دعوت وتبلیغ کا نہج نبوی ­ﷺ

آفاقی مذہب

 اسلام ایک عالمگیراورآفاقی مذہب ہے، یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کابواسطۂ خاتم النبیین سیدالمرسلین حضرت محمد ﷺ مخلوق کے نام ایک ابدی صلاح وفلاح پرمشتمل پیغام و دعوت ہے۔ اُمتِ مسلمہ اُس آخری نبی کی آخری امت ہے جواِس مبارک پیغام الٰہی کی حامل ہے۔ اس اِمت کایہ خاصہ ہے کہ وہ دنیا میں ایک خاص اورمبارک پیغام ودعوت لے کرآئی ہے، لوگوں کواس کی طرف بلانا اورتمام اطراف عالم میں اس کی دعوت کوپھیلانا یہ اُمت کے افراد کی زندگی کا فریضہ ہے۔ اُمتِ محمدیہ کا فریضہ اُمت محمدیہ (علی صاحبہا الف الف تحیۃ وسلام) کا یہ مبارک فریضہ قرآن کریم اور احادیثِ صحیحہ کے نصوص اورنبی اکرم اکی سیرت مقدسہ سے بالکل واضح طورپرثابت ہے، چنانچہ قرآن کریم میں ارشادباری تعالیٰ ہے: ’’کُنْتُمْ خَیْرَأمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ‘‘۔ (آل عمران:۱۱۰) ترجمہ:’’(اے مسلمانو!)تم بہترین امت ہوجولوگوں (کی نفع رسانی) کے لئے نکالی گئی، تم اچھے کاموں کاحکم کرتے ہواوربرے کاموں سے منع کرتے ہو‘‘۔ اس آیت کریمہ میں صاف اورکھلے لفظوں میں یہ بتلایاگیاہے کہ مسلم امت کاوجودہی اس لئے ہواہے کہ وہ اُممِ عالم کی نفع رسانی کافریضہ سرانجام دے، خیرکی طرف بلائے، معروف کی ترویج کرے اورمنکرات سے روکے۔ اس سے بڑھ کرایک دوسری آیت میں اللہ رب العزت نے اس کام کے لئے ایک مستقل جماعت کاہوناضروری قراردیا، قرآن مجیدمیں ارشادِخداوندی ہے: ’’وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ أُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ إلٰی الْخَیْرِیَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِوَأُولٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ‘‘۔ (آل عمران:۱۰۴)  ترجمہ:’’اورچاہئے کہ تم میں ایک جماعت ایسی ہوجولوگوں کونیکی کی طرف دعوت دیتی رہے اورامربالمعروف ونہی عن المنکرکرتی رہے اوریہی وہ لوگ ہیں جوفلاح پانے والے ہیں ‘‘۔  فریضۂ دعوت میں نبی اکرم اکی نیابت اس سے مزیدایک قدم اورآگے بڑھ کرامت مسلمہ فریضۂ دعوت میں نبی اکرم ﷺ کی جانشین اور نائب ہے، اللہ رب العزت نے قرآن مجیدمیں جہاں حضوراکرم ﷺ کافریضۂ منصبی بیان فرمایا، وہاں یہ بھی ارشاد فرمایاکہ یہ کام حضوراقدس ﷺ کا ہے اورنبی اکرم اکوحکم دیاکہ وہ اپنی اُمت کویہ بتلادیں کہ یہ کام متبعین کابھی ہے، اللہ رب العزت کا ارشاد مبارک ہے: ’’قُلْ ہَـذِہٖ سَبِیْلِیْ أَدْعُوْ إِلَی اللّٰہِ عَلٰی بَصِیْرَۃٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ‘‘۔ (یوسف:۱۰۸) ترجمہ:’’اے نبی !آپ فرمادیجئے، کہ یہ میراراستہ ہے میں لوگوں کواللہ کی طرف بلاتاہوں بصیرت کے ساتھ، یہ میرااورمیری اتباع کرنے والوں کابھی کام ہے‘‘۔  فرائضِ نبوت اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم اکو نبوت کے تین بڑے فرائض عطاکئے:

