پردہ پوشی، ایک اعلیٰ ایمانی و اخلاقی وصف
موجودہ دور میں ہماری اخلاقی برائیوں میں سے ایک برائی یہ بھی ہے کہ ہم لوگ ہمہ وقت دوسروں کے عیوب و نقائص اور اُن کی کمیوں اور کوتاہیوں کے ٹٹولنے کے درپے لگے رہتے ہیں اور پھر جوں ہی کسی کی کوئی برائی یا عیب ہمارے ہاتھ لگتا ہے ہم پر سے کوا بناکر اسے ہوا میں اُڑا دیتے ہیں اور دوسرے کی تضحیک و استہزاء سے اپنے نفس کو سکون مہیا کرتے ہیں، یہ انتہائی گھٹیا اور رذیل صفت ہے جو ہمارے معاشرے میں بڑی تیزی کے ساتھ سرایت کرتی جارہی ہے۔حالاں کہ اسلام نے مسلمان بھائی کے عیب و نقص اور اُس کی کمی و کوتاہی کو چھپانے اور اس سے چشم پوشی کرنے کا حکم دیا ہے اور اس کو ظاہر کرنے اور اس کی پردہ دری سے شدید نفرت اور سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ چنانچہ حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو شخص کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی پردہ پوشی فرمائیں گے اور جو شخص کسی مسلمان کی پردہ کرے گا تواللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ دری فرمائیں گے۔
حضرت شعبی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں آکر عرض کیا کہ میری ایک بیٹی تھی جسے میں زمانہٴ جاہلیت میں ایک دفعہ تو زندہ قبر میں دفن کردیا تھا، لیکن پھر مرنے سے پہلے اسے باہر نکال لیا تھا، پھر اُس نے ہمارے ساتھ اسلام کا زمانہ پایا اور مسلمان ہوگئی، پھر اُس سے ایسا گناہ سرزد ہوگیا جس پر شرعی سزاء لازم آتی ہے، اِس پر اُس نے بڑی چھری سے خود کو ذبح کرنے کی کوشش کی ، ہم لوگ موقع پر پہنچ گئے اور اسے بچا لیا، لیکن اُس کے گلے کی کچھ رگیں کٹ گئی تھیں، پھر ہم نے اُس کا علاج کیا اور وہ ٹھیک ہوگئی، اس کے بعد اُس نے توبہ کی اور اُس کی دینی حالت بہت اچھی ہوگئی، اب ایک قوم کے لوگ اس کی شادی کا پیغام دے رہے ہیں، میں اُنہیں اس کی ساری بات بتادوں؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ نے تو اس کا عیب چھپایا تھا ، تم اسے ظاہر کرنا چاہتے ہو۔ اللہ کی قسم! اگر تم نے کسی کو اس لڑکی کوئی بات بتائی تو میں تمہیں ایسی سزاء دوں گاجس سے تمام شہریوں کو عبرت ہوگی، بلکہ اس کی شادی اس طرح کرو جس طرح ایک پاک دامن مسلمان عورت کی کی جاتی ہے۔حضرت شعبی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک لڑکی سے برا کام ہوگیاجس کی اسے شرعی سزاء مل گئی، پھر اس کی قوم والے ہجرت کرکے آئے اور اُس لڑکی نے توبہ کرلی اور اس کی دینی حالت اچھی ہوگئی ہے، اس لڑکی کی شادی کا پیام اس کے چچا کے پاس آیاتو اسے سمجھ نہ آیا کہ وہ کیا کرے؟ اس کی بات بتائے بغیر شادی کردے تو یہ بھی ٹھیک نہیں امانت داری کے خلاف ہے اور اگر بتادے تو یہ بھی ٹھیک نہیں کہ یہ ستر مسلم (مسلمان کی پردہ پوشی) کے خلاف ہے۔ اس کے چچا نے یہ بات حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو بتائی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ (بالکل نہ بتاوٴ اور ) اس کی ایسے شادی کرو جیسے تم اپنی نیک بھلی لڑکیوں کی کرتے ہو۔حضرت شعبی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک عورت نے آکر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں آخر عرض کیا کہ اے امیر الموٴمنین! مجھے ایک بچہ ملا اور اُس کے ساتھ ایک مصری سفید کپڑا ملا جس میں سو دینار تھے، میں نے دونوں کو أٹھالیا(اور گھر لے آئی) اور اس بچے کے لئے دودھ پلانے والی عورت کا اُجرت پر انتظام کیا، اب میرے پاس چار عورتیں آتی ہیں اور وہ چاروں اسے چومتی ہیں، مجھے پتہ نہیں چلتا کہ ان چاروں میں سے کون اس بچے کی ماں ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اب جب وہ عورتیں آئیں تو مجھے اطلاع کردینا (وہ عورتیں آئیں تو) اس عورت نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اطلاع کردی (حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس عورت کے گھر گئے اور) اُن میں سے ایک عورت سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا تم میں سے کون اس بچے کی ماں ہے؟ اُس عورت نے کہا اللہ کی قسم! آپ نے (معلوم کرنے کا) اچھا انداز اختیار نہیں کیا، اللہ تعالیٰ نے ایک عورت کے عیب پر پردہ ڈالا ہے آپ اُس کی پردہ دری کرنا چاہتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم نے ٹھیک کہا ہے۔ پھر اُس پہلی عورت سے کہا آئندہ جب یہ عورتیں تمہارے پاس آئیں تو ان سے کچھ نہ پوچھنا اور ان کے بچے کے ساتھ اچھا سلوک کرتی رہنا اور پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ واپس تشریف لے گئے۔(کنز العمال)
