میں اور ترجمہ (دوسری قسط)
ترجمے کے کام کی تلاش کے اس زمانے میں مجھے ‘‘الاقصی فاؤنڈیشن’’ سے کچھ کام ملا۔ یہ ایک فلسطینی ادارہ تھا جو مسئلہ فلسطین کے بارے میں ‘‘بیت المقدس’’ کے نام سے ایک رسالہ بھی نکالتا تھا لیکن مشرف کے زمانے میں جہاں عربوں کے اور بہت سے ادارے بند ہوئے، یہ بھی نہ بچ سکا۔ ڈاکٹر خالد اس کے سربراہ تھے۔ بڑے اچھے اخلاق کے مالک۔ انہوں نے کبھی بھی اجرت میں دیر نہیں کی۔ ان کو حیرت ہوتی تھی کہ ایک پاکستانی کو پاکستان میں پڑھ کر عربی میں اتنی مہارت کیسے حاصل ہو سکتی ہے!
اسی دوران اللہ تعالیٰ نے ایک اور راہ نکالی۔ سر راہے آب پارہ میں ایک عراقی صاحب سے ملاقات ہو گئی جن کے پاس پاکستان کی شہریت ہے۔ وہ عربی میں گفتگو سے بہت متاثر ہوئے اور کہنے لگے میرے ایک دوست کو آپ جیسے کسی آدمی کی ضرورت ہے۔ اگر آپ کام کرنا چاہیں تو میں ان سے بات کروں۔ میں نے کہا اندھے کو کیا چاہئے دو آنکھیں۔ چنانچہ انہوں نے بات کی اور اس کے نتیجے میں میری جناب ابو الفضل صاحب سے ملاقات ہوئی جو عربی زبان میں صحافت کا کام کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ میں نے پہلے، ہفتے میں دو دن اور پھر ایک دن کے حساب سے کوئی دس سال کام کیا۔ شروع کے زمانے میں ان کی جانب سے ملنے والے تین ہزار روپے میرے لئے بڑی چیز تھی۔
بعد میں لاہور کے مشہور کتب خانے مکتبہ رحمانیہ کے مالک معروف ترکی مصنف ہارون یحییٰ کی ایک کتاب ترجمے کے لئے لائے۔ کتاب میں مواد کم اور تصویریں زیادہ تھیں لیکن تھی خالص سائینسی موضوع پر۔ میں نے دیکھا کہ وہ کئی مترجمین کے ہاتھ سے واپس آئی ہے کیونکہ اس پر جگہ جگہ نشان لگے ہوئے تھے۔ یہاں عربی زبان کے ساتھ ساتھ اللہ کے فضل سے میرا سائینس کا وہ تھوڑا سا علم بھی کام آیا جو میں نے سکول میں پڑھا تھا۔ مجھے آج بھی یقین ہے کہ صرف عربی جاننے والا کوئی بھی شخص اس کا ترجمہ نہیں کر سکتا۔ میں نے فی صفحہ ڈیڑھ سو روپے بتائے اور معاملہ طے ہو گیا۔ کوئی دوسری بات نہیں ہوئی حالانکہ انہی صاحب نے بعد میں ہمارے کچھ دوستوں کو مشکات کی شرح مرقات کے ترجمے کے فی صفحہ شاید چھتیس روپے دئے۔ یہ ترجمے کا پہلا تگڑا کام تھا۔ الحمد للہ بہت اچھا ہو گیا۔
اس کے بعد دو اور کتابیں ملیں۔ ان کا بھی میں نے چلتے پھرتے ترجمہ کر کے دے دیا۔ لطف کی بات یہ کہ مکتبہ رحمانیہ والوں کے پاس کاتب کوئی بہت ہی قابل آدمی تھا کہ انہوں نے مجھے کمپوزنگ کے بعد پروف تک نہیں بھیجا بلکہ خود ہی تصحیح کر کے کتابیں چھاپ دیں۔ اگرچہ کتابیں دیتے وقت زبانی طور پر یہ بات طے ہوئی تھی کہ کتاب چھپنے کے بعد دس دس نسخے مفت ملیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا اور مجھے ان کتابوں کے چھپنے کا علم اس وقت ہوا جب ایک دن میں نے مسٹر بکس کے کاؤنٹر پر ایک کتاب پر اپنا نام لکھا دیکھا۔ کتاب گلیز پیپر پر اصل کے مطابق تصویروں کے ساتھ بہت شاندار چھپی تھی۔ میں نے فون کیا تو بتایا گیا کہ کتابیں بہت مہنگی ہیں اس لئے آپ کو دو دو نسخے بھیج دیں گے۔