۱…تلاوت آیات ۔

 ۲…تزکیہ۔

۳…تعلیمِ کتاب وحکمت۔

اُمت مسلمہ اپنے نبی ﷺ کی جانشینی میں ان تینوں کاموں میں شریک ہے، یہ تینوں فرائض اُمت مسلمہ پرفرض کفایہ ہیں ۔ حضوراکرم ﷺ کے مبارک دور اور خیر القرون میں حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعینؒ اوراس کے بعد اسلافؒ نے ہر زمانے میں ان اُمور کی انجام دہی کی بھرپورسعی فرمائی۔ خود حضوراکرم ﷺ نے لوگوں کو کتاب اللہ کی آیات پڑھ کرسنائیں، اس کے احکام بیان کئے، ان کوکتاب وحکمت کی تعلیم دی اوراپنی مبارک صحبت اورپُرتاثیرتدبیرسے ان کے باطن ونفوس کاتزکیہ بھی فرمایا۔  تاریخ دعوت وعزیمت خیرالقرون سے دوری کے زمانہ میں رفتہ رفتہ ان فرائض نبوت کی ادائیگی میں کوتاہی شروع ہوئی، ظاہری علوم اورتزکیۂ باطن دوالگ الگ راہیں قراردی گئیں، نتیجہ یہ نکلا کہ علم والے دنیا کے طالب ہوئے اورتصوف وتزکیہ کے مدعی علوم شریعت سے بے بہرہ ہوگئے۔ لیکن بمقتضائے سنت الٰہی ہرزمانے میں ایسی شخصیات پیداہوتی رہیں جن میں نورنبوت کے تعلیم وتربیت والے رنگ نمایاں طورسے یکجاتھے۔ ان جلیل القدراورعظیم المرتبت شخصیات کی ایک طویل فہرست ہے، ان نفوس قدسیہ کے تذکرہ کے لئے سینکڑوں کیا ہزاروں دفتر ناکافی ہیں، قریب کے زمانہ میں مفکرِاسلام حضرت مولاناابوالحسن علی ندوی رحمۃاللہ علیہ ’’تاریخ دعوت وعزیمت‘‘ تحریر فرما کر اس سلسلۃ الذہب کی بعض کڑیوں کے روشن کردارکواُمت مسلمہ کے سامنے لائے۔

حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے اُصولِ دعوت

حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے مبارک عمل ’’دعوت‘‘ کے چند بنیادی اصول یہ ہیں:

پہلا اُصول

 تمام انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی دعوت کابنیادی اُصول خلق خدا پر شفقت اور خیرخواہی کاجذبہ ہے، بندگانِ خداکی تباہ شدہ حالت سے وہ غمگین اورمتفکر ہو جاتے، ان کی خیرخواہی کے نتیجہ میں ان کادل چاہتا تھا کہ کسی طرح ان کی امت سدھرجائے، راہ راست پر آجائے۔ قرآن مجیدنے اس کوکہیں ’’أنَالَکُمْ نَاصِحٌ أمِین‘‘کہیں ’’وَنَصَحْتُ لَکُمْ‘‘ اور کہیں پر’’وَأنْصَحُ لَکُمْ‘‘ کہہ کربیان کیا ہے۔

 دوسرا اُصول

 تمام انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی دعوت میں یہ بات مشترکہ طورسے پائی جاتی ہے کہ وہ اپنے کام اوردعوت کے عمل پرکسی سے کوئی اجرت ومزدوری طلب نہیں کیاکرتے تھے، مخلوق سے دنیاوی اجر، تعریف ومحبتیں، وغیرہ تمام اغراض دنیوی سے مکمل استغناء برتتے تھے، جس کے نتیجہ میں ان کی دعوت نہایت مؤثر اور نتیجہ خیز ہوا کرتی تھی۔ قرآن مجید نے اس اُصول کوان کے الفاظ میں بیان کیاہے: ’’وَمَاأَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ أَجْرٍإنْ أَجْرِیَ إلَّاعَلٰی رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘۔ (الشعراء:۱۰۹) ترجمہ:’’اور مانگتا نہیں میں تم سے اس پر کچھ بدلہ(حق)میرا بدلہ ہے اسی پروردگارِ عالم پر‘‘۔

