے ساتھ لے جاتے تھے ، پھر اپنی طرف سے کسی ایک زوجہ کا انتخاب کرنے کے بجائے قرعہ اندازی کیا کرتے تھے ؛ قرعہ میں جن کا نام نکل آیا ، ان کو ساتھ لے جاتے تھے ، کبھی ایک ساتھ دو بیویاں بھی ہمراہ ہوتی تھیں : ’’ کان إذ خرج أقرع بین نسائہ ، فطارت القرعۃ لعائشۃ وحفصۃ‘‘ (بخاری ، حدیث نمبر : ۵۲۱۱ ، مسلم ، حدیث نمبر : ۲۴۴۵)— سفر کا رفیق بنانے میں جہاں اپنے تعاون کا پہلو ہے ، وہیں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ جیسے مرد تفریح کے لئے جاتے ہیں ، جائز حدود میں بیویوں کے لئے بھی اس کا اہتمام ہونا چاہئے ۔
مخلص شریک ِزندگی وہی ہے جو سُکھ کے ساتھ ساتھ دُکھ میں بھی شریک ہو ، آپ انے اپنی ازدواجی زندگی میں اس کا عملی نمونہ پیش فرمایا، جس سال اُم المومنین حضرت خدیجہؓ کی وفات ہوئی ، آپ نے اس سال کو ’ عام الحزن ‘ ( غم کا سال ) قرار دیا ، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اُم المومنین کی علالت کے زمانے میں آپ نے کس قدر محبت و غمگساری کا معاملہ فرمایا ہوگا ، اسی طرح جب اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ منافقین کے تہمت لگانے کے صدمہ سے بیمار ہوگئیں تو آپ اہمیشہ ان کی خیریت دریافت کرتے رہتے ، اور جب وہ اپنے والدین کے گھر چلی گئیں ، ان کے گھر جاکر عیادت کی ، آپ خبر گیری کرنے کے ساتھ ساتھ اہل خانہ میں سے بیماروں کو دُعا پڑھ کر دم بھی فرمایا کرتے تھے ؛ چنانچہ حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ جب آپ کے اہل خانہ میں سے کوئی بیمار ہوتا تو آپ اس پر معوذات پڑھ کر پھونکتے تھے : ’’ کان إذا مرض أحد من أھل بیتہ نفث علیہ بالمعوذات‘‘ ۔ (مسلم ، کتاب السلام ، حدیث نمبر : ۲۱۹۲)
بیوی کا ایک اہم حق اس کی مالی ذمہ داریاں ہے ، جس کو اسلام نے شوہر پر لازم قرار دیا ہے ، عام طورپر لوگ اپنے بیوی بچوں پر خرچ کرنے کوثواب کا کام نہیں سمجھتے ، آپ انے اس کی نفی کی اور ارشاد فرمایا : بہترین صدقہ وہ دینار ( سونے کا سکہ ) ہے ، جو تم اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتے ہو : ’’ أعظم الصدقۃ دینار تنفقہ علی أھلک‘‘ ( مسلم ، حدیث نمبر : ۲۳۱۱) اسی طرح آپ انے فرمایا : کوئی شخص اپنی بیوی کو پانی پلائے تو اس میں بھی اجر ہے : ’’ إن الرجل إذا سقی إمراتہ من الماء أجر‘‘ (مسند احمد ، حدیث نمبر : ۱۷۱۹۵)پھر آپ اکا معمول مبارک تھا کہ جب فدک کے باغات سے کھجوریں آتیں تو آپ اتمام ازواج مطہرات کو ان کی ضرورت کے بقدر نفقہ عطا فرمادیتے ؛ ( المغازی : ۱؍۳۷۱) لیکن چوںکہ آپ کو اپنی زندگی میں ان لوگوں کے لئے بھی عملی نمونہ پیش کرنا تھا ، جو معاشی اعتبار سے کمزور ہوں ؛ اس لئے آپ کی زندگی بہت سادہ ہوتی تھی ، اور ازواج مطہرات پوری خوش دلی کے ساتھ اس میں آپ کا تعاون کرتی تھیں ، جب وسعت پیدا ہوئی ، خوش حالی آئی اور لوگوں کا معیار زندگی بلند ہوا تو ازواج مطہرات کو بھی خیال ہواکہ اب ہمارے گھر میں بھی اس خوش حالی کا اثر آنا چاہئے ؛ چنانچہ انھوںنے اجتماعی طورپر آپ سے اس کا مطالبہ کیا ، آپ اس پر ناراض نہیں ہوئے ؛ لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے انھیں تنبیہ کی گئی اور ان کو اختیار دیا گیا کہ اگر چاہیں تو آپ ا کی رفیقۂ حیات ہونے سے مشرف رہیں یا الگ ہوجائیں، ازواج مطہرات کا یہ مطالبہ خدا نخواستہ اس لئے نہیں تھا کہ انھیں حضور کی رفاقت عزیز نہیں تھی ؛ بلکہ انھوںنے گنجائش دیکھتے ہوئے ایک جائز حق کا مطالبہ کیا تھا ؛ اس لئے تمام ہی ازواج اپنے مطالبہ سے دستبردار ہوگئیں اورانھوںنے آپ کی رفاقت کو ترجیح دی ، آپ کی حیاتِ طیبہ میں اس طرح کے واقعات اللہ کی طرف سے اس لئے پیش آئے ؛ کہ جو مسائل آئندہ پیش آئیں ، رسول اللہ ا کی حیات ِطیبہ میں ان کا نمونہ موجود ہو ۔
آپ ازواج مطہرات سے بعض اہم اُمور میں مشورے بھی فرماتے تھے اور ان کے مشوروں کو اہمیت دیتے تھے ، صلح حدیبیہ کے موقع پر صحابہ کو احساس تھا کہ یہ صلح مشرکین مکہ کی شرطوں پر ہوئی ہے ، اور ایک طرح سے مسلمانوں نے اپنی شکست کو تسلیم کرلیا ہے ، اس لئے دینی حمیت کے تحت ان کا حال یہ تھا کہ آپ کے یہ اعلان کردینے کے باوجود کہ ’ احرام کھول دیا جائے ‘ صحابہ نے احرام نہیں کھولا ، وہ چاہتے تھے کہ عمرہ کرکے ہی واپس ہوں ، آپ انے اس موقع پر اُم المومنین حضرت اُم سلمہؓ سے صورت حال بیان کی ، حضرت اُم سلمہؓ نے عرض کیا : آپ کسی سے کچھ کہیں نہیں ؛ بلکہ خود باہر نکل کر اپنے جانور کی قربانی کردیں اور بال منڈانے والے کو بلاکر بال منڈالیں ، آپ نے اس مشورہ کو پسند فرمایا اور اسی پر عمل کیا ، نتیجہ ہوا کہ صحابہ نے بھی اپنے جانوروں کی قربانی کردی ، بال منڈالیا اور احرام کھول دیئے ۔
( بخاری ، کتاب الشروط ، باب الشروط فی الجہاد والمصالحہ مع اہل الحرب وکتابۃ الشروط ،حدیث نمبر : ۲۵۸۱)
آپ اس بات کا بھی پورا خیال رکھتے تھے کہ ازواج مطہرات کو آپ کے ذریعہ کوئی تکلیف نہ پہنچے ، حضرت عائشہؓ راوی ہیں کہ آپ ا نے کسی بیوی یا خادم پر کبھی ہاتھ نہیں اُٹھایا ، کبھی ان کے رُخسار پر تھپر نہیں لگایا ، نہ آپ کسی کو برا بھلا کہتے تھے ، نہ ترش زبانی کرتے تھے ، نہ سخت دل تھے : ’’ما ضرب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم إمرأۃ لہ ولا خادماً ولا ضرب بیدہٖ شیئاً قط‘‘ (ابوداؤد ، کتاب النکاح ، حدیث نمبر : ۲۱۲۴ ، نسائی ، کتاب عشرۃ النساء ، حدیث نمبر : ۹۱۶۴) — اسی کا ایک پہلو یہ ہے کہ آپ ہمیشہ بیویوں کے درمیان عدل کا خیال فرماتے تھے ، جس دن جس کی باری ہوتی ، اس کے یہاں قیام فرماتے ، ایک کو دوسرے پر ترجیح نہیں دیتے تھے ، حضرت عائشہؓ کا بیان ہے : ’’ کان لا یفضل بعضنا علی بعض فی مکثہ عند ھن فی القسم‘‘ (ابوداؤد ، کتاب النکاح ، حدیث نمبر : ۲۱۳۵) یہاں تک کہ مرض وفات میں جب آپ اکے لئے ایک مکان سے دوسرے مکان میں منتقلی دشوار ہونے لگی تو آپ نے دوسری ازواج مطہرات کی اجازت سے حضرت عائشہؓ کے یہاں قیام فرمایا ۔
سفر میں ازواج مطہرات کو ساتھ رکھنے کا ایک مقصد یہ بھی ہوتا تھا کہ آپ کو سہولت ہو ، صلاحیت و قوت کے لحاظ سے بعض عورتیں سفر کی رفاقت کے لئے زیادہ موزوں ہوتی ہیں ؛ اس لئے آپ چاہتے تو اپنی طرف سے کسی زوجہ مطہرہ کو نامزد فرمادیتے ؛ لیکن آپ اپنی طرف سے نامزد کرنے کے بجائے ہمیشہ قرعہ اندازی فرماتے اور قرعہ اندازی میں جس کا نام نکل آئے ، ان ہی کو اپنے ساتھ لے جاتے ؛ تاکہ دوسری ازواج کو یہ احساس نہ ہو کہ آپ کی ان کی طرف رغبت نہیں ہے ۔
