حاجی عبدا لوہاب __ دعوت وتبلیغ کی عالمی تحریک 

 تبلیغی جماعت کے امیر حاجی عبد الوہاب صاحب بھی اللہ کو پیارے ہوگئے۔حاجی عبدا لوہاب صاحب نے اپنی پوری زندگی دین کی دعوت اور دین کی محنت کے لیے وقف کر رکھی تھی۔انہیں حضرت مولانا الیاس ؒ،حضرت مولانا عبدالقادر رائے پوری ؒ اور دیگر اکابر کی صحبت اور خدمت کا شرف نصیب ہوا۔ وہ اکابر کے مزاج شناس تھے اور زندگی بھر ان کے بتائے ہوئے راستے پر چلے اور ان کی روایات کے امین رہے۔
 حاجی عبدالوہاب صاحب ؒ 1922ء کو دہلی انڈیا میں پیدا ہوئے۔آپ کا آبائی علاقہ سہارنپور ہے۔ہجرت کے بعد آپ پاکستان میں تحصیل بورے والا ضلع وہاڑ ی کے گاؤں چک 331میں شفٹ ہوئے۔آپ نے اسلامیہ کالج لاہورسے تعلیم حاصل کی۔گریجویشن کے بعد آپ تحصیلدار کے طورپر نوکری کرنے لگے۔1944ء کو مرکز نظام الدین انڈیا میں مولانا الیاس کاندھلوی سے ملاقات کی اور چھے ماہ تک ان کی خدمت میں رہے۔آپ کا روحانی تعلق مولانا عبدالقادر رائے پوری سے تھا۔جوانی میں حاجی صاحب مجلس احرار کے سرگرم کارکن بھی رہے اور تحریک ختم نبوت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔آپ مولانا محمد یوسف اور حضرت جی مولانا انعام الحسن صاحب کے ساتھ بھی رہے اور آپ نے دین کی محنت کے لیے اپنی نوکری بھی قربان کی۔آپ پاکستان میں حاجی شفیع قریشی اور حاجی بشیرصاحب کے بعد تیسرے نمبر پر تبلیغی جماعت کے امیر مقرر ہوئے۔ 
 حاجی عبدالوہاب صاحب کواللہ رب العزت نے امت کی فکر اور درد وکڑھن کی جس کیفیت سے نوازا تھا وہ انہیں کا خاصہ تھا۔ان کی فکر کا نتیجہ تھا کہ وہ دنیا کے کونے کونے میں پھرے۔اللہ رب العزت انہیں دین کی نسبت سے شرق وغرب اور شمال وجنوب تک لے گئے اور دنیا کاکوئی ایسا خطہ نہیں ہوگا جس کی فضاؤں میں حاجی عبدالوہاب صاحب کی درد میں ڈوبی اور ایمان ویقین سے معمور دعوت کی آواز نہ گونجی ہو۔حاجی عبدالوہاب صاحب سے اللہ رب العزت نے اپنے دین کی خدمت اور دعوت کا اتنا کام لیا جتنا کوئی بہت بڑی تحریک،کئی تنظیمیں اور بہت سے ادارے مل کر نہیں کرپاتے حاجی عبدالوہاب صاحب نے اتنا کام تن تنہا سر انجام دیا۔
 مجھے بارہا حاجی عبدالوہاب صاحب کی خدمت میں حاضری کی سعادت نصیب ہوئی۔جب بھی ملاقات ہوتی بہت شفقت اور محبت سے نوازتے۔دادا جی حضرت مولانا خیر محمد جالندھری ؒکا تذکرہ فرماتے۔اکابر کی یادیں اور واقعات سناتے۔میں نے کبھی بھی ان سے دنیا کے بارے میں کوئی بات نہیں سنی، مروجہ سیاست، حالات حاضرہ، کسی کی غیبت،کوئی مسئلہ……کچھ بھی نہیں …… حاجی صاحب ہمیشہ بس صرف اللہ کے دین کی،آخرت کی اور دعوت کی بات کرتے،وقت لگانے کا مطالبہ کرتے۔ جب بھی حاضری ہوئی تو پیاراور شفقت بھرے انداز سے تھپڑمارتے۔حاجی صاحب کی شخصیت اتحاد ویکجہتی کا استعارہ تھی۔آپ کے وجود کی برکت سے امت بہت سے انتشار واختلافات اور فتنوں سے محفوظ تھی۔
حاجی صاحب کو اللہ رب العزت نے بہت بڑادل عطافرمایا تھا۔ ان کی عالی ظرفی اور وسعت ظرفی کا یہ عالم تھا کہ ہر کسی کو ساتھ لے کر چلے،ہر کسی کا بازو پھیلاکر استقبال کیا،اپنے پرائے کی تمیز کیے بغیرہرکسی سے شفقت ومحبت کا مظاہرہ کیا۔
 حاجی عبدالوہاب صاحب کے پاس دنیا بھر سے بادشاہ،نامی گرامی شخصیات، شہزادے اور جانے کون کون لوگ حاضر ہوتے رہے لیکن حاجی صاحب نے کبھی کسی کی دنیوی حیثیت،عہدے، اقتدار،شان وشوکت اور مال ودولت کو خاطر میں نہیں لایا۔وہ ہر کسی سے ملتے تھے،ہر کسی کو احترام دیتے تھے،ہر کسی کو شفقت ومحبت سے نوازتے تھے لیکن پیمانہ صرف ایک تھا اور وہ دین تھا۔ وہ دین کی نسبت سے ملتے،وہ کلمے کی وجہ سے احترام کرتے، وہ ہرکسی کی آخرت سنوارنے کی فکر کرتے۔حاجی عبدالوہاب صاحب کے قدموں میں دولت کے انبار لگے،کسی نے طیارہ پیش کیا،کسی نے گاڑی نذر کرنے کی کوشش کی،کوئی کوٹھیوں اور فارم ہاؤسز کی چابیاں لے کر آیا لیکن حاجی صاحب نے کچھ بھی قبول نہ کیا،کسی چیز کی طمع نہ کی،کسی چیز کا لالچ نہ رکھا- ان کی سادگی، قناعت اورکفایت شعاری اپنی مثال آپ تھی۔
 حاجی عبدالوہاب صاحب کے دور امارت میں دعوت وتبلیغ کی محنت کو بہت ترقی،بہت عروج،بہت وسعت اور بہت کامیابی ملی۔اس سب کے اللہ رب العزت کے فضل وکرم کے بعد جہاں دیگر کئی اسباب ہیں وہیں حاجی صاحب کی امارت، ان کی فکر،ان کی شخصیت،جہد مسلسل کابھی اس میں بڑاحصہ ہے۔حاجی صاحب کواللہ رب العزت نے جس تدبر،بصیرت اور حکمت ودانش سے نوازا تھا وہ دعوت وتبلیغ کے مبارک کام کے ساتھ اللہ رب العزت کی خصوصی نصرت اور رحمت کی نشانی تھا۔
 آج حاجی صاحب تو چل بسے لیکن پوری امت کے لیے بالخصوص علماء کرام،تبلیغی جماعت کے ذمہ داران اور دنیا بھر کے مسلمانوں اور دعوت وتبلیغ اور مساجد ومدارس اور دینی تحریک اور جماعتوں کے وابستگان کے لیے حاجی صاحب کی رحلت فکر مندی کا ایک پیغام ہے کہ ہر درد دل رکھنے والا مسلمان اپنے عہدکی تجدید کرے……اپنے عزم کو تازہ کرے…… اپنے اہداف کا پھر سے تعین کرے…… اورا یک دوسرے کے شانہ بشانہ دین کی خدمت اور دعوت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے …… جس طرح حاجی صاحب نے اپنی زندگی کے آخری لمحے تک اس بات کو سچ کر دکھایا کہ”دین کا کام کرنا ہے ……کرتے کرتے مرنا ہے ……اور مرتے مرتے کرنا ہے“ اسی طرح امت کا ہر ہر فرد اس جذبے کو لے کر نکلے اور دین کے غلبے اور دین کی خدمت کی جدوجہد میں شریک ہوجائے۔
  اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو……آمین

شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2024

تبصرے

يجب أن تكون عضوا لدينا لتتمكن من التعليق

إنشاء حساب

يستغرق التسجيل بضع ثوان فقط

سجل حسابا جديدا

تسجيل الدخول

تملك حسابا مسجّلا بالفعل؟

سجل دخولك الآن
ویب سائٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اس سائٹ کے مضامین تجارتی مقاصد کے لئے نقل کرنا یا چھاپنا ممنوع ہے، البتہ غیر تجارتی مقاصد کے لیئے ویب سائٹ کا حوالہ دے کر نشر کرنے کی اجازت ہے.
ویب سائٹ میں شامل مواد کے حقوق Creative Commons license CC-BY-NC کے تحت محفوظ ہیں
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2024