عشقِ رسول ﷺ اور شریعت رسول ﷺ میں امتزاج

عشقِ رسول فی نفسہ ممدوح، مستحسن اور کارِ ثواب ہے، مگر اس کا اظہار قبائح اورمحرمات سے کرنا ناجائز، حرام اور بدعت ہے۔

محمد صلی الله علیہ وسلم کی محبت دین ِ حق کی شرطِ اول ہے

        اسی میں ہو خامی اگر تو سب کچھ نامکمل ہے

 

حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم سے عشق ومحبت دینِ حق کی شرط اول ہے ، ہر مسلمان کے قلب میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی محبت ہمہ تن موج زن ہوتی ہے، کسی بھی لمحہ وآن میں مسلمان کاد ل حضور صلی الله علیہ وسلم کی اُلفت ومحبت سے خالی نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان ہر وقت ہر گھڑی آپ صلی الله علیہ وسلم کی ناموس پرتن، من، دھن نچھاور کرنے کے لیے تیار رہتا ہے، مسلمانوں کی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی خون دینے کا موقع آیا مسلمانوں نے بے دریغ اپنی جانیں قربان کر دیں اگر آپ تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں گے تو تاریخ کا ہرصفحہ ہر ورق عاشقانِ رسول صلی الله علیہ وسلم کے خون سے رنگین نظر آئے گا، مسلمانوں کی اس اُلفت اور عشق کی مثال او رنظیر پیش کرنے سے تا قیامت دنیا قاصر رہے گی۔

اسلام میں حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم سے عشق ومحبت فرض کا درجہ رکھتی ہے، جو دل حضور صلی الله علیہ وسلم کی محبت سے خالی ہو وہ مسلمان ہو نہیں ہوسکتا۔ وہ شخص نماز پڑھے، روزہ رکھے، زکوٰة ادا کرے، حج کرے اور ہر نیک عمل خلوصِ دل سے کرے، اس کی نماز، روزہ، حج اور زکوٰة سب جھاگ کی طرح ہے، اس میں کچھ فائدہ نہیں ہوتا، وہ دل اسی گھر کی ماند ہوتا ہے جو ہر آسائش سے مزین تو ہو مگر تاریکی کی وجہ سے اس میں وحشت ہی وحشت ہو ۔

آقائے نام دار صلی الله علیہ وسلم سے عشق ومحبت مسلمانوں میں اس طرح راسخ ومضبوط ہوتا ہے کہ اگر کسی بھی وقت اس کو ابھارا جائے وہ جذبات میں آجاتا ہے، اس کی رگوں میں خون دوڑنے لگتا ہے ، اس کا دل تڑپنے لگتا ہے، اس کا سینہ جلنے لگتا ہے اور غیر شعوری طور پر کچھ بھی کر جانے کے لیے تیار ہو جاتا ہے، اس کو پروا نہیں ہوتی کہ جان جارہی ہے یا مال۔ اس شخص کے مرض کی دوا، اس کے دل کا سکون، اس کے سینے کی ٹھنڈک اس میں ہوتی ہے کہ وہ وقت کے اس تقاضے کو پورا کرکے… اپنے محبوب ومعشوق صلی الله علیہ وسلم کی شان بلند وبالا کر دے۔

مسلمانوں کا یہ عشق ومحبت قابل قدر وقابل فخر ہے، مگر عشق کے اس اصول میں کبھی دو رائے نہیں رہی کہ محب وعاشق وہی کچھ کرتا ہے جو محبوب ومعشوق کو پسند ہو ،جس سے وہ خوش ہو اور جس سے وہ اس کو اپنے قریب کرتا ہو۔ اسی لیے حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”علیکم بسنتی وسنة الخلفاء الرشدین“اور”ماأنا علیہ وأصحابی“ یعنی تم پر میری اور خلفائے راشدین کی سنت وطریقہ پر عمل کرنا ضروری ہے اور کام یابی اسی میں ہے جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں۔ لہٰذا تمام عاشقان مصطفی کو چاہیے کہ وہ صحابہ ، تابعین اور تبع تابعین کے عشق کو پیمانہ عشق بنائیں، کیوں کہ اس جذبہٴ عشق کی وجہ سے مسلمانوں کی صفوں میں دشمنانِ اسلام گھس کر ان کو ایسے کاموں پر لگا دیتے ہیں جو بظاہر تو حضور صلی الله علیہ وسلم کے عشق پر دلالت کر رہے ہوتے ہیں، مگر درپردہ اور حقیقت میں وہی کام آپ صلی الله علیہ وسلم کی ناراضگی کا ذریعہ ہوتے ہیں۔

