ازدواجی زندگی اور اُسوۂ نبوی ﷺ(۱)

میزبان کا مہمان کے ساتھ ، تاجر کا گاہک کے ساتھ ، ملازم کا افسر کے ساتھ اور ایک دوست کا دوسرے دوست کے ساتھ بہتر برتاؤ کرنا دشوار نہیں ، ان لوگوں کے ساتھ بھی خوش اخلاقی کا ثبوت دینا آسان ہے ، جن سے گاہے گاہے ملاقات ہوتی ہو ؛ لیکن شوہر اور بیوی کا رشتہ ایسا رشتہ ہے ، جس میں ہر وقت کا ساتھ ہے ، خلوت میں اور جلوت میں ، دن کی روشنی اور رات کی تاریکی میں ، صبح و شام اور شب و روز ، اس ہمہ وقتی رفاقت میں خوشی کے لمحات بھی آتے ہیں ، رنج و غم کی ساعتیں بھی آتی ہیں ،اور غصہ و ناراضگی کے واقعات بھی پیش آتے ہیں ؛ اس لئے انسان دوسروں کے ساتھ تو مصنوعی خوش اخلاقی برت کر کام چلا سکتا ہے اور دو چہروں کے ساتھ زندگی گزارسکتا ہے ، ایک اس کا مصنوعی چہرہ جس میں نرمی ، خوش اخلاقی ، شرافت اور اظہار محبت ہو ، وہ باہر کی دنیا میں اسی چہرے سے اپنا تعارف کرائے ، دوسرا چہرہ اس کا حقیقی چہرہ ہو ، جس میں بد اخلاقی ، سخت کلامی ، غیظ و غضب اور درشتی و تند خوئی ہو ۔<br />لیکن شوہر اور بیوی کا تعلق چوںکہ ہر سرد و گرم میں ہوتا ہے ؛ اس لئے یہاں مصنوعی اخلاق کے ذریعے اپنی بد اخلاقی کو چھپایا نہیں جاسکتا ؛ اسی لئے رسول اللہ ا نے بہترین شخص اس کو قرار دیا ، جس کے اخلاق اچھے ہوں ، پھر فرمایا کہ تم میں بہتر شخص وہ ہے ، جس کا رویہ اس کے گھر والوں کے ساتھ بہتر ہو ، اور یہ کہ میں تم سب سے زیادہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ بہتر برتاؤ کرنے والا ہوں &rsquo;&rsquo; خیرکم خیرکم لأھلہ وأنا خیرکم لأھلی&lsquo;&lsquo; ( سنن ترمذی ، بہ سند صحیح ، حدیث نمبر : ۳۸۹۵، ابن ماجہ ، حدیث نمبر : ۱۹۷۷) اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ رسول اللہ اکی حیاتِ طیبہ اپنی بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کا بہترین نمونہ ہے !<br />رسول اللہ ا کو &rsquo; دعوت دین &lsquo; علوم نبوت کی اشاعت اور مختلف قبائل کی دل داری کے مقصد سے خصوصی طورپر چار سے زیادہ نکاح کی اجازت دی گئی تھی ؛ چنانچہ بحیثیت مجموعی گیارہ پاک بیویاں آپ کے نکاح میں رہیں : حضرت خدیجہ بنت خویلدؓ ، حضرت سودہ بنت زمعہؓ ، حضرت عائشہ بنت ابی بکرؓ ، حضرت حفصہ بنت عمرؓ ، حضرت زینب بنت خزیمہؓ ، حضرت اُم سلمہ بنت ابی اُمیہؓ ، حضرت زینب بنت جحشؓ ، حضرت جویریہ بنت حارثہؓ ، حضرت اُم حبیبہ بنت ابی سفیانؓ ، حضرت صفیہؓ ، حضرت میمونہؓ ۔