بتان رنگ وبو کو توڑ کر ملت میں گم ہوجا! ماہنامہ النخیل رمضان 1440
اللہ تعالی نے انسان کو ایک مرد اورایک عورت سے پیدافرماکر دنیا کو آباد کردیا اورانسان کے قبائل اورخاندان بنادیئے اور آپس میں ایک دوسرے سے جڑنے، تعلق قائم رکھنے کیلئے قرابت داریاں ، رشتہ داریاں، نسبی اعتبار سے اوردینی اعتبار سے قائم فرمادیں تاکہ ایک دوسرے کو پہچانے اور معلوم ہوجائے کہ کس خاندان کا ہے، کس قبیلے کا ہے، اورمعاشرت و معیشت کا رہن سہن کا طورطریق بتلادیا، دینی اعتبارسے بھی اس کو خود کفیل کردیا اور دنیوی اعتبارسے بھی، روحانی طورپر بھی اس کو بہت کچھ دیا اور مادی اعتبارسے بھی ، زندگی گزارنے کے لیے پورا دستور حیات بھی اس کو دیا، اورا س کا نفاذ بھی کرکے دکھایا ، جن لوگوں نے اس دستور کے مطابق حیات عزیز کے لمحات کو گزارا، ان پر کیسے انعامات ہوئے ، کیسی نوازشیں ہوئیں ، یہ بھی اہل دنیا کے سامنے پیش کردیااور جن لوگوں نے اس قانون سے روگردانی کی، ان پر عتاب ہوا، اور وہ کیسے عذاب الٰہی کی پکڑ میں آئے، اس کے نمونے بھی انسانی دنیا کے سامنے پیش کردیئے، سب کچھ اس انسان کے لیے کرنے کے بعد اس کیلئے ہدایت نامہ یہ جاری ہوا :’’ کُنْ فِیْ الدُّنْیَا کَأَ نَّکَ غَرِیْبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِیْلٍ‘‘کہ ’’اس دنیا میں مسافر کی طرح رہو‘‘ کیونکہ یہ دنیا محض گزرگاہ ہے، جوبھی یہاں آیا اسے ضرور جاناہے ؎
جگہ جی لگانے کی دنیانہیں ہے ٭ یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیںہے
دوسرا ہدایت نامہ یہ بھی ہے:’’وَکُوْنُوْا عِبَادَ اللّٰہِ اِخْوَاناً‘‘ کہ’’ آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو‘‘اور ایک یونیٹی Unity بن جاؤ، ایک وحدت ہوجاؤ۔
مگر آج کل حالات مشاہدہیں کہ یہ سب باتیں ہماری تقریروں ، تحریروں ، بحث ومباحثے اورعام بول چال میں سما کر رہ گئیں ، عملی زندگی میں ان ہدایات وتعلیمات کا کوئی دخل اور اثر نہیں، خودان ہدایتوں کی تذکیر کرنے والے اپنے کردار سے ان کی مخالفت کرتے ہیں، زبان قال سے نہ سہی بلکہ زبان حال ان کی ترجمانی کرتی نظر آتی ہے ، اس وقت دنیا کی جو صورت حال ہے، اس میں نہ صحافت کا اتناقصور ہے اورنہ ہی غیروں کی ریشہ دوانیوں کا اتنا بڑاکردار ہے ، آج کمی ہے اپنے اندرایثار کی، حقیقت پسندی کی، دوسرے کے تئیں عدم اعتراف وتقدیر کی اور امت کے طبقہ ٔ خاص کی آپسی چپقلش کی اورایک دوسرے کے تئیں مخلص نہ ہونے کی بلکہ ایک دوسرے کے درپئے آزار ہونے کی، ایک دوسرے سے بغض وحسد کی ، کینہ کپٹ کی اوراپنی الگ الگ ٹولیوں کی، اسی وجہ سے نہ ملت کی فکر ، نہ امت کادرد ، نہ وحدت کی سوچ ، نہ اتحاد کا جذبہ ، نہ دینی اعتبار سے نہ دنیوی اعتبارسے ،اگر فکر ہے توبس اپنی ٹولی کی ، اپنی پارٹی کی، اپنے گروہ او راپنی جماعت کی، اپنی انجمن اور اپنے ادارے کی، اپنا چراغ جلانے کی ، دوسرے کا چراغ بجھانے کی،اپنا گھر آباد کرنے کی، دوسرے کا گھر اجاڑنے کی، باقی بھاڑ میں جائے پوری ملت ، پوری قوم ، ہماری کرسی محفوظ، سب محفوظ، ہماری کرسی خطرے میں ، سب خطرے میں،ہم عیش وراحت میں، توسب عیش وراحت میں، ہم بیمار تو سب بیمار، ہم صحیح، تو سب صحیح، ساری فکر اورساری تڑپ اپنے ،اپنی ،ہم اورہماری تک محدود ہو کر رہ گئی۔
حالانکہ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اَلْمُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِ کَالْبُنْیَانِ، یَشُدُّ بَعْضُہٗ بَعْضاً‘‘کہ’’ ایک مومن دوسرے مومن کے لیے ایک عمارت کی طرح ہے ‘‘ اورانسان کے اعضاء کی طرح ہے، اگر جسم کے کسی ایک عضو کو کوئی تکلیف ہو تو جسم کے دوسرے اعضاء اس کی تکلیف محسوس کرتے ہیں ’’مَثَلُ الْمُؤْمِنِیْنِ فِی تَوَادِّہِمْ وَتَرَاحُمِہِمْ وَتَعَاطُفِہِمْ کَمَثَلِ الْجَسَدِ الْوَاحِدِ، إذَاشْتَکیٰ مِنْہُ عُضْوٌ، تَدَاعَی لَہُ سَائِرُالْجَسَدِ بِالسَّہَرِ والْحُمّٰی‘‘مسلمانوں کی مثال آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرنے میں،ایک دوسرے پر رحم کرنے میں ایک دوسرے کے ساتھ لطف وکرم کرنے میںایک جسم کے مانند ہے کہ اگر جسم کے کسی عضو کو کوئی تکلیف ہوتی ہے تو ساراجسم بخار اور بے خوابی کی کیفیت محسوس کرتاہے،اگر اس وقت پوری دنیا کے مسلمان اس حدیث کو عملی طور پراپنالیں اور صرف تقریر وتحریر کی حدتک اس پر اکتفا نہ کریں بلکہ عملاً زندگی کا اس کوجزبنالیں تو دنیا کا نقشہ ہی کچھ اور ہو، دنیا کی ساری حکومتیں، ساری طاقتیں مسلمانوں کی غلام ہوں،اور راقم یہ سمجھتاہے کہ جس حدیث میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:’’لاَیُؤمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی یُحِبَّ لأِخِیْہِ مَایُحِبُّ لِنَفْسِہٖ‘‘ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند کرو، جو اپنے لیے پسند کرتے ہو، خاص طورسے امت کا طبقہ خاص اس پر عمل کرلے اور طبقہ خاص سے راقم آثم کی مراد اہل علم حضرات ہیں اوروہ صدفیصد قولاً، فعلاً اورعملاً پکے مومن بن جائیں تودنیا مسلمانوں کے قدم چومیں گی اوریہ میں نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ قرآن کہہ رہاہے : ’’وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُوْمِنِیْنَ‘‘کہ تم ہی سربلند ہوگے اگر تم پکے سچے مسلمان ہو اوریہا ںاس کی نفی نہیں ہے کہ یہ امت بانجھ ہوگئی اوراب کوئی صد فیصد مسلمان نہیں بلکہ دنیا میں ایسے عظیم لوگ موجودہیں ،جن کے وجودپاک سے ابھی دنیا کانظام برقرار ہے ، یہ شکایت عام مسلمانوں اور عام اہل علم حضرات کی ہے اور قرآن حکیم کا یہ اعلان بھی اس وقت ہے، جب سوفیصد مسلمان اسلام میں سوفیصد داخل ہو جائیں ۔
آج مسلمانوں میں اتحاد نہیں ، علماء دین میں اتفاق نہیں، مکاتب فکر الگ الگ ، یہ فلاں ، وہ فلاں، یہ ہمارا مدرسہ ، وہ ان کا مدرسہ ، یہ ان کی مسجد، وہ ہماری مسجد ، ہم فلاں جماعت سے تعلق رکھتے ہیں ، یہ فلاں جماعت سے ، یہ ہمارے شیخ اورہمارے بزرگ ہیں اور وہ تمہارے شیخ اورتمہارے بزرگ ہیں، ہماری برادری یہ ہے ، تمہاری برادری وہ ہے، ہم اونچے ہیں ،تم نیچے ہو ، ہم یہ ہیں تم وہ ہو ’’ لاحول ولاقوۃ الاباللہ العظیم‘‘۔
مسلمانو! اگر دنیا میں اپنے وجود کو باقی رکھنا چاہتے ہوتو اب وقت اتنی ٹولیوں میں تقسیم ہونے کا نہیں رہا ، اب خدا کے واسطے ایک ہوجاؤ، ایک دوسرے کے حقیقی غمگسار ہوجاؤ، ایک دوسرے کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد سمجھو، ایک دوسرے کی ڈوبتی کشتی کو سہار ادو، دین کے سارے مدارس، ساری مساجد، ساری خانقاہیں اورسارے مکاتب فکر کو ایک ہی سمجھو اوراپنا ہی سمجھو، ایک دوسرے کاہاتھ بٹاؤ اور ایک ملت میں گم ہوکر امت کے بکھرے ہوئے شیرازے کویکجاکرلو،جوباہم دست وگریباں ہیں ان میں الفت ومحبت کے بیج بودو ، سب سے بڑی بات تویہ ہے کہ مسلکی اختلافات کو ہوامت دو!اس وقت ملت جس دور اہے پر کھڑی ہے، شدید ضرورت ہے اس کے درد کو سمجھنے کی ، امت کی ضرورت کوسمجھنے کی، اوریہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ کے یہاں اجارہ داری نہیں، اللہ ہمارا محتاج نہیں، وہ جب کام لیتاہے تو ابابیل سے لیتاہے، اس نے صاف فرمادیا: ’’وَاِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَیْرَکُمْ ثُمَّ لاَیَکُوْنُوْا أمْثَالُکُمْ‘‘کہ اگر تم نے روگردانی کی(تم نے نہیں مانا) تووہ تمہاری جگہ دوسری قوم کو کھڑا کردے گا پھر وہ تمہاری طرح نہیں ہوگی‘‘ اور یہ بھی سن لو کہ دشمن تمہاری گھات میں ہے، تمہیں صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے ہے اورتمہاری اینٹ سے اینٹ بجوانے کے چکر میں ہے، بس تم ایک ہوجاؤ اورگروہی بتوں کو توڑدو،اللہ کی رسی کو مظبوطی سے پکڑلو، اللہ ہی ہم سب کامحافظ اور نگہبان ہے:
ایک ہوجائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں
ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیابات بنے
٭…٭…٭