12/ربیع الاول کو عام مسلمان میلاد النبی منا کر عشق ومحبت کا اظہار کرتے ہیں مسلمانوں کو معلوم کرنا چاہیے کہ یہ کام کہیں دشمنوں کی سازش تو نہیں؟ جو کام ہم کر رہے ہیں وہ صحیح بھی ہے یانہیں؟ کیا واقعی حضور صلی الله علیہ وسلم کی ولادت باسعادت12 ربیع الاول کو ہوئی تھی؟ اس کام کو کس نے اور کب شروع کیا ہے ؟ کیا شریعت میں یہ کام صحیح ہے؟ کیا صحابہ، تابعین اور تبع تابعین نے یہ کام کیا ہے ؟ اس لیے کہ عشقِ رسول اور شریعت رسول میں امتزاج ضروری ہے۔

حضور صلی الله علیہ وسلم کی ولادت با سعادت کی مستند تاریخ

کسی کی بھی تاریخ ولادت میں تین چیزیں قابل ذکر ہوتی ہیں: دن مہینہ اور تاریخ۔ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کی تاریخ میں دن اور مہینہ پر تمام مؤرخین کا اتفاق ہے کہ دوشنبہ (پیر) اور ربیع الاول ہے۔ بعض روایات میں، رمضان ، صفر، رجب اور ربیع الثانی کا ذکر بھی آیا ہے، جو سب مرجوح ہیں۔ جمہور کا قول یہی ہے کہ آپ کی ولادت باسعادت ربیع الاول میں ہوئی ہے، مگر ربیع الاول کی تاریخ میں ایک معرکة الآرا اختلاف ہے۔

حضرت عبدالله بن عباس او رجبیر بن مطعم رضی الله عنہم کا قول آٹھ ربیع الاول کا ہے ۔ اسی کو ابن حزم ،امام مالک، عقیل، یونس بن یزید اور قطب الدین قسطلانی نے روایت کیا ہے ، حافظ ابن کثیر نے ” البدایة والنہایة“ میں اور مولانا ادریس کاندھلوی نے سیرة المصطفی میں لکھا ہے کہ جمہور محدثین، مؤرخین نے اسی قول کو راجح، ممتاز اورصحیح قرار دیا ہے، سب سے بڑھ کر یہ کہ میلاد النبی منانے والے جس شخصیت کو اپنا پیشوا مناتے ہیں ان کی تحقیق یہی ہے کہ راجح قول یہی ہے، چناں چہ فتاویٰ رضویہ کے صفحہ427،428 اور جلد نمبر26 پر مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی لکھتے ہیں:” مشہور عند الجمہور 12ربیع الاول ہے اور علم ہیئات وزائچات کے حساب سے روز ولادت شریف 8ربیع الاول ہے۔ کماحقناہ فی فتاوانا ۔“ (فتاوی رضویہ:26/428-427)

علامہ ابن عبدالبر نے ”الاستیعاب فی معرفة الأصحاب“ میں اور واقدی نے ابومعشر نجیح بن عبدالرحمن مدنی سے روایت کیا ہے کہ آپ کی ولادت دو ربیع الاول کو ہوئی، جب کہ علامہ شبلی نعمانی نے ”سیرة النبی“ میں اور علامہ زاہد بن الحسن الکوثری نے ” المولود الشریف النبوی“ میں نو کے قول کو ترجیح دیتے ہوئے کہا ہے کہ مصر کے مشہور ریاضی دان محمود پاشا الفلکی نے ریاضی کے دلائل سے ثابت کیا ہے کہ نو ربیع الاول کا قول ہی صحیح ہے۔ ابن دحیہ، ابن عساکر او رمشہور مؤرخ فخر الدین ابی الحسن الشیبانی نے ایک قول دس ربیع الاول کا بھی ذکر کیا ہے۔

امام ابوبکر بن ابی شیبہ نے ”مصنف“ میں، علامہ ابن کثیر نے ”البدایہ والنہایہ“ میں اور علامہ ابن ہشام نے ” السیرة النبویہ“ میں ابن اسحاق کی روایت سے بارہ ربیع لااول کا قول نقل کیا ہے۔ اسی کو ابن اثیر نے بھی نقل کیا ہے او رمتاخرین میں سے صرف مفتی اعظم پاکستان مولانا مفتی محمد شفیع رح نے اس کو اختیار کیا ہے، مگر مفتی اعظم ہند مفتی کفایت الله دہلوی، کفایت المفتی میں فرماتے ہیں: مؤرخین او راہل سیر میں سے کسی نے دوسری، کسی نے تیسری، کسی نے آٹھویں، کسی نے نویں اور کسی نے بارہ ربیع الاول کی تاریخ بتائی ہے ا ز روئے حساب جو جانچا گیا تو9 تاریخ والا قول زیادہ قوی ثابت ہوا۔ (کفایت المفتی:147/1) بارہ تاریخ کی ہی روایت ہے جس کو سب نے نقل کیا اورمشہور ہوئی ،جب کہ نویں تاریخ کے قول کو اکثر نے روایت کیا ہے اور وہ آٹھویں اور دسویں تاریخ کے قرب کی وجہ سے بھی اس کو تقویت ملتی ہے، جب کہ جمہور مؤرخین ومحدثین کا اسی پر اتفاق ہے کہ آپ کی وفات بارہ ربیع الاول کو ہوئی۔