<br />ازواج کی کثرت کے باوجود آپ اکا اپنی ازواج کے ساتھ ہمیشہ اعلیٰ درجے کا سلوک رہا ، اور کیوں نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ نے بیویوں کے ساتھ بہتر سلوک کا حکم فرمایا ہے : &rsquo;&rsquo;وعاشروھن بالمعروف&lsquo;&lsquo; (النساء : ۱۹) یعنی بیویوں کے ساتھ بہتر طریقہ پر زندگی گزارو ، یہ ایک جامع تعبیر ہے ، جس میں خوش اخلاقی ، مروت اور پاس و لحاظ کی تمام صورتیں داخل ہیں اور حیاتِ طیبہ بیویوں کے ساتھ اس مثالی طرز زندگی کی عملی شکل پیش کرتی ہے۔<br />بیوی کے ساتھ حسن سلوک کا ایک پہلو یہ ہے کہ اس کی خوبیوں کا ذکر کیا جائے اور اس سے محبت کا اظہار ہو ، یہ انسانی فطرت ہے کہ اگر اس کی تعریف کی جائے یا اس سے محبت کا اظہار کیا جائے تو اس کو خوشی ہوتی ہے ؛ لیکن خاص کر اگر شوہر اپنی بیوی کی تعریف کرے تو یہ اس کے لئے سب سے قیمتی سوغات ہوتی ہے ، اس کو لگتا ہے کہ اس کی محنت وصول ہوگئی ؛ چنانچہ آپ ااپنی بیویوں کے لئے تعریفی کلمات بھی فرمایا کرتے تھے ؛ چنانچہ حضرت عائشہؓ کے بارے میں فرمایا : جیسے تمام کھانوں میں ثرید عمدہ ہوتا ہے ، اسی طرح حضرت عائشہؓ تمام عورتوں میں بہترین عورت ہے : &rsquo;&rsquo;إن فضل عائشۃ علی النساء کفضل الثرید علی سائر الطعام&lsquo;&lsquo; ۔&nbsp;<br />(بخاری ، عن ابی موسیٰ الاشعریٰ ، کتاب الانبیاء ، حدیث نمبر : ۳۲۳۰، مسلم ، باب من فضل عائشہ ، حدیث نمبر : ۲۴۴۶)<br />اُم المومنین حضرت خدیجہؓ کی وفات کے بعد بھی آپ ہمیشہ ان کا ذکر خیر فرماتے تھے ؛ اسی لئے حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حالاںکہ میں نے حضرت خدیجہؓ کو نہیں دیکھا ؛ لیکن مجھے ان ہی پر سب سے زیادہ رشک آتا تھا ، آپ اان کا بار بار تذکرہ فرماتے ، بکرا ذبح کرتے تو خود سے اس کے ٹکڑے کرتے اور حضرت خدیجہؓ کی سہیلیوں کو بھیجتے ، حضرت عائشہؓ نے ایک بار غلبۂ رشک میں عرض کیا کہ گویا دنیا میں خدیجہؓ کے سوا کوئی عورت ہی نہیں تھیں ؟ آپ انے فرمایا : &rsquo;&rsquo; إنھا کانت وکانت وکان لی منھا ولد&lsquo;&lsquo; ( بخاری ، باب تزویج النبی ؐ خدیجہ وفضلہا ، حدیث نمبر : ۳۶۰۷) یعنی وہ بڑی خوبیوں کی مالک تھی ، (فتح الباری : ۷؍۱۳۷) اور ان ہی سے مجھے اولاد حاصل ہوئی ، ایک اور موقع پر آپ نے ان کا ذکر خیر کرتے ہوئے فرمایا : جب لوگوں نے انکار کیا ، اس وقت وہ ایمان لائیں ، جب لوگوں نے مجھے جھٹلایا ، اس وقت انھوںنے میری تصدیق کی ، جب لوگوں نے مجھے محروم کرنا چاہا ، اس وقت انھوںنے اپنے مال سے میری غمگساری کی اور اللہ نے ان کے ذریعے مجھے اولاد عطا فرمائی ، ( مسند احمد ، حدیث نمبر : ۲۴۹۰۴) &mdash; اکثر جب کسی شخص کی بیوی کا انتقال ہوجاتا ہے اور وہ دوسرا نکاح کرتا ہے تو اپنی پہلی بیوی کی خدمات اور اس کی قربانیوں کو فراموش کردیتا ہے ، آپ انے اپنے اس ارشاد سے اس بات کا سبق دیا کہ ایسا نہ ہونا چاہئے کہ نئے رشتے کی وجہ سے پرانے رشتے کو فراموش کردیا جائے ۔