حضرت صالح بن کرز رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میری ایک باندی سے زنا صادر ہوگیا، میں اسے لے کر حضرت حکم بن ایوب رحمة اللہ علیہ کے پاس گیا، میں وہاں بیٹھا ہوا تھا کہ اتنے میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے اور بیٹھ گئے اور فرمایا اے صالح! یہ تمہارے ساتھ باندی کیوں ہے؟ میں نے کہا میری باندی سے زیا صادر ہوگیا ہے اب اِس کا معاملہ امام کے سامنے لے جانا چاہتا ہوں تاکہ وہ اسے شرعی سزاء دے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا ایسے نہ کرو اپنی باندی کو واپس لے جاوٴ اور اللہ سے ڈرواور اس کے عیب پر پردہ ڈالو! میں نے کہا نہیں میں ایسے نہیں کروں گا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا ایسے نہ کرو اور میری بات مانو ۔ وہ بار بار مجھ پر اصرار فرماتے رہے یہاں تک کہ میں باندی کو واپس گھر لے گیا۔(کنز العمال)
ابوداوٴد اور نسائی کی روایت میں ہے کہ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کے منشی حضرت دُخین ابو الہیثم رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں میں نے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے کہا ہمارے چند پڑوسی شراب پیتے ہیں ، میں اُن کے لئے پولیس کو بلانا چاہتا ہوں تاکہ وہ ان کو پکڑ لیں۔ حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ نے کہا ایسے نہ کرو بلکہ ان کو وعظ و نصیحت کرو اور ان کو ڈراوٴ! میں نے کہا میں نے انہیں کو روکا تھا لیکن وہ رکے نہیں، اس لئے میں تو اب ان کے لئے پولیس کو بلانا چاہتا ہوں تاکہ وہ ان کو پکڑ لیں۔ حضرت عقبہ نے کہا تمہارا ناس ہو! ایسے نہ کرو ! کیوں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس نے کسی (مسلمان کے ) عیب کو چھپایا تو گویا اس نے زندہ در گور لڑکی کو زندہ کیا۔
امام بخاری نے الادب المفرد میں یہ روایت نقل کی ہے کہ حضرت بلال بن سعد اشعری رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ کو خط میں لکھا کہ دمشق کے بدمعاشوں کے نام لکھ کر میرے پاس بھیجو تو حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میرا دمشق کے بدمعاشوں سے کیا تعلق؟ اورمجھے ان کا پتہ کہاں سے چلے گا؟ اس پر ان کے بیٹے حضرت بلال نے کہا کہ میں ان کے نام لکھ دیتا ہوں اور ان کے نام لکھ کر دے دیئے۔ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تمہیں ان کا پتہ کہاں سے چلا ہے؟ تمہیں ان کا پتہ اس وجہ سے چلا ہے کہ تم بھی ان میں سے ہو! اس لئے ان کے ناموں کی فہرست اپنے نام سے شروع کرو! اور ان کے نام حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو نہ بھیجے!۔
حضرت شعبی رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ایک گھر میں تھے۔ ان کے ساتھ حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ (اِتنے میں کسی کی ہوا خارج ہوگئی جس کی) بدبو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے محسوس کی تو فرمایا کہ میں تاکید کرتا ہوں کہ جس آدمی کی ہوا خارج ہوئی ہے وہ کھڑا ہوجائے اور جاکر وضو کرے۔ اس پر حضرت جریررضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ اے امیر الموٴمنین! کیا تمام لوگ وضو نہ کرلیں؟ اِس سے مقصد بھی حاصل ہوجائے گا اور جس کی ہوا خارج ہوئی ہے اس کے عیب پر پردہ بھی پڑا رہے گا! حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اللہ آپ رحم فرمائے! آپ جاہلیت میں بھی بہت اچھے سردار تھے اور اسلام میں بھی بہت اچھے سردار ہیں(کہ پردو پوشی کی کیسی اچھی اور عمدہ ترکیب آپ نے بتائی ہے)(کنز العمال)
بندہٴ موٴمن کا ایمانی و اخلاقی یہی وصف ہونا چاہئے کہ وہ دوسروں کے عیوب و نقائص کو ٹٹولے اور ان کی کمیوں و کوتاہیوں کو آشکارا کرنے کے بجائے اپنے عیوب و نقائص کو ٹٹولے اور اپنی کمیوں و کوتاہیوں کو آشکارا کرے اور اُن کی اصلاح و ہدایت کی کوشش و فکر کرے اوردوسرے لوگوں کے عیوب و نقائص پر پردہ ڈالے اور ان کی کمیوں و کوتاہیوں سے چشم پوشی برتے کہ اس سے جہاں دوسرے مسلمانوں کی پردہ پوشی ہوگی اور ان کی عزت نفس کا سامان ہوگا تو وہیں اس عمدہ اور نیک صفت کی بدولت اللہ تعالیٰ اس شخص کی بھی دنیا و آخرت میں پردہ پوشی فرمائیں گے اور اس کی بھی عزت نفس کی حفاظت فرمائیں گے۔