 تیسرا اُصول

دعوت إلی الخیراورامربالمعروف ونہی عن المنکرکاایک بڑا اوربنیادی اصول نرمی، نرم گوئی، حکمت وبصیرت اورایسے خلوص و محبت سے دوسرے کومخاطب کیاجائے کہ داعی کی بات مدعوکے نہ چاہتے ہوئے بھی اس اندازِتخاطب کی وجہ سے اُس کے دل کے نہاں خانوں میں اترجائے۔ دعوت کے اس زریں اصول کواللہ رب العزت نے اس آیت مبارکہ میں بیان فرمایاہے: ’أدْعُ إِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُم بِالَّتِیْ ہِیَ أَحْسَنُ‘‘۔  (النحل: ۱۲۵) ترجمہ:’’ آپ اپنے پروردگارکی طرف لوگوں کودانش مندی اوراچھی نصیحت کے ذریعہ سے دعوت اوربحث ومباحثہ کریں تووہ بھی خوبی سے‘‘۔ البتہ یہ بات ذہن نشین رہے کہ اس نرمی وحکمت کایہ مطلب ہرگز ہرگز یہ نہیں عقائد و فرائض میں مداہنت سے کام لیاجائے، مداہنت فی الدین بتعلیم قرآن ممنوع ہے۔

چوتھا اصول

 دعوت دینے والے داعیان حق کے لئے ضروری ہے کہ وہ دعوتِ خیرکے سلسلے میں سیرت نبوی ﷺ سے رہنمائی حاصل کریں، اورنہجِ نبوت کے اتباع کی کوشش کریں ۔ حضوراکرم ﷺ نے اپنی دعوت کے آغازمیں سب سے پہلے سب سے زیادہ تاکیدتوحیدورسالت یعنی کلمہ’’ لاإلہ إلااللّٰہ‘‘کی فرمائی، جس کے دل ودماغ میں کلمۂ طیبہ کی حقیقت اترگئی، اس کے لئے احکامات پرعمل پیراہوناآسان ہوگیا۔ خود احادیث میں آتاہے کہ پہلے آیاتِ ترغیب نازل ہوئیں، پھرآیاتِ حلال وحرام نازل کی گئیں ۔

پانچواں اصول

تمام انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی سیرت سے دعوت کاایک اصول یہ معلوم ہوتاہے کہ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام لوگوں کااپنے پاس آنے کاانتظارنہیں فرماتے تھے، بلکہ دعوت حق لے کر خود ان کے پاس چل کرجایاکرتے تھے، یہ وصف حضوراکرم اکی دعوت میں نمایاں طورسے پایاجاتاہے، آپ اکی سیرت مبارکہ اورآپ کے تبلیغی ودعوتی اسفاراس پر واضح اوربین دلیل ہیں ۔

چھٹا اُصول

 داعی کے لئے دعوت إلی الخیرکے سلسلے میں ایک اہم اصول اپنے کاموں کو ترک کرکے ہجرت، خروج ونفیرکواختیارکرنااورپاکیزہ وعلمی وعملی ماحول میں جانابھی ہے، جہاں سے مستفید ہوکر اپنی قوم و قبیلہ وعلاقہ میں آکراُن کوفیض یاب کرناہے۔

ساتواں اصول

دعوت وتبلیغ کافریضہ سرانجام دینے والوں کی تعلیم وتربیت کازیادہ ترمدار صحبتِ اسلاف، باہمی تعلیم وتعلم پرہوناچاہئے۔ ان کے دن دعوت إلی اللہ اوراموردین میں مصروف ومشغول ہوں اور راتیں تنہائی میں اپنے خالق ومالک کے ساتھ مناجات میں صرف ہوا کریں۔

 دعوت الی الخیر کے یہ چند بنیادی اصول ہیں، پس دعوت وتبلیغ کی جوتحریک بھی مذکورہ اصولوں کے مطابق کام کرے گی تو ان کی محنت نہج نبوت اوراصلِ اول کے زیادہ سے زیادہ قریب تر ہوگی۔ دعوت و تبلیغ کے ان بنیادی اصولوں سے متعلق حضرت مولانا سید سلیمان ندوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ کی تصنیف ’’مولانامحمدالیاس اوران کی دینی دعوت‘‘ کے مقدمہ میں تفصیل سے گفتگوفرمائی ہے۔

