آیا صوفیا پر سورج کی کرنیں

آیا صوفیا پر گزرے ہوۓ ادوار کا تاریخی تسلسل، سورج کی زبانی

1500 سال قبل کی بات ہے جب سورج دھیرے دھیرے افق سے اپنے قدآور وجود کو، بادلوں کی اوٹ سے اوپر کی جانب دھکیلنے کی کوشش کر رہا تھا، تو سورج کے مزاج میں حدت، تیزی اور غیظ و غضب واضح تھا۔ بوجہ غیظ کے سورج کا چہرہ اگلتے ہوۓ انگاروں کے مانند ہوگیا تھا، اس کے ماتھے میں بل کھاتی ہوئی لکیریں اس کی ناپسندیدگی کو واضح کر رہی تھی. 

یہ سن 537 عیسوی کا دن تھا جب بازنطینی سلطنت کے شہنشاء جسٹینین أول نے اس عمارت کی بنیاد رکھی اور اسے گرجا گھر بنانے کا فیصلہ کیا.  اس عمارت کا شمار  یونانی آرتھوڈکس فرقے کی اہم مذہبی اور سیاسی مرکز کے طور پر ہونے لگا.

سن 1453ء، تقریبا 900 سال بعد، 24 مئی کی صبح جب سورج اپنے مقررہ وقت پر افق سے نمودار ہوا تو اس کے انداز میں عجلت پسندی نمایاں تھی گویا کہ اس کو کسی سے ملاقات کرنی ہو یا مدتوں سے کسی کا انتظار ہو اور اس کی آمد آج متوقع ہو۔۔
سورج کا کھلکھلاتا ہوا چہرہ، طبعیت میں فراخی، انداز میں شفقت و محبت،  پیار سے لبریز شعاؤں کو سلطان محمد فاتح اور اس کے لشکر کو ارسال کرتے ہوۓ، کھلے آسمان میں کھڑا مسکرا رہا تھا اور بوجہ مسکراہٹ، چہرے پر نمودار ہونے والے دو خوبصورت گڑھے اس کی خوبصورتی میں اور اضافہ کر رہے تھے.
اس دن  کے سورج میں نہ حدت تھی نہ سرد رویہ کی جھلک، نہ اس کی تپش آگ نما تھی نہ جسم کو تکلیف دینے والی، بلکہ ایک عجیب سی محبت بھری تپش تھی جو جسم میں سرسراہٹ سی پیدا کر رہی تھی۔
سلطان محمد فاتح اپنے لشکر کے قلب کیساتھ، قسطنطینیہ کے حصار کو زمین بوس کرتے ہوۓ اندر داخل ہورہے تھے اور لشکر کا میمنہ اور میسرہ بالترتیب دائیں بائیں کھڑے ان کے داخل ہونے کی لیے  راہ ہموار کر رہے تھے اور پرجوش انداز میں ان کا استقبال کرتے ہوۓ اللہ اکبر کے  فلک شگاف نعریں لگا رہے تھے یہ صدائیں در و دیوار کو ہلا رہی تھی اور مسلمانوں کے دلوں میں قوت ایمانی کی ضرب لگا رہی تھی۔ سلطان نے اس عمارت کو مسجد میں تبدیل کیا اور یہاں جمعہ کی نماز ادا کی۔ 
سن 1935 کا وہ تاریک دن، جس کی ابتداء ہی سے سورج آگ بگولا تھا اور اس کی تیز شعائیں جسم انسانی کو چبھ رہی تھیں. 
اس دن اس عظیم عالیشان مسجد کو عجائب گھر میں تبدیل کیا گیا اور اس شنیع فعل سے مسجد کے تقدس کو پامال کیا گیا اور مسلمانوں کی اہم شناخت کو مجروح کرنے کی کوشش کی گئی اور ان  کے جذبات کیساتھ کھیلا گیا۔
24 جولائی، 2020، سورج فخریہ انداز سے سر اٹھاۓ استنبول کے فیتھ ڈسٹرکٹ میں سمندر کے کنارے واقع اس عظیم عمارت کو محبت بھری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا جب عمارت کے میناروں سے 86 سال بعد اللہ اکبر اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہوئی اور ان صداؤں نے مسلمانوں کے سوۓ ہوۓ ضمیر کو جنجھوڑا اور منجمد ہوتے ہوۓ خون کو ایک نئی حرارت عطا کی اور ٹوٹے ہوۓ شکستہ دلوں کو ایک نئی زندگی اور امید کی کرن بخشی۔۔ کہ آج بھی کرہ ارض پر غیور مسلمان زندہ ہیں جو اپنے اسلاف کی سنت و تاریخ کو زندہ کر رہے ہیں اور دینی ورثہ کی حفاظت کر رہے ہیں اور مخدوش ہوتی مسلم شخصیت کو پھر سے اس کا مقام عطا کر رہے ہیں... 
منبر سے تلوار کیساتھ جاری خطبہ، بحر اوقیانوس کے اس پار کی طاقتوں کو اور مشرقی وسطی کے حکمرانوں کو، مسلمانوں کا شاندار، اختر تابناک ماضی کا آئینہ دکھاتے ہوۓ اس بات کا پیغام دے رہا تھا کہ وہ وقت دور نہیں جب مسلمان پھر سے متحد ہوکر اپنے کھوۓ ہوۓ وقار کو حاصل کرلیں گے۔

حسرت سے دیکھتے رہے ماضی کو اسطرح
جیسے کہ لوٹ آئیں گے وہ دن جو گزر گئے

 

رضوان اللہ

طالب علم
زیر تعلیم مدرسہ ابن عباس رضی اللہ عنہا
کل مواد : 6
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2024

تبصرے

    • دل کو تڑپاتی ہے اب تک گرمئ محفل کی یاد جل چکا حاصل مگر محفوظ ہے حاصل کی یاد اقبال

    • دل کو تڑپاتی ہے اب تک گرمئ محفل کی یاد جل چکا حاصل مگر محفوظ ہے حاصل کی یاد اقبال

    • ماشاءاللہ قابل دید سوچ و فکر ہے اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مزید پروان چڑھائے آمین

يجب أن تكون عضوا لدينا لتتمكن من التعليق

إنشاء حساب

يستغرق التسجيل بضع ثوان فقط

سجل حسابا جديدا

تسجيل الدخول

تملك حسابا مسجّلا بالفعل؟

سجل دخولك الآن
ویب سائٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اس سائٹ کے مضامین تجارتی مقاصد کے لئے نقل کرنا یا چھاپنا ممنوع ہے، البتہ غیر تجارتی مقاصد کے لیئے ویب سائٹ کا حوالہ دے کر نشر کرنے کی اجازت ہے.
ویب سائٹ میں شامل مواد کے حقوق Creative Commons license CC-BY-NC کے تحت محفوظ ہیں
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2024