<br />آپ اازواجِ مطہرات سے اپنی محبت کا اظہار بھی فرماتے تھے اور اس میں تکلف سے کام نہیں لیتے تھے ؛ چنانچہ آپ نے حضرت خدیجہؓ کے بارے میں فرمایا کہ مجھ کو ان کی محبت عطا فرمائی گئی ہے : &rsquo;&rsquo; إنی رزقت حبھا&lsquo;&lsquo; (مسلم ، کتاب الفضائل، حدیث نمبر : ۲۴۳۵) &mdash; حضرت عمرو بن عاصؓ نے ایک موقع پر دریافت فرمایا کہ آپ کو سب سے زیادہ محبت کس سے ہے ؟ آپ انے فرمایا : عائشہؓ سے ، (دیکھئے : اللؤ لؤ والمرجان ، حدیث نمبر : ۱۵۲۴) اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص لوگوں کے درمیان اپنی بیوی سے محبت اظہار کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔<br />پھر آپ اپنے سلوک کے ذریعے بھی محبت کا احساس دلاتے تھے ؛ چنانچہ آپ ا بعض دفعہ اپنی کم سن زوجۂ مطہرہ کو پیار سے &rsquo;&rsquo; یا عائش &lsquo;&lsquo; کہتے تھے ، ( مسلم ، کتاب الفضائل ، حدیث نمبر ۲۴۴۷) &mdash; اظہار محبت کی ایک تعبیر یہ ہے کہ آپ نے ایک بار حضرت عائشہؓ سے فرمایا : یہ جان لینے کے باوجود کہ جنت میں بھی تم میری بیوی رہوگی ، مجھے موت کی پرواہ نہیں رہی : &rsquo;&rsquo; ما أبا لی بالموت بعد أن عرفت أنک زوجتی بالجنۃ&lsquo;&lsquo; (کنز العمال ، حدیث نمبر : ۳۴۳۶۴) &mdash; غور کیجئے کہ محبت کے اس بول نے حضرت عائشہؓ کو کس قدر شاد کام کیا ہوگا کہ اس میں جنت میں رفاقت نبوی اکا مژدہ بھی ہے اور آپ اسے محبت کا اظہار بھی ، ایک موقع پر حضرت عائشہؓ نے دریافت کیا کہ آپ کی مجھ سے کیسی محبت ہے یعنی آپ مجھ سے کس درجہ محبت فرماتے ہیں ؟ آپ انے فرمایا : رسی کی گرہ کی طرح ، یعنی گرہ جیسی مضبوط ہوتی ہے اور کھولے نہیں کھلتی ، اسی طرح تم سے میری محبت ہے ، حضرت عائشہ ؓنے استفسار کیا : یہ گرہ کیسی ہے ؟ آپ انے فرمایا : جیسی تھی ویسی ہی ہے ، یعنی اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے ۔ ( حلیۃ العلماء : ۲؍۴۴)<br />اظہار محبت کی ایک ادا وہ بھی تھی ، جو حضرت عائشہؓ سے منقول ہے کہ رسول اللہ ا کھانے کا برتن ہاتھ میں لیتے اور قسم دیتے کہ میں اس میں سے کھاؤں ، پھر آپ برتن لیتے اور جہاں سے میں نے منھ لگایا تھا ، اسی جگہ سے تناول فرماتے : &rsquo;&rsquo; ویتحری موضع فمی ویضع فمہ علی موضع فمی من الإناء&lsquo;&lsquo; (مسلم ، کتاب الحیض ، حدیث نمبر : ۳۳۰) اور ایسا بھی ہوتا کہ ہڈی والے گوشت میں سے جہاں سے حضرت عائشہؓ کھینچ کر تناول فرماتیں ، آپ وہیں سے گوشت تناول فرماتے : &rsquo;&rsquo; وکان اذا تعرقت عرقا ، وھو العظم الذی علیہ لحم أخذہ فوضع فمہ موضع فمھا&lsquo;&lsquo; (مسلم ، کتاب الحیض ، حدیث نمبر : ۳۰۰) &mdash; رسول اللہ ا نے نہ صرف خود ازواج مطہرات کے ساتھ اس طرح محبت اور لگاؤ کا اظہار کیا ؛ بلکہ اُمت کو بھی اس کی تلقین فرمائی ؛ چنانچہ آپ انے ارشاد فرمایا : تم جو بھی خرچ کروگے ، اس پر اجر پاؤگے ، یہاں تک کہ جو لقمہ اپنی بیوی کے منھ میں رکھوگے ، اس میں بھی اجر ہے : &rsquo;&rsquo; إنک لن تنفقہ نفقۃ إلا أجرت علیھا حتی اللقمۃ ترفعھا إلی فی إمراتک&lsquo;&lsquo; (نسائی ، کتاب عشرۃ النساء ، حدیث نمبر : ۹۱۸۶) اس میں یوں تو انفاق کی ترغیب دینا مقصود ہے ؛ لیکن ایک لطیف اشارہ بیوی کے ساتھ اظہار محبت کا بھی ہے کہ شوہر اپنے ہاتھوں سے بیوی کو لقمۂ کھلائے ، یہ لقمہ محبت پیٹ ہی کی نہیں دل کی بھی غذا بن جاتا ہے ۔<br />آپ قدم قدم پر ازواج مطہرات کی دل داری کا لحاظ رکھتے تھے ، یہاں تک کہ سِن و سال کے تقاضوں کا بھی خیال فرماتے تھے ، حضرت عائشہؓ جب آپ کے نکاح میں آئیں تو ان کی عمر کم تھی اور انھیں اس طرح کے کھیل کا شوق تھا ، جو کم عمر بچیوں میں ہوا کرتا ہے ، ایک دفعہ عید کے موقع سے حضرت ابوبکرؓ حاضر خدمت ہوئے ، آپ انے کپڑا اوڑھ رکھا تھا اور دو کم عمر لڑکیاں حضرت عائشہؓ کے سامنے دف بجا رہی تھیں ، حضرت ابوبکرؓ نے اس پر ناگواری ظاہر کی تو آپ نے روئے انور سے کپڑا ہٹا دیا اور حضرت ابوبکرؓ سے فرمایا : انھیں چھوڑ دو ، یہ عید کا دن ہے &mdash; حبشی لوگ ایسے خوشی کے موقع پر اپنے کرتب دکھاتے تھے ، حضرت عائشہؓ کو ان کے دیکھنے کی خواہش ہوئی ، تو آپ اکھڑے ہوگئے ، اورحضرت عائشہؓ آپ کے مونڈھے پر ٹیک لگاکر حبشیوں کا نیزے کا کھیل دیکھتی رہیں اور جب تک خود تھک نہ گئیں ، آپ ان کی رعایت میں کھڑے رہے ۔(مسلم ، حدیث نمبر : ۸۹۲)&nbsp;<br />حضرت عائشہؓ کی ہم عمر سہیلیاں ان کے پاس آتیں اور ساتھ کھیلتیں ، جب آپ ا تشریف لاتے تو مارے شرم کے بھاگ جاتیں ؛ لیکن آپ اان کو حضرت عائشہؓ کے پاس بھیج دیتے : &rsquo;&rsquo; فکان یسر بھن إلیّ&lsquo;&lsquo; (مسلم ، کتاب الفضائل ، حدیث نمبر : ۲۴۴۰) &mdash; حضرت عائشہ کی کم سنی کی وجہ سے اگرچہ آپ ا خصوصی طورپر ایسی باتوں میں ان کا لحاظ فرماتے تھے ؛ لیکن حسن سلوک اور دل داری کا یہ معاملہ ہر بیوی کے ساتھ ہوتا ، اُم المومنین حضرت صفیہؓکو اونٹ پر بیٹھنا تھا ، تو آپ نے اپنا گھٹنہ کھڑا کردیا ؛ تاکہ آپ کے گھٹنے پر قدم رکھ کر حضرت صفیہ ؓاونٹ پر چڑھ سکیں : &rsquo;&rsquo; ثم یجلس عند بعیرہ فیضع رکبتہ فتضع صفیۃ رجلھا علی رکبتہ حتی ترکب&lsquo;&lsquo; (بخاری ، کتاب المغازی ، حدیث نمبر : ۳۹۷۴) &mdash; ایک سفر میں انجشہ نامی ایک غلام اس سواری کو ہانک رہا تھا ، جس میں بعض اُمہات المومنین سوار تھیں ، انجشہ اس طرح نظم پڑھ رہے تھے کہ اونٹ بہت تیز دوڑنے لگا ، آپ انے فرمایا : انجشہ ! آہستہ آہستہ ، تم آبگینوں کو لے کر جارہے ہو : &rsquo;&rsquo; رویدک یا انجشہ سوقک بالقواریر&lsquo;&lsquo; ۔