مرحومین کی طرف سے قربانی کرنا، احادیث کی روشنی میں، اور مذاہبِ فقہاء

قربانی کا حکم:

ہر صاحبِ نصاب پر قربانی کرنا واجب ہے۔

اس بارے میں قر آن وسنت میں کئی دلائل موجود ہیں۔:

 پہلی دلیل:

فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَٱنۡحَرۡ [الكوثر:2]

ترجمہ: آپ اپنے رب کی نماز پڑھیں اور قربانی کریں۔

مشہورمفسر قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ اس آیت کے تحت لکھتے ہیں۔

’’قَالَ عِکْرَمَة وَعَطَا وَقَتَادَة فَصَلِّ لِرَبِّكِ صَلوٰة الْعِیْدِ یَوْمَ النَّحْرِ وَنَحْرُ نُسُکِكِ فَعَلیٰ هذَا یَثْبُتُ بِهِ وُجُوْبُ صَلوٰةِ الْعِیْدِ وَ الْاُضْحِیَّةِ ‘‘(تفسیرمظہری :ج:10:ص:353)

ترجمہ: حضرت عکرمہ،حضرت عطاء اورحضرت قتادۃ رحمہم اللہ فرماتےہیں کہ ’’فَصَلِّ لِرَبِّكَ‘‘ میں’’فصل‘‘سے مراد’’عید کی نماز‘‘ اور ’’وانحر‘‘سے مراد ’’قربانی ‘‘ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ نماز عید اور قربانی واجب ہے۔

علامہ ابو بکر جصاص رحمہ اللہ اپنی تفسیر’’احکام القرآن‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’قَالَ الْحَسَنُ صَلوٰة یَوْمِ النَّحْرِ وَنَحْرُ الْبَدَنِ …قَالَ اَبُوْ بَکْرٍ هذَاالتَّاوِیلُ یَتَضَمَّنُ مَعْنَیَیْنِ؛اَحَدُھُمَا اِیْجَابُ صَلوٰةِ الْاَضْحیٰ وَالثَّانِیْ وُجُوْبُ الْاُضْحِیَّةِ‘‘(احکا م القر آن للجصا ص ج3ص 419 تحت سورۃ الکوثر)

ترجمہ: حضرت حسن بصری رحمہ اللہ نے فر مایاکہ اس آیت ’’فَصَلِّ لِرَبِّكَ ‘‘ میں جو نماز کا ذکر ہے اس سے عید کی نماز مراد ہے اور ’’وانحر‘‘سےقربانی مراد ہے۔

حضرت ابو بکر جصا ص رحمہ اللہ فر ماتے ہیں کہ اس سے دو با تیں ثا بت ہو تی ہیں :

1: عید کی نماز واجب ہے۔ 2: قربانی واجب ہے۔

دوسری دلیل:

 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ:

مَنْ كِا نَ لَهُ سَعَة وَلَمْ یُضَحِّ فَلاَ یَقْرَبَنَّ مُصَلَّانَا‘‘

(سنن ابن ماجہ ص226باب الاضاحی ھی واجبۃ ام لا،مسنداحمد ج2ص321 رقم8254، السنن الکبریٰ ج9ص260کتاب الضحایا،کنز العمال رقم 12261)

ترجمہ:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص کو قربانی کی وسعت حاصل ہو اور وہ قربانی نہ کر ے تو وہ ہما ری عید گاہ کے قر یب نہ بھٹکے۔

وسعت کے با وجود قربانی نہ کرنے پر آپ ﷺ نے سخت وعید ارشاد فر ما ئی اور وعید ترک واجب پر ہو تی ہے۔ تومعلوم ہوا قربانی کرنا  واجب ہے۔

تیسری دلیل:

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:

أقام رسول الله صلى الله عليه وسلم بالمدينة عشر سنين يضحي كل سنة.

