ایک عظیم اصول اور ہمارا طرز عمل ماہنامہ النخیل شوال 1440
انسان اپنی ظاہری نگاہ اورناقص عقل سے جس چیز کو اپنے حق میں بہتر یا بدتر سمجھ رہا ہوتا ہے، بسا اوقات عواقب ونتائج کے لحاظ سے وہی چیز اس کے لئے اس کے اندازے کے برعکس ثابت ہوتی ہے۔
قرآن مجید نے بہت وضاحت کے ساتھ اس اصول کواور حقیقت کو آشکارا فرمایا ہے، اس اصول کا انسان کی زندگی سے بہت گہراتعلق ہے، اوراس کا سرا براہ راست ایمانیات کے ایک اہم شعبے’’ قضا وقدر پر ایمان‘‘ سے جڑا ہوا ہے، سورۃ البقرۃ میں اس اصول کا ذکر حکم جہاد کے سیاق اور ذیل میں ہوا ہے، ارشاد قرآنی ہے :
کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ وَہُوَ کُرْہٌ لَّکُمْ وَعَسَی أَن تَکْرَہُواْ شَیْئاً وَہُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَعَسَی أَن تُحِبُّواْ شَیْئاً وَہُوَ شَرٌّ لَّکُمْ وَاللّہُ یَعْلَمُ وَأَنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ۔(البقرۃ: ۲۱۶)
تم پر دشمنوں سے جنگ کرنا فرض کیا گیا ہے، جو تم پرگراں ہے، ممکن ہے کہ ایک چیز تم کوبری لگے، حالانکہ وہ تمہارے حق میں خیر ہو، اور یہ بھی ہوسکتاہے کہ ایک چیز تم کو بھلی لگے ، حالانکہ وہ تمہارے حق میں شر ہو، اصل حقیقت اللہ کے علم میں ہے، نہ کہ تمہارے علم میں۔
اس آیت کریمہ میں جس خیر کا مطلق ذکر فرمایا گیا ہے، دوسرے مقام پر اس کی وضاحت کردی گئی ہے، سورۃ النساء میں خواتین کے ساتھ حسن معاشرت کے ذیل میں ارشاد ہوا ہے:
وَعَاشِرُوہُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِن کَرِہْتُمُوہُنَّ فَعَسَی أَن تَکْرَہُواْ شَیْئاً وَیَجْعَلَ اللّہُ فِیْہِ خَیْراً کَثِیْراً۔(النساء:۱۹)
تم بیویوں کے ساتھ بھلے انداز میں زندگی بسر کرو، اور اگر وہ تم کو نہیں بھاتی ہیں، تو عین ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرتے ہواور اللہ نے اس میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو۔
اس آیت میں خیر کے ساتھ ’’کثیر ‘‘ لفظ کا ذکر ہوا ہے، اس طرح یہ ثابت کیا گیا ہے کہ بسا اوقات انسان جن امور کو اپنے لئے ناگوار اور گراں باور کرتا ہے، ان میں اس کے لئے من جانب ا للہ بہت بڑی خیر اور بہت عظیم منافع مضمر ہوتے ہیں۔
انسان پر بسا اوقات ایسے حالات آتے ہیں جواس کے لئے بے انتہا تکلیف دہ ثابت ہوتے ہیں، وہ گھٹ گھٹ کر رہ جاتا ہے، اسے پوری دنیا تاریک نظر آنے لگتی ہے، وہ یہ باور کرنے لگتا ہے کہ اس کی تمام توقعات پر پانی پھر گیا اور اس کی تمام امیدوں کا خون ہوگیا، مگر پھر دھیرے دھیرے حالات بدلنے لگتے ہیں، اور انہیں دشواریوں کے بطن سے اس کے خیر اور اور مفاد کی ایسی چیزیں برآمد ہوتی ہیں جو اس کے ذہن و گمان میں بھی نہیں ہوتیں، بالآخر جن حالات کو وہ اپنے لئے شر سمجھ رہا تھا، انجام کار اس کے لئے سراسر خیر ثابت ہوکر رہتے ہیں۔
اسی طرح بسا اوقات انسان اپنی زندگی کے کسی شعبے میں ایک ہدف کو اپنے لئے سراسر خیر سمجھ کر اس کے حصول کیلئے تمام توانائیاں صرف کردیتا ہے، ہر طرح کی قربانی پیش کرتا ہے، لیکن انجام کار جو نتیجہ برآمد ہوتا ہے وہ اس کے لئے تمام تر خسارے، شر اور نقصان کا ہوتا ہے، پھر اسے احساس ہوتا ہے کہ وہ جس چیز کو اپنے لئے آبِ حیات سمجھ رہا تھا وہ خالص سراب تھی،اور جس کو اپنے لئے مفید جان رہا تھا، وہ پوری طرح مضر تھی۔
قرآن کی مذکورہ دونوں آیات پر اس حوالے سے غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پہلی آیت میں ان مالی اور بدنی آلام کا ذکر ہوا جو مجاہدین کو پیش آتے ہیں، اور دوسری آیات میں ان نفسیاتی آلام کا بیان ہے جو ازدواجی زندگی میں طلاق و تفریق کی صورت میںانسان کے سامنے پیش آتے ہیں، پہلی آیت میں جہاد کا مضمون ہے جو اعلیٰ درجہ کی عبادت ہے اور جس کا اصل تعلق اللہ کے حقوق سے ہے، جب کہ دوسری آیت کا تعلق ازدواجی معاملات سے ہے جس کا تعلق بندوں کے حقوق اور معاشرت سے ہے، اس سے معلوم ہوا کہ ’’ جس چیز کو تم مفید یا خیر سمجھ رہے ہو اس میںنقصان اور شر ہوسکتا ہے، اور جس کو تم مضر یا شر سمجھ رہے ہو اس میں نفع اور خیر ہوسکتا ہے‘‘ کا قرآنی ضابطہ زندگی کے تمام گوشوں کے لئے ہے، یہ اصول دینی معاملات کے لئے بھی ہے اور دنیوی معاملات کے لئے بھی، اس کا تعلق انسان کے جسم و بدن سے بھی ہے، نفس و روح سے بھی، مال و دولت سے بھی ہے اور جاہ و منصب سے بھی، عقائد و عبادات سے بھی ہے اور معاملات و معاشرت سے بھی۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انسان کی ظاہری زندگی میں مشقتیں زیادہ ہوتی ہے، اور راحتیں کم، غم کی ساعات زیادہ ہوتی ہیں اور خوشی کے لمحات کم، اللہ نے یہ حقیقت قسم کی بیان فرمائی ہے، چنانچہ فرمایا:
لَقَدْ خَلَقْنَا الاِنْسَانَ فِیْ کَبَدٍ۔(البلد:۴)یقینا ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے،
عربی شاعر نے بھی اسی کا اظہار یوں کیا ہے:
جُبِلْتَ عَلَی کَدَرٍ وَأَنْتَ تُرِیْدُہَا
صَفْوًا مِنَ الأَقْذَارِوَ الْأَکدَارِ
مشقت اور پریشانی تمہاری فطر ت میں رقم کردی گئی ہے، زندگی میں پر مشقت حالات آکر رہیں گے، جب کہ تم پریشانیوں اور تکدر سے پاک صاف زندگی چاہتے ہو، مگر ایسا نہیں ہوگا۔
جب یہ طے ہے کہ زندگی آلام و مسائل کا مجموعہ ہے، آزمائشوں اور مشکلات سے کسی کو مفر نہیں ، تو اب انسان کو زندگی کے سفر کی تمام سختیوں اور تلخیوں میں بے قرار اور مایوس ہونے سے بچانے والی چیز اس کے سوا اور کیا ہوسکتی ہے کہ وہ قرآن مقدس کے اس اصول کو ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھے اور اپنا راہ نما بنالے، اور یہ حقیقت دل و دماغ کے ہر حصے میں راسخ کرلے کہ حالات کی ان سختیوں کے بطن سے بھی اس کے لئے خیربرآمد ہوگی، اوررات کی شدید ظلمتوں کے بطن سے اس کے لئے بہر حال سحر نمودار ہوگی، بقول جگر ؎
طولِ شبِ فراق سے گھبرا نہ اے جگر
ایسی بھی کوئی رات ہے جس کی سحر نہ ہو
قرآنی قصص و واقعات اور تاریخ کے صفحات میں ایسے بے شمار نمونے موجود ہیں جو اس قرآنی اصول کی واقعیت اور صداقت کا زندہ ثبوت ہیں، اس کی چند مثالوں کی طرف ذیل میں اشارہ کیا جاتا ہے:
(۱)... قرآن بتاتا ہے کہ فرعون کے ظلم سے بچانے کے لئے حضرت موسی کی والدہ نے اپنے لخت جگر حضرت موسی علیہ السلام کو شیر خوارگی کے زمانے میں دریا میں ڈال دیا، اللہ نے انہیں یہ حکم دیا تھا ، اس حکم کی تعمیل ان کے لئے کتنی شاق گذری ہوگی، اور اپنے لخت جگر کودریا کی بے رحم موجوں کے سپرد کردینا ان کے لئے کتنا گراں ہوگا، پھر بیٹے کا فرعون کی تحویل میں پہونچنا، ان کے لئے کتنا سوہانِ روح رہا ہوگا، تصوربھی نہیں کیا جاسکتا، قرآنی بیان کے مطابق:
وَأَصْبَحَ فُؤَادُ أُمِّ مُوسَی فَارِغاً۔ (القصص:۱۰)
حضرت موسی کی والدہ کا دل بہت بے قرار تھا۔
مگر پھر مختصر سی مدت ہی میں اس کا کیا خوشگوار نتیجہ برآمد ہوا ، اور پھر پوری قوم’’ بنی اسرائیل‘‘ کے لئے کیسے مبارک حالات سامنے آئے، پوری طرح ظاہر ہے۔
(۲) ...حضرت یوسف علیہ السلام کا پورا واقعہ دیکھا جائے، کیسے کیسے حالات ان کے سامنے آئے، تاریک کنویں سے ان کی آزمائش کا سفر شروع ہواتھا، پھرزلیخا کے دامِ مکر، پھر قید و بند، پھر عہدہ ومنصب کی آزمائشیں، ساتھ ہی غریب الوطنی، اہل خانہ، وطن، والدین و اقارب سے دوری، یہ سب حالات تھے، مگر پھر ان کی صبر و استقامت کے انعام کے طور پر ان کو نبوت کا عظیم منصب بھی ملا، حکومت مصر کی وزارتِ خزانہ کا عہدہ بھی ملا۔
(۳)... حضرت موسی کی موجودگی میں اللہ کے حکم غیبی سے حضرت خضر نے ایک معصوم بچے کو قتل کیا، حضرت موسی نے اس پر سختی سے نکیر بھی کی،مگر بعد میں حضرت خضر نے اس کی توجیہ کرتے ہوئے بتایا ، قرآن فرماتا ہے:
وَأَمَّا الْغُلَامُ فَکَانَ أَبَوَاہُ مُؤْمِنَیْنِ فَخَشِیْنَا أَن یُرْہِقَہُمَا طُغْیَاناً وَکُفْراً، فَأَرَدْنَا أَن یُبْدِلَہُمَا رَبُّہُمَا خَیْراً مِّنْہُ زَکَاۃً وَأَقْرَبَ رُحْماً۔(الکہف: ۸۰-۸۱)
اور لڑکے کا معاملہ یہ تھا کہ اس کے ماں باپ مؤمن تھے، اور ہمیں اس بات کا اندیشہ تھا کہ یہ لڑکا ان دونوں کو سرکشی اور کفر میں نہ پھنسا دے، چنانچہ ہم نے یہ چاہا کہ ان کاپروردگار انہیں اس لڑکے کے بدلے ایسی اولاد دے جو پاکیزگی میں بھی ا س سے بہتر ہو، اور حسن سلوک میں بھی اس سے بڑی ہو۔
اس سے معلوم ہوا کہ ایک عمل جو اپنی ظاہری شکل میں بہت بدتر معلوم ہورہا تھا، انجام کے لئے لحاظ سے بہت بہتر اور پورے خاندان کے لئے مفید ثابت ہوا۔
یہاں رک کر اس پہلو پر بھی غور کیا جاناچاہئے کہ ہمارے اپنے ماحول میں جو لوگ اولاد کی نعمت سے محروم رہتے ہیں، فطری طور پر ان کی زندگی بے حد بے سکون اوربے چین رہتی ہے، مسلسل ا حساسِ محرومی اور رنج و غم کی مستقل کیفیات ان پر طاری رہتی ہیں، ایسے افراد اگر حضرت موسیٰ و خضر کے واقعہ کے مذکورہ پہلو کا بغور مطالعہ فرمالیں تونہ صرف یہ کہ ان کا غم و حزن دور ہوجائے گا بلکہ اللہ کے فیصلہ پر ان کے قلب کو مکمل اطمینان و انشراح کی نعمت حاصل ہوجائے گی اوران کا ایمانی شعور انہیں اس پہلو تک پہونچائے گا کہ شاید اگر وہ اولاد کی دولت سے سرفراز ہوتے توممکن ہے کہ ان کی اولاد مستقبل میں ان کے لئے رحمت کے بجائے زحمت، آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کے قرار کے بجائے وبال جان ثابت ہوجاتی، اور ان کی زندگی کا سارا لطف مکدر ہوکر رہ جاتا۔
تو نگاہ ظاہر جس چیز کو شر کو قرار دے رہی ہوتی ہے بسا اوقات ا یمانی شعور اور قرآنی تدبّر اسے خیر قرار دیتا ہے اور ثابت کرتا ہے۔
(۴)... روایات میں آتا ہے کہ مشہور صحابی حضرت ابو سلمہؓ کا انتقال ہوا، حضرت ام سلمہ کے لئے اپنے رفیق حیات کی جدائی کا یہ صدمہ بہت سخت تھا، وہ فرماتی ہیں کہ میرے دل میں عجیب خیالات آرہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تسلی دی اور فرمایا:
مَاْمِنْ مُسْلِمٍ تُصِیْبُہُ مُصِیْبَۃٌ فَیَقُوْلُ مَا أَمَرَہُ اللہ: إِنَّا لِلّٰہِ وَ إِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ، اَللّٰہُمَّ أجُرْنِیْ فِیْ مُصِیْبَتِیْ، وَأَخْلِفْ لِیْ خَیْرًا مِنْہَا، إِلاَّ أَخْلَفَ اللّٰہُ خَیْرًا مِنْہَا۔ (مشکوۃ: الجنائز)
جس مسلمان کو کوئی مصیبت پیش آئے، اور وہ اللہ کے حکم کے مطابق انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھ لے اور یہ دعا مانگ لے: خدایا: اس مصیبت میں مجھے اجر عطا فرما، اور مجھے اس کا بہتر بدل عطا فرما، تو اللہ اسے ضرور بہتر بدل عطا فرماتا ہے۔
حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ جب یہ مصیبت میرے اوپر آئی اور میں نے یہ دعا پڑھی تو خیال آیا کہ میرے لئے ابو سلمہ سے بہتر کون ہوسکتا ہے؟ مگر مختصر عرصہ کے بعد جب ان کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام آیا اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حبالۂ عقد میں آئیں تو انہیں اندازہ ہوا کہ اللہ نے ان کے لئے اس حادثے کے ذریعہ کیسی بڑی نعمت مقدر کردی تھی، اور انہیں اپنے محبوب پیغمبر علیہ السلام کی ازواج میں شمولیت کا شرف عطا کردیا تھا۔
ہر صاحب ایمان بندے اور بندی کے لئے اس واقعہ میں یہ عظیم سبق اور پیغام موجود ہے کہ انہیں اپنی سعادت اور خیر کو کسی ایک گوشے یا مرحلہ کے ساتھ منحصر و محدود نہیں سمجھنا چاہئے، آزمائش، غم اور مصائب کے حالات عارضی ہوتے ہیںاور ان سے سابقہ ہر ایک کو پڑتا ہے، انسان اپنے رب پر مکمل تکیہ رکھے اور اپنی سمتِ سفر درست رکھے تو بالآخر گوہر خیر سے اس کا دامن بھر دیا جاتا ہے۔
عملی زندگی میں کتنے ہی لوگوں کو ایسے تجربات و مشاہدات ہوتے ہیں کہ کسی چیز کے چھوٹ جانے یا نہ مل پانے کو بہت بڑی محرومی سمجھا جارہا ہوتا ہے، اس پر اظہار افسوس ہورہا ہوتا ہے، مگر کچھ ہی وقفے سے جب اس کے نقصانات سامنے آتے ہیں اور اس چیز کے نہ ملنے کے فوائد سامنے آتے ہیں تو صورت حال بدل جاتی ہے۔
ایک آدمی طویل سفر پر جارہا ہے، نظام طے ہے، فلائٹ متعین ہے، وہ وقت پر ایئر پورٹ پہونچ گیا ہے، اچانک اسے انتظار گاہ میں نیند آجاتی ہے، اس کی پرواز روانہ ہوجاتی ہے ، وہ ہڑبڑا کر اٹھتا ہے تو اسے لگتا ہے کہ وہ بہت بڑانقصان کربیٹھا، اس کی منزل کھوٹی ہوگئی، ابھی وہ اس غم میں ہوتا ہے کہ اچانک خبر آتی ہے کہ وہ جہاز حادثہ کا شکار ہوگیا اور تمام مسافر لقمۂ اجل بن گئے، اب یہ شخص ہزار بار اللہ کا شکر ادا کرتا ہے، اپنی سلامتی پر اس کی مسرت کا عالم ہی کچھ اور ہوتا ہے اور پھر اسے سمجھ میں آتا ہے کہ پرواز کے چھوٹ جانے اور نیند کے آجانے سے اسے اپنا جو نقصان نظر آرہا تھا، وہ حقیقت میں نقصان نہیں تھا، اس کے لئے اللہ کی خصوصی رحمت تھی اور انجام کے لحاظ سے اس کے لئے سراسر خیر تھی۔
معروف عرب عالم و ادیب ڈاکٹر عائض قرنی نے اپنی مقبول و معروف کتاب’’ لاتحزن‘‘ میںاس قرآنی اصول کو پیش نظر رکھتے ہوئے لکھا ہے:
عقل مند اور ذہین انسان نقصان کو نفع سے تبدیل کردیتا ہے، جب کہ غبی اور بے شعور انسان ایک مصیبت کو دو آفتوں میںبدل دیتا ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ سے ہجرت کرنی پڑی تو آپ نے مدینۃ المنورہ میں ایسی مثالی ریاست قائم فرمادی جس کی نظیر پوری تاریخ میںنایاب ہے، امام احمد بن حنبل کواسیر ِ زنداں کیا گیا، انتہائی اذیت ناک کوڑے کی سزا سے ان کی تواضع کی گئی مگر دنیا نے انہیں اہل سنت کا امام تسلیم کیا، امام ابن تیمیہ محبوس ہوئے، پھر جب رہا ہوئے تو پوری دنیا میں ان کے علم و فضل کا طوطی بول رہاتھا، امام سرخسی کو کنویں نما گڈھے میں قید کیا گیا تو وہیں سے انہوں نے بیس سے زائد ضخیم جلدوں پر مشتمل معرکۃ الآراء فقہی انسا ئیکلو پیڈیا تیار کرڈالا، امام ابن الاثیر کو گھر میں نظر بند کیا گیا تو انہوں نے جامع ا لاصول اورالنہایہ جیسی معروف کتب حدیث مرتب کردیں، امام ابن الجوزی کو بغداد سے جلا وطن کیا گیا، تو انہوں نے قراء ات سبعہ کی تجوید تیار کردی، مالک بن الریب کو بخار ہوا جو بالآخر مرض الموت ثابت ہوا تو انہوں نے وہ اعلیٰ اور معروف قصیدہ لکھا جو عباسی شعراء کے پورے پورے دیوانوں کی ہمسری کرتا ہے، ابوذویب الہذلی کے فرزند وںکی وفات ہوئی تو انہوں نے ایسا شاہکارمرثیہ کہا کہ زمانہ ششدر رہ گیا، اور وہ تاریخ کا ایک ریکارڈ بن گیا۔
اس سے سبق ملتا ہے کہ کوئی آفت آئے تو اس کے روشن پہلو پر نگار رکھا کیجئے، کوئی آپ کو لیموں کا پیالہ دے تو آپ اس کی کڑواہٹ پر نظر ڈالنے کے بجائے تھوڑی سے شکر ملاکر اسے لذیذ مشروب بنا لیجئے، کوئی آپ کو مردہ سانپ دے تواس کی قیمتی کھال لے کر بقیہ کو پھینک دیجئے، کیسے ہی سخت حالات ہوں، ان کامقابلہ اس طرح کیجئے کہ آپ کے دامن رنگ رنگ کے پھولوں سے بھر جائیں،قرآن کہتا ہے: بہت ممکن ہے کہ کوئی چیز تمہیں ناپسند ہو مگر وہ تمہارے لئے خیر ہو۔
(لاتحزن:۳۱ـ-۳۲)
مقام افسوس یہ ہے کہ انسان بالعموم اپنی زندگی میں اس قرآنی اصول کو پورے طور پرنظر انداز کردیتا ہے، مصائب کے حالات جب بھی پیش آتے ہیں، انسان صبر واستقامت کے بجائے جزع فزع، ناامیدی و مایوسی اور بددلی کا شکار ہوجاتا ہے، حالات سے سبق لینے اور از سر نو جہد مسلسل کی طرف اس کی توجہ بالکل نہیں ہوتی۔
جبکہ نارمل حالات میں بھی اور بطور خاص حالات کی سختیوں میں ہر صاحب ایمان کو ثبات و صبر کی تدبیر پر پورے طور قائم رہنا چاہئے، ایک صاحب قلم نے درست لکھا ہے:
’’ آدمی آزاد اور بے قید زندگی کو پسند کرتا ہے، حالانکہ اس کی بھلائی اس میں ہے کہ وہ اپنے آپ کو اللہ کی رسی میںباندھ کر رکھے، آدمی اپنی تعریف کرنے والے کو دوست بناتا ہے، حالانکہ اس کے لئے زیادہ بہتر یہ ہے کہ وہ اس شخص کو اپنا دوست بنائے جو اس کی غلطیوں کو اسے بتاتا ہے، آدمی ایک حق کو ماننے سے انکار کرتا ہے اور خوش ہوتا ہے کہ اس طرح اس نے لوگوں کی نظر میں اپنے وقار کوبچالیا، حالانکہ اس کے لئے زیادہ بہتر یہ تھا کہ وہ اپنی عزت کو خطرے میں ڈال کر کھلے دل سے حق کا اعتراف کرلے، آدمی محنت اور قربانی والے دین سے بے رغبت رہتا ہے، اور اس دین کولے لیتا ہے جس میں معمولی باتوں پر جنت کی خوشخبری مل رہی ہے، حالانکہ اس کے لئے زیادہ بہتر تھا کہ وہ محنت اور قربانی والے دین کو اختیار کرتا، آدمی زندگی کے مسائل کو اہمیت دیتا ہے، حالانکہ زیادہ بڑی عقل مندی یہ ہے کہ آدمی موت کے مسائل کو اہمیت دے۔‘‘
(تذکیر القرآن: مولانا وحید الدین خاں:۹۰)
ایک صاحب ایمان کے لئے قرآن و سنت کی ہدایت یہی ہے کہ وہ خیر کے حصول کے لئے اپنی تمام طاقت صرف کرے اور بقول شاعر ؎
عَلَیْ المَرْء أن یَسْعَیٰ اِلَیْ الخَیْرِ جُہْدَہُ
وَلَیْسَ عَلَیْہِ أَنْ تَتِمَّ الْمَقَاصِدُ
آدمی کی ذمہ داری ہے کہ خیر کے لئے پوری کوشش خرچ کرے، نتائج اس کے ذمے نہیں، اللہ کے ذمے ہیں۔
حتی المقدور ممکنہ اسباب کی فراہمی کے بعد اللہ پر انجام چھوڑ دے، اگر خلافِ توقع حالات سامنے آئیں تو مذکورہ قرآنی اصول کو ملحوظ رکھتے ہوئے، استقامت و صبر کا ثبوت دے اور یہ یقین تازہ کرلے کہ مصائب و آلام ظاہری لحاظ سے کتنے ہی شاق کیوں نہ ہوں، بالآخر انسان کو انجام کے لحاظ سے خیر اور قرب الٰہی کی منزل تک پہونچاتے ہیں، ضرورت پختہ ایمان، استقامت اور صبر کی ہوتی ہے۔
یہ اللہ کا بے انتہا عظیم احسان ہے کہ اس نے اپنے بندوں کی سعادت و کامرانی کا تمام تر معاملہ اپنی ذات عالی ہی سے وابستہ رکھا ہے، انسان سے اگر دنیاکے تمام ظاہری سہارے چھن بھی جائیں مگر وہ اللہ پرایمان و توکل کا سہارا رکھتا ہو تو سراسر نفع میں ہے، اور اگر تمام ظاہری سہارے فراہم ہوں مگر ایمان و توکل کا سرمایہ نہ ہو تو انسان سراسر محروم ہے ؎
مِنْ کُلِّ شَيءٍ اِذَا ضَیَّعْتَہُ عِوَضُ
وَمَا مِنَ اللّٰہِ إِنْ ضَیَّعْتَہُ عِوَضُ
تم ہر سہارا کھو دو، بدل مل جائے گا، مگر اللہ کے سہارے کا دامن چھوٹ جائے تو بدل کوئی نہیں۔