ان تراجم نے مجھے اس وقت بڑا سہارا دیا اور اللہ کے فضل سے کسی سے قرض مانگنے کی نوبت نہیں آئی۔ اسی دوران ایک فلسطینی سفارتکار نے ایم اے کا ایک مقالہ انگریزی سے عربی ترجمے کے لئے دیا۔ اس سے سات سو ڈالر طے ہوئے مگر پیشگی کچھ بھی نہیں دیا۔ خدا کا کرنا کہ موضوع میرے لئے بالکل نیا اور گھر کے حالات بہت خراب تھے کیونکہ میری اہلیہ ہسپتال میں داخل تھیں۔ میں دن کو پڑھانے چلا جاتا۔ وہاں سے واپس ہسپتال جاتا۔ ان کی پائینتی بیٹھ کر لکھتا رہتا اور رات کو بچوں کے پاس گھر آجاتا اور بچوں کے ماموں ہسپتال میں ہوتے۔ ایسے مشکل وقت اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آدمی کے لئے پیسہ کتنا قیمتی ہو جاتا ہے۔
میں فلسطینی کو فون کرتا تو وہ کہتا کہ فکر نہ کریں آپ کو پیسے مل جائیں گے۔ میں کوئٹہ میں ہوں۔ پھر رابطہ کروں تو جواب ملتا میں کراچی میں ہوں۔ اسلام آباد آ کر آپ سے ملتا ہوں۔۔۔ انہی رابطوں میں وقت کٹ گیا اور اللہ کے فضل سے ترجمہ ہوتا رہا مگر جس دن میں نے کام پورا کیا، اسی دن اخبار میں یہ خبر آ گئی کہ تین فلسطینی سفارتکاروں کو اسرائیل کے لئے جاسوسی کے الزام میں ملک بدر کر دیا گیا ہے اور سوئے اتفاق کہ میرے آجر کا نام بھی ان میں شامل تھا۔ اس طرح مزدوری ملنے کا احتمال ختم ہو گیا اور میں دل مسوس کر رہ گیا۔
کچھ عرصے بعد مجھے کسی بیرون ملک نمبر سے فون آیا۔ میں حیران تھا کہ یہ کون ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب وہی فلسطینی تھا۔ کہنے لگا میں غزہ میں ہوں۔ معذرت چاہتا ہوں کہ آپ کو کام کی اجرت نہیں دے سکا۔ آپ فلسطینی سفارتخانے چلے جائیں۔ فلاں آدمی آپ کو پیسے دے کر کتاب وصول کر لے گا۔ اس سے میرے دل کی کلی کھل گئی۔ فلسطینی سفارتخانے پہنچا تو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ اس کی ہر دیوار پر یاسر عرفات کی قد آدم تصاویر لگی ہیں۔ اس سے زیادہ مجھے اس بات پر کوفت تھی کہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ جس قوم کا ملک چھن گیا ہے وہ آپس میں ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہے۔ فلسطینی سفارتخانہ در اصل فتح کا دفتر ہوتا ہے جو اسلام پسند فلسطینی تنظیموں کی سخت دشمن ہے۔ پاکستان کی سرکاری جامعات میں پڑھنے والے فلسطینی طلبہ میں بھی تنظیمی وابستگی مشکلات کا سبب بنتی رہتی ہے۔
سفارتخانے میں مطلوبہ آدمی سے ملاقات ہوئی۔ علیک سلیک کے بعد اس نے کتاب اور ترجمہ دیکھا۔ پھر اجرت پوچھی تو میں نے بتایا کہ سات سو ڈالر طے ہوئے تھے۔ کہنے لگا کہ اتنے پیسے تو میں نہیں دے سکتا۔ میں نے کہا اچھا آپ بتائیے۔ اس نے کتاب اٹھائی، الٹ پلٹ کر دیکھی اور کہنے لگا کہ سو ڈالر کافی ہیں؟ مجھے بڑا غصہ آیا مگر ضبط کر گیا اور پوچھا کہ آپ کے خیال میں اڑھائی سو صفحے کا ترجمہ سو ڈالر میں ہو سکتا ہے؟ کہنے لگا میں تو یہی دے سکتا ہوں۔ میں نے کہا ٹھیک ہے کتاب مجھے دے دیجئے۔ اس نے پوچھا کہ اس کو آپ کیا کریں گے؟ میں نے کہا گھر میں رکھوں گا اور اٹھ کر چلا آیا۔ یہ 2005 کی بات ہے اور وہ ترجمہ آج بھی گھر میں پڑا ہے۔ (جاری ہے) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ھمدردیات