(سنن الترمذي ت بشار 3/ 144، رقم الحديث 1507)

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینہ میں دس سال قیام فرمایا(اس قیام کے دوران) آپ قربانی کرتے رہے۔

قربانی کا وجوب  اس بات سے بھی واضح ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ہمیشگی فرمائی ہے۔

تواتر:

 امت مسلمہ قرآن وحدیث کی روشنی میں قربانی کے اسلامی شعار ہونے اور ہر سال قربانی کا خاص اہتمام کرنے پر متفق ہے، صحابہ وتابعین عظام سے استفادہ کرنے والے 80 ہجری میں پیدا ہوئے حضرت امام ابوحنیفہؒ اور علماء احناف نے قرآن وحدیث کی روشنی میں ہر صاحب حیثیت پر اس کے وجوب کافیصلہ فرمایا ہے۔

حضرت امام مالک ؒ بھی قربانی کے وجوب کے قائل ہیں، حضرت امام احمد بن حنبلؒ کا ایک قول بھی قربانی کے وجوب کا ہے۔ ہند وپاک کے علماء کا بھی یہی موقف ہے۔

علامہ ابن تیمیہ ؒ نے بھی قربانی کے واجب ہونے کے قول کو ہی راجح قرار دیا ہے۔

اب اصل موضوع  کی طرف آتے ہیں۔

مرحومین کی طرف سے قربانی کرنا:

میت کی طرف سے قربانی کی جاسکتی ہے۔آپ ﷺ کے عمل مبارک اور صحابہ کرام رضوان اللہ  علیہم اجمعین کے عمل مبارک سے    اس  کا ثبوت موجود ہے۔

پہلی دلیل :

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:

أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - كان إذا أراد أن يضحي اشترى كبشين عظيمين سمينين أقرنين أملحين موجوءين، فذبح أحدهما عن أمته، لمن شهد لله بالتوحيد، وشهد له بالبلاغ، وذبح الآخر عن محمد وعن آل محمد - صلى الله عليه وسلم[1] (سنن ابن ماجه ت الأرنؤوط 4/ 301،رقم الحديث 3122، شرح معاني الآثار 4/ 177، رقم الحديث6224،مسند أحمد ط الرسالة 43/ 37، رقم الحديث 25843)

ترجمہ :جب رسول اللہ ﷺقربانی کرنا چاہتے تودو بڑے، موٹے تازے ، سینگوں والے ، چت کبرے ، خصی کئے ہوئے مینڈھے خریدتے اور ان میں سے ایک اپنی امت کے ان لوگوں کی جانب سے ذبح فرماتے جو توحید و رسالت کی گواہی دینے والے ہیں اور دوسرا محمد ﷺاور آل محمدﷺ کی جانب سے ذبح کرتے ۔[2]

محمد بن محمد المختار الشنقيطی  حنبلی فرماتے ہیں کہ:

میت کی طرف سے قربانی کرنا جائز ہے،کیونکہ صحیح حدیث میں حضورﷺ سے اپنی طرف سے اور اپنی آل کی طرف سے قربانی کرنا ثابت ہے،جبکہ آل میں زندہ اور فوت شدہ تمام افراد داخل ہیں،اور اسی طرح اس کی طرف  سے قربانی کی جس نے قربانی نہ کی ہو،اس میں بھی زندہ اور فوت شدہ  تمام افراد داخل ہیں۔

قول جمهور العلماء، وهم على جواز التضحية عن الأموات، والدليل على ذلك ما ثبت في الحديث الصحيح عن النبي صلى الله عليه وسلم لما ضحى بالكبشين قال عليه الصلاة والسلام: (اللهم هذا عن محمد وعن آل محمد)، قالوا: وفي آله الأحياء والأموات، وكذلك قال: (عمن لم يضح من أمة محمد)، فشمل أحياءهم وأمواتهم. (شرح زاد المستقنع للشنقيطي 130/ 25)

ابو العلا محمد عبد الرحمن بن عبد الرحيم المباركفورى تحفۃ الاحوذی میں فرماتے ہیں کہ:

امام بغوی نے شرح السنۃ میں عبد اللہ ابن مبارک کا قول نقل کیا ہے کہ انہوں نے غنیۃ الامعی میں لکھا  جس کا خلاصہ یہ ہے کہ:جس شخص نے میت کی طرف سے قربانی کرنی کی رخصت دی ہے وہ  دلیل کے مطابق ہے،اور جس شخص نے منع کیا ہے اس کے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں ہے، ثبوت  کی دلیل یہ ہے کہ حضور ﷺ دو دنبے قربان فرماتے  ایک اپنی  اور اپنے اہل بیت کی  طرف سے  اور دوسرا اپنی امت  کے ان لوگوں کی طرف سے جنہوں نے توحید  اور رسالت کا اقرار کیا ہے، اور معلوم ہے کہ  بہت سے افراد حضورﷺ کے عہد مبارک تک فوت ہو چکے تھے،پس حضورﷺ کی قربانی میں  زندہ اور فوت شدہ سب ہی افراد داخل ہوگئے ۔ثابت ہوا کہ ایک ہی جانور زندہ اور فوت شدہ سب ہی افراد  کی طرف سے تھا۔

حكى الإمام البغوي في شرح السنة عن بن المبارك قال في غنية الألمعي ما محصله إن قول من رخص في التضحية عن الميت مطابق للأدلة ولا دليل لمن منعها وقد ثبت أنه صلى الله عليه وسلم كان يضحي كبشين أحدهما عن أمته ممن شهد له بالتوحيد وشهد له بالبلاغ والآخر عن نفسه وأهل بيته ومعلوم أن كثيرا منهم قد كانوا ماتوا في عهده صلى الله عليه وسلم فدخل في أضحيته صلى الله عليه وسلم الأحياء والأموات كلهم والكبش الواحد الذي يضحي به عن أمته كما كان للأحياء من أمته كذلك كان للأموات من أمته بلا تفرقة.

(تحفة الأحوذي 5/ 66)

مذکورہ بالا بات کو صاحب عون المعبود شارح سنن ابی داؤد نے  بھی  ذکر فرمایاہے:

قال في غنية الألمعي قول بعض أهل العلم الذي رخص في الأضحية عن الأموات مطابق للأدلة وقول من منعها ليس فيه حجة فلا يقبل كلامه إلا بدليل أقوى منه ولا دليل عليه والثابت عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه كان يضحي عن أمته ممن شهد له بالتوحيد وشهد له بالبلاغ وعن نفسه وأهل بيته ولا يخفى أن أمته صلى الله عليه وسلم ممن شهد له بالتوحيد وشهد له بالبلاغ كان كثير منهم موجودا زمن النبي صلى الله عليه وسلم وكثير منهم توفوا في عهده صلى الله عليه وسلم فالأموات والأحياء كلهم من أمته صلى الله عليه وسلم دخلوا في أضحية النبي صلى الله عليه وسلم والكبش الواحد كما كان للأحياء من أمته كذلك للأموات من أمته صلى الله عليه وسلم بلا تفرقة وهذا الحديث أخرجه الأئمة من حديث جماعات من الصحابة عائشة وجابر وأبي طلحة وأنس وأبي هريرة وأبي رافع وحذيفة عند مسلم والدارمي وأبي داود وبن ماجه وأحمد والحاكم وغيرهم. عون المعبود وحاشية ابن القيم (7/ 344)

دوسری دلیل:

عن أبي الحسناء عن الحكم، عن حنش، قال:رأيت عليا يضحي بكبشين، فقلت له: ما هذا؟ فقال: إن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أوصاني أن أضحي عنه، فأنا أضحي عنه. (سنن أبي داود ت الأرنؤوط 4/ 417، 2790)

ترجمہ: حضرت حنش سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی  رضی اللہ عنہ کو دو دنبوں کی قربانی کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ میں نے پوچھا یہ کیا ہے؟ (یعنی ایک کی بجائے دو جانوروں کی قربانی کیوں؟) انہوں نے جواب دیا رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا تھا کہ (میں آپ کی وفات کے بعد) آپ کی طرف سے بھی قربانی کروں۔ پس یہ ایک قربانی میں آپ ﷺ کی طرف سے کر رہا ہوں۔

اس  حدیث کی سند کے متعلق محدثین کی آراء:

اور  یہی روایت مستدرک حاکم میں موجود ہے امام حاکم نے فرمایا کہ:

هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه، وأبو الحسناء هذا هو: الحسن بن الحكم النخعي

اور اس روایت کے متعلق امام ذھبی لکھتے ہیں کہ:بالکل درست اور صحیح روایت ہے۔

 [التعليق - من تلخيص الذهبي] صحيح (المستدرك على الصحيحين للحاكم 4/ 255 ،رقم الحدیث7556)