حضرت مولانامحمدالیاس کاندھلوی صاحب رحمۃاللہ علیہ کی تحریک دعوت وتبلیغ  قرآن وحدیث، نہج نبوت اورسیرت نبوی اسے ماخوذدعوت کے ان مذکورہ بالا اصولوں سے سب سے زیادہ میل کھانے والی تحریک اورمطابقت رکھنے والاعمل قریب کے زمانے میں مجدد دعوت و تبلیغ، مصلح کبیر، حضرت مولانامحمدالیاس کاندھلوی صاحب رحمۃاللہ علیہ کی دعوت وتبلیغ کی تحریک اور دعوت والی محنت ہے۔ ابتداء میں حضرت مولاناالیاس صاحب رحمۃاللہ علیہ نے مکاتب دینیہ کے ذریعہ سے مسلمانوں کی اصلاح احوال کی فکرومحنت فرمائی، مگرماحول کی عمومی بے دینی، جہالت وظلمت کے اثر سے جب یہ مکاتب بھی محفوظ نہ دیکھے، اورعمومی طورسے مسلمانوں کی دینی ضرورتوں کی عدم تکمیل واضح طور سے سامنے آنے کے بعدآپ اس نتیجہ پرپہنچے کہ خواص وافرادکی اصلاح اوردینی ترقی مرض کاعلاج نہیں، جب تک عام آدمیوں میں دین نہ آئے، کچھ نہیں ہوسکتا۔

  تائید غیبی

چنانچہ جب آپ ۱۳۴۴ھ ۱۹۲۶م میں دوسرے حج کے لئے تشریف لے گئے، اس دوران مدینہ طیبہ میں بھی قیام رہا، وہاں پریہ پیغام ملاکہ آپ سے کام لیاجائے گا۔ سفرحج سے واپسی کے بعد آپ نے تائید غیبی سے عوام میں إحیاء دین کی غرض سے تبلیغی گشتوں کا آغاز فرمایا اور دوسروں کوبھی جماعتیں بناکر دوسرے علاقہ میں تبلیغ کے لئے بھیجا۔ یوں اس طرح باقاعدہ جماعتوں کا اللہ کی راہ میں بغرض دعوت نکلنا شروع ہوا، اور آج الحمدللہ! اکابرین دعوت وتبلیغ اور مخلص مسلمانوں کی محنت وکوشش اورآہِ سحرگاہی کے طفیل یہ مبارک عمل اطرافِ عالم کے چپہ چپہ میں نہ صرف پھیل چکاہے بلکہ شب وروزجاری وساری ہے۔  

تبلیغی کام کانظام وترکیب

تبلیغی کام کانظام کیاہوگا؟ ترکیب کیاہوگی؟ کس چیز کی اورکتنی چیزوں کی دعوت دی جائے گی؟ اس کی تفصیل حضرت مولاناالیاس صاحب رحمۃاللہ علیہ نے ان الفاظ میں بیان فرمائی: اصل تبلیغ دوامرکی ہے، باقی اس کی صورت گری اورتشکیل ہے، ان دوچیزوں میں ایک مادی ہے اورایک روحانی:

(۱) مادی سے مرادجوارح سے تعلق رکھنے والی، سووہ یہ ہے کہ حضور ﷺ کی لائی ہوئی باتوں کوپھیلانے کے لئے ملک بہ ملک اقلیم در اقلیم جماعتیں بنا کرپھرنے کی سنت کوزندہ کرکے فروغ دینا اورپائداری کرنا ہے۔

(۲) روحانی سے مراد جذبات کی تبلیغ یعنی حق تعالیٰ کے حکم پرجان دینے کارواج ڈالنا، جس کو اس آیت میں ارشادفرمایا: ’’فَلاَ وَرَبِّکَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْْنَہُمْ ثُمَّ لاَ یَجِدُوْا فِیْ أَنْفُسِہِمْ حَرَجاً مِّمَّا قَضَیْْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْماً‘‘۔  (النساء:۶۵) ترجمہ:’’قسم ہے آپ کے ربّ کی!یہ لوگ ایمان دارنہ ہوں گے، جب تک یہ بات نہ ہو کہ ان کے آپس میں جھگڑاواقع ہواس میں یہ لوگ آپ سے تصفیہ کراویں، پھر آپ کے تصفیہ سے اپنے دلوں میں تنگی نہ پاویں اورپوراپوراتسلیم کریں ‘‘۔