(بخاری ، کتاب الادب ، حدیث نمبر : ۵۸۰۹)&nbsp;<br />آپ ااعتکاف میں تھے ، حضرت صفیہؓ آپ سے ملاقات کے لئے تشریف لائیں ، جب واپس ہونے لگیں تو آپ اان کو رُخصت کرنے کے لئے مسجد کے دروازے تک آئے ، ( بخاری ، حدیث نمبر : ۱۹۳۰ ، مسلم ، حدیث نمبر : ۲۱۷۵) یہ بھی اظہار محبت کا ایک انداز تھا ، ازواج مطہرات کے درمیان بھی کبھی کبھی چشمک ہوجاتی تھی ، یہ فطری بات ہے اور رسول اللہ اکی زندگی میں ایسی تمام باتوں کا پیش آنا ضروری تھا ، جن سے اُمت کو سابقہ پیش آسکتا ہو؛ چنانچہ ایک بار حضرت حفصہؓ نے حضرت صفیہؓ کو یہودی کی بیٹی کہہ دیا ، جب حضور تشریف لائے تو حضرت صفیہؓ رورہی تھیں ، آپ انے رونے کا سبب پوچھا ، انھوںنے حضرت حفصہؓ کی بات نقل کی ، آپ انے ان سے فرمایا : تم ایک نبی ( حضرت ہارون ؑ) کی بیٹی ہو ، ایک نبی( حضرت موسیٰؑ ) کی بھتیجی ہو ، اور ایک نبی کی بیوی ہو ، تمہارے مقابلہ کیسے کوئی فخر کرسکتا ہے ؟ پھر آپ نے حضرت حفصہؓ سے فرمایا : اللہ سے ڈرو ، (سنن ترمذی ، باب فضل ازواج النبی ا، حدیث نمبر : ۳۸۹۴ ، بسند صحیح) &mdash; ایک سفر میں حضرت صفیہؓ آپ کے ساتھ تھیں اور اس دن ان ہی کی باری تھی ، اتفاق سے سست رفتار سواری پر ان کا سفر ہوا ، جب رسول اللہ انے ان کا استقبال کیا تو وہ رورہی تھیں اور کہہ رہی تھیں : آپ نے مجھے ایک سست رفتار سواری پر بیٹھا دیا ، آپ اپنے ہاتھوں سے ان کے آنسو پونچھنے اور ان کو خاموش کرنے لگے : &rsquo;&rsquo; فجعل رسول اﷲ یمسح بیدیہ عینیھا ویسکتھا&lsquo;&lsquo; ۔(أسد الغابۃ : ۱؍۱۳۷۶)&nbsp;<br />بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کا ایک مظہر وہ بے تکلفی ہے ، جو آپ اان کے ساتھ برتا کرتے تھے ، جس کو آپ روا رکھتے تھے ؛ چنانچہ دو موقعوں پر حضرت عائشہؓ کے ساتھ آپ نے دوڑ بھی لگائی ، پہلی بار حضرت عائشہ آگے بڑھ گئیں ، اس وقت ان کا جسم ہلکا تھا ، پھر دوسری مرتبہ جب حضرت عائشہؓ کا جسم بھاری ہوگیا تھا ، رسول اللہ اآگے بڑھ گئے ، اس موقع پر آپ انے فرمایا کہ یہ اُس کا بدلہ ہوگیا : &rsquo;&rsquo; ھذہ بتلک&lsquo;&lsquo; (ابوداؤد ، کتاب الجہاد ، حدیث نمبر : ۲۵۷۸) &mdash; اس بے تکلفی کا اظہار اس وقت بھی ہوتا تھا ، جب کوئی نوک جھونک ہوجاتی ، ایک بار آپ اکے اورحضرت عائشہؓ کے درمیان کوئی بات ہوگئی تو آپ انے پوچھا : کیا تم عمر (رضی اللہ عنہ ) کوحَکَم بناؤگی ؟ حضرت عائشہ ؓنے عرض کیا : نہیں ؛ کیوں کہ حضرت عمرؓ سخت مزاج کے آدمی ہیں ، پھر آپ نے پوچھا : کیا تم اس بات سے راضی ہو کہ تمہارے والد میرے اور تمہارے درمیان فیصلہ کریں ؟ حضرت عائشہ ؓنے کہا : ہاں ، آپ انے حضرت ابوبکرؓ کو بلا بھیجا ، جب حضرت ابوبکرؓ تشریف لائے تو آپ نے دریافت فرمایا کہ تم بات کروگی یا میں بات کروں ؟ اُم المومنین نے عرض کیا : آپ ہی بات کریں ؛ لیکن صحیح صحیح بولیں ، حضرت ابوبکرؓ یہ سن کر بے قابو ہوگئے ، اور حضرت عائشہؓ کی ناک پر تھپر رسید کردیا ، حضرت عائشہؓ بھاگیں اور آپ اکی پیٹھ کے پیچھے چُھپنے لگیں ، حضور انے حضرت ابوبکرؓ سے فرمایا : میں نے آپ کو اس لئے نہیں بلایا تھا ، پھر جب حضرت ابوبکرؓ تشریف لئے گئے تو آپ نے حضرت عائشہؓ کو قریب بلایا ، مگر انھوںنے آنے سے انکار کردیا ، آپ مسکرائے اور فرمایا : ابھی کچھ پہلے تو تم میری پیٹھ سے چمٹی جارہی تھیں ، پھر جب حضرت ابوبکر تشریف لائے اور دونوں کو ہنستے ہوئے دیکھا ، توفرمایا : آپ دونوں نے اپنے اختلاف میں ہمیں شریک کیا تھا ، تو اپنی صلح میں بھی ہمیں شریک کرلیں : &rsquo;&rsquo; أشر کانی فی سلمکما کما أشرکتمانی فی حربکما&lsquo;&lsquo; ۔ (ابوداؤد ، کتاب الادب ، حدیث نمبر : ۴۹۹۹)&nbsp;<br />آپ ااپنی ازدواجی زندگی میں اُمہات المومنین کو روٹھنے کا حق دیتے تھے ؛ تاکہ خواتین کی فطرت میں ناز کرنے کا جو وصف پایا جاتا ہے ، یا وہ سمجھتی ہیں کہ ان کو شوہر سے سوال و جواب کا حق ہے ، اس کی رعایت ہو اور اُمت کے لئے نمونہ مہیا ہو ؛ چنانچہ حضرت عمرؓ سے مروی ہے کہ انھوںنے ایک دفعہ اپنی بیوی پر غصہ کا اظہار کیا تو اہلیہ نے بھی پلٹ کر جواب دیا ، حضرت عمرؓ نے اس بات پر ناگواری کا اظہار کیا کہ تم میری بات کا جواب دیتی ہو ؟ زوجۂ محترمہ نے عرض کیا : آپ میرے اس عمل پر کیوں نکیر کرتے ہیں ، جب کہ حضور اکی ازواج آپ کو جواب دیتی ہیں ، اوربعض تو رات تک گفتگو ترک کردیتی ہیں؟&rsquo;&rsquo; إن إحداھن لتھجرہ الیوم حتی اللیل&lsquo;&lsquo; (سیرت ابن حبان : ۱؍۳۶۰ ، امیر المومنین عمر الخطاب : ۱؍۷۶ ، حیات الصحابہ : ۴؍۶۵) &mdash; پھر اگر کوئی بیوی ناراض ہوجاتیں تو آپ کا رویہ نہایت مشفقانہ ، کریمانہ اور دل دارانہ ہوتا ، آپ ان کے مونڈھے پر دست مبارک رکھتے اور دُعائیہ کلمات ارشاد فرماتے :<br />اللہم اغفر لھا ذنبھا واذھب غیظ قلبھا وأعذھا من الفتن ۔ (کنز العمال ، حدیث نمبر : ۱۸۴۰۹)&nbsp;<br />اے اللہ ! ان کو معاف فرمادیجئے ، ان کے دل کے غصے کو دُور کردیجئے اور ان کو فتنوں سے محفوظ رکھئے ۔(جاری)</p>

