کیا مسلمانوں کا غلبہ اب ہمیشہ کے لئے ناممکن ہے؟

غامدی صاحب کے ارشادات کے جواب میں

جاوید احمد غامدی صاحب کی گفتگو کا ایک اقتباس سنا، اس پر بندہ کا تبصرہ حاضر ہے.....

غامدی صاحب کی مکمل گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ:

1:مسلمان اخلاق و کردار کے اعتبار سے دنیا کی گھٹیا ترین قوم بن چکے ہیں۔

2: انہیں دنیا کا اقتدار اب کسی صورت نہیں مل سکتا۔
3: دنیا کا اقتدار اب ہمیشہ کے لیے یافث کی اولاد یعنی یورپین اقوام کے لیے ہے اور یہ خدائی فیصلہ ہے۔

4: ہم صرف یافث کی اولاد کے بنائے ہوئے سسٹم میں ان کی اقتداء کرسکتے ہیں، یا پھر انہیں اسلام کی دعوت دے سکتے ہیں، وہ بھی بڑے مؤدبانہ و مہذب طریقے سے۔

اپنے ان دعاوی کے لئے انہوں نے قرآن پاک کی دو آیتوں اور تاریخ سے "استدلال" کیا ہے اور پھر اس "استدلال" کے زور سے مسلمانوں کو خوب بے نقط کی سنا کر انہیں جہاد و مزاحمت کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دینے اور کفار کے غلبے کو تاقیام قیامت تسلیم کرلینے کا سبق دیا ہے۔ آئیے غامدی صاحب کے ان فرامین کا حقائق و دلائل کی روشنی میں جائزہ لیتے ہیں۔

پہلی آیت: تلك الأيام نداولها بين الناس، اس آیت کا ان کے دعاوی سے کوئی ربط نہیں، یہ آیت جنگ احد کی شکست کے موقع پر نازل ہوئی تھی اور سب کو معلوم ہے کہ اس شکست کے بعد مسلمانوں کو شاندار فتوحات بھی ملی تھیں، سو اس آیت سے یہ استدلال کرنا کہ اب مسلمانوں کو کبھی دنیا کا اقتدار نہیں مل سکتا، نرا سفسطہ ہے۔

دوسری آیت: حتى إذا فتحت ياجوج و ماجوج و هم من كل حدب ينسلون، اس آیت سے ان کا استدلال بھی استدلال کم اور زور آزمائی زیادہ ہے کیونکہ اس آیت میں نہ تو یہ صراحت ہے کہ یاجوج ماجوج یافث کی اولاد ہیں، نہ یہ کہ یورپی اقوام یاجوج ماجوج ہی ہیں، اور نہ یہ کہ یاجوج ماجوج کے غلبے کے بعد ہمیشہ کے لیے وہی غالب رہیں گے۔

تاریخی اعتبار سے غامدی صاحب نے دو باتیں کیں:

پہلی بات: غامدی صاحب کہنا چاہتے ہیں کہ دنیا کے اقتدار کی تاریخی ترتیب یہ ہے کہ نوح علیہ السلام کی اولاد کو باری باری دنیا کی حکومت ملی ہے، حام اور سام کی اولاد بالترتیب اپنی اپنی باری لے چکے ہیں اور اب قیامت تک یافث کی اولاد کی باری ہے، غامدی صاحب کی بیان کردہ یہ تاریخی کہانی شیخ چلی کی کہانی سے زیادہ کچھ وقعت نہیں رکھتی کیونکہ:

1:حام کی اولاد یعنی حبشیوں کو پوری دنیا کا اقتدار ملنے کا ثبوت درکار ہے، بندہ کی معلومات کی حد تک یہ بات سرے سے درست نہیں ہے۔

2: یہ بات بھی بداہتا بالکل غلط ہے کہ پہلے مسلسل حام کی اولاد دنیا کے تخت پر قابض رہی، پھر مسلسل سام کی اولاد، اور اب ہمیشہ کے لیے یافث کی اولاد کی باری ہے، حقیقت یہ ہے کہ سام اور یافث کی اولاد میں صدیوں سے کشمکش جاری ہے اور وہ بار بار ایک دوسرے کو مغلوب کرکے اقتدار سنبھالتی رہی ہیں، سب جانتے ہیں کہ سلیمان علیہ السلام اور داؤد علیہ السلام کے زمانے میں سامی بنی اسرائیل کو ملنے والے عظیم الشان اقتدار کا یافث کی اولاد یعنی رومیوں کے ہاتھوں قبل مسیح ہی خاتمہ ہوچکا تھا، پھر صدیوں تک بنی یافث یعنی رومیوں کا دنیا پر قبضہ رہا، پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مبارکہ کے بعد دوبارہ سام کی اولاد میں سے بنی اسماعیل کو دنیا کا اقتدار ملا جو صدیوں تک باقی رہا۔ اس ساری ترتیب کو خود غامدی صاحب بھی مانتے اور قرآن سے ثابت کرتے ہیں، اس ساری تفصیل سے دو باتیں واضح ہوئیں:

1: حام اور سام کی طرح یافث کی اولاد کو بھی دنیا کی حکمرانی مل چکی ہے، اور کئی صدیوں تک برقرار رہ چکی ہے۔

2: ایسی کوئی بات تاریخی یا شرعی طور پر ثابت نہیں کہ جس قوم سے ایک بار دنیا کی حکمرانی چھن جائے اسے دوبارہ نہ مل سکے، بنی سام اور بنی یافث، دونوں سے دنیا کی حکمرانی چھننے کے باوجود انہیں دوبارہ واپس ملی ہے اور آئندہ بھی مل سکتی ہے۔

دوسرا تاریخی حوالہ غامدی صاحب نے تاتاریوں کا دیا ہے کہ مسلمانوں کے ان کے ہاتھوں اقتدار چھن جانے کے بعد مسلمان انہیں مغلوب نہیں کرسکے البتہ تاتاری خود مسلمان ہوگئے، یہ ایک تاریخی غلط فہمی ہے جو اچھے اچھے پڑھے لکھے لوگوں میں پائی جاتی ہے کہ تاتاریوں کو مسلمان کبھی مغلوب نہیں کرسکے تھے اور وہ غالب آ کر از خود مسلمان ہوگئے تھے، یہ بات قطعا غلط ہے، حقیقت یہ ہے کہ پے درپے شکستوں اور بغداد کی تباہی کے بعد مصر کے ممالیک اور شام کے حکمرانوں کے ہاتھوں اللہ جل شانہ نے تاتاریوں کو اس قدر بدترین شکست سے دو چار کیا تھا کہ اس کے بعد وہ تقریباً اقتدار کے منظر نامے سے حرف غلط کی طرح مٹ گئے تھے، حتی کہ فاتح بغداد ہلاکو خاں کے انجام کے بارے میں بھی تاریخ خاموش ہے کہ وہ کہاں مرا اور کیسے مرا، تاتاریوں کے اسلام قبول کرنے کا واقعہ ان کے مغلوب اور بے نام و نشان ہو جانے کے کہیں بعد کا ہے۔
خلاصہ یہ نکلا کہ سامی عربوں کی بنی یافث تاتاریوں کے ہاتھوں شکست کے بعد دوبارہ بنی سام نے بنی یافث کو جہاد کے میدان میں مغلوب بلکہ بے نام و نشان کردیا تھا، بنی یافث کے مسلمان ہونے اور خلافت عثمانیہ کے قیام کے واقعات ان کی مغلوبیت کے بہت بعد کے ہیں۔

تاریخ و تفسیر میں جس شخص کی بے بضاعتی اور کج فہمی کا یہ عالم ہے، احادیث صحیحہ متواترہ میں بیان کردہ قرب قیامت کے حالات و واقعات کو یہی ٹٹ پونجیا انتہائی حقارت و تمسخر سے افسانے کہہ کر ٹال رہا اور ان کا مذاق اڑا رہا ہے۔ جہالت کا یہ عالم اور اس پر یہ تکبر و غرور، مقام عبرت ہے۔

قرآن پاک، احادیث اور امم سابقہ کی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ مغلوب اور غلام قوم کا سب سے پہلا فرض ظالموں اور غاصبوں کے خلاف جدو جہد و جہاد کرنا اور خود کو ان کے فکری و عسکری غلبے سے آزاد کرانا ہوتا ہے، اس کے بغیر ان کی اخلاقی و دینی حالت قیامت تک کبھی بہتر نہیں ہوسکتی۔ اسی لئے موسی علیہ السلام کی قوم کو مصر سے نکلتے ہی عمالقہ سے جہاد کا حکم ہوگیا تھا جو ان بدبختوں نے غامدی صاحب ہی کی طرح تاویلیں کرکے ٹال دیا جس کے نتیجے میں مغلوبیت و پستی کا زمانہ طویل سے طویل تر ہوتا چلا گیا۔
اگر کوئی شخص غیر اور کافر اقوام کی تا زندگی غلامی میں رہنے کی قسم کی اٹھا چکا ہو تو اس کو نہ قرآن پاک کی آیات ہلا سکتی ہیں، نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث، اور نہ ہی امم سابقہ کی تاریخ سے اسے کوئی درس مل سکتا ہے، اس کی زندگی کا مشن ظالموں اور غاصبوں کے قبضے کو دوام بخشنا ہی باقی رہ جاتا ہے اور یہی وہ وقت ہوتا ہے جب "من يضلل الله فلا هادي له" پڑھنے کے سوا اس کے لئے کچھ نہیں کیا جاسکتا۔

اللہ جل شانہ ہم سب کو حق کی اتباع نصیب فرمائیں۔

شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2024

تبصرے

يجب أن تكون عضوا لدينا لتتمكن من التعليق

إنشاء حساب

يستغرق التسجيل بضع ثوان فقط

سجل حسابا جديدا

تسجيل الدخول

تملك حسابا مسجّلا بالفعل؟

سجل دخولك الآن
ویب سائٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اس سائٹ کے مضامین تجارتی مقاصد کے لئے نقل کرنا یا چھاپنا ممنوع ہے، البتہ غیر تجارتی مقاصد کے لیئے ویب سائٹ کا حوالہ دے کر نشر کرنے کی اجازت ہے.
ویب سائٹ میں شامل مواد کے حقوق Creative Commons license CC-BY-NC کے تحت محفوظ ہیں
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2024