 ’وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ‘‘۔  (الذاریات:۵۶) ترجمہ:’’اورمیں نے جن وانس کواسی واسطے پیداکیاکہ میری عبادت کریں ‘‘۔ یعنی اللہ کی باتوں اوراوامرخداوندی میں جان کابے قیمت اورنفس کاذلیل ہونا۔

مولانا الیاس صاحبـؒ کے بیان فرمودہ چھ نمبر

 ۱-نکلنے کے وقت حضور ﷺ کی لائی ہوئی چیزوں میں جوچیزجتنی زیادہ اہم ہے اس میں اسی حیثیت سے کوشش کرنا، اس وقت بدقسمتی سے ہم کلمہ تک سے ناآشناہورہے ہیں، اس لئے سب سے پہلے کلمہ طیبہ کی تبلیغ ہے جوکہ خداکی خدائی کااقرارنامہ ہے، یعنی اللہ کے حکم پرجان دینے کے علاوہ درحقیقت ہماراکوئی بھی مشغلہ نہیں ہوگا۔

 ۲-کلمہ کے لفظوں کی تصحیح کرنے کے بعدنمازکے اندرکی چیزوں کی تصحیح کرنے اور نمازوں کو حضور اکی نمازجیسی بنانے کی کوشش میں لگے رہنا۔

  ۳-تین وقتوں کو(صبح وشام اورکچھ حصہ شب کا)اپنی حیثیت کے مناسب تحصیل علم و ذکر میں مشغول رکھنا۔

 ۴-ان چیزوں کوپھیلانے کے لئے اصل فریضہ محمدی سمجھ کرنکلنایعنی ملک بہ ملک رواج دینا۔

 ۵-اس پھرنے میں اخلاق کی مشق کرنے کی نیت رکھنا، اپنے فرائض کی ادائیگی کی سرگرمی، کیوں کہ ہرشخص سے اپنے متعلق ہی سوال ہوگا۔

 ۶-تصحیح نیت یعنی ہرعمل کے بارے میں اللہ نے جوودعدے اوروعیدفرمائے ہیں، ان کے موافق اس امرکی تعمیل کے ذریعہ اللہ کی رضااورموت کے بعدوالی زندگی کی درستی کی کوشش کرنا۔

  حضرت مولاناالیاس صاحب رحمۃاللہ علیہ کا فرمان

 اپنے کام کوایک موقعہ پرحضرت مولاناالیاس صاحب رحمۃاللہ علیہ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا:

’’میں نے یہ طے کیاہے کہ اللہ نے ظاہروباطن کی جوقوتیں بخشیں ہیں، اُن کاصحیح مصرف یہ ہے کہ تن کو اسی کام میں لگایاجائے جس میں حضور انے اپنی قوتیں صرف فرمائیں، اوروہ کام ہے اللہ کے بندوں کواورخاص طورسے غافلوں، بے طلبوں کواللہ کی طرف لانا، اوراللہ کی طرف بلانااوراللہ کی باتوں کو فروغ دینے کے لئے جان کوبے قیمت کرنے کارواج دینا۔ بس ہماری تحریک یہی ہے، اور یہی ہم سب سے کہتے ہیں، یہ کام اگرہونے لگے تواب سے ہزاروں گنے زیادہ مدرسے اور ہزاروں گنے ہی زیادہ خانقاہیں قائم ہوجائیں، بلکہ مسلمان مجسم مدرسہ اورخانقاہ ہوجائے، اورحضور  اکی لائی ہوئی نعمت اس عمومی اندازسے پھیلنے لگے جواس کی شان شایان ہے۔ ‘‘