عدل و انصاف کے معاملے میں احتیاط کا حال یہ تھا کہ حضرت عائشہؓ کی ذہانت اور صلاحیت کی وجہ سے آپ اکی ان کی طرف زیادہ رغبت تھی ، تو اگرچہ ظاہری سلوک میں آپ ااس کا کوئی اثر ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے ؛ لیکن قلبی جھکاؤ کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ میں جس چیز کا مالک ہوں ، یہ اس میں میری (مساویانہ ) تقسیم ہے ؛ لیکن خدا وندا ! جس چیز کے آپ مالک ہیں ، میں مالک نہیں ہوں ، اس کے بارے میں آپ گرفت نہ فرمائیے : ’’ ھذا قسمی فی ما أملک فلا تلمی فیما تملک ولا أملک‘‘ ۔ (ترمذی ، کتاب النکاح ، حدیث نمبر : ۱۱۴۰)
جیسے آپ اازواج مطہرات کی ضروریات اور ان کی دل داری کا خیال رکھتے تھے ، اسی طرح آپ ان کی تربیت پر بھی متوجہ رہتے تھے ، رمضان المبارک کے اخیر عشرے میں ازواج مطہرات کو آخر شب میں بیدار کرتے تھے ؛ تاکہ وہ عبادت میں شامل ہوں : ’’ کان یوقظ أھلہ فی العشر الأواخر من رمضان‘‘ (ترمذی ، کتاب الصوم ، حدیث نمبر : ۷۹۵) حضرت عائشہؓ کو شب قدر کی دُعا سکھائی : ’’ اللّٰہم إنک عفو تحب العفو فاعف عنی‘‘ (سنن ابن ماجہ ، حدیث نمبر : ۳۸۵۰) — ایک موقع پر حضرت عائشہؓ سے فرمایا کہ گن کر خرچ نہ کرو ؛ تاکہ تم کو بھی اللہ کی طرف سے حساب کتاب سے گن کر نہ ملے ، یعنی خوب خرچ کرو ؛ تاکہ اللہ کی طرف سے خوب ملے : ’’ أنفقی ولا تؤکی فیؤکیٰ علیک‘‘ ۔
(إتحاف المہرۃ : ۳؍۱۰ ، حدیث نمبر : ۲۱۳۱ ، بخاری ، کتاب الہبۃ ، حدیث نمبر : ۲۴۵۱)
جہاں آپ نے ازواج مطہرات کو عبادت کی تلقین فرمائی ، وہیں غلو سے منع بھی فرمایا ، آپ احضرت زینب بنت جحشؓ کے یہاں تشریف لے گئے تو دیکھا کہ دو ستونوں کے درمیان رسی باندھی ہوئی ہے ، آپ انے اس کا سبب پوچھا ، عرض کیا گیا : یہ حضرت زینب نے باندھ رکھی ہے ، جب نماز پڑھنے کے دوران تکان ہوجاتی ہے تو اس سے لٹک جاتی ہیں ، آپ انے اس سے منع کیا اور حکم دیا کہ اسے کھول دو ، جب تک نشاط ہو ، اس وقت تک نماز پڑھو ، اور جب نشاط نہ ہو ، اس وقت چھوڑ دو ۔ ( بخاری ، باب ما یکرہ من التشدید فی العبادہ ، حدیث نمبر : ۱۰۹۹)
غرض کہ رسول اللہ ا جیسے زندگی کے دوسرے شعبوں میں انسانیت کے لئے آئیڈیل تھے ، اسی طرح اپنی ازدواجی زندگی میں بھی ایک محبت کرنے والے شفیق و کریم ، قدردان ، مزاج شناس اور بردباد شوہر تھے ؛ چوںکہ آپ اپوری انسانیت کے لئے نمونہ تھے اور زندگی کے ہرشعبہ میں آپ اکا عمل تمام انسانوں کے لئے مشعل راہ ہے ؛ اس لئے آپ کی نجی زندگی کا ریکارڈ بھی اللہ کی طرف سے محفوظ ہوگیا ، اور اللہ تعالیٰ بے حد رحمتیں نازل فرمائے ، آپ اکی پاک بیویوں اور اُمت کی محسن ماؤں پر ، کہ انھوںنے قیامت تک آنے والے صاحب ایمان بیٹوں اوربیٹیوں کے لئے رسول اللہ اکے مبارک اُسوہ کو پیش فرمایا اور نجی زندگی کی جو باتیں نقل کی جاسکتی تھیں ، ان کو بھی ذکر کرنے میں کسی تکلف سے کام نہیں لیا ، رضی اللہ عنہن ورضین۔