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی


مولانا کا شمار ہندوستان کے جید علما ء میں ہوتا ہے ۔ مولانا کی پیدائش جمادی الاولیٰ 1376ھ (نومبر 1956ء ) کو ضلع در بھنگہ کے جالہ میں ہوئی ۔آپ کے والد صاحب مولانا زین الدین صاحب کئی کتابوً کے مصنف ہیں ۔ مولانا رحمانی صاحب حضرت مولانا قاضی مجا ہد الاسلام قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کے بھتیجے ہیں۔آپ نے جامعہ رحمانیہ مو نگیر ، بہار اور دارالعلوم دیو بند سے فرا غت حاصل کی ۔آپ المعھد الاسلامی ، حید رآباد ، مدرسۃ الصالحات نسواں جالہ ، ضلع در بھنگہ بہار اور دار العلوم سبیل الفلاح، جالہ ، بہار کے بانی وناظم ہیں ۔جامعہ نسواں حیدرآباد عروہ ایجو کیشنل ٹرسٹ ،حیدرآباد ، سینٹر فارپیس اینڈ ٹرومسیج حیدرآباد پیس فاؤنڈیشن حیدرآباد کے علاوہ آندھرا پر دیش ، بہار ، جھار کھنڈ ، یوپی اور کر ناٹک کے تقریبا دو درجن دینی مدارس اور عصری تعلیمی اداروں کے سر پرست ہیں ۔ المعھد العالی الھند تدریب فی القضاء والافتاء ، پھلواری شریف، پٹنہ کے ٹرسٹی ہیں ۔اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا اور مجلس تحفظ ختم نبوت ،آندھرا پر دیش کے جنرل سکریٹری ہیں ۔

آل انڈیا مسلم پر سنل لا بورڈ کے رکن تا سیسی اور رکن عاملہ ہیں ۔ مجلس علمیہ ،آندھرا پر دیش کے رکن عاملہ ہیں ۔امارت شرعیہ بہار ،اڑیسہ وجھار کھنڈ کی مجلس شوریٰ کے رکن ہیں ،امارت ملت اسلامیہ ،آندھرا پر دیش کے قاضی شریعت اور دائرۃ المعارف الاسلامی ، حیدرآباد کے مجلس علمی کے رکن ہیں ۔ آپ النور تکافل انسورنش کمپنی ، جنوبی افریقہ کے شرعی اایڈوائزر بورڈ کے رکن بھی ہیں ۔
اس کے علاوہ آپ کی ادارت میں سہ ماہی ، بحث ونظر، دہلی نکل رہا ہے جو بر صغیر میں علمی وفقہی میدان میں ایک منفرد مجلہ ہے ۔روز نامہ منصف میں آپ کے کالم ‘‘ شمع فروزاں‘‘ اور ‘‘ شرعی مسائل ‘‘ مسقتل طور پر قارئین کی رہنمائی کر رہے ہیں ۔
الحمد للہ آپ کئی کتابوں کے مصنف ہیں ۔آپ کی تصنیفات میں ،قرآن ایک الہامی کتاب ، 24 آیتیں ، فقہ القرآن ، تر جمہ قرآن مع مختصر تو ضیحات، آسان اصول حدیث، علم اصول حدیث ، قاموس الفقہ ، جدید فقہی مسائل ، عبادات اور جدیدمسائل، اسلام اور جدید معاشرتی مسائل اسلام اور جدید معاشی مسائل اسلام اور جدید میڈیل مسائل ،آسان اصول فقہ ، کتاب الفتاویٰ ( چھ جلدوں میں ) طلاق وتفریق ، اسلام کے اصول قانون ، مسلمانوں وغیر مسلموں کے تعلقات ، حلال وحرام ، اسلام کے نظام عشر وزکوٰۃ ، نئے مسائل، مختصر سیرت ابن ہشام، خطبات بنگلور ، نقوش نبوی،نقوش موعظت ، عصر حاضر کے سماجی مسائل ، دینی وعصری تعلیم۔ مسائل وحل ،راہ اعتدال ، مسلم پرسنل لا ایک نظر میں ، عورت اسلام کے سایہ میں وغیرہ شامل ہیں۔ (مجلۃ العلماء)

کل مواد : 106
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2025

تبصرے

يجب أن تكون عضوا لدينا لتتمكن من التعليق

إنشاء حساب

يستغرق التسجيل بضع ثوان فقط

سجل حسابا جديدا

تسجيل الدخول

تملك حسابا مسجّلا بالفعل؟

سجل دخولك الآن
ویب سائٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اس سائٹ کے مضامین تجارتی مقاصد کے لئے نقل کرنا یا چھاپنا ممنوع ہے، البتہ غیر تجارتی مقاصد کے لیئے ویب سائٹ کا حوالہ دے کر نشر کرنے کی اجازت ہے.
ویب سائٹ میں شامل مواد کے حقوق Creative Commons license CC-BY-NC کے تحت محفوظ ہیں
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2025