ازدواجی رشتہ ۔۔ ایک شعوری لباس
عورت اور مرد کے ازدواجی رشتے کی نوعیت اور معنویت کا بیان کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے: "هُنَّ لِبَاسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَهُنَّ"؛ یعنی عورتیں تمہارے لئے ایک لباس ہیں اور تم ان کے لئے ایک لباس ہو۔ [سورہ البقرة: 187]۔
یہ ایک نہایت بلیغ اور فکر انگیز استعارہ ہے۔ یہاں “لباس” سے مراد، کپڑے کا ظاہری لباس نہیں، بلکہ “شعور” کا لباس ہے۔ اس لباس کا “ تانا” خدا شناسی اور اس کا “بانا” خود شناسی ہے؛ یعنی اس حقیقت کا ادراک و اعتراف کہ خدا سب کا خالق ہے، اس کا کوئی شریک نہیں؛ اس کے سوا سب اس کی مخلوق ہیں ۔ اس بنا پر، ہر مرد اورعورت اپنے خالق کی نظر میں برابر کا درجہ رکھتے ہیں اور مرنے کے بعد اس کے سامنے اپنے ہر قول و فعل کے لئے یکساں طور پر جوابدہ ہیں۔
جس طرح مادی لباس بیک وقت انسان کی ستر پوشی، خارجی مضرتوں سے حفاظت کے علاوه اس کے جسمانی پیکر کی زیبائش و آ رائش کا سامان کرتا ہے؛ اسی طرح خدا شناسی اور خود شناسی کے معنوی تاروں سے بُنا ہوا؛ نیز آخرت کی جوابدہی کے گہرے احساس میں رنگا ہوا یہ “ شعوری لباس”، زوجین میں سے ہر ایک کو دوسرے کے حق میں عملاً ایک حفاظتی ڈھال اور سر چشمۂ جمال و کمال بنا دیتا ہے۔
ازدواجی رشتہ، گویا مرد و عورت کے درمیان تا عمر قائم و نافذ العمل رہنے والے ایک نہایت سنجیدہ معاہدے کا نقطۂ آغاز ہے؛ جس کے بعد، زوجین کی مشترکہ زندگی کا نصب العین یہ بن جاتا ہے کہ وہ باہمی احترام ومفاہمت کے ذریعے ایک دوسرے کے ہمہ جہتی” تحفظ اور تکمیل و تجمیل “ کی با معنی مہم میں ہر وقت سرگرمِ فکر و عمل رہیں۔چنانچہ اس کے مطابق وہ ایک دوسرے کی ذہنی ونفسیاتی اور عملی “خامیوں اور نقائص” کو، دوسروں کی نگاہ سے حتی الامکان پوشیدہ رکھتے ہوئے، صبر و تحمل، روا داری اور حسنِ تدبیر سے ان کے ازالہ یا اصلاح کی کوشش کرتے ہیں، وہ ایک دوسرے کی غلطیوں سے ہوشمندی کا سبق سیکھتے اور اپنی انفرادی خوبیوں کا تبادلہ کرتے ہیں تاکہ دونوں کی شخصیت میں مزید گہرائی، پختگی، جدت آفرینی، زرخیزی اور فیض رسانی کی صلاحیت پیدا ہو، وہ برتر اخلاقی اصولوں اور اعلی انسانی قدروں سے اپنے کردار کو مسلسل آراستہ کرنے میں ایک دوسرے کا حریصانہ اور ہمدردانہ تعاون کرتے ہیں تاکہ وہ دنيا میں دوسروں کے لئے نفع بخش بن کر یا کم از کم بے ضرر رہ کر اپنی زندگی گزاریں۔
ازدواجی بندھن کے انہیں دور رس مقاصد اور تقاضوں کے پیشِ نظر، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا کہ “جس بندے نے نکاح کیا اس نے نصف دین کی تکمیل کر لی؛ اب اسے بقیہ نصف کے بارے میں خدا کو حاضر و ناظر جان کر رہنا چاہئے” (إذا تزوج العبد فقد استكمل نصف دينه, فليتق الله في النصف الباقي- رواہ البیہقی)۔
نکاح کے بعد دین کے بقیہ نصف کی تکمیل کی توفیق انہیں زوجین کو میسر آتی ہے؛ جو ظاہری پوشاک زیبِِ تن کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو مذکورہ معنوں میں “شعوری لباس” سے بھی آراستہ کرنے کی سنجیدہ فکر اور مخلصانہ سعی کرتے ہیں۔ والله ولي التوفيق.
بقلم: ابو صالح انیس لقمان
مالیگاؤں- مارچ ۲۰۱۹