اس حدیث کی سند کے متعلق احمد شاکر مسند احمد میں  لکھتے ہیں کہ :

قال أحمد شاكر  :  إسناده صحيح. وشريك: هو ابن عبد الله النخعي. الحكم: هو ابن عتيبة. حنش: هو ابن المعتمر. والحديث رواه أبو داود 3: 50 والترمذي 2: 353 - 354 وقال: "هذا حديث غريب لا نعرفه إلا من حديث شريك". وفي طبعة بولاق 1: 282 - 283 زيادة نصها:" قال محمد: قال علي بن المديني: وقد رواه غير شريك. قلت له: أبو الحسناء ما اسمه؟ فلم يعرفه. قال مسلم: اسمه الحسن" وهذه الزيادة ثابتة في مخطوطتنا الصحيحة من الترمذي. وأبو الحسناء هذا ترجم له في التهذيب فلم يذكر فيه جرحا ولاتعديلا وقال: "اسمه الحسن ويقال الحسين" وترجمه الذهبي في الميزان فقال: "لا يعرف".

ولكن الحديث رواه أيضا الحاكم في المستدرك 4: 229 - 230 وقال: "هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه، وأبو الحسناء هذا هو الحسن بن الحكم النخعى" ووافقه الذهبي. والراجح عندي ما قاله الحاكم. والحسن بن الحكم النخعي الكوفي يكنى أبا الحسن، ورجح الحافظ في التهذيب 2: 271 أنه يكنى أبا الحكم، فقد اختلف في كنيته، فالظاهر أن بعضه كناه أيضا أبا الحسناء، وهو من شيوخ شريك أيضا، وقد وثقه أحمد وابن معين، وترجمه البخاري في الكبير 1/ 2 / 289 فلم يذكر فيه جرحا. (مسند أحمد ت شاكر 1/ 532)

اس حدیث مبارکہ سے محدثین نے میت کی طرف سے جواز قربانی پر استدلال کیا ہے:

ابن ملک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:

 یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ میت کی طرف قربانی کرنا جائز ہے۔

قال ابن الملك: يدل على أن التضحية تجوز عمن مات. (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح 3/ 1084)

عبد الحق بن سيف الدين بن سعد اللَّه البخاري الدِّهلوي الحنفي رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:

اس حدیث سے میت کی طرف سے قربانی کرنے کا جواز ثابت ہوتاہے۔

(فأنا أضحي عنه) فيه جواز أن يضحي عن ميت، (لمعات التنقيح في شرح مشكاة المصابيح 3/ 580)

شرف الدين الحسين بن عبد الله الطيبي رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

یہ حدیث دلیل اس بات کی  ہے کہ   اگر کوئی شخص میت کی طرف سے قربانی کرے تو جائز ہے۔

هذا دليل علي أنه لو ضحى عمن مات جاز. (شرح المشكاة للطيبي الكاشف عن حقائق السنن 4/ 1304)

العلامة مظهر الدين الزيداني الحسين بن محمود بن الحسن الزيداني المظهري الكوفي  رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:

اس حدیث  مبارکہ سے میت کی طرف سے قربانی کا جواز ثابت ہوتا ہے۔

"أوصاني أن أضحي عنه"؛ يعني: يجوز التضحية عن الميت سواء كان تبرع به أحد على الميت، أو كان من مال الميت، (المفاتيح في شرح المصابيح 2/ 352)

اور موسوعہ  فقیہ کویتیہ میں موجود ہے کہ:

 اگر مرنے والے نے وصیت   کی ہوتو اس کی طرف  سے قربانی کرنے میں سب فقہاء کا اتفاق ہے،اور اگر مرنے والے نے وصیت نہیں کی تو امام ابوحنیفہ ،امام مالک مع الکراہت  ،امام احمد رحمہم اللہ نے میت کی طرف سے قربانی کرنے کو جائز قرار دیا ہے:

إذا أوصى الميت بالتضحية عنه، أو وقف وقفا لذلك جاز بالاتفاق. فإن كانت واجبة بالنذر وغيره وجب على الوارث إنفاذ ذلك. أما إذا لم يوص بها فأراد الوارث أو غيره أن يضحي عنه من مال نفسه، فذهب الحنفية والمالكية والحنابلة إلى جواز التضحية عنه، إلا أن المالكية أجازوا ذلك مع الكراهة. وإنما أجازوه لأن الموت لا يمنع التقرب عن الميت كما في الصدقة والحج. وقد صح أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحى بكبشين أحدهما عن نفسه، والآخر عمن لم يضح من أمته. [3] وعلى هذا لو اشترك سبعة في بدنة فمات أحدهم قبل الذبح، فقال ورثته - وكانوا بالغين - اذبحوا عنه، جاز ذلك. وذهب الشافعية إلى أن الذبح عن الميت لا يجوز بغير وصية أو وقف[4]. (الموسوعة الفقهية الكويتية 5/ 106)

علمائے احناف کا مسلک:

علاء الدين، أبو بكر بن مسعود بن أحمد الكاساني الحنفي رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:

جب یہ بات ثابت ہے کہ حضور ﷺ نے دو  جانور قربان فرمائے ایک اپنی طرف سے اور دوسرا  اپنی امت کے ان لوگوں کی طرف سے جنہوں نے قربانی نہیں  ان کی طرف سے  اگرچہ ان میں سے کچھ لوگ  ذبح کرنے  پہلے  فوت ہوچکے ہیں  ، پس ثابت ہواکہ میت کی طرف سے قربا نی کرنا درست ہے۔

وقد صح أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - ضحى بكبشين أحدهما عن نفسه والآخر عمن لا يذبح من أمته - وإن كان منهم من قد مات قبل أن يذبح - فدل أن الميت يجوز أن يتقرب عنه فإذا ذبح عنه صار نصيبه للقربة فلا يمنع جواز ذبح الباقين. (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع 5/ 72)

علامہ  بدر الدين العينى رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:

آپ ﷺ کا ایک قربانی امت کی طرف سے کرنا  اس بات کی واضح دلیل ہے کہ کوئی شخص دوسرے بندے کو نیک عمل کر کے ثواب پہنچا سکتا ہے،اور وہ شخص جس کوایصال ثواب کیا جائے چاہئے وہ  زندہ ہو یا فوت ہوگیا ہو،

(تضحية إحدى الشاتين لأمته) ش: أي ثوابها، أي جعل ثوابها لأمة المؤمنين وهذا دليل صريح على جواز أن يجعل الرجل من ثوابه لغيره، وينتفع به الغير سواء كان حيا أو ميتا.

(البناية شرح الهداية 4/ 470)

اور علامہ شامی رحمہ اللہ نے صاحب بدائع کا قول نقل کیا ہے کہ:

میت کی طرف سے قربانی جائز ہے جیساکہ میت کی طرف سے حج یا صدقہ کرنا جائز ہے۔

قال في البدائع لأن الموت لا يمنع التقرب عن الميت بدليل أنه يجوز أن يتصدق عنه ويحج عنه، وقد صح «أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - ضحى بكبشين أحدهما عن نفسه والآخر عمن لم يذبح من أمته» وإن كان منهم من قد مات قبل أن يذبح اهـ (رد المحتار6/ 326)

علمائے شوافع کا مسلک:

محيي السنة، ابو محمد الحسين بن مسعود بن محمد بن الفراء البغوي الشافعي رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:

اگر کوئی شخص میت کی طرف سے قربانی کرے تو جائز ہے اس کی دلیل حضرت علی رضی اللہ عنہ کا عمل ہے۔

ولو ضحى عن ميت جاز، روي عن حنش، عن علي، أنه كان يضحي بكبشين، أحدهما عن النبي صلى الله عليه وسلم، والآخر عن نفسه، فقيل له؟ فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم «أوصاني أن أضحي عنه»، فأنا أضحي عنه. (شرح السنة للبغوي 4/ 358)

محمد بن موسى بن عيسى بن علی الدَّمِيری أبو البقاء الشافعی  رحمہ اللہ نے امام رافعی کا قول نقل کیا ہے کہ:

قیاس یہ کہتا ہے کہ میت کی طرف سے قربانی کرنا جائز ہے۔ کیونکہ یہ بھی صدقہ کی  قسم میں سے ہے اور جب میت کی طرف سے  صدقہ کرنا درست ہے تو قربانی کرنا بھی درست ہےاور اس بات اجماع ہے کہ صدقہ کا ثواب پہنچتا ہے۔(تو قربانی  کا ثواب   کیوں نہیں پہنچے گا؟)

قال الرافعي: والقياس جوازها عنه؛ لأنها ضرب من الصدقة، والصدقة تصح عن الميت، وتصل إليه بالإجماع.

 (النجم الوهاج في شرح المنهاج 9/ 522)

علمائے  حنابلہ  کا مسلک:

علامہ ابن تیمیہ  رحمہ اللہ کا مسلک:

علامہ ابن تیمیہ  رحمہ اللہ نے کہا کہ میت کی جانب سے قربانی کرنا جائز ہے جیساکہ  میت کی طرف سے  حج اور صدقہ کرنا جائز ہے۔ وتجوز الأضحية عن الميت كما يجوز الحج عنه والصدقة عنه ويضحى عنه في البيت.

( مجموع الفتاوى 26/ 306)

محمد بن محمد المختار الشنقيطی  حنبلی فرماتے ہیں کہ:

میت کی طرف سے قربانی کرنے میں دو قول ہیں:

 ان میں سے پہلا قول جمہور علماء کا قول ہے کہ :

میت کی طرف سے قربانی کرنا جائز ہے،کیونکہ صحیح حدیث میں حضورﷺ سے اپنی طرف سے اور اپنی آل کی طرف سے قربانی کرنا ثابت ہے،جبکہ آل میں زندہ اور فوت شدہ تمام افراد داخل ہیں،اور اسی طرح اس کی طرف  سے قربانی کی جس نے قربانی نہ کی ہو،اس میں بھی زندہ اور فوت شدہ  تمام افراد داخل ہیں،اور امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے مجموع الفتاوی میں اس میں تفصیلی گفتگو کی ہے۔

فالتضحية عن الميت فيها قولان مشهوران: قول جمهور العلماء، وهم على جواز التضحية عن الأموات، والدليل على ذلك ما ثبت في الحديث الصحيح عن النبي صلى الله عليه وسلم لما ضحى بالكبشين قال عليه الصلاة والسلام: (اللهم هذا عن محمد وعن آل محمد)، قالوا: وفي آله الأحياء والأموات، وكذلك قال: (عمن لم يضح من أمة محمد)، فشمل أحياءهم وأمواتهم.

وقد تكلم عن هذه المسألة شيخ الإسلام رحمه الله، وذكر أن هذا جائز ولا حرج فيه، ولا بأس به؛ لأن النبي صلى الله عليه وسلم فعله، وهذه السنة تدل على مشروعية التضحية عن الميت، خاصة إذا وصى بذلك، فقال: ثلث مالي يضحى عني منه، فحينئذٍ تكون الأضحية واجبة؛ لأنها وصية، وإذا كان ثلثه يسع ذلك فإنه يلزم إنفاذ هذه الوصية. (شرح زاد المستقنع للشنقيطي 130/ 25)

محمد بن صالح بن محمد العثيمين فرماتے ہیں کہ:

تبعا میت کا حصہ داخل کرنا درست ہے ، کیونکہ اس کا ثبوت حضورﷺ کی حدیث  مباركہ میں موجود ہے،کہ آپ نے اپنی اور اہل بیت کی  طرف سے قربانی فرمائی ، حالانکہ اس میں وہ ازواج بھی شامل ہیں جو فوت ہوچکی ہیں ،اور وہ بھی جو زندہ ہیں۔

إدخال الميت تبعاً فهذا قد يستدل له بأن النبي صلّى الله عليه وسلّم «ضحى عنه وعن أهل بيته» ، وأهل بيته يشمل زوجاته اللاتي مِتْنَ واللاتي على قيد الحياة، وكذلك ضحى عن أمته، وفيهم من هو ميت، وفيهم من لم يوجد، لكن الأضحية عليهم استقلالاً لا أعلم لذلك أصلاً في السنة.

(الشرح الممتع على زاد المستقنع 7/ 423)

عبد العزيز بن محمد بن عبد الرحمن بن عبد المحسن السلمان حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:

جن علما ء نے میت کی طرف سے قربانی کی اجازت دی ہے ان کا قول دلیل کے مطابق ہے،اور جن علماء نے منع کیا ہے ان کے پاس منع کی کوئی دلیل نہیں ہے۔

ورخص بعض أهل العلم في الأضحية عن الميت، ومنع بعضهم؛ وقول من رخص مطابق للأدلة ولا حجة مع من منع. ومن الأدلة على سنية التضحية عن الميت ما ورد عن جابر بن عبد الله - رضي الله عنه - قال: «صليت مع النبي - صلى الله عليه وسلم - عيد الأضحى فلما انصرف أتى بكبش فذبحه، فقال: «بسم الله والله أكبر اللهم هذا عني وعن من لم يضح من أمتي» رواه أحمد وأبو داود والترمذي. وعن علي بن الحسين عن أبي رافع أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - كان إذا ضحى اشترى كبشين سمينين أقرنين أملحين؛ فإذا صلى وخطب الناس أتى بأحدهما وهو قائم في مصلاه فذبحه بنفسه بالمدية، ثم يقول: «اللهم هذا عن أمتي جميعًا من شهد لك بالتوحيد وشهد لي بالبلاغ» ، ثم يؤتى بالآخر فذبحه بنفسه، فيقول: «هذا عن محمد وآل محمد، فيطعمها المساكين» الحديث رواه أحمد، فهذان الحديثان فيهما دلالة واضحة على الأضحية عن الأموات؛ لأن من أمته - صلى الله عليه وسلم - المُضحي عنهم الأحياء والأموات، ولو كانت مختصة بالأحياء لما أهمله - صلى الله عليه وسلم . (الأسئلة والأجوبة الفقهية لأبي محمد عبد العزيز بن محمد بن عبد الرحمن بن عبد المحسن السلمان المتوفى: 1422هـ، 3/ 5)

ایک سوال کا جواب:

 یہ  سوال کیا جاتا ہے کہ حضور اکرم ﷺ سے اپنی بیویوں یا اولاد کے انتقال کے بعد ان کی جانب سے قربانی کرنا ثابت نہیں ہے۔ لہذا  میت کی طرف سے قربانی کرنا درست نہیں ہے؟

پہلا جواب: یقیناًنبی اکرم ﷺ نے اپنی بیویوں یا اولاد کے انتقال کے بعد ان کی جانب سے الگ الگ قربانی نہیں فرمائی ، لیکن آپ ﷺ اپنی جانب سے ہمیشہ قربانی کیا کرتے تھے، اور دوسری قربانی کے ثواب میں سب کو شامل فرمالیا کرتے تھے۔

دوسرا جواب یہ ہے کہ:  اس وقت اتنی فراوانی بھی نہیں تھی کہ میت میں سے ہر ہر فرد کی جانب سے الگ الگ قربانی کی جائے۔

غرضیکہ دلائل شرعیہ کی روشنی میں خیر القرون سے آج تک فقہاء وعلماء کی ایک بڑی جماعت مرحومین کی جانب سے قربانی کرنے پر متفق رہی ہے۔ اگر کوئی شخص انتقال شدہ اپنے رشتہ داروں کی جانب سے قربانی نہیں کرنا چاہتا  تو نہ کرے ،لیکن جو حضرات حضور اکرمﷺ کے قول وعمل اور صحابہ وتابعین وفقہاء وعلماء امت کے اقوال کی روشنی میں اپنا پیسہ خرچ کرکے قربانی کرنا چاہتے ہیں، ان کو منع کرنے کے لئے قرآن وحدیث کی دلیل درکار ہے جو کل قیامت تک بھی پیش نہیں کی جاسکتی ہے۔

 مسئلہ:

 اگر میت کی طرف سے قربانی کی جائے تو قربانی کا ثواب اس میت کے لئے ہوگا ، اور ملکیت ذبح کرنے والے کی ہوگی، جیسے اپنی قربانی کے گوشت کے تین حصے کئے جاتے ہیں، ایک حصہ اپنے لئے ، ایک حصہ دوست و احباب کے لئے اور ایک حصہ غرباء کے لئے ، اسی طرح اس کے بھی تین حصے کئے جائیں گے ۔

من ضحى عن الميت يصنع كما يصنع في أضحية نفسه من التصدق والأكل والأجر للميت والملك للذابح. (رد المحتار 6/ 326)

 مسئلہ:

اگرمیت نے خود قربانی کی وصیت کی ہو ، تو پھر ضروری ہے کہ قربانی کرنے والا خود اس میں سے نہ کھائے۔

والمختار أنه إن بأمر الميت لا يأكل منها وإلا يأكل. (رد المحتار 6/ 326)

خلاصہ کلام: ان احادیث مبارکہ  سے معلوم ہوا  کہ مرحومین کی جانب سے قربانی کرنا جائز ہے اور خود رسول اللہ ﷺنے اپنی امت کی جانب سے قربانی فرمائی ہے ۔جب آپﷺ نے یہ قربانی کی تھی تو امت میں سے بہت سے لوگ دنیا سے جا چکے تھے ، آپ ﷺنے ان کی جانب سے قربانی دی ، نیز بہت سے وہ بھی امتی تھے ،جو بعد میں ہو ئے اور ہوں گے ، آپ نے ان کی جانب سے بھی قربانی فرمائی ۔

 الغرض یہ بات واضح و ثابت ہوئی کہ زندوں اور  فوت شدہ  دونوں کی جانب سے قربانی کرنا درست و جائز ہے اور یہ کہ اس کا ثواب ان کو پہنچتا ہے ، خود اللہ کے رسول ﷺنے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ایسا کیا ہے ۔

محرر:

مفتی محمد خان  عفی عنہ

فاضل جامعہ اشرفیہ لاہور

_______

[1]  قال محققه:صحيح (حاشية السندي على سنن ابن ماجه 2/ 271)

[2]  وقد ثبت أنه صلى الله عليه وسلم ضحى بكبشين أقرنين أملحين .....

أي هذه الرواية: عن عائشة، زوج النبي صلى الله عليه وسلم، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أمر بكبش أقرن يطأ في سواد، وينظر في سواد، ويبرك في سواد، فأتي به ليضحي به ثم قال: " يا عائشة، هلمي المدية " ثم قال: " اشحذيها  بحجر " ففعلت، ثم أخذها وأخذ الكبش فأضجعه، ثم ذبحه، وقال: " بسم الله، اللهم تقبل من محمد وآل محمد، ومن أمة محمد "، ثم ضحى به صلى الله عليه وسلم (مسند أحمد ط الرسالة 41/ 498) 

رقم الحديث 24491) وقال محققه: إسناده صحيح على شرط مسلم،

[3]  حديث: " ضحى رسول الله صلى الله عليه وسلم بكبشين. . . . . . " أخرجه أبو يعلى والبيهقي (9 / 268) ، وقال الهيثمي: إسناده حسن (4 / 22 - ط القدسي) .

[4]  البدائع 5 / 72، وتنوير الأبصار مع شرحه الدر المختار وحاشية ابن عابدين 5 / 214، وحاشية الدسوقي 2 / 122، 123، وحاشية البجيرمي على المنهج 4 / 300، ونهاية المحتاج 8 / 136، والمغني على الشرح الكبير 11 / 107، ومطالب أولي النهى 2 / 472.

    مفتی محمد خان عفی عنہ

    فاضل جامعہ اشرفیہ لاہور
    کل مواد : 7
    شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2025

    تبصرے

      يجب أن تكون عضوا لدينا لتتمكن من التعليق

      إنشاء حساب

      يستغرق التسجيل بضع ثوان فقط

      سجل حسابا جديدا

      تسجيل الدخول

      تملك حسابا مسجّلا بالفعل؟

      سجل دخولك الآن
      ویب سائٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اس سائٹ کے مضامین تجارتی مقاصد کے لئے نقل کرنا یا چھاپنا ممنوع ہے، البتہ غیر تجارتی مقاصد کے لیئے ویب سائٹ کا حوالہ دے کر نشر کرنے کی اجازت ہے.
      ویب سائٹ میں شامل مواد کے حقوق Creative Commons license CC-BY-NC کے تحت محفوظ ہیں
      شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2025