حضرت مولاناالیاس رحمۃاللہ علیہ کی نہج دعوت پر اعتراضات کی حیثیت

حضرت مولاناالیاس رحمۃاللہ علیہ کاشروع کردہ دعوت وتبلیغ کایہ عمل اوراس کا نہج اگرچہ میرے جیسے بہت سے کوتاہ بینوں کے لئے اجنبی، نیااورقابل اعتراض ہو سکتا ہے، حالانکہ اس کے کسی بھی عمل پرکوئی اعتراض شرعاً کیا ہی نہیں جاسکتاہے۔ تاہم بعض کم فہم، نادان اوراہل بدعت نے اس مبارک عمل پرطرح طرح کے اعتراضات کی بھرمارکردی، جبکہ کچھ لوگ چارماہ، چالیس دن، تین دن، گشت، شبِ جمعہ کاہفتہ واری اجتماع اورسالانہ اجتماعات وغیرہ پراعتراض کرتے ہیں کہ ان ایام کی تعیین غیر ثابت شدہ ہے، اوربعض حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ لوگ دین کے تمام احکام کی دعوت کو اپنا مقصد نہیں بناتے، بلکہ صرف چندمسائل واحکام تک محدودرہتے ہیں، اوروقت کے سیاسی مسائل سے اغماض بھی کرتے ہیں، بعض اہل علم حضرات کی طرف سے مستورات کی جماعتوں کے بارے میں شبہات بھی وقتاً فوقتاً سامنے آتے رہتے ہیں ۔

فقیہ الأمت حضرت مولانامفتی محمودحسن گنگوہی نوراللہ مرقدہ کے فتاویٰ

 الحمد للہ ! اکابر دیوبند نے اس طرح کے تمام بے بنیاد اعتراضات کی حیثیت و حقیقت اپنے فتاویٰ جات میں واضح کردی ہے، ان اکابر میں ایک شخصیت فقیہ الأمت حضرت مولانامفتی محمودحسن گنگوہی نوراللہ مرقدہ بھی ہیں ۔

آپ نے عملی طورسے دعوت وتبلیغ کے متعلق اتنے فتاوی تحریرفرمائے کہ برصغیر کی تاریخ میں کسی مفتی نے اتنے نہیں لکھے، آپ کویہ اعزاز بھی حاصل تھاکہ آپ بیک وقت برصغیرکی دو عظیم دینی درسگاہوں میں صدارتِ افتاء کی گراں قدر خدمات انجام دینے پرمامورتھے، اورشیخ الحدیث حضرت مولانامحمدزکریاکاندھلوی رحمۃاللہ علیہ کے فیض یافتہ، صحبت یافتہ اورخلعت خلافت سے سرفراز یافتہ بھی تھے، آپ کے دعوت وتبلیغ اور اس کے اکابرین حضرت مولانامحمدالیاس صاحب رحمۃاللہ علیہ اور حضرت مولانامحمدیوسف صاحب رحمۃاللہ علیہ سے نہایت ہی گہرے اورقلبی روابط ومراسم تھے۔ کچھ حضرات نے حضرت مفتی صاحب رحمۃاللہ علیہ کی دعوت وتبلیغ سے گہری وابستگی پرتعجب کا اظہار کیا اور کہا کہ تبلیغ والوں نے دارالعلوم دیوبندکے مفتی اعظم کواپنا ہم نوا بنالیا، تواس پرفرمایا:

’’واقعہ یہ نہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ میں تبلیغی پہلے ہوں، مفتی بعدمیں، اور دارالعلوم کو مفتی کی ضرورت تھی توتبلیغ والوں سے مفتی مانگا، انہوں نے یہ ضرورت پوری فرمائی۔ ‘‘

 اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سے اپنے پیارے اور آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے اور تاقیامت مقبول دین کی خدمت لے لے اور اُسی نہج اور اصولوں کو اپنانے کی توفیق دے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بحکمِ خداوندی اپنی دعوت میں اختیار فرمائے تھے، تاکہ ہماری دعوت عنداللہ مقبول اور عند الناس مفید ہو۔

 

شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2024

تبصرے

يجب أن تكون عضوا لدينا لتتمكن من التعليق

إنشاء حساب

يستغرق التسجيل بضع ثوان فقط

سجل حسابا جديدا

تسجيل الدخول

تملك حسابا مسجّلا بالفعل؟

سجل دخولك الآن
ویب سائٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اس سائٹ کے مضامین تجارتی مقاصد کے لئے نقل کرنا یا چھاپنا ممنوع ہے، البتہ غیر تجارتی مقاصد کے لیئے ویب سائٹ کا حوالہ دے کر نشر کرنے کی اجازت ہے.
ویب سائٹ میں شامل مواد کے حقوق Creative Commons license CC-BY-NC کے تحت محفوظ ہیں
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2024