میلاد النبی کب اور کس نے شروع کیا؟

میلاد النبی کا اسلام میں کہیں بھی ثبوت نہیں ملتا، بلکہ یہ مروجہ میلاد ساتویں صدی ہجری میں شروع ہوا، پوری چھ صدی تک اس بدعت کا مسلمانوں میں کہیں رواج نہ تھا۔ کسی صحابی، تابعی او رتبع تابعی نے اس کو نہیں منایا، نہ ہی کسی مفسر، محدث ،فقیہ اور محقق نے منایا، بلکہ سب سے پہلے میلاد منانے والا شخص موصل کے علاقے اربل کا ظالم وستم شعار اور فضول خرچ بادشاہ ملک مظفر الدین ہے۔640ھ میں سب سے پہلے اس کے حکم سے محفل میلاد منائی گئی۔( دول الاسلام، ج2،ص:104)

امام احمد بن محمد مصری اپنی کتاب”القول المعتمد“ میں لکھتے ہیں: ”اس ظالم ومسرف بادشاہ (ملک مظفر الدین) نے اپنے زمانے کے علماء کو حکم دیا کہ وہ اپنے اجتہاد پر عمل کریں اور اس میں کسی غیر کی اتباع نہ کریں تو اس وقت کے وہ علماء، جو اپنے دنیوی اغراض ومقاصد کی سر توڑ کوشش کر رہے تھے، اس کی طرف مائل ہوئے، جب انہیں موقع ملا تو ربیع الاول میں عید میلاد النبی منانا شروع کر دی، مسلمانوں میں سب سے پہلے عید میلاد النبی منانے والا شخص ملک مظفر الدین ہے ،جو موصل کے علاقے اربل کا بادشاہ تھا۔“

علامہ انو رشاہ کشمیری فرماتے ہیں :” یہ شخص ہر سال میلاد پر لاکھوں روپے خرچ کرتا تھا، اس طرح اس نے رعایا کے دلوں کو اپنے طرف مائل کرنا شروع کر دیا او راس کے لیے ملک وقوم کی رقم کو محفلِ میلاد پر خرچ کرنا شروع کر دیااور ملک وقوم کی رقم بے سود خرچ کرتا رہا ۔ ( فیض الباری، ج2، ص:319)

سب سے پہلے جس شخص نے میلاد النبی کے جواز پر دلائل اکٹھے کیے اور بادشاہ ( ملک مظفر الدین) کو اس محفل کے انعقاد کے جواز کا راستہ بتایا اس کا نام ابو الخطاب عمر وبن دحیہ تھا۔ صاحب انوار ساطعہ لکھتے ہیں:” اس نے سلطان ابو سعید مظفر کے لیے میلاد النبی پر ایک کتاب ” التنویر فی مولد السراج المنیر“ تصنیف کی اور خاص خود سلطان کے سامنے اسے پڑھا، سلطان نے انعام میں ایک ہزار اشرفیاں دیں۔ ( انوار ساطعہ، ص:166) اس شخص کے بارے میں علامہ ذہبی فرماتے ہیں : ” یہ جھوٹی احادیث گھڑتا تھا، لایعنی کاموں میں مشغول رہتا تھا اور اپنا ایسا نسب بیان کرتا تھا جس کا دور سے بھی اس کے ساتھ تعلق نہیں تھا۔“ علامہ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں :” یہ شخص ائمہ کی شان میں گستاخی کیا کرتا تھا، زبان دراز، بے وقوف او رمتکبر تھا اوردینی امور میں سست اور بے پروا تھا۔“ (لسان المیزان:169-163/5)

میلاد النبی کا شرعی حکم

جس عمل اور کام کو نہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے کیا، نہ صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین نے کیا، نہ تابعین اور تبع تابعین نے کیا وہ کیسے شرعی ہو سکتا ہے؟ اس کے دین سے متعلق ہونے کا تو عقل سلیم بھی انکار کرتی ہے، علامہ عبدالرحمن مغربی فرماتے ہیں:” میلا دالنبی منانا بدعت ہے، اس لیے کہ اس کو حضور صلی الله علیہ وسلم نے کیا ہے نہ اس کے کرنے کا کہا ہے۔ خلفائے کرام نے میلاد منائی اور نہ ائمہ نے ۔ (الشریعة الالھیة بحوالہ: حقیقت المیلاد، ص:41) علامہ سخاوی لکھتے ہیں کہ : ”قرونِ ثلاثہ میں سے کسی بھی سلف صالح سے یہ عمل منقول نہیں ہے، بلکہ یہ بعد والوں کا ایجاد کردہ ہے ۔“ (سبل الھدیٰ والرشاد:364/1 بحوالہ تخفة المناظر) علامہ سیوطی رح فرماتے ہیں:”اس میلاد کے بارے میں نص وار نہیں ہوئی ہے ،بلکہ اس میں قیاس آرائی پر عمل کیا جاتا ہے۔“

علامہ ابن تیمیہ حرانی دمشقی ”اقتضاء الصراط المستقیم“ میں لکھتے ہیں: ” نصاری میلاد عیسی مناتے تھے، جب مسلمانوں کی اس طرف نظر ہوئی تو دیکھا دیکھی مسلمانوں نے یہ رسم اختیار کر لی، حالاں کہ سلف صالحین سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے ،اگر یہ جائز ہوتی اور اس کے منانے میں خیر ہوتی تو پہلے اور اچھا کام کرنے والے زیادہ حریص تھے اور مناتے، لیکن سلف صالحین کا میلاد نہ منانا اس کی بین دلیل ہے کہ میلاد مروجہ طریقہ پر منانا درست نہیں ہے ۔ اس میں لوگوں کا یہ اعتقاد ہوتا ہے کہ یہ بڑی عبادت ہے، حالاں کہ یہ بدعت ہے، اس میں محرمات کا ارتکاب ہوتا ہے ۔اگر بالفرض میلاد منائی جائے او راس میں محرمات کا ارتکاب نہ ہو اور وہ تمام مفاسد نہ ہوں جو اس کے منانے میں ہوتے ہیں تو تب بھی میلاد منانا بدعت ہے ،کیوں کہ یہ دین میں زیادتی ہے اور اسلاف کا عمل نہیں ہے۔ اگر یہ کارخیر ثواب ہوتا تو سب سے پہلے سلف صالحین مناتے ،لیکن ان کا میلاد نہ منانا اس بات کی دلیل یہ ہے کہ یہ صحیح نہیں ہے ۔“ (مدخل، ج:1، ص:361)

مولانا رشید احمد گنگوہی رح فرماتے ہیں :” یہ محفل چوں کہ زمانہ فخر دو عالم صلی الله علیہ وسلم اور زمانہ صحابہ کرام رضی اللہ علیہم اور تابعین وتبع تابعین اور زمانہ مجتہدین میں نہیں ہوئی، اس محفل کا موجد چھ سو سال بعد کا بادشاہ ہے ،جس کو اکثر اہل تاریخ فاسق لکھتے ہیں، لہٰذا یہ مجلس بدعت اور گم راہی ہے اور عدم جواز کے واسطے یہ دلیل کافی ہے کہ خیر القرون میں کسی نے اس کو نہیں کیا۔“ ( فتاوی رشدیہ، ص:49)

حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رح فرماتے ہیں: ”ذکر ولادتِ نبوی شریف مثل دیگر اذکار خیر کے ثواب اور افضل ہے، اگر بدعات وقبائح سے خالی ہو اس سے بہتر کیا ہے! کما قال الشاعر #

        للمشتاق خیر شراب

        وکل شراب دونہ کسراب

البتہ جیسا ہمارے زمانہ میں قیودات وشنائع کے ساتھ مروج ہے، اس طرح بے شک بدعت ہے ۔“ ( امداد الفتاوی ٰ، ج:5،ص:99)

مولانا ادریس میرٹھی رح فرماتے ہیں :” مروجہ میلاد حرام اس لیے ہے کہ یہ میلاد معاصی ظاہرہ وباطنہ پر مشتمل ہوتا ہے اور اس میں محرمات کا ارتکاب ہوتا ہے ، موضوع روایات پڑھی جاتی ہیں، جن کی کوئی اصل نہیں ہے اور سب سے بڑھ کر غلطی یہ کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کو حاضر ناظر مانا جاتا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم اس مجلس میں تشریف لاتے ہیں ان تمام امور کی وجہ سے اس محفل کا انعقاد حرام ہے۔“

مفتی عزیز الرحمن رح فرماتے ہیں:” مروجہ میلاد او راس میں مروجہ قیام محدثہ ممنوعہ ہیں، جوناجائز اور بدعت ہیں۔“ (عزیز الفتاویٰ:99)

عقلِ سلیم کا فیصلہ

اوپر جو باتیں گزریں یہ سب شرعی اور نقلی نقطہٴ نظر سے تھیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان دلائل سے قطع نظر ایک عقل سلیم رکھنے والا شخص بھی یہ تسلیم نہیں کر سکتا کہ شریعت کی بہت سی حدود پامال کرکے ایک کارخیر اور ایک نیک کام سرا نجام دیا جائے، عقل سلیم کبھی بھییہ تسلیم نہیں کرسکتی کہ میلاد کے نام پر عام شاہ راہوں پر چراغاں کرکے سرکاری بجلی کو ناجائز استعمال کیا جائے، ہر طرف جھنڈے لہرا دیے جائیں، قمقے جلا دیے جائیں، شاہ راہ عام کو بلاک کرکے عوام کو پریشان اور الجھن میں مبتلا کیا جائے ۔ مساجد میں ہائی ٹون لاؤڈ اسپیکر کو استعمال کرکے مساجد کا تقدس بھی پامال کیا جائے اور مریضوں اور بوڑھوں کے آرام کو متاثر کیا جائے۔اب تو جلوسوں میں گولہ باری بھی شروع ہو گئی ہے۔

غلام رسول سعیدی لکھتے ہیں : ”بعض شہروں میں عید میلاد النبی صلی الله علیہ وسم کے تقدس کو بالکل پامال کر دیا گیا ہے ، جلوس تنگ راستوں سے گزرتا ہے او رمکانوں کی کھڑکیوں اور بالکونیوں سے لڑکیاں اور عورتیں شرکائے جلوس پر پھول وغیرہ پھینکتی ہیں ، اوباش نوجوان فحش حرکتیں کرتے ہیں، جلوس میں مختلف گاڑیوں میں فلمی گانوں کی ریکارڈنگ ہوتی ہے اور نوجوان لڑکے فلمی گانوں کی دھنوں پر ناچتے ہیں، نماز کے اوقات میں جلوس چلتا رہتا ہے ، مساجد کے آگے سے گزرتا ہے او رنماز کا کوئی اہتمام نہیں کیا جاتا ،اس قسم کے جلوس میلاد النبی کے تقدس پر بد نما داغ ہیں ۔“ ( شرح مسلم، کتاب ، الصیام:170/3 بحوالہ تحفة المناظر)

        حق بات جانتے ہیں مگر مانتے نہیں

        ضد ہے جناب شیخ مآب میں

تمام باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ عشقِ رسول فی نفسہ ممدوح، مستحسن اور کارِ ثواب ہے، مگر اس کا اظہار قبائح اورمحرمات سے کرنا ناجائز، حرام اور بدعت ہے۔ محفل میلاد پر جو دلائل دیے جاتے ہیں اس کے بارے میں علامہ ابن حجر عسقلانی نے فرمادیا ہے کہ یہ سب قیاس آرائیوں پر عمل ہے ،اس پر کوئی نص وارد نہیں ہوئی ہے ۔ اسلام میں عشقِ رسول اور شریعت رسول کی کوئی الگ راہیں نہیں ہیں، بلکہ عشقِ رسول وہی معتبر ہے جو شریعتِ رسول کے مطابق ہو۔ لہٰذا ہمارے لیے عشق رسول اور شریعت رسول میں امتزاج لازمی اور ضروری ہے۔ الله تعالیٰ ہم سب کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

احتشام الحسن ، چکوال

مدّرس:جامعہ اظہار الاسلام(جدید)چکوال
کل مواد : 10
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2025

تبصرے

يجب أن تكون عضوا لدينا لتتمكن من التعليق

إنشاء حساب

يستغرق التسجيل بضع ثوان فقط

سجل حسابا جديدا

تسجيل الدخول

تملك حسابا مسجّلا بالفعل؟

سجل دخولك الآن
ویب سائٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اس سائٹ کے مضامین تجارتی مقاصد کے لئے نقل کرنا یا چھاپنا ممنوع ہے، البتہ غیر تجارتی مقاصد کے لیئے ویب سائٹ کا حوالہ دے کر نشر کرنے کی اجازت ہے.
ویب سائٹ میں شامل مواد کے حقوق Creative Commons license CC-BY-NC کے تحت محفوظ ہیں
شبکۃ المدارس الاسلامیۃ 2010 - 2025