امتحان کے دن اور طالب علم
ویسے تو ہر دن طالب علم کی زندگی میں اہمیت کا حامل ہے. لیکن امتحانات کے دن اس کی زندگی میں خاص مقام رکھتے ہیں. جو طلباء پر بہت ہی بھاری گزرتے ہیں. طلباء کا جینا دوبھر ہو جاتا ہے. بات بات میں تلخی، پراگندہ خیالی، مزاج جیسا اجڑا ہوا چمن، طبعیت میں فتور، اکھڑی اکھڑی سانسیں اور زبان میں کڑواہٹ پائی جاتی ہے. ان کا مضطرب ہونا ان کے چہرے پر عیاں ہوتا ہے. ان کی قلبی بے چینی ان کے حرکات و سکنات سے ظاہر ہو رہی ہوتی ہے. سر کسی بھاری بوجھ تلے محسوس ہوتا ہے، دل میں خلش سی ہوتی ہے، من اڑنے کو کر رہا ہوتا ہے، وہ ان خوفناک، بھیانک اور مہیب زدہ خواب و افکار کی قید سے چھٹکارے کی سبیل ڈھونڈتا ہے. اس کا دل ہزاروں من بوجھ تلے دھیمی دھیمی سانسیں لے رہا ہوتا ہے جو اس کی زندگی کی گاڑی کو دقت سے آگے بڑھا رہی ہوتی ہیں. اس کے بوجھ کا بھاری پن اس کے قدموں کو میدان کی طرف جانے سے روک رہے ہوتے ہیں. ہر لمحے اٹھتے بیٹھے اس کا ضمیر اسے ملامت کر رہا ہوتا ہے کہ کاش وقت پر محنت کی ہوتی تو آج لفظ کاش کا بھی محتاج نہ ہوتا، ان افکاروں کا شکار نہ ہوتا، غم کا خمار نہ ہوتا، چہرے پر غبار نہ ہوتا، اتنا بے قرار نہ ہوتا، ان راہوں سے فرار نہ ہوتا، یہ غم دل و دماغ پر سوار نہ ہوتا.
اس کے برعکس طالب علم ایام امتحان میں حسن و اخلاق کا پیکر بن جاتا ہے اوروں کے لئے بے مثال اور نمونہ تقلید بن جاتا ہے، اس کے سجدے طویل اور ذکر میں یکسوئ کی کیفیت میں اضافہ ہوجاتا ہے. دل خود بخود اساتذہ کی خدمت کی طرف مائل ہوجاتا ہے کہ شاید کچھ رموز مل جائیں، کامیابی کے کنوز مل جائیں، یا میری اس نیکی کی بدولت امتحان آسان ہوجائے.
دعا ہے کہ اللہ تعالی ہم سب کو دین و دنیا کے امتحانوں میں خیروعافیت کے ساتھ سر خرد فرماۓ. آمین
حسرت سے دیکھتا رہا ماضی کو اس طرح...
جیسے لوٹ آۓ گے وہ دن جو گزر گۓ
میں کتاب کھولے بیٹا ہوں درس میں
نہ ہو امتحان پر ہزاروں برس میں
یوں ہی چلتی رہے زندگی رواں دواں
نہ ہو پھر کسی کا